سرقے کا کوہ ہمالیہ....تیسرا حصہ

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


عمران شاہد بھنڈر

(برمنگھم)

سرقے کا کوہ ہمالیہ ... تیسرا حصہ

اس کے بعد پروفیسر سیلڈن نے جیمسن پر مختصر بحث کی ہے ، اس کو بھی نارنگ نے جوں کا توں اٹھالیا ہے۔جوں کا توں اٹھانے کا مطلب یہ ہوا کہ ایگلٹن ہی کی طرح نارنگ نے جیمسن کی بھی کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا، سیلڈن جیمسن کے حوالے سے بھی مغربی طالب علم کو آسان الفاظ میں سمجھانے کے لیے جو تعارف پیش کرتے ہیں ، نارنگ اس کو لفظ بہ لفظ اٹھاکر سیلڈن کی افہام و ترسیل کو ایک بار پھر اپنی ’’ افہام و ترسیل‘‘ بنا کر پیش کرتے ہیں۔پہلے سیلڈن کی جانب چلتے ہیں:In America, where the labour movement has been partially corrupted and totally excluded from political power, the appearance of a major Marxist theorist is an important event. Jameson believes that in the post-industrial world of monoply capitalism the only kind of Marxism which has any purchase on the situation which explores the 'great themes of Hegel's philosophy - the relationship of part to whole, the opposition between concrete and the abstract, the concept of totality, the dialectic of appearance and essence, the interaction between subject and object'. For dialectical thought there are no fixed and unchanging 'objects'; an 'object' is inextricably bound up with a larger whole, and is also related to a thinking mind which is itself part of a historical situation. Dialectical criticism does not isolate individual literary works for analysis; an individual is always a part of a larger structure (a tradition or a movement) or part of a historical situation. The dialectical critic has no pre-set categories to apply to literature and will always be aware that his or her chosen categories (style, character, image, etc.) must be understood ultimately as an aspect of the critics on historical situation........ A Marxist dialectical criticism will always recognise the historical origins of its own concepts and will never allow the concepts to ossify and become insensitive to the pressure of reality. We can never get outside our subjective existence in time, but we can try to break through the hardening shell of our ideas 'into a more vived apprehension of reality itself'. His The Political Unconscious (1981) retains the earlier dialectical conceptio of theory but also assimilates various conflicting traditions of thought (structuralism, poststructuralism, Freud, Althusser, Adorno) in an impressive and still recognisably Marxist synthesis. Jameson argues that the fragmented and alienated condition of human society implies an original state of primitive communism in which both life and perception were collective.............. All ideologies are 'strategies of containment' which allow society to provide an explaination of itself which suppresses the underlying contradiction of history; it is history itself (the brute reality of economic Necessity) which imposes this strategy of repression. Literary texts work in the same way: the solutions which they offer are merely symptoms of the suppression of history. Jameson cleverly uses A.J Greimas' structuralist theory (the 'semiotic rectangle') as an analytic tool for his own purposes. Textual strategies of containment present themselves as formal patterns. Greimas' structuralist system provide a complete inventry of possible human relations... which when applied to a text's strategies, will allow the analyst to discover the posibilities which are not said. This 'not said' is the represses history. Jameson also developes a powerful argument about narrative and interpretation. He believes that narrative is not just a literary form or mode but an essential 'epistemological category'; reality presents itself to the human mind only in the form of the story. Even a scientific theory is a form of story.( Seldon, P, 95-97). نارنگ کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں،’’امریکہ میں فریڈرک جیمیسن جیسے اہم مارکسی نظریہ ساز کا پیدا ہونا خاصا دلچسپ ہے۔۔۔۔ جیمسن کا خیال ہے کہ ’پس صنعتی‘ دنیا میں جہاں اجارہ دارانہ سرمایہ داری کا دور دورہ ہے، مارکسزم کی صرف وہی قسم کامیاب ہوسکتی ہے جو ہیگل کے فلسفے کی عظیم تھیم سے جڑی ہوئی ہو، یعنی جز کا کل سے مربوط ہونا، ٹھوس اور مجرد کا متضاد ہونا، کلیت کا تصور، ظاہری شکل اور اصل میں جدلیانہ کشمکش اور موضوع اور معروض کا عمل در عمل، وغیرہ۔ بقول جیمسن جدلیاتی فکر میں کوئی مقررہ اور تغیر نا آشنا معروض نہیں ہے، اور ہر معروض ایک بڑے کل سے ناقابل شکست طور پر جڑا ہوا ہے، اور سوچنے والے ذہن سے جو خود تاریخی صورتحال سے جڑا ہوتا ہے۔ جدلیاتی تنقید انفرادی فن پاروں کا الگ الگ تجزیہ نہیں کرتی، کیونکہ فرد ایک وسیع تر بڑی ساخت کا حصہ ہے جو ایک روایت یا تحریک بھی ہوسکتی ہے ۔ سچا جدلیاتی نقاد ادب پر پہلے سے طے شدہ زمروں کا اطلاق نہیں کرتا،

وہ اس بات کا بھی لحاظ کرتا ہے کہ خود اس کے منتخب کردہ زمرے مثلاََ اسلوب، کردار، امیج وغیرہ بالآخر خود اس کی تاریخی صورتحال کا جُز ہیں۔ مارکسی جدلیاتی تنقید کو ہمیشہ اپنے تاریخی مآخذ کا احساس ہونا چاہیے اور تصورات کو ہرگز جامد نہ ہونے دینا چاہیے تاکہ حقیقت کا صحیح ادراک ممکن ہو۔ بے شک ہم زماں کے اندر اپنی موضوعی حالت سے باہر نہیں آسکتے، لیکن خیالات کے سخت ہوتے ہوئے خول کو توڑ سکتے ہیں تاکہ حقیقت کی بہتر طور پر تفہیم کرسکیں۔جیمسن کی کتاب THE POLITICAL UNCONSCIOUS, (1981) میں جدلیاتی فکر کے تسلسل کے ساتھ متعدد متضاد عناصر کو سمونے کا عمل ملتا ہے، مثلاََ ساختیات، پسِ ساختیات نو فرائیڈیت، التھیوسے ادورنو وغیرہ۔ جیمسن کا کہنا ہے کہ موجودہ سماج کی پارہ پارہ اور اجنبیانہ حالت میں قدیم زمانے کی اشتراکی زندگی کا تصور مضمر ہے، جس میں زیست اور تصورات سب ملے جھلے اور اجتماعی نوعیت کے تھے، جیمسن کا یہ بھی خیال ہے کہ تمام آئیڈیالوجی اقتدار حاصل کرنے اور قابو میں رکھنے (CONTAINMENT) کے طور طریقوں کی شکل ہے جو سماج کو اس بات کا موقع دیتی ہے کہ تاریخ کے تہہ نشیں تضادات کو دبایا جاسکے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ تاریخ جو ’’اقتصادی ضرورت کی وحشی حقیقت ہے‘‘ ''THE BRUTE REALITY OF ECONOMIC NECESSITY'' جبر کے ان طور طریقوں کو خود ہی مسلط کرتی ہے۔ ادبی متن بھی اسی طرح عمل آراہوتا ہے، کیونکہ بالعموم متن جو حل پیش کرتا ہے، وہ خود تاریخ کے جبر کی علامت ہوتا ہے۔جیمسن نے ساختیاتی مفکر گریما کے نشانیاتی مثلث کو اپنے مقاصد کے لیے کامیابی سے برتا ہے۔ تاریخی جبر کے طور طریقے ہےئتی نمونوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ گریما کا ساختیاتی نظام ممکنہ انسانی رشتوں کے گوشواروں پر مبنی ہے۔ اسے اگر متون پر آزمایا جائے تو وہ مقامات ظاہر ہوجاتے ہیں جو نہیں کہے گئے۔ یہ نہ کہے گئے مقامات وہ تاریخ ہیں جو دبا دی گئی۔جاری ہے۔۔۔۔۔جیمسن نے بیانیہ اور اس کی توضیح کے بارے میں بڑی کارآمد بحث کی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ بیانیہ محض ایک ادبی فارم یا طور نہیں ہے بلکہ ایک ’علمیاتی زمرہ‘ (EPISTEMOLOGICAL CATEGORY) ہے، اس لیے کہ حقیقت قابلِ فہم ہونے کے لیے خود اپنے آپ کو کہانی کے فارم میں پیش کرتی ہے۔ اور تو اور ایک سائنسی نظریہ بھی کہانی ہوسکتا ہے‘‘ (۲۶۹۔۲۶۷)۔نارنگ کا یہ اقتباس یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ اگر قاری کو توفیق ہو تو اسی تسلسل میں دونوں کتابوں کو سامنے رکھتے ہوئے مطالعہ جاری رکھنے سے یہ انکشاف ہوجائے گا کہ لفظ بہ لفظ ترجمے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ گو کہ نارنگ انتہائی عیاری سے مختلف پیراگرافوں کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کرنے کے باوجود ان کی ترتیب بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن راقم نے مسروقہ مواد کی شناخت کو آسان کرنے کے لیے تسلسل کو ختم نہیں ہونے دیا۔ مثال کے طور پر نارنگ پہلے ایک صفحے کا ترجمہ کرتے ہیں اس کے بعد اگلے صفحے سے ایک پیراگراف اٹھا کر دوبارہ پہلے صفحے سے ترجمے کو جاری رکھتے ہیں۔ یقیناََ اس طرح کے سرقے کو گرفت میں لانا آسان نہیں ہوتا ،کیونکہ عام قاری جب دیکھتا ہے کہ دو فقرے لفظ بہ لفظ ترجمہ ہیں،لیکن اس کے بعد آٹھ فقرے چھوڑ دیے گئے ہیں، تو وہ سوچ سکتا ہے کہ شاید یہی دو فقرے ترجمہ ہیں اور ان کا حوالہ غلطی سے نہیں دیا گیا۔ اس کے ذہن میں یہ نکتہ آسکتا ہے کہ اس کے بعد اس صفحے سے کوئی اور پیراگراف نہیں اٹھایا گیا تو وہ سرقے کے پہلو کو نظر انداز کرسکتا ہے ۔دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ نارنگ دوبارہ پہلے صفحے کی جانب پلٹتے ہیں، اور تمام و کمال ترجمہ کرکے قاری کو احمق بنانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ قاری کو پیچیدگی سے محفوظ رکھنے کے لیے ،راقم نے یہ کوشش کی ہے کہ نارنگ کی کتاب اور دیگر ترجمہ شدہ کتابوں میں تسلسل کو قائم رکھا جائے۔اوپر والے اقتباس میں دیکھیں کہ کس طرح نارنگ نے اردو میں انگریزی کا حوالہ استعمال کیا ہے اور اسے واوین میں لکھ دیا ہے۔ گو کہ اس انگریزی اقتباس کا صفحہ نمبر نہیں دیا گیا۔ چونکہ یہ واضح ہے اس لیے اعتراض کی گنجائش نہیں ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پورا اقتباس جو یہاں پیش کیا گیا ہے، اور اس باب میں جس دیگر مواد کی نشاندہی کی گئی ہے اس کا حوالہ کہیں نہیں ہے۔ایمانداری کا تقاضا تو یہی تھا کہ مکمل باب ہی واوین میں رکھا جاتا،

لیکن اس کے لیے خود کو صرف مترجم کی حد تک ہی ظاہر کیا جاسکتا تھا جو نارنگ کو گوارہ نہ ہوسکا۔اس کے بعد دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نارنگ مارکسزم اور مارکسی ادبی تنقید پر کھل کر رائے دیتے ہیں۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ’ سرمایہ‘ کے تینوں ابواب کا مطالعہ تو انھوں نے ضرور کر رکھا ہوگا۔ اس کے علاوہ جدلیات کو بھی بخوبی سمجھ رہے ہونگے۔ اینگلز کے وضع کیے ہوئے جدلیاتی اصولوں کی گہرائی میں بھی اترے ہونگے۔اس لیے جیمسن اور ایگلٹن وغیرہ پر تو بڑے وثوق سے کچھ کہنے کی حالت میں ہونگے۔ پھر یہ خیال آتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ نارنگ نے مارکس اور اینگلز کو سیاسی معاشیات کے زمرے میں رکھ کر ان کا مطالعہ ضروری نہ سمجھا ہو، جیسا کہ اردو ادب میں مطالعے کے بغیر فتوے جاری کرنے کا رجحان موجود ہے ۔ لیکن اس امر پر کوئی شک نہیں ابھرتاکہ نارنگ نے ایگلٹن اور جیمسن تک کو نہیں پڑھا۔ ایگلٹن اور جیمسن دونوں ادبی و ثقافتی ناقدین ہیں، مغربی دنیا میں ان کو نظر انداز کرکے موجودہ ادبی وثقافتی رجحان کے بارے میں معقول بات کیسے کہی جاسکتی ہے؟ جونہی رامن سیلڈن کی کتاب کا مطالعہ کرتے چلے جائے یہ حقیقت منکشف ہوتی چلی جاتی ہے

کہ نارنگ نے ایگلٹن اور جیمسن کے علاوہ بے شمار دوسرے ناقدین کی کتب کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اس لیے نارنگ علم کی اس سطح پر نہیں کہ انھیں نقاد کہا جاسکے، تنقید میں ان کی حیثیت شارح سے زیادہ نہیں ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ ان کے حواری انھیں کس مقام پر فائز کرتے ہیں۔ اپنے دعوے کے حق میں ثبوت فراہم کرنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر رامن سیلڈن کی کتاب کے اس باب کا مطالعہ کرنا ہوگا جو نارنگ کے سرقے کی بھینٹ چڑھا ہے۔ آئیں یاؤس پر لکھے گئے باب پر غور کرتے ہیں، سیلڈن کے الفاظ ملاحظہ کریں،

Jauss, an important German exponant of "reception" theory, gave a historical dimension to reader-oriented criticism. He tries to achieve a compromise between Russian Formalism which ignores history, and social theories which ignores the text. Writing during a period of social unrest at the end of the 1960, Jauss and others wanted to question the old canon of German literature and to show that it was perfectly reasonable to do so.... He borrows from the philosophy of science (T.S Kuhn) the term "paradigm" which refers to the scientific framework of concepts and assumptions operating in a particular period. "Ordinary science" does its experimental work within the mental world of a particular paradigm, until a new paradigm displaces the old one and throws up new problems and establishes new assumptions. Jauss uses the term "horizon of expectations" to describe the criteria readers use to judge literary texts in any given period.... For example, if we consider the English Augustan period, we might say that Popes's poetry was judged according to criteria, naturalness, and stylistic decorum (the words should be adjusted according to the dignity of the subject) which were based upon values of Popes's poetry. However this does not establish once and for all the value of Pope's poetry. During the second half of the eighteenth century, commentators began to question whether Pope was a poet at all and to suggest that he was a clever versifies who put prose into ryrhyming couplets and lacked the imaginative power required of true poetry. Leapfrogging the ninteenth century, we can say that modern readings of Pope work within a changed horizon of expectations: we now often value his poems for their wit, complexity, moral insight and their renewal of literary tradition. In Jauss's view it would be equally wrong to say that a work is universal, that its meaning is fixed forever and open to all readers in any period: 'A literary work is not an object which stands by itself and which offers the same face to each reader in each period. It is not a monument which reveals its timeless essence in a monologue.' This means, of course, that we will never be able to survey the successive horizons which flow from the time of a work down to the present day and then, with an Olympian detachment. to sum up the works final value or meaning. To do so would be to ignore the historical situation. Whose authority are we to accept? That of the readers? The combined opinion of readers over time? (Raman Seldon. P,52-53)

. اس اقتباس کے بعد پروفیسر سیلڈن ویلیمز بلیک کی مثال دینے لگتے ہیں اور نارنگ بھی اپنے سرقے کا کام جاری

رکھتے ہیں، آئیں نارنگ کے مجرمانہ فعل کو دیکھتے ہیں،’’روبرٹ یاؤس نے نظریہ قبولیت کے ذریعے ’قاری اساس تنقید‘ کو تاریخی جہت عطا کی ہے۔ یاؤس نے روسی ہےئت پسندی (جس نے بڑی حد تک تاریخ کو نظر انداز کیا تھا) اور سماجی نظریوں میں (جو متن کو نظر انداز کرتے ہیں)ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۱۹۶۰ میں جب جرمنی میں اضطراب کا دور تھا۔ یاؤس اور اس کے ساتھیوں نے جرمن ادب کو پھر سے کھنگالا، اور جرمن ادبی روایت پر نئی نظر ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یاؤس کی اصطلاح ’ زمرہ‘ (PARADIGM) دراصل سائنس کے فلسفی ٹی ایس کوہن سے مستعار ہے اس سے یاؤس تصورات اور معروضات کا وہ مجموعہ مراد لیتا ہے جو کسی بھی عہد میں کارفرما ہوتا ہے۔ سائنس میں ہمیشہ تجرباتی کام کسی ایک خاص ’زمرے‘ کی ذہنی دنیا میں انجام پاتا رہتا ہے حتٰی کہ تصورات کا کوئی دوسرا ’زمرہ‘ پہلے ’زمرے‘ کو بے دخل کردیتا ہے، اور اس طرح نئے تصورات اور نئے مفروضات قائم ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی عہد کے قارئین متن کی پرکھ کے لیے جن قوانین کا استعمال کرتے ہیں، یاؤس ان کے لیے ’افق اور توقعات‘ (HORIZON AND EXPECTATIONS) کی اصطلاحیں استعمال کرتا ہے جو’ زمرے‘ کے سائنسی تصور پر مبنی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ مثال کے طور پر اگر ہم انگریزی شاعری کے آگسٹن دور پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ پوپ کی شاعری اس وقت کے ادبی افق اور توقعات کے عین مطابق تھی۔ چنانچہ اس وقت اس کی سلاست و قدرت، شائستگی اور شکوہ، اور اس کے خیالات کے فطرت کے مطابق ہونے کی داد دی گئی۔تاہم اس زمانے کے ادبی افق اور توقعات کی رو سے پوپ کی شاعری کی قدر و قیمت ہمیشہ کے لیے طے نہیں ہوگئی۔ چنانچہ اٹھارویں صدی کے نصف دوئم کی انگریزی تنقید میں اکثر یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ کیا پوپ واقعی شاعر تھا، یا وہ محض ایک قادر الکلام ناظم تھا جس نے نظم میں قافیے ڈال کر اسے منظوم کردیا۔سچی شاعری کے لیے جو تخیل شرط ہے، کیا وہ پوپ کے یہاں ہے یا نہیں۔ بیسویں صدی میں اس بارے میں پھر تبدیلی ہوئی۔ ادھر دیکھیں تو پوپ کی جدید قرأتیں ایک بدلے ہوئے ذہنی افق اور دوسری طرح کی توقعات کے ساتھ ملتی ہیں۔ آج کل پوپ کی شاعری کو ایک ہی رنگ میں دیکھا جارہا ہے۔ یعنی صناعی کے علاوہ اس میں مزاح، اخلاقی بصیرت اور روایت کی علم برداریت، یہ سب خوبیاں تلاش کرلی گئی ہیں، اور قدر کی نگاہوں سے دیکھی جانے لگی ہیں‘‘( نارنگ، ص، ۳۰۴۔۳۰۳)۔ نارنگ کا سرقہ ابھی جاری ہے، صرف صفحہ تبدیل کرنے سے عیاں ہوجاتا ہے۔ توجہ فرمائیں، اور اس کے بعد نارنگ کی تعریفوں کے پل باندھنے کی بجائے اس حرکت کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کی اخلاقی و ادبی جرأت پیدا کریں۔ سیلڈن کا پیراگراف وہی ہے جو اوپر پیش کیا گیا ہے۔نارنگ کا سرقہ اسی کا تسلسل ہے

۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply