گوپی چند نارنگ کی ’سچائی‘ اور تناظرسرقے کی زد میں

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


عمران شاہدبھنڈر

(برطانیہ)

گوپی چند نارنگ کی ’سچائی‘ اور تناظرسرقے کی زد میں

حصہ نمبر ایک

نوٹ: اس مضمون میں سرقہ شدہ ۳ اقتباس پہلے والے دہرائے گئے ہیں کیونکہ نفسِ مضمون

کے تسلسل میں ان کا حوالہ ضروری تھا

۔سرقہ سلسلہ کے یہ مضامین مکمل ہونے پر کتابی صورت میں شائع کیے جائیں گے)

گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ ’’بعض لوگ خودکو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ آخری سچائی انھیں پر اتری ہے۔

افسوس ہے کہ ادب میں نہ تو کوئی آخری پیغمبر ہوتا ہے اور نہ کوئی آخری سچائی ہوتی ہے‘‘

( اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ، ص ۸۰)

۔یہاں چونکہ ادبی سچائی کا ذکر زیادہ اہم ہے اس لئے ہمیں گوپی چند نارنگ کے اس اقتباس کے دوسرے حصے سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تاہم اس امر کا یقین ہے کہ اقتباس کے پہلے حصے کے بارے میں لکھتے وقت نارنگ صاحب کے ذہن میں ’سچائی‘ کا قدیم معیار ضرور ہوگا جس کی بناء پر انھوں نے ’سچائیوں‘ کے مابین تفریق کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ نارنگ صاحب کے ذہن میں ادب کی سچائی کا تقاضہ کرنے والی سنجیدگی کے برعکس ایک خاص قسم کا تعصب بطورِ قوتِ محرکہ کارفرما ہے۔ بہرحال نارنگ صاحب کے اس اقتباس میں اس طرح کے عوامل پائے جاتے ہیں کہ جن سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ انھوں نے ادبی سچائی کو اپنی

مخصوص آئیڈیالوجی کے مطابق آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر نارنگ صاحب کو ادبی ’سچائی‘ ہی درکار ہوتی تو وہ اس ’سچائی‘ کی بنیاد پر محض اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کے لئے ادبی بددیانتی یا ’غیر سچائی‘ کے مرتکب کبھی نہ ہوتے۔چونکہ نارنگ صاحب کا سچائی کا معیار’آخری‘ کے برعکس ’قدیم ‘ہے ، اس لئے علمی بددیانتی کا تقاضا شاید یہی تھا کہ وہ نارنگ صاحب کی ادبی’ سچائی‘ کے مطابق معنی حاصل کرتی۔ادب کا تعلق چونکہ انسان کی ذات کے علاوہ خارجی دنیا کے ساتھ بھی ہے جس میں تغیراتی عوامل کی اولیت کی بناء پر ’ادبی سچائی‘ کا تغیر لازمی ہے، جیسا کہ جدید طبعی سائنس نے بھی ہر مرحلے پر ثابت کیا ہے کہ فطرت کوئی جامد چیز نہیں ہے ۔اگر تغیر حتمی ہے تووہ نظریات جو خارج سے متشکل ہوتے ہیں، ان کا تغیر بھی یقینی ہے۔خارجی تغیر کی نوعیت فطرت کی سی ہو یا سماجی متغیر عمل سے صورت پذیر ہورہی ہو، کسی بھی نقطہء نظر سے اس کی اوریجنیلیٹی کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ خارجی تغیر کی سب سے اہم شہادت نارنگ صاحب کے مندرجہ بالا اقتباس کی بجائے تاریخی مطالعے سے بآسانی اخذ کی جاسکتی ہے۔ فکری وجمالیاتی اعتبار سے تغیر کی سچائی کا انکار ممکن نہیں ہے ،

کیونکہ دونوں رجحانات دقیانوسیت کی تبلیغ کے باوجود کلی طور پر خود کو اس عمل سے محفوظ نہیں کر سکتے۔بہرحال یہ طے ہے کہ ادب سے وابستہ لوگوں کے دروغ گوئی پر مبنی رویے ادب کے سب سے گھناؤنے جھوٹ ضرور ہیں، جو ہر لحظہ ادب کو پراگندہ کرتے آرہے ہیں۔اردو کی ادبی تایخ میں شاید ہی کوئی دور ایسا ہو،کہ جس میں ادب کو اخلاقیات سے الگ کرکے دیکھا گیا ہو،حالانکہ ادبی اخلاقیات ،سماجی اخلاقیات سے مختلف ہے، ادبی اخلاقیات کا تقاضا یہی ہے کہ ادب کو بددیانت افعال سے محفوظ رکھا جائے، جمالیات آخری تجزیے میں ہی اپنی جداگانہ حیثیت کو قائم رکھتی ہے۔جمالیات اپنی فطرت میں الگ شعبہ ہے ، جس کے اپنے داخلی تقاضے ہیں(ساختیاتی مفہوم میں نہیں)،جن کا تعلق اکائی کی سطح پر اس کی یکتائی کے اظہار میں ہے ،

اکائی الگ ہوتے ہوئے بھی اجتماع میں بامعنی بنتی ہے۔یہاں اکائی سے مراد اس کے اظہار میں ہے، جو ایک طرف تو اجتماعیت سے شناخت کے لمحے کو نہیں روکتی اور دوسری طرف خود کو ظاہر کرکے اجتماعیت میں پہنچتی ہے۔اجتماعیت تک کا سفر سیدھا نہیں ہے، اس کے راستے میں کئی ’اشیاء ، مظاہر، اور سماجی عمل کی اشکا ل ‘ہوتی ہیں۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اکائی کا خودکو اکائی کی شکل میں ظاہر کرنا تاریخی تقاضا ہے۔

اُردو ادب و تنقید کے بڑے حصے میں اس جمالیاتی سچ کا فقدان ہے جس کا اظہار فرد(اکائی) کی انفرادیت میں ہی ممکن ہوتا ہے۔اردو میں جو مباحث ہوئے ہیں، ان کے مطابق بھی جمالیات کا تعلق انسانی احساس و جذبات کے ساتھ ہے، گو کہ اس میں دیگر عوامل (آئیڈیالوجی، عقلیت وغیرہ)کو بھی حذف نہیں کیا جاسکتا۔جہاں تک جذبات و احساسات کا تعلق ہے تو ابھی تک کوئی ایسی شہادت موجود نہیں ہے جس کے مطابق یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ان کی نوعیت کلی طور پر تجریدی ہوتی ہے۔سماجی عمل میں ان کا متشکل ہونا قبول و استرداد دونوں رویوں میں نمایاں ہوسکتا ہے۔ مغرب میں احساسات و جذبات سے اس لئے دست برداری اختیار کرلی گئی کہ وہ جذبات جن کا اظہار صرف تخیلی سطح پر ہی ممکن تھا، ان کو قابل عمل بنا دیا گیا۔اس لئے ادب کی نفاست کا یہ تصور جو جذبات و احساسات کے ساتھ و ابستہ تھا،روایتی شکل اختیار کرگیا ، اردو میں اس کی صداقت مغرب کے برعکس ادباء کے مجہول رویوں کے عکس کی شکل میں برقرار رہی۔مغرب میں شعور یا جذبات و احساسات کی کئی منزلیں سماجی ارتقاء سے طے ہوئیں،طے ہونے کے اس عمل میں نئے جذبات واحساسات اورشعور جو پہلے جذبات و احساسات اور شعور سے مختلف تھے، ان کے تقاضے مختلف تھے، جب انسان کی حسیات بدل گئیں، اس کے جمالیاتی تقاضے بدل گئے،اسے اپنی طے شدہ منزلوں کا شعور حاصل ہوگیا تو نظری مباحث کی نوعیت کا بدل جانا یقینی ہوگیا۔ مگر یہ تمام عمل خارج سے منقطع ہوکر وقوع پزیر نہیں ہوا۔جہاں تک خارج کا تعلق ہے تو وہ انگنت عوامل کے درمیان آویزش کا نتیجہ ہے۔کوئی ایسا فلسفہ موجود نہیں ہے جو زمان کے اعتبار سے انسانی عمل کو معروض سے منقطع کرسکے ۔اخلاقی جمالیات کے اعتبار سے اُردوادب کا ذکر کیا جائے تو اذہان میں ایک’ نفیس‘ اور مجہول شخص کی تصویر ابھرتی ہے، جو ردِ عمل کی تمام صلاحیتیں کھو چکا ہے۔جمالیات اس کے لئے اس کی مجہول طبع کا عکس ہے۔اُردو کا گہرا اور غیر جانب دار مطالعہ یہ بھی آشکار کرتا ہے کہ نفاست و مجہولیت کے لبادے میں ادب و تنقیدمیں داخل کی گئی گندگی کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ ادب میں بھی گندگی کو سمونے کااتنا ہی رجحان ہوتا ہے، جتنا کہ سیاست یا انسانی جبلت میں۔ فرق محض یہ ہے کہ ادب کی پراگندگی پر بآسانی جذبوں کی آڑ میں نفاست کا لبادہ چڑھا یا جاسکتا ہے۔ ادب کے نفیس پہلو کی آڑ میں نارنگ صاحب کی حرکت ادبی جرم ہے، چونکہ یہ جرم صاحبِ اقتدار طبقے کی جائیدادیاان کے اقتدار کو کمزور کرنے والے عوامل کی شکل اختیار نہیں کرتا ، اس لئے قانون میں اس

کی کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی۔اگر کوئی سرکاری دستاویز (کتاب ) چرائی جاتی تو شاید عبرت ناک سزا متعین کردی جاتی۔ حالانکہ ادبی جرم کہیں زیادہ جذبات کو ’ناپاک ‘ کرتا ہے اور اپاہج بناتا ہے۔اس کی واضح مثال عہد حاضر کا اُردو ادب ہے۔یہ ادبی بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے کہ شاعری میں بھی دعوے الہام کے کئے جائیں اور نظمیں یا غزلیں ایلیٹ یا پاؤنڈ کی کسی نظم کو سامنے رکھ کر لکھی جائیں۔ دعویٰ تخلیقی لمحے کے انتظار کا کیا جائے، جو کسی پراسرار قوت کے خود کو ظاہر کرنے کا لمحہ ہے ،لیکن ساختیات کی کوئی کتاب یا فلسفے کی کتاب کو سامنے رکھ کر شاعری بنا لی جائے۔تخلیقی لمحے کو خود پر مسلط کرنے کے لئے ٹی ایس ایلیٹ کے طریقہء کار پر عمل کیا جائے،لیکن تنقید میں اکتسابی عمل کے تجزیے کور خصت کردیا جائے، حوالے کولرج کے پیش کئے جائیں، لیکن اس کی ادبی صداقت کا مذاق بھی اُڑایا جائے۔دعوے بڑے نقاد بننے کے کئے جائیں مگر مغربی دانشوروں کی کتابوں کا سرقہ بھی ضروری سمجھا جائے۔ اس تناظر میں کیا نارنگ صاحب کا سرقہ بھی اس غیر اخلاقی جمالیات کی واضح مثال نہیں ہے؟نارنگ صاحب کا قدیم ’سچائی‘ کا معیار بجا مگر یہاں پر یہ لازم تھا کہ وہ تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ’ادبی سچائی‘ پر زور دینے کے علاوہ متغیر’ ادبی سچائی‘ تک پہنچنے کے لئے خود سچے ذرائع تلاش کرتے۔ ادب میں اس سے بدترین اور کوئی جھوٹ ہو ہی نہیں سکتا کہ دوسروں کے خیالات کو لفظ بہ لفظ اپنے نام سے شائع کرادیا جائے اور تبلیغ ادبی سچائی کی، کی جائے۔ اس سے بھی بڑھ کریہ کہ اسی جھوٹ کو بنیاد بنا کر ایوارڈ بھی حاصل کئے جائیں۔ سچے ادیب کا فرض ہے کہ اگر اس سے کہیں کوتاہی ہو بھی گئی ہے تو اس حقیقت کو اپنی غلطی سے تعبیر کرے اور اس غلطی کا سچائی کے ساتھ لوگوں کے سامنے اعتراف کرے، نہ کہ چند ایک افراد کو بدیانتی کے دفاع پر مقرر کردے۔ نارنگ صاحب کی سرقے کی گھناؤنی حرکت کو دیکھ کر ان کی سچائی کی تعریف اور معیار پر افسوس ہوتاہے۔اس مضمون میں میں نے نارنگ صاحب کی ’آخری‘ نہیں بلکہ قدیم’ سچائی‘ کے معیار کو ایک بار پھر سامنے لانے کی کوشش کی ہے، جس کے تحت انھوں نے ادبی’ سچائی‘ کے معیار کا ذکر کیا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی دکھایا ہے کہ قدیم ’سچائی‘ کا نارنگ صاحب کا معیارِ ’سچائی‘ اصل سچائی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ان کا مقرر کردہ ادبی سچائی کا معیار نئی ’سچائی‘ سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے غلط ثابت ہوجاتا ہے۔قدیم ’سچائی‘ میں بددیانتی (نارنگ صاحب کی) قابلِ تکریم تھی، نئی ’سچائی‘ میں دیانت قابل احترام ہے۔قدیم سچائی غیر حقیقی سچائی ہے ، نئی سچائی حقیقی نوعیت کی ہے۔قدیم سچائی میں جانچ پرکھ کی ضرورت ہی نہیں تھی جو ایک بار طے ہوگیا اس کی اندھی تقلید شروع ہوگئی۔ نئی سچائی مادیت سے آشنائی کے بعد کسی بھی چوکھٹے کو بغیر تنقیدی تجزیے کے قبول نہیں کرتی۔نارنگ صاحب کی قدیم ’سچائی‘ کونئی ادبی سچائی نے کیسے بے نقاب کیا اس مضمون میں قارئین ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیں گے۔آئیے گوپی چند نارنگ صاحب کے ’سچائی‘ کے قدیم معیار کو نئی’ سچائی‘ کے مقابل رکھ کر پرکھتے ہیں۔ نئی سچائی کا اصرار ہے ،کہ قدیم سچائی کے معیار پر قائم رہنے والے نارنگ صاحب نے پروفیسررامن سیلڈن کی جس اہم تعارفی کتاب سے اپنی کتاب میں کئی باب لفظ بہ لفظ سرقہ کئے ہیں، ان کی حقیقت کو آشکار کرنا ضروری ہے۔اس ’سچائی‘کے انکشاف کے دوران تمام ابواب کو لفظ بہ لفظ رقم کرنا یقیناََ ایک دشوار کن مرحلہ ہے۔ نارنگ صاحب کے اس(سچے) فعل کی وجہ سے کئی مقتدر ادارے انھیں ایوارڈ دینے کے لئے بے چین تھے ، اس لئے انھوں نے سرقے جیسا کٹھن کام بآسانی سرانجام دیا۔آج ثابت ہوگیا ہے کہ اس ایوارڈکی حیثیت ادبی خدمت کے برعکس اُردو ادب کو غلط رجحانات سے مالا مال کرنے کی وجہ سے سیاسی

نوعیت کی تھی۔پاکستان کامقتدر طبقہ جس کا تعلیم سے کچھ خاص واسطہ نہیں ہے مگر خود کو’ سیکولر ‘کہلوانے کی ان کی خواہش اس قسم کے ایوارڈ دینے سے مزید نمایاں ہوجاتی ہے۔ہندوستان میں دوسرے کئی طرح کے پروپیگنڈے کے ساتھ ’سیکولر ازم‘ کے نعرے کی نوعیت بھی عملی انسانی اقدار کے برعکس سیاسی نوعیت کی ہے۔ مغرب کی طرح وہاں کے ’ادیبوں ‘اور ’دانشوروں‘ کو ادب میں بھی ہر قیمت پر گمراہ کن رجحانات کی اشاعت پر کمربستہ کیا جاتا ہے،صلے کے طور پربلند عہدوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔ادب و آگہی کو جدو جہد سے دور، انسانی زندگی کی لاتعلقی اور خانقاہی نوعیت کی شخصیت پرستی کے فروغ، اقدار کی شناخت سے نجات، ماضی پرستی کے رجحان کے احیاء کے لئے باقاعدہ چندے عنایت کئے جاتے ہیں۔آسکروائلڈ نے جب ادب میں اخلاقی اقدار کا ذکر کرنے والوں کی سخت الفاظ میں تحقیر کی تو کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اخلاقیات سے اس کی نفرت کا محرک اس کی اپنی ہم جنس پرستانہ طبع ہے۔ خارجی عوامل سے قطع نظر آسکر وائلڈ اپنی ذات کے حصار میں مقید ہوگیا، اس طرح اس نے مقصدیت کو صرف خارجی حقیقت سے الگ کیا ، جبکہ مقصدیت کو اپنی جبلی احتیاج کے تابع کردیا۔بالکل اسی طرح نارنگ صاحب الطاف حسین حالی کے بعد سب سے بڑے نقاد بننے کی خواہش رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان میں ضرورت سے زیادہ’ شکتی‘ پیدا ہوگئی۔ اتنی ’شکتی‘ کہ تمام کتاب کو ہی اپنی ’سچائی‘ کے معیار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سرقے سے بھر دیا۔ کتاب کے سرورق پر یہ سوچ ، نتیجے اور حقیقی سچائی سے عاری الفاظ ملاحظہ فرمائیں،’’پروفیسر نارنگ کی اب تک کی علمی و ادبی کتابوں میں سب سے وقیع اور فکر انگیز کام‘ ‘ادب کے سنجیدہ قاری کے لئے نارنگ صاحب کا سرقہ یقیناََ ایک ’فکر انگیز‘ لمحہ ہے۔نارنگ صاحب کا تو ’فکر انگیزی ‘ کا معیار بالکل مختلف ہے جو ان کی قدیم ’سچائی ‘کی عکاسی کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے، لیکن سنجیدہ قاری کے لئے یہ اس اعتبار سے ’فکر انگیز‘ ہے کہ اردو ادب کو کب تک اس کی اپنی حرکت سے جنم لینے والی ’فکر انگیزی ‘ سے محروم رکھا جائے گا؟ کب تک ادب کی تفہیم اپنے تناظر کی بجائے مغربی تناظر میں کی جاتی رہے گی؟کب تک کتابوں کے سرقے کی روایت قائم رہے گی؟ اس مضمون میں کئے گئے تجزیے کے مطابق نارنگ صاحب کی ’ساختیات، پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘ کا ’فکر انگیز‘ پہلو یہی ہے کہ اگر اس کتاب میں سے سرقہ نکال لیا جائے تو کیا دس صفحات بھی ایسے رہ جائیں گے جو نارنگ صاحب کے اپنے تجزیے پر مبنی ہوں ؟تجزیے کا ذکر نارنگ صاحب کی کتاب کے سرورق پر لکھے گئے ان الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں،’’نئی ادبی تھیوری ساختیات، پسِ ساختیات اور ردِ تشکیل کا مکمل اور مستند تعارف اور تجزیہ‘‘اس فقرے میں بھی نارنگ صاحب کو تجزیہ نگار دکھانے کی کوشش کی گئی ہے،اب صورتحال یہاں تک آپہنچی ہے کہ سرقے اور تجزیے کا امتیاز ہی ختم کردیا گیا ہے ۔ ہمارا مطالعہ ہر لمحہ یہ ثابت کرتاہے کہ نارنگ صاحب کا کردارتجزیہ نگار کا تو دُور،مرتب کا بھی نہیں ہے۔ مرتب تسلیم کرتا ہے کہ وہ دوسروں کی تحریروں کو ترتیب دیتا ہے۔ نارنگ صاحب اس کتاب کی بنیاد پر ایک ’فکر انگیز‘ مکالمہ شروع کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ مکالمہ شروع ہو اور اس کی نوعیت بھی ’فکرانگیز‘ ہو، مگر نارنگ صاحب کی خواہش کے برعکس ہماری خواہش ’سچائی‘ کے فروغ، بددیانتی سے نجات، تقلید سے چھٹکارا، احساسِ کمتری کے خاتمے، تناظر کی اہمیت اور انہی نکات کی بنیاد پر ادب و تنقید کے فروغ کے لئے ہے۔ نارنگ صاحب کی حرکت سے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ وہ خود سارق سے نظریہ ساز بننے کی ’معیاری جست‘ لگانے کی سعی پیہم کرتے رہے ہیں۔ نئی ’سچائی‘ چونکہ قدیم سچائی سے زیادہ قوی ہے جس میں حقائق سے پردہ اٹھانے کی صلاحیت اس قدر ہے کہ نارنگ صاحب اپنی شخصیت پرستی کی خواہش کے لازوال نہ ہونے کی وجہ سے صرف ایک ہی دہائی لطف اندوز ہوپائے ہیں۔ قدیم’ سچائی ‘کا جامد معیار تغیر پذیر سماج میں کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لینن نے درست لکھا تھا کہ’ ’مظہر ہمیشہ علم سے زیادہ بھر پور ہوتا ہے۔‘‘ کیونکہ وہ ہمہ وقت حرکت پزیر رہتا ہے،اس کی حرکت علم کے جامد معیار پر قائم قدیم چوکھٹوں کو بے دردی سے چیلنج کرتی ہے۔نارنگ صاحب کی اس حرکت کا انکشاف نئی سچائی کے ارتقاء کے لئے ضرور راستہ ہموار کرے گا۔سرورق پر نارنگ صاحب کی ’سچائی‘ کا اظہار ان الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں ،’’بنیادی نوعیت کی ایسی کتاب جو کہیں برسوں میں لکھی جاتی ہے اور جس سے نئے ادبی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔‘ ‘ سرقے کو تسلیم کر لینے کی صورت میں بھی، افکار کو ان کے ٹھوس سماجی تناظر سے محروم کرنے کی وجہ سے اس کتاب کا کردار علم کو ترقی دینے کی بجائے گمراہی کے زیادہ قریب رہتا، تاوقتیکہ قاری خود اتنا باشعور ہوتا کہ وہ افکار کے سماجی محرکات، مغربی معاشرے کے انگنت طبقاتی تضادات،’آقاؤں ‘اور ’غلاموں ‘کی شناخت کے لئے مسلسل جدوجہد، اور زرخرید بورژوا دانشوروں کے ’آقاؤں ‘کے نظریاتی اور معاشی عوامل کو تحفظ فراہم کرنے کی تگ و دو کو سمجھنے کی کوشش کرتا

۔اسی وقت وہ دیکھ پاتا کہ روشن خیالی کا استرداد جس ’دوسرے ‘ کو حذف کرنے کی شکل میں ہوا ہے، اس کی اپنی حیثیت صدیوں سے ایک ایسے ’دوسرے ‘کی ہے جس کا مشرقی ’دانشوروں ‘ نے علمی غداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے احساس تک بھی چھین لیا ہے۔ اڈورنو جب یہودیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے میدان کارزار میں اترتا ہے تاکہ وہ مغربی فکر میں فکری سطح پر کچلنے والے عوامل کو دریافت کرے تو پاک و ہند میں ایک بار پھر تناظر کے دبنے سے صورتحال مسخ ہوجاتی ہے۔ جب یہودی قوت حاصل کرلیتا ہے تو ژاک دریدا ’سچائی‘ اور ’برائی ‘ اور’ شناخت ‘کا ہی منکرہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جب ’شناخت‘ درکار تھی تو اڈورنو نے یہ خدمت سرانجام دی۔ جب یہودیوں کی کلی’ شناخت ‘قائم ہوگئی اورانھوں نے ’دوسروں‘ کی ’شناخت‘ تسلیم کرنے سے انکار کردیاتو ساتھ ہی نئی تھیوری ابھری جس کا نام ڈیکنسٹرکشن ہے، جو ’شناخت ‘کے لئے جدو جہد سے روکتی ہے۔گیارہ ستمبر سے پہلے جب بورژوا قمار باز دانشوروں نے اپنا مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دے دیا جسے گیارہ ستمبر کے بعد عالمی سطح پر عیسائی دہشت گردی سے پایہء تکمیل تک پہنچانا تھا تو درسگاہوں میں ڈیکنسٹرکشن کا بیوپار بھی شروع ہوگیا۔ مشرقی چرب زدہ تخیل اس کے محرکات کو سمجھے

بغیر ہی تبلیغ پر کمربستہ ہوگیا۔اردو ادب کے ان ’پرانے لکھنے والوں‘کی اکثریت کا المیہ یہ ہے کہ انھوں نے صرف لکھنا ہی سیکھا ،لکھنا کیا تھا اس کے لئے جس تنقیدی بصیرت اور’ تخلیقی تخیل‘ کی ضرورت ہوتی ہے(کانٹین مفہوم میں نہیں) اس کے فقدان کی وجہ سے ’پرانے لکھنے والوں‘ کی اکثریت مغربی علوم یا پھر ماورائیت سے سرقہ کرنے پر مجبور ہوئی ۔ دادی کی سنائی ہوئی بچپن کی ماورائی نوعیت کی کہانیاں انہی ماوارئی خطوط پر ان کی نام نہاد’ تخلیقی‘ اور ’تنقیدی‘ تحریروں کے موضوعات کی شکل میں ظاہر ہوئیں،مگر تجزیے اور تنقید کے لئے جس وسیع مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے یہ ’پرانے لکھنے والے‘ مکمل طور پر نابلد رہے۔ آج ان کے پاس یہ استحقاق تو موجود ہے کہ یہ ’پرانے لکھنے والے‘ ہیں،لیکن یہ لکھ کیا اور کس کے لئے رہے ہیں؟ اسے کوئی پڑھ بھی رہا ہے یا نہیں؟ ان عوامل کے بھر پور تجزیے کی ضرورت ہے، یقیناََ ان تجزیات کے لئے نہ ہی ژاک دریدا سے کوئی مدد لی جاسکتی ہے اور نہ ہی بارتھ وغیرہ سے۔ اس کے لئے اُردو ادب و تنقید کا اپنے مخصوص پس منظر میں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔قطع نظر خیال پرستانہ یا مادی موقف کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کہیں بارتھ وغیرہ کو اُردو ادب سے مخاطب ہونا پڑتا تو وہ کبھی بھی اُردو معاشرے کو نظر انداز نہ کرتے۔وہ اُردو کو اس کے ارتقاء اور اس کی اپنی حرکت میں دیکھتے۔وہ غیر ملکی ادبی کلیوں کو ریاضی کے پہاڑوں کی طرح رٹا نہ لگاتے۔

ان کو اس امر کا احساس ہوتا کہ ایک معاشرے کے جمالیاتی تقاضے کسی دوسرے معاشرے میں ممکن ہے غیر جمالیات میں تبدیل ہوجائیں۔ کیا یہ کہنے میں کوئی مبالغہ ہے کہ نام نہاد مابعد جدیدیت کی آواز فرانس سے بلند ہوئی لیکن جرمنی میں ہیبرماس وغیرہ جرمن فلسفیانہ روایت کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں؟ کیا اڈورنو اپنی برادری کی تمام تر ضرورتوں کے باوجود جرمن روایت کے دو عظیم فلسفیوں (کانٹ، ہیگل)کی روایت پر کاربند نہیں ہے؟کیا دریدا خود کو ہیگلیائی نہیں کہلاتا(دیکھیے، پوزیشنز) مگر فرانسیسی معاشرے اور یہودی روایت کے حصار کو توڑنے میں بھی ناکام رہتا ہے۔ کیا فرانسیسی معاشرے کی مابعد جدیدیت کا اچھائی اور برائی کا عدم امتیاز ان کی تھیوری میں نہیں جھلکتا؟صارفی ثقافت کا تعلق محض حسیاتی مسرت کے ساتھ ہے، تقاضا جس کا صرف اور صرف ’ویلیو ججمنٹ‘ سے نجات ہے۔ کافی حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ مابعدجدیدیت فرانسیسی یا امریکی معاشرے کی معروضی حالت ہے۔ کیا پاکستان اس سطح پر ہے کہ اچھائی اور برائی کے معیار سے دست بردار ہوجائے؟ اگر نہیں تو ادب و تنقید میں سماجی ’وحدت‘کی بجائے Fragmentation کی تبلیغ کس لئے؟کیا گزشتہ دنوں ہم نے پاکستان میں صرف ایک آمر کی وجہ سے سماج کے ہر شعبے(صحافت، سول سوسائٹی، عدلیہ،وغیرہ)

کی شکست و ریخت ’وحدت‘ کے تصور کے تحت ہوتے ہوئے نہیں دیکھی؟مغرب میں بھی اس عمل کے گھناؤنے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں، جو اس عہد کے ادب میں جھلکتے ہیں۔ تاہم ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ’مائیکرو سیاست‘ کا تصور ابھرتاہے، مگر اگر کہیں سماجی تضادات شدت اختیار کرگئے تو کیا ’میکرو سیاست‘ حاوی نہیں ہوجائے گی؟کیا ان حالات میں ادب و تنقید سماجی تقاضوں سے انحراف کرسکیں گے؟اگر ایسا کبھی ہوا ہے تو اس کی مثال بھی تلاش کرنی چاہیے ۔مغربی ادبی تاریخ کا ہر دور سماج کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتے میں بندھا رہا ہے، یا تو مثالی حوالوں سے یا پھر مادی نقطہء نظر کے مطابق۔ بے شک اٹھارویں یا انیسویں صدی کی رومانویت ہو یا پھر بیسویں صدی کی جدیدیت۔نارنگ صاحب جیسے نقاد جو سرقے پر گزارہ کرتے ہیں، جو تفکر سے عاری ہیں، کسی کی کاوش کو اپنے نام سے شائع کراتے ہیں۔دوسرے معاشروں کے داخلی تضادات سے ظہور ہونے والے نظریات کو سمگل کرتے ہیں،جوحوالہ جات کو غلط پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔تنقید کے بارے میں حقیقی مسائل سے ان نقادوں کے انحراف کی وجہ ہی سے آج اُردو شعر بازی کا غالب حصہ جنس کے حصار میں ہے ،مکھی پر مکھی ماری جارہی ہے۔ مغرب میں ناولوں یا شاعری میں رجحانات پہلے نمودار ہوئے، ان کو وسیع تناظر میں نظریائے جانے کی کوششوں سے تحاریک نے جنم لیا۔ہمارے ہاں تنقید پہلے ٹپک پڑتی ہے، اس کے بعد متن کا بیڑا غرق کر کے اس میں سے مابعد جدیدیت کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آج تک نثری نظم کو رجعت پسندوں کا ایک گروہ شاعری ماننے کو تیار نہیں ہے،مگر تبلیغ مابعد جدیدیت کی ہورہی ہے۔ مغرب میں عروض و بحور کے مباحث ختم ہوئے ایک عرصہ گزرگیا،اگر شاعری یا ناول میں پرانی تکنیک استعمال کرلی جائے،تو مابعد جدیدیت کو فوراََ چیلنج کردیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں لاعلمی کا تقاضا یہ ہے کہ تبلیغ مابعد جدیدیت کی ہورہی ہے، مگر شاعری میں اگر کہیں ’الف‘ اور’ بے‘ کا فرق پڑجائے تو بے وزن کے فتوے صادر کردیے جاتے ہیں۔ ادب ’روحانی پولیس ‘کے پیدا کردہ خوف کا نتیجہ ہے، گو کہ آج خوف ختم ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں یہ خوف ان ’پرانوں‘ کی سرشت کا حصہ بن گیا ہے، جس سے صرف خوف کا احساس ہی ختم ہوسکا ہے۔حقیقت میں یہ خاتمہ واہمے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ان پرانوں کی انتہائی خستہ ادبی حالت کا تقابل برٹرینڈ رسل کی اس وضاحت سے کیا جاسکتا ہے کہ برطانیہ میں تعلیم کے حوالے سے عوام کی صورتحال یہ تھی کہ حکمران طبقہ لوگوں کو پڑھنا تو سکھا دیتا تھا، مگر پڑھنے کے لئے ان کے ہاتھوں میں اخبارات تھما دیے جاتے تھے۔ان اخبارات میں حکمرانوں کے حق میں پروپیگنڈے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تھا۔

عوام اسی کو اخبارات میں چھپا ہوا تصور کر کے سچ تسلیم کر لیتے تھے۔ اُردو میں لکھنے والے شعر بازوں اور ادیبوں کی صورتحال بھی، کم از کم ’پرانوں‘ کے ذکر کے حوالوں سے مختلف نہیں ہے۔ان کو لکھنے کے لئے زیادہ تر موضوعات ’روحانی پولیس‘ نے ہی عطا کئے ہیں۔ نارنگ صاحب کے حوالے سے جہاں تک تنقید کاتعلق ہے، اس میں صرف اور صرف سرقہ ہی اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔مقصود اس بحث سے یہ واضح کرنا نہیں کہ مغربی خطوط پر استوار ہوا جائے بلکہ اپنے ہی خطوط پر استوار ہونا چاہیے،موازنہ اور تقابل سماج کی کلی وحدت میں ہونا چاہیے۔

جاری ہے

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

2 Responses to "گوپی چند نارنگ کی ’سچائی‘ اور تناظرسرقے کی زد میں"

  1. طارق احمد صدیقی on March 9, 2012 at 10:44 PM

    السلام علیکم
    یہ میرے لیے بہت اہم انکشاف ہے کہ گوپی چند نارنگ ایک مصنف اور نظریہ ساز بلکہ محض ایک مترجم ہیں۔
    کیا آپ یہ تمام مضامین مجھے مائیکروسافٹ ورڈ میں فراہم کر سکتے ہیں؟
    میں اپنی ویب سائٹ درایت ڈاٹ کام چلاتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ اسے درایت پر شائع کروں۔
    درایت ڈاٹ کام کا ویب ایڈریس درج ذیل ہے: ۔
    http://derayat.com/
    والسلام
    طارق احمدصدیقی

  2. طارق احمد صدیقی on March 9, 2012 at 10:46 PM

    السلام علیکم
    یہ میرے لیے بہت اہم انکشاف ہے کہ گوپی چند نارنگ ایک مصنف اور نظریہ ساز نہیں بلکہ محض ایک مترجم ہیں۔
    کیا آپ یہ تمام مضامین مجھے مائیکروسافٹ ورڈ میں فراہم کر سکتے ہیں؟
    میں اپنی ویب سائٹ درایت ڈاٹ کام چلاتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ اسے درایت پر شائع کروں۔
    درایت ڈاٹ کام کا ویب ایڈریس درج ذیل ہے: ۔
    http://derayat.com/
    میرا ای میل ایڈریس درج ذیل ہے:۔
    tariq.a.siddiqi@gmail.com

    والسلام
    طارق احمدصدیقی

Leave a Reply