حق گوئی و بے باکی کا جنازہ

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


ایک یونیورسٹی میں حق گوئی و بے باکی کا جنازہ

مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد کی جانب سے ڈاکٹرگوپی چند نارنگ کو ۲۱فروری ۲۰۰۹ء کو ڈی لٹ کے اعزازسے سرفراز کیا گیا۔۔

۔۔۔۔ادارہ عکاس انٹر نیشنل کی جانب سے بیسویں صدی کے سب سے بڑے علمی و ادبی سارق کویہ اعزاز دینے پر یونیورسٹی کو مبارکباد!’’جدید ادب‘‘ کے تین شماروں میں مابعد جدیدیت سے متعلق جو تاریخی مواد محفوظ ہوچکاہے۔ وہ ریاست کرناٹک کے ایک چھوٹے سے گاؤں تماپور تک بھی پہنچ چکاہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ساری دنیا میں پھیل چکاہے تو کیا ہندوستان کی کسی بھی یونیورسٹی تک اس مدلل اور تحقیقی مواد کی اطلاع بھی نہیں پہنچی ہوگی؟ مسروقہ مال پر اپنانا جائز قبضہ جماکر اس طرح کی ادبی جعلسازی کو اپنا کارنامہ بناکر پیش کرنے والے کو ہماری یونیورسٹیوں میں آج بھی اعزازی ڈگریوں سے نوازا جارہاہے۔ تہنیتی پروگرام منعقد کئے جارہے ہیں۔۔۔ اپنی بُرائی کو چھپانے کیلئے لوگ کیاکیا ڈھونگ رچارہے ہیں۔ ہمارے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے، حق گوئی اور بیباکی کے جنازے اٹھائے ہوئے بازار میں آچکے ہیں۔ہمارا تعلیمیافتہ، دانشور طبقہ خاموش تماشائی بناہواہے۔ کوئی احتجاج نہیں، کوئی اختلاف نہیں اور کوئی حق گوئی کیلئے منہ کھولنے کو تیار نہیں۔ تنہا تما پوری کے خط بنام حیدرقریشی سے اقتباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردو اکادمی دہلی کے توسط سے اردو کا کیا بھلا کیا گیا؟ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے ٹورنٹو،کناڈا کی ایک نجی محفل میں کہا کہ:’’اردو اور ہندی ایک ہی زبان کا نام ہے۔بلکہ اردو تو کوئی زبان ہی نہیں،دراصل ہندی کو اردو کا نام دے دیا گیا ہے‘‘واضح رہے کہ بعینہ یہی خبر موقر روزنامہ جنگ کراچی میں اس کے ٹورنٹو کے نمائندے کے حوالے سے چھپی تھی۔جس کی کوئی تردید نہیں کی گئی تھی۔اب قارئین خود نتیجہ اخذ کر لیں اور فیصلہ فرمائیں۔مزید ثبوت کے لیے ماہنامہ’’قومی محاذ‘‘ اورنگ آباد،بھارت میں اگست ۲۰۰۰ء کے شمارے میں ’’گوپی چند ابن الوقتی کا شاہکار‘‘کے عنوان سے جو گرانقدر اور اہم اداریہ چھپا ہے،اس سے چند اقتباسات حاضر ہیں۔’’برسہا برس نارنگ کا اردو اکادمی دہلی پر قبضہ رہا۔۔۔نارنگ کا عہد در اصل دہلی پر بی جے پی اور سنگھ پریوار کے اقتدار کا عہد ہے۔نارنگ نے مابعد جدیدیت کے زیر عنوان ایک ادبی سرکس کی۔۔۔گوپی چند نارنگ سے پوچھا جانا چاہیے کہ دہلی میں اردو کی ترقی و بقا کی خاطر کیا کیا؟کتنے مدارس اور کالج قائم ہوئے؟اردو داں افراد کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا؟ظاہر ہے ایسے سوالات سے گوپی چند کو کیا لینا دینا ہے۔‘‘محمد احمد سبزواری کے اداریہ افکار کراچی۔شمارہ نومبر۲۰۰۰ء۔

بحوالہ مضمون ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی نیرنگیاں از

محسن بھوپالی

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply