کرگس کا جہاں اور ہے ...

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


شمیم طارق......ممبئی

کرگس کا جہاں اور ہے ...

(مدیر اثبات ممبئی کے نام ایک کھلاخط)

نوٹ از ادارہ:ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں کے دفاع میں ابھی تک ان کے کسی بہی خواہ کو علمی کامیابی نہیں ملی۔شمیم طارق کے اس مکتوب نما مضمون میں بھی نارنگ کے سرقوں کا کوئی معقول جواب نہیں دیا گیا۔عمران شاہد بھنڈر کے حوالے سے ابھی تک یہی تاثر بن پایا ہے کہ وہ انگلینڈ میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے جانے سے پہلے پاکستان میں اپنے موضوع مابعد جدیدیت پراردو میں لکھا ہواجو کچھ پڑھ کر گئے تھے،وہ ان کے کام آگیا ہے۔اصل کتابوں تک رسائی کے بعد انہوں نے بجا طور پر ایک اچھے طالب علم کی طرح ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں کو نشان زد کر دیا ہے۔ علمی و ادبی طور پر ابھی یہی خاص کام ہی ان کی پہچان ہے۔اس مضمون میں علامہ اقبال پرعمر ان شاہد کے نامناسب اعتراضات کے جواب میں شمیم طارق نے بجا طور پر گرفت کی ہے۔میں اس معاملہ میں شمیم طارق سے لفظ بلفظ متفق ہوں،لیکن نارنگ کے سرقوں کی جو نشاندہی عمران شاہد بھنڈرنے کی ہے وہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔اس حقیقت سے انکارکرنا بے جاضد ہے۔ ارشد خالد

’’اثبات‘‘ کے دونوں شمارے موصول ہوئے۔ آپ نے اس کے اجرا کی تقریب میں خلوص سے مدعو کیا تھا مگر میں شریک نہیں ہوسکا تھا۔ کسی مدیر کے ناراض ہو جانے کے لیے یہی ایک وجہ کافی تھی مگر یہی نہیں کہ آپ ناراض نہیں ہوئے بلکہ آپ نے دوسرے شمارے میں غالب اکیڈمی ، نئی دہلی میں دیے ہوئے میرے خطبے کے ایک حصے کو بھی شائع کیا،ممنون ہوں۔ دونوں شمارے ایک ساتھ زیر مطالعہ ہیں ، کیوں کہ پہلا شمارہ بہت تاخیر سے ملا تھا۔ پیشکش اور مشمولات کے اعتبار سے دونوں ہی شمارے آپ کے ستھرے ذوق اور خوش سلیقگی کے مظہر ہیں۔ آپ کے اندر اتنا اچھا مدیر چھپا بیٹھا تھا، اس کا اندازہ شاید ہی کسی کو رہا ہو لیکن اب لوگوں کو آپ کی صلاحیت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ رسالہ جاری رکھنے کے ساتھ نظر بد سے بچاؤ کی تدبیر بھی کرتے رہیں۔

اردو دنیا میں بدنظروں کی کمی نہیں ہے۔آپ نے اچھا کیا کہ پہلے ہی شمارے میں باور کرادیا کہ برا مضمون لکھنے ، شائع کرنے اور پڑھنے سے بہتر ہے کہ پرانے مگر معیاری مضامین شائع کرکے اہل ذوق کے ذہن اور زبان کی صحت و سلامتی کی کوشش کی جائے۔ پریم چند کا مضمون ’’اردو میں فرعونیت‘‘ باربار پڑھے جانے کا متقاضی ہے ، کیوں کہ ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جن میں ’’اشتعال انگیز تحریر کا خداداد ملکہ ہے‘‘۔ کچھ نئے مضامین بھی اچھے ہیں لیکن شعری حصہ بہت کمزور ہے۔ بشمول شمس الرحمن فاروقی جن کی رفیقۂ حیات کی یاد میں یہ شمارہ ترتیب دیا گیا ہے، کسی شاعر کا کلام متا ثر نہیں کرتا۔ غالب نے اپنی بیگم کے بھانجے کے انتقال پر اور حالی نے دلّی کے اجڑنے پر جو اشعار کہے تھے، وہ آج بھی پڑھنے والوں کو سوگوار بنا دیتے ہیں۔ جانثاراختر کی بعض نظموں میں صفیہ اختر کی یاد اس طرح جذب ہے کہ ان نظموں کے پڑھنے والے ایک عجیب سی کیفیت میں ڈوب کر حرف ولفظ میں بسی ہوئی دل کی دھڑکنیں بھی سن لیتے ہیں۔ آوارہ سلطان پوری نے جن کا چند برس پیشتر ممبرا (تھانہ) میں انتقال ہوا، اپنی اہلیہ کے انتقال پر چند شعر کہے تھے اور جب وہ ان شعروں کو نشستوں میں سناتے تھے تو شعرا اور سامعین کی آنکھیں چھلک جاتی تھیں۔

اقبال کی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ تو اردو ادب کا شاہ کار ہے۔ فاروقی صاحب کے اشعار میں ایسی کوئی کیفیت نہیں ہے جو پڑھنے یا سننے والوں کو متاثر کرے۔ البتہ ان کے مضمون ’’اواخر صدی میں تنقید پر غور وخوض‘‘ میں ایک بہت اہم نشان دہی یہ کی گئی ہے کہ ’’آج کل جیسی کتابیں تنقید کے نام پر مغرب خاص کر امریکہ میں لکھی جارہی ہیں ان کی اوسط زندگی دوچار برس سے زیادہ نہیں‘‘۔ اس جملے میں یہ تلقین موجود ہے کہ ہم اردو والوں کو آنکھ بند کرکے مغرب کی تقلید کرنے کے بجائے اپنی مٹی، ماحول اور مزاج سے ہم رشتہ رہنا چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی کھل کرکہنا چاہیے کہ اردو میں شائع ہونے والی کتابوں کی اکثریت بھی ایسی کتابوں کی ہے جن کی زندگی دو چار برس تو کیا دوچار دن سے بھی زیادہ نہیں ہوتی۔نوادرات کا سلسلہ بہت مفید ہے۔عمران شاہد بھنڈر کو آپ نے دونوں شماروں میں جگہ دی ہے مگر ان کے دونوں مضامین پڑھ کر آنکھوں میں اس بوڑھی عورت کی شبیہ گھوم جاتی ہے جو اپنی گٹھری سنبھالتی ہے تو خود گر جاتی ہے اور خود کو سنبھالتی ہے تو گٹھری گر جاتی ہے۔ موصوف موضوع پر قابو رکھنے کے بجائے موضوع کے سامنے بے قابو ہوگئے ہیں۔ ’’اقبال اور لینن‘‘ کے عنوان سے انھوں نے جو کچھ لکھا ہے ، اس کا کوئی تعلق اقبال کی اس نظم سے پیدا ہونے والے تاثر یا تفہیم سے نہیں ہے جس کا عنوان ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ ہے۔ اس نظم میں ؂ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہےسود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجاتیہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومتپیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساواتجیسے شعروں کے ساتھ وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم حد اس کے کمالات کی ہے برق وبخاراتایسے شعر کیوں کہے ہیں؟ اس کا جواب کمیونسٹ اور غیر کمیونسٹ اہل قلم کی تحریروں میں موجود ہے۔ کمیونزم میں مذہب کی مخالفت کا ایک خاص پس منظر ہے۔ بعد والوں نے یا انتہا پسندوں نے اس پس منظر کا لحاظ نہیں رکھا ہے۔ میکسم گورکی کے ناول ’’ماں‘‘ کی ہیروئن ایک روز چھپ کر حضرت عیسیٰ (Jesus) کی تصویر کا بوسہ لے رہی ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا آجاتا ہے جو لامذہب ہوچکا ہے۔ ’’ماں‘‘ اس سے Jesus کی تصویر چھپانے کی کوشش کرتی ہے تو بیٹا کہتا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔’’ میں اس Jesus کا مخالف نہیں ہوں جس سے آپ پیار کرتی ہیں۔ میں تو غریبوں کا خون چوسنے والے Jesus کا مخالف ہوں‘‘۔عمران شاہد بھنڈر اگر اقبال کے خطوط اور بال جبریل کی تین نظموں ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘، ’’فرشتوں کا گیت‘‘ اور ’’فرمان خدا‘‘ ایک ساتھ پڑھتے تو انھیں مغالطہ نہ ہوتا۔ پہلی نظم میں اقبال نے لینن کی زبان سے خدا کے وجود کا اقرار کروانے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام پر سخت تنقید کی ہے۔ یہ اشعار ابہام سے پاک ہیں ، ان میں برہنہ گفتاری کا مظاہرہ کیا ہے ، اس کے باوجود ان اشعار میں بلا کی شعریت ہے۔ نظم کا اختتام اس سوال پر ہوتا ہے:تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقاتکب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظر روز مکافاتاس کے بعد کی نظم میں فرشتے اللہ رب العزت سے عرض کرتے ہیں کہ دنیا اور انسانیت کی ابھی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ ان کی تکمیل اس وقت ہوگی جب استحصال کا خاتمہ ہوگا۔عقل ہے بے زمام ابھی عشق ہے بے مقام ابھینقش گر ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی خلق خدا کی گھات میں رند وفقیہ میر وپیرتیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھیتیرے امیر مال مست تیرے فقیر حال مستبندہ ہے کوچہ گرد ابھی خواجہ بلند بام ابھیتیسری نظم میں استحصال نظام کے خاتمے کے لیے نازل ہونے والے ’’فرمان خدا‘‘ کو نظم کیا گیا ہے۔اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دوکاخ امرا کے درودیوار ہلادوسلطانئ جمہور کا آتا ہے زمانہجو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادولیکن اقبال کو اس حقیقت کا احساس ہے کہ وہ غیر طبقاتی نظام جو فرمان خدا کے نتیجے میں قائم کیا گیا ہو،

وہ مذہب و روحانیت سے خالی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اس نظم کا اختتام اس شعر پر کیا ہے میں ناخوش وبیزار ہوں مرمر کی سلوں سےمیرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دوسنگ مرمر اور مٹی کے حرم کہہ کر اقبال نے مذہبی لوگوں میں بھی طبقہ واریت کے موجود ہونے کی نشان دہی کی ہے یعنی اشتراکی جمہوریت اور اسلامی روحانیت میں دنیا کا مستقبل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے ایک جگہ لکھا بھی ہے کہ ’’اگر بالشوزم میں خدا کی ہستی کا اقرار شامل کرلیا جائے تو بالشوزم اسلام کے بہت قریب آ جاتا ہے‘‘۔ نظم کا فنی تجزیہ یا تنقیدی مطالعہ آسان کام نہیں ہے۔ جناب فضیل جعفری کا مضمون ’’یادیں۔ایک جائزہ‘‘ اگرچہ عجلت میں لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے ، اس کے باوجود عمران شاہد بھنڈر کو یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ نظم کا فنی تجزیہ کس کو کہتے ہیں یا کسی نظم کے توسط سے شاعر کے مطلع فکر و احساس تک رسائی کی کیا صور ت ہوسکتی ہے؟’’جدلیات، شعور اور مابعدجدیدیت‘‘ پر اردو میں کئی مضمون شائع ہوچکے ہیں۔ دوسرے شمارے میں شامل عمران شاہد بھنڈر کے مضمون میں موضوع کا ہر جزو ان کی گرفت سے باہر ہے۔ آپ نے ان کے تعارف میں لکھا ہے کہ ’’یہ وہی عمران شاہد بھنڈر ہیں جنھوں نے ابھی کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ پر سرقے کا الزام لگایا تھا‘‘۔ اس تعارف کی ضرورت شاید اس لیے پیش آئی کہ آپ بھی ان کے مضامین کے بارے میں کوئی اچھا جملہ لکھنے سے قاصر تھے مگر مشکل یہ ہے کہ الزام تراشی کسی قلم کار کا ادبی تعارف نہیں بن سکتی، نہ ہی الزام تراشی کی بنیاد پر کسی قلم کار کی ادبی حیثیت کو تسلیم کرایا جاسکتا ہے۔

اردو زبان و ادب اور تنقید و تحقیق کے اس بااعتبار اور باوقار شخصیت

(یہاں مکتوب نگار کی مراد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے ہے: مدیراثبات)

کے خلاف جنھیں شمس الرحمن فاروقی نے یقین دلایا ہے کہ:کسی فن پارے کو ہم کیا سمجھ کر پڑھیں؟ اس میں کس طرح کے معنی کی کارفرمائی ہے؟ فن پارہ جو کچھ بہ ظاہر کہہ رہا ہے ، اس کے پیچھے بھی کوئی بات ہے یا نہیں؟ کیا فن پارے کا کوئی داخلی نظام بھی ہے جو اس کے ظاہر سے بہ ظاہرکوئی خاص علاقہ نہیں رکھتا، لیکن جو دراصل اس کا اصل مفہوم ہے۔ اس آخری سوال سے جن نقادوں نے بحث کی ہے، ان کو وضعیاتی Structuralist کہا جاتا ہے۔ آپ نے وضعیاتی طریقۂ کار تو نہیں استعمال کیا ہے لیکن ہر باخبر نقاد کی طرح آپ نے وضعیاتی نقادوں کی بصیرت سے فائدہ ضرور اٹھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیدی کے بعض افسانوں میں اساطیری معنویت کا جو مطالعہ آپ نے پیش کیا ہے ، وہ اردو میں اپنی مثال آپ ہے۔ ممکن ہے آپ کی تشریح سے پورا اتفاق نہ کیا جائے لیکن بیدی کے افسانوں میں معنویت تلاش کرنے کے سلسلے میں آپ کا یہ مضمون سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے...لسانیات اور تاریخ ادب اور ترجمہ بھی وہ میدان ہیں جن میں آپ دور دور تک تنہا نظر آتے ہیں۔ہمارے اکثر معاصر یہاں آپ کے ہم عنان و ہم رکاب تو کیا ، آپ کے رہوار قلم کے پیچھے پیچھے بھی نہیں چل سکتے۔کیا یہ شان دار اعتراف حقیقت سرقہ کرنے والے کی عزت افزائی کے لیے ہے؟ایک بات اور عرض کردوں کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں سرقہ کرنے والے میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ایک زبان سے تھیوری کا سرقہ کرکے کسی دوسری زبان کے فن پارے کا تجزیہ کرسکے مگر نارنگ صاحب نے نہ صرف یہ فنی تجزیہ کیا ہے بلکہ فاروقی صاحب سے داد بھی پائی ہے کہ ’’بیدی کے افسانوں میں معنویت تلاش کرنے کے سلسلے میں آپ کا یہ مضمون سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔سرقہ کا الزام لگانا بہت آسان ہے۔

اقبال پر نہ صرف الزام عائد کیا گیا بلکہ بیدل اور قرۃالعین طاہرہ کے مصرعوں کی نشان دہی بھی کی گئی لیکن ایسا کرنے والے مرتے گئے ، اقبال کا اقبال بلند تر ہوتا رہا۔ پروفیسر نارنگ کے خلاف الزام تراشی بھی دھوپ میں برف کا باٹ ثابت ہوگی۔ انھوں نے اپنی کتاب کے دیباچے میں صاف صاف لکھ دیا ہے کہ’’افکار وخیالات تو فلسفیوں اور نظریہ سازوں کے ہیں، تفہیم و ترسیل البتہ میری ہے‘‘۔ کتاب کا انتساب بھی ان مفکرین اور نظریہ سازوں کے نام کیا ہے جن سے استفادہ کیا گیا ہے اور مفکرین بھی محض مغرب کے نہیں ہیں، مشرقی مفکرین بھی ہیں۔ میری نظرسے جناب شمس الرحمن فاروقی کا ایک خط گزر چکا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’یہ ایک بین العلومی کتاب ہے جس کی قدر زمانہ کرے گا‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ اس کتاب کی ایک سطر سطر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے مباحث کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ ہر باب کے ساتھ کتابیات کا بھی اندراج ہے ۔ جن سیکڑوں کتابوں کا حوالہ باربار آیا ہے، ان پر ستارے کا نشان ہے۔ نارنگ صاحب نے تو یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جو کچھ بن پڑا ، میں نے کیا ۔ بعد میں آنے والے مجھ سے بہتر کام کریں گے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ مسائل کو پانی کردیتے ہیں اور ان کی بات دل میں اترجاتی ہے۔ بھنڈر صاحب کو اللہ توفیق دے تو بجائے منفی چیز کے وہ نارنگ صاحب سے بڑا کام کرکے دکھائیں۔ اردو میں کام کرنے والوں کی بڑی ضرورت ہے۔مجھے یقین ہے کہ ’’اثبات‘‘ جس کا نقش ثانی، نقش اول سے بہتر ہے، اردو کی ادبی صحافت کو نیا معیار و مزاج عطا کرے گا۔ چھینٹا کشی کرنے اور غلاضت اچھالنے والے تو بہت ہیں۔ انھیں گندگی میں پڑے رہنے دیجیے۔ دوسروں پر اچھالنے کے لیے بھی گندگی ہاتھ لگانا پڑتا ہے جو آپ نہیں کرسکتے۔ اس لیے اپنے جہان تازہ کو تعفن اور گندگی سے پاک رکھیے۔ اقبال کے لفظوں میں’ کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مطبوعہ سہ ماہی اثبات ممبئی۔شمارہ نمبر ۳۔۲۰۰۹ء)

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply