سرقے کا کوہ ہمالیہ....دوسرا حصہ

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


عمران شاہد بھنڈر....برمنگھم

سرقے کا کوہ ہمالیہ........ دوسرا حصہ

نارنگ نے اسی انٹرویو میں ایک اور دلچسپ نکتہ اٹھایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’بات کا زور بنائے رکھنے کے لئے اصل کے Quotationsبھی جگہ جگہ دیے ہیں تاکہ فلسفیانہ نکتہ یا مفکرین کی بصیر پوری قوت سے اردوقاری تک منتقل ہوسکے‘‘(ص،۱۱)۔ اس اعتراف سے ان کی بدنیتی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ اس کتاب میں انگریزی کے Quotations موجود ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انگریزی کے یہ حوالہ جات نارنگ کے مابعد جدید مفکروں کے براہِ راست مطالعے کا نتیجہ نہیں ہیں۔ قارئین آگے چل کر دیکھیں گے کہ سیلڈن کی جس کتاب سے نارنگ نے جن ابواب کا سرقہ کیا ہے، ان ابواب میں جو Quotations سیلڈن نے قاری کی افہام و ترسیل کے لیے مابعد جدید مفکروں کی کتابوں سے استعمال کیے ہیں، نارنگ نے بھی ان کو بالکل اسی طرح لکھ دیا ہے۔ یہ حوالہ جات سیلڈن یا دوسرے شارحین نے پیش کیے ہیں۔ نارنگ انٹرویو میں دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں۔

راقم نے اپنے پہلے مضمون میں یہ واضح کردیا تھا کہ Quotations کا اس طرح استعمال قاری کو احمق بنانے کی غرض سے کیا گیا ہے۔ پوری کتاب میں کوئی ایک بھی اقتباس ایسا نہیں ہے جسے براہ راست اصل ذرائع یعنی نظریہ سازوں کی کتاب سے پیش کیا گیا ہو۔ تماشہ یہ ہے کہ فوکو، دریدا بارتھ اور دوسرے کئی مفکروں کی کتابوں کی تفصیل بھی دے رکھی ہے مگر ان کتابوں سے کوئی ایک اقتباس تک پیش نہیں کیا گیا۔اگر کوئی بھی اقتباس پیش ہی نہیں کیا گیا تو مصادر میں ان کتابوں کی تفصیل پیش کرنے کی وجہ کیا ہے؟ہماری سمجھ میں صرف یہ وجہ آتی ہے کہ نارنگ نے پوری تیاری کے ساتھ قاری کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے نارنگ کی کتاب کے ہر ایک صفحے کو انتہائی توجہ سے پڑھا ہے، اور مغربی نظریہ سازوں (دریدا، فوکو، لاکاں، بارتھ وغیرہ) اور ان کے شارحین ( نورس، سیلڈن، ہاکس، بیلسی وغیرہ) کی کتب کا بھی توجہ سے مطالعہ کیا ہے۔ نارنگ کی کتاب میں’’ ساختیات ، پس ساختیات اور رد تشکیل‘‘ سے متعلق ’بحث‘ صفحات ۳۳۴۔۳۳ تک جاری ہے۔ ہمارا یہ چیلنج ہے کہ صفحہ ۳۳ سے لے کر صفحہ ۳۳۴ تک (ساختیات اور مابعد ساختیات کی بحث سے متعلق)صرف بیس صفحات ایسے نکال کر دکھا دیے جائیں جو مغربی مفکروں کی کتابوں کا لفظ بہ لفظ ترجمہ نہ ہوں۔ نارنگ یا ان کا کوئی بھی حواری اگر بیس سے زائد صفحات پیش کرتا ہے تو ہم محض ایک ہفتے کے اندر وہ تمام حوالے پیش کردیں گے جو نارنگ

کے لفظ بہ لفظ ترجمے کو ایک بار پھرثابت کریں گے۔ نارنگ نے البتہ انتہائی چالاکی سے ایک چال یہ کھیلی ہے کہ کہیں کہیں یا دو فقروں میں غالب وغیرہ کا نام بھی لیا ہے۔ اس کا محرک یہ ہے کہ جہاں کہیں سیلڈن یا کسی دوسرے شارح نے جان ملٹن یا ورڈزورتھ کی مثال پیش کی، نارنگ نے وہاں پر غالب کو داخل کرلیا، لیکن ان فقروں کی تعداد اس قدر محدود ہے کہ ان کو ملا کر بھی بیس صفحات مکمل نہیں ہوسکتے۔ نارنگ کے سرقے کے بارے میں ہمارے انکشاف کو گروہ بندی کی آڑ میں چھپانے کا رجحان بھی نظر آرہا ہے۔ اس سلسلے میں حیدر قریشی نے درست لکھا ہے کہ یہ خالصتاََ علمی و ادبی معاملہ ہے، اسے پروپیگنڈے سے نہیں بلکہ دلائل سے حل کیا جاسکتا ہے۔ راقم اس سلسلے میں دوٹوک الفاظ میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس سرقے کا کسی بھی گروہ بندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تمام کتاب کا سرقہ تقریباََ بارہ برس تک جس طرح گروہ بندیوں کے شکار ادیبوں اور نقادوں کی نظروں سے اوجھل رہا،اس سے ان کی علمیت کا اصل چہرہ بھی سامنے آجاتا ہے۔

اس سلسلے میں دو سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں: اول یہ کہ یا تو یہ خود ساختہ ادیب و نقاد جانتے تھے کہ نارنگ نے یہ سرقہ کیا ہے، مگر خود بھی اسی کشتی کا سوار ہونے کی وجہ سے خاموش رہے۔ دوئم یہ کہ ان نقادوں کا اتنا مطالعہ ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ سرقے کی حقیقت تک پہنچ سکتے۔ اگر مطالعہ نہیں تھا تو سماجی اور تنقیدی نظریات کے بارے میں کم علمی کی وجہ سے ان کے ’بڑے نقاد‘ ہونے پر بھی سوالات قائم کیے جاسکتے ہیں۔ اگر ان کا مطالعہ وسیع ہے اور گروہ بندیوں میں مقید یہ نقاد خود ساختہ نقاد نہیں ہیں، تو پھر بحیثیت ادیب و نقاد ان کے ادبی و تنقیدی کردار کو شک سے بالا قرار دینا کم از کم ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہمارا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ نارنگ کو بدنام کیا جائے، بدنام کرنے یا ہونے کا پہلو کسی کی ذات سے جڑا ہوتا ہے۔ اس وقت نارنگ کو اپنی ادبی ساخت کے حوالے سے اگرکسی سے کوئی خطرہ درپیش ہے تو وہ صرف سارق نارنگ ہی سے ہے۔ جس دن گوپی چند نارنگ نے ادبی دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارق نارنگ کا سامنا کرلیا، تو نقاد نارنگ ہی سارق نارنگ کو دفن کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ نارنگ نے بہرحال کچھ اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کردیے ہیں، جن کا ادب و علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نارنگ اور ان کے حواریوں کی جانب سے شائع ہونے والی تحریر میں شخصیت پرستی کچھ اس انتہا کو پہنچتی دکھائی دی ہے کہ ادبی اقدار پارہ پارہ ہوتی نظر آرہی ہیں۔ان ’تحریروں‘ میں ہمارے مضامین کے مطالعے کے بغیر محض نارنگ کے مشورے ہی سے اصل نکات سے توجہ ہٹانے کے لیے، حقائق کو مسخ کرتے ہوئے ،مصنف کی ذات کو موضوع بنایا جارہاہے، اس لیے ضروری یہ ہے کہ نارنگ اور ہمنوا اور سنجیدہ قارئین کی توجہ ایک بار پھر نارنگ کے سرقے اور نارنگ کی غلط ما بعد جدید تعبیروں پر مرکوز رکھیں، تاکہ علمی و فکری بددیانتی کا یہ پہلو، جسے نارنگ اور حواریوں نے تکریم بخشنے کی کوشش کی ہے ،کہیں ذاتیات اور فرقہ پرستی کی نظر نہ ہوجائے۔نارنگ کے حواریوں کی تحریریں راقم کے مضامین کے مطالعے کا ماحصل نہیں ہیں۔ محض ادبی سازش کا حصہ ہیں۔ علمی و فکری اعتبار سے ان ’تحریروں‘ کا جواب دینا قطعاََ غیر ضروری ہے۔ ان تحریروں میں نارنگ یا سرقے کی مدح سرائی کے علاوہ ذاتی حوالوں سے لکھے گئے مواد میں حتی المقدور حقائق کو مسخ کیا جارہا ہے، اس لئے بعض موقعوں پر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ حقائق کو درستگی کے ساتھ پیش کیا جائے۔ نارنگ کے ایک حواری حیدر طبا طبائی نے انتہائی دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارا تعلق ’’جماعت احمدیہ‘‘ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا نارنگ کے سرقے کے متعلق کیے گئے انکشافات سے کیا تعلق ؟ادبی و علمی معاملات کو فرقہ پرستی کی نذر کرنا واقعی نارنگ اور حواریوں سے بہتر اور کوئی نہیں جانتا۔ اس طرح کے انتہائی مضحکہ خیز ہتھکنڈے یقیناََ وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جو خود پر ادب کا لبادہ تو اوڑھ لیتے ہیں، لیکن اپنی سرشت میں پیوست غیر ادبیت کے پہلوؤں سے نجات نہیں پاسکتے۔اس موقع پر یہ جاننا ضرروی نہیں کہ کس کا کس فرقے یا مذہب سے کیا تعلق ہے، کیونکہ یہ بحث تو ادب و تنقید کے بارے میں ہورہی ہے، اور ادب ان لوگوں کے لیے ’اعلیٰ آدرشوں‘ اور ’’آفاقی اقدار کا ترجمان‘‘ ہوتا ہے۔

ادب کی بحث میں’ جماعت احمدیہ‘ ہو یا ’جماعت جعفریہ‘، جماعیت برہمنیہ ہو یا ’جماعت شودریہ ‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اقبال ہی کو دیکھیں کہ فرقہ پرستوں نے اس شریف انسان کو جماعت کافریہ سے جوڑنا شرع کردیا۔ خود نارنگ کو دیکھیں کہ کس طرح بھگوان کی منشا کے خلاف جاکر مغربی ملحد مفکروں کی تھیوریوں کو ’پرشاد‘ سمجھ کر قبول کر رہے ہیں۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ادب کی بحث میں اگر کسی فرقے کو تضحیک کی نظر سے دیکھنا ہے تو وہ صرف فرقہ سارقیہ ہے ، دورِ جدید میں جس کے سب سے اہم نمائندے اردو کے ماہرِ لسانیات، ہندوستان کے معتبرترین اعزازات سے نوازعے ہوئے شری گوپی چند نارنگ ہیں۔ فرقہ سارقیہ سے نفرت کرنا سچے اہل قلم لوگوں کی مجبوری ہے۔ یہ نفرت دائمی نہیں ہے، یہ سارقوں کی اپنے سرقے کو قبول کرنے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساسِ ندامت کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی۔ اس مضمون میں ہماری یہ کوشش ہے کہ سرقے اور ترجمے سے متعلق کچھ مزید حقائق سامنے لائے جائیں۔ اس سے قبل بھی یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ نارنگ نے رامن سیلڈن کی کتاب Contemporary Literary Theory میں سے بہت زیادہ سرقہ یا ترجمہ(تسلیم کرنے کی صورت میں) کیا ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق نارنگ نے سیلڈن کی کتاب کا پہلا اور آخری باب چھوڑ کر تقریباََ تمام کتاب کا ترجمہ کردیا ہے۔ایگلٹن، جیمسن، یاؤس اور رفارٹےئر وغیرہ پر لکھا گیا ایک ایک لفظ سیلڈن کی کتاب میں سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ ان ابواب پر نظر ڈالتے ہیں جو اس سے قبل کہیں بھی پیش نہیں کیے گئے۔ اور پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ شخص سارق ہے یا مترجم؟ سیلڈن لکھتے ہیں۔

Eagleton, like Althusser, argues that criticism must break with its 'ideological prehistory' and become a 'science'. The central problem is to define the relationship between literature and ideology, because in his view texts do not reflect historical reality but rather work upon ideology to produce an effect of the 'real'. The text may appear to be free in its relation to reality (it can invent characters and situations at will), but it is not free in its use of ideology. 'Ideology' here refers not to formulated doctrines but to all those systems of representations (aesthetic, religious, judicial and others) which shapes the individuals mental pictures of lived experience. The meanings and perceptions produced in the text are a reworking of ideologie's on working of reality. This means that the text works on reality at two removes. Eagleton goes on to deepen the theory by examining the complex layering of ideology from its most general pre-textual forms to the ideology of the text itself. He rejects Althusser's view that literature can distance itself from ideology; it is a complex reworking of already existing ideological discourses. However, the literary result is not merely a reflection of other ideological discourses but a special production of ideology. For this reason criticism is concerned not with just the laws of literary form or the theory of ideology but rather with 'the laws of the production of ideological discourses as literature'. Eagleton surveys a sequence of novels from George Eliot to D.H Lawrence in order to demonstrate the interrelations between ideology and literary form.... Eagleton examines each writer's ideological situations and analyses the contradictions which develope in their thinking and the attempted resolutions of the contradictions in their writing. After the destruction of liberal humanism in the first world war Lawrence developed a dualistic pattern of 'female' and 'male' principles. This antithesis is developed and reshuffled in the various stages of his work, and finally resolves in the characterisation of mellors (Lady Chatterley's Lover) who combines impersonal 'male' power and 'female' tenderness. This contradictory combination, which takes various forms in the novels, can be related to a 'deep-seated ideological crises' within contemporary society. The impact of poststructuralist thought produced a radical change in Eagleton's work in the late 1970s. His attention shifted from the 'scientific' attitude of Althusser towards the revolutionary thought of Brecht and Benjamine. This shift had the effect of throwing Eagleton back towards the classic Marxist revolutionary theory of the Thesis on Feuerbach (1845): 'The question whether objective truth can be attributed to human thinking is not a question of theory but is a practical question...The philosophers have only interpreted the world in various ways; the point is to change it'. Eagleton believes that 'deconstructive' theories, as developed by Derrida, Paul de Man and others can be used to undermine all certainties, all fixed and absolute forms of knowledge..............Raman Seldon, Contemporary Literary Theory, 3rd ed, Britain, 1993,P, 92-93.

واضح رہے کہ سیلڈن کا ایگلٹن پر یہ

مضمون ختم نہیں ہوا(ہم دیکھیں گے کہ نارنگ کا سرقہ بھی ختم نہیں ہوتا)، بلکہ سیلڈن کی کتاب میں صفحہ نمبر ۹۵ تک جاتا ہے۔ اس کے بعد سیلڈن نے جیمسن پر بحث کا آغاز کردیا ہے۔یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشیں رہے کہ ایگلٹن کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے یہ سیلڈن کا لکھا ہوا ہے۔ سیلڈن نے ایگلٹن کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور قاری کے لیے چند صفحات پر ہی ’’افہام و ترسیل‘‘ کو کو ممکن بنادیا۔ایسا لگتا ہے کہ نارنگ افہام و ترسیل کا مطلب بھی نہیں جانتے۔ نارنگ کے انتہائی علمی و فکری سطح پر معذور حواری بھی نارنگ کا یہی اقتباس پیش کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ علمی بددیانتی کے تسلسل نے علمی و ادبی روح تک ان کے باطن میں پیدا نہیں ہونے دی۔ ایگلٹن کے حوالے سے نارنگ کے برعکس ، یہ تجزیہ اور’’افہام و ترسیل‘‘ پروفیسر سیلڈن کی ہے۔ نارنگ کے لفظ بہ لفظ ترجمے کو قاری کے سامنے لانا ضروری ہے۔نارنگ کا ’’بے دھڑک‘‘ ہونا ملاحظہ کریں’’التھیوسے سے اتفاق کرتے ہوئے ایگلٹن کہتا ہے کہ’تنقید کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئیڈیولاجیکل ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کرے اور سائنس بن جائے۔‘ اصل مسئلہ ادب اور آئیڈیالوجی کے رشتے کا تعین ہے، کیونکہ ادب تاریخی حقیقت کا عکس پیش نہیں کرتا، بلکہ آئیڈیالوجی کے ساتھ عمل آرا ہوکر حقیقت کا اثر پیدا کرتا ہے۔ متن حقیقت سے اپنے رشتے میں آزاد ہے، وہ کرداروں اور صورتحال کو آزادانہ خلق کرسکتا ہے، لیکن آئیڈیالوجی سے اپنے رشتے میں آزاد نہیں۔ آئیڈیالوجی سے صرف وہ سیاسی تصورات اور اصول و ضوابط مراد نہیں جن کا ہم شعور رکھتے ہیں ، بلکہ بشمول جمالیات، الہیات، عدلیات، وہ تمام نظامات جن کی روح سے فرد ’جھیلے ہوئے تجربے‘ کا ذہنی تصور قائم کرتا ہے۔ متن کے ذریعے رونما ہونے والے معنی اور تصورات دراصل اس تصورِ حقیقت کا بازِ تصور ہوتے ہیں جنھیں آئیڈیالوجی نے قائم کیا ہے۔ اس طرح گویا متن میں حقیقت کا تصور دو طرح سے در آتا ہے۔ ایگلٹن متن سے پہلے کی اور بعدکی آئیڈیالوجی کی شکلوں اور ان کے پیچیدہ رشتوں کا تجزیہ کرکے اپنے نظریے میں مزید وسعت پیدا کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے التھیوسے کا یہ کہنا مناسب نہیں کہ ادب آئیڈیالوجی سے فاصلہ پر ہوتا ہے

۔بقول ایگلٹن ادب تو آئیڈیالوجی کے مباحث کی بازیافت ہوتا ہے۔بہرحال نتیجتاََ ادب آئیڈیالوجی کے مباح کے عکس کے طور پر نہیں، بلکہ آئیڈیالوجی کی ایک خاص ’پیداوار‘ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔بس تنقید کا کام صرف ہےئت کے اصول و ضوابط کا یا آئیڈیالوجی کا نظریاتی تعین نہیں، بلکہ ان قوانین کا طے کرنا بھی ہے، جن کی رو سے آئیڈیولاجیکل مباحث ادب کی ’پیداوار‘ میں ڈھلتے ہیں۔ایگلٹن جارج ایلیٹ سے ڈی ایچ لارنس تک متعدد ناولوں کا مطالعہ کرتا ہے اور دکھاتا ہے کہ آئیڈیالوجی ادبی ہےئت میں کیا رشتہ ہے۔ ایگلٹن ہر مصنف کے آئیڈیولاجیکل موقف کا جائزہ لیتا ہے اور تجزیہ کرکے ان کے افکار کے تضادات کو ظاہر کرتا ہے، اور یہ کہ بلآخر ان تضادات کو حل کرنے کی کیا کوشش کی گئی۔پہلی جنگ عظیم کے بعد لارنس کے یہاں ’مردانہ‘ اصول اور ’نسوانی‘ اصول کی ثنویت ملتی ہے، بہرحال اس کا ’ردمقدمہ بھی رونما ہوتا ہے‘ اور کئی منزلوں سے گزرتے ہوئے بلآخر ’لیڈی چیٹر لیز لور‘ میں میلرز کے کردار میں حل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یعنی میلرز کا کردار غیر شخصی سطح پر ’مردانہ‘ قوت اور ’نسوانی‘ نرمی دونوں کا بیک وقت حامل ہے۔بقول ایگلٹن اس طرح کے متضاد ارتباط اس اندرونی آئیڈیولاجیکل کرائسس کو ظاہر کرتے ہیں جس کا سماج شکار ہے۔۱۹۷۰ کے بعد پسِ ساختیاتی فکر کے باعث ایگلٹن کے کام میں بنیادی تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ اب اس کی توجہ التھیوسے کے سائنسی رویے سے ہٹ کر بریخت اور بینجمن کی انقلابی فکر پر مرکوز ہوگئی۔ نتیجتاََ ایگلٹن


مارکس کے کلاسیکی انقلابی نظریےThesis on Feuerbach (1845)

.''THE QUESTION WHETHER OBJECTIVE TRUTH CAN BE ATTRIBUTED TO HUMAN THINKING IS NOT A QUESTION OF THEORY BUT AIS A PRACTICAL QUESTION.... THE PHILOSOPHERS HAVE ONLY INTERPRETED THE WORLD IN VARIOUS WAYS; THE POINT IS TO CHANGE IT'

'. ایگلٹن کو اس سے اتفاق ہے کہ نظریہ رد تشکیل جس کو دریدا ، پال دی مان اور دوسروں

نے قائم کیا ہے، اس کو پہلے سے طے شدہ معنی کو بے دخل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے‘‘ (نارنگ، ۲۶۵۔۲۶۴)۔واضح رہے کہ نارنگ کا سرقہ جاری ہے جو صرف ایگلٹن کی بحث میں ہی صفحہ نمبر ۲۶۷ تک چلا جاتا ہے۔ ’’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات ‘‘ کی کتاب دو کے پانچویں باب میں ’’مارکسیت، ساختیات اور پس ساختیات ‘‘ کے عنوان سے ایگلٹن وغیرہ پر لکھا گیا تمام مواد لفظ بہ لفظ اٹھالیا گیا ہے، وہاں پر صفحات کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ مصادر میں کتاب دو کے پانچویں باب کی تفصیل صفحہ ۳۳۲ پر دی گئی ہیں، وہاں پر بھی صفحات کی تفصیل موجود نہیں ہے۔گوپی چند نارنگ نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’جہاں ضروری تھا وہاں تلخیص اورترجمہ بھی کیاہے۔ بات کا زور بنائے رکھنے کے لئے اصل کے Quotationsبھی جگہ جگہ دیے ہیں۔‘‘ مذکورہ بالا اقتباس پر توجہ مرکوز کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ نارنگ نے تمام و کمال اس کو سیلڈن کی کتاب سے ترجمہ کردیا ہے، مگر اس اقتباس میں ایک Quotation انگریزی میں دی گئی ہے، جس سے یہ تائثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ صرف یہی ایک اقتباس کسی دوسرے مصنف سے ماخوز ہے، نارنگ نے انٹرویو میں کہا ہے کہ جہاں ضرورت محسوس کی گئی وہاں ’’بات کا زور بنائے‘‘ رکھنے کے لیے Quotation پیش کیے گئے ہیں، جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس انداز میںQuotation کا استعمال بات کا ’زور بنائے رکھنے‘ کے لیے نہیں، بلکہ ذہنی طور پر اپاہج حواریوں میں ’اپنا زور بنائے‘ رکھنے کی کوشش ہے، جس میں ان کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔مذکورہ بالا اقتباس سے ایسا لگتا ہے کہ اردو میں لکھا گیا ہر لفظ نارنگ کا تجزیہ ہے، یہ کہنا ادبی مفہوم میں کسی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرنے کے مترادف ہوگا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply