نارنگ صاحب کا اصلی رنگ کیا ہے؟

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


ارون کمار

(دہلی)

نارنگ صاحب کا اصلی رنگ کیا ہے؟ساہتیہ اکادمی کے صدر کا چناؤ ہو چکاہے اور اردو کے دانشور گوپی چند نارنگ،مہا شویتا دیوی کو ہرا کے صدر کی کرسی پر براجمان ہو چکے ہیں۔جب تک وہ اس کرسی پر بیٹھے رہیں گے،اس پوری مدت ہمارے جیسے لوگ سوال کرتے رہیں گے کہ نارنگ صاحب کا رنگ کیا ہے؟ہم بلا خوفِ تنقید ،نئی معلومات کے

سہارے اعلان کرتے رہتے ہیں کہ نارنگ صاحب کا رنگ بھگوا ہے۔ سماج کے ہر فرد کو،ہر لکھنے پڑھنے والے کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اتہاس،زبان اور ادب کو ہمیشہ توڑنے کی،مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ذہنی طور پر لوگوں کو شکست دینے کے لیے،ان میں احساسِ کمتری پیدا کرنے کے لیے،انہیں غلام بنانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔اس لیے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ایسی ہر کوشش کی مخالفت کریں،مخالفت ہی نہیں احتجاج بھی کریں۔

گوپی چند نارنگ کو ساہتیہ اکادمی کی کرسی پر اس لیے بٹھایا گیا تاکہ سنگھ پریوار اتہاس کی طرح زبان و ادب کو بھی نشانہ بنا سکے۔صاحبان آر ایس ایس کے ہندی جریدہ’’پانچ جنّیہ‘‘میں ’’نامور کی وام پنتھی راج نیتی دھرا شائی‘‘مضمون شائع ہوا ہے جس میں گوپی چند نارنگ کے انتخاب کا سواگت کیا گیا ہے۔اسی سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ نارنگ صاحب کے آر ایس ایس سے لنکس ہیں۔سنگھ پریوار کے موجودہ دورِ اقتدار میں دو ہی خیمے ہیں

۔سنگھی اور سنگھ مخالف۔اس وقت سماج کا کوئی بھی فرد نیوٹرل نہیں ہو سکتا۔اگر وہ اپنے آپ کو نیوٹرل کہتا ہے تو سنگھی خیمے کی حمایت کرتا ہے،اسے تقویت پہنچاتا ہے۔ یعنی آپ یا تو سنگھ پریوار کے مخالف ہیں یا اس کے حمایتی،بیچ کا کوئی راستہ نہیں ہے۔اگر گوپی چند نارنگ اور ان کے حواری خود کو نیوٹرل بھی کہیں

تب بھی وہ سنگھ حمایتی ہی ہوں گے کہ ان لوگوں نے

سنگھ مخالف طاقتوں کی امیدوار مہاشویتا دیوی کے خلاف چناؤ لڑا تھا۔اس چناؤ کے بعد گوپی چند نارنگ کے حواری اور حمایتی کہہ رہے ہیں کہ نارنگ صاحب نے کیمونسٹوں کو شکست دے کر ادب کو بچا لیا ہے۔اس سلسلے میں ہندی ادب کے اشوک باجپئی اور کرشناسوبتی کا نام بھی کیمونسٹوں کے

زمرے میں رکھا جا رہا ہے۔دھیان دینے والی بات ہے کہ سنگھ پریوار کے لیے ہر سنگھ مخالف ’’کیمونسٹ‘‘یا ’’سیکولرسٹ‘‘ہوتا ہے۔اشوک باجپئی اور کرشنا سوبتی کیمونسٹ نہیں ہیں۔انہیں تو’’دہشت پسند‘‘کہا جاتا ہے جو لیفٹ نظریہ سے متاثر ’’حقیقت پسندی‘‘کے منافی ہے۔یہ دونوں بھی کٹّر سنگھ ورودھی ہیں اس لیے انہیں بھی کمیونسٹ خیمے میں داخل کر دیا گیاہے۔نامور سنگھ،کرشنا سوبتی،اشوک باجپئی وغیرہ گوپی چند نارنگ ساز کوئی ذاتی کھندک تو رکھتے نہیں۔نارنگ جہاں سنگھ حمایتی نظریہ کی نمائندگی کر رہے تھے،وہیں سنگھ مخالف طاقتیں مہاشویتادیوی کے ساتھ تھیں۔ظاہر ہے سنگھ مخالفین کی تعداد کم تھی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار اپنی

جڑیں تیزی سے جماتا جا رہا ہے اور وقت رہتے اس کا مداوا نہ کیا گیا تو ملک کے ہر سیکولر ادارے پر اس کا قبضہ ہو جائے گا۔ (مطبوعہ روزنامہ قومی آواز دہلی۔۷مارچ ۲۰۰۳ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب ذرا اس سارے منظر کوبھاجپا صدر وینکٹ نائڈوکے اس ہدایت نامے کی روشنی میں دیکھیے جس میں انہوں نے بھاجپا کے کلچر کے وزیر جگ موہن سے کہا تھا کہ وہ تینوں قومی اکادمیوں میں ان کو منصب دار بنائیں جو بھاجپا کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور بائیں بازو کا رجحان رکھنے والوں کو اکادمیوں سے نکال باہر کریں۔

(زبیر رضوی کے تحریر کردہ ذہنِ جدیدکے اداریہ سے اقتباس)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بی جے پی رہنما مُرلی منوہر جوشی کی مدح میں رطب اللسانڈاکٹر مُرلی منوہر جوشی ہندی اور سنسکرت کے ساتھ ساتھ اردو سے بھی آشنا ہیں۔اگرچہ انہوں نے اردو کے بارے میں کبھی دعویٰ نہیں کیا،لیکن جو لوگ اردو کے لیے دعوے کرتے رہتے ہیں ان سے بہتر کام انہوں نے کر دکھایا ۔پچھلے دو تین برسوں میں پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ وزارت میں اردو کے بارے میں فضا بدلی ہے۔اب اردو وزارت کا دشوار ایجنڈا نہیں ہے،کوئی اچھوت موضوع نہیں ہے۔

سب دل و جان سے اردو کا کام کرتے ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے قومی اردو کونسل کا بجٹ ایک کروڑ سے بڑھ کر آٹھ کروڑ ہو گیا ہے۔خود ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو اس بات کا یقین ہے کہ اردو ہماری قومی میراث کا ایک حصہ ہے۔ہمیں اپنی تہذیب کے رنگوں کو اور چوکھا کرنا ہے یا قومی زبان ہندی کو ہی مضبوط کرنا ہے تو پورے نقشے میں کوئی دوسری جدید ہندوستانی زبان یندی سے اتنی قریب نہیں جتنی اردو۔۔۔۔ہر چند کہ ہندی کا سرچشمہ سنسکرت ہے لیکن عام استعمال اور روزمرہ کی سب سے بڑی طاقت اردو سے آتی ہے۔اردو ہند آریائی زبان ہے۔اردو کی جڑیں ہندوستان میں ہیں۔سواگر میں کہوں کہ ڈاکٹر جوشی اردو کے اداشناس ہیں اور اس میں ان کی انسانیت کا بھی کار گر ہے اور ان کی سائنسی نظر بھی تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔۔۔حق بات تو یہی ہے کہ اگر حق کا اقرار نہ کیا جائے تو یہ نا حق ہے

۔ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی صحیح معنوں میں اردو کے ماتھے پر تلک ہیں۔

(بحوالہ تماشائے اہلِ قلم،مرتب فاروق ارگلی۔صفحہ نمبر ۵۷)

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply