گوپی چند نارنگ کی ’سچائی‘ اور تناظرسرقے کی زد میں......حصہ سوئم

Posted on Friday, October 9, 2009







عمران شاہدبھنڈر




(برطانیہ)




گوپی چند نارنگ کی ’سچائی‘ اور تناظرسرقے کی زد میں








حصہ سوئم




’’پروپ نے ایک سو لوک کہانیوں کا انتخاب کیا اور اپنے تجزیے سے بتایا کہ کرداروں اور ان کے ’تفاعل‘( FUNCTIONS) کی بناء پر ان لوک کہانیوں کی داخلی ساخت کو بے نقاب کیا جاسکتا ہے، اور ان کی درجہ بندی کس خوبی سے کی جاسکتی ہے۔ اس نے ان کہانیوں کے مختلف اور مشترک عناصر کا تجزیہ کیااور اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کہانیوں میں اگرچہ کردار بدلتے رہتے ہیں ، لیکن کرداروں کا ’تفاعل‘ (FUNCTIONS) مقرر ہے، اور تمام کہانیوں میں ایک سا رہتا ہے۔ کردار کے تفاعل کو کردار کا وہ عمل قرار دیتے ہوئے جو کہانی کی معنویت کے دوسرے اجزا سے جڑا ہوا ہے ، پروپ نے استقراری طور پر چار قوانین مرتب کیے جنھوں نے آگے چل کر لوک ادب اور بیانیہ کے مطالعے کے نئی دنیا فراہم کردی ۔ آفاقی اطلاقیت اور صداقت کے اعتبار سے قانون تین اور چار کو اکثر مفکرین نے سائنسی دریافت کا درجہ دیا ہے




:۱۔




کرداروں کے تفاعل کہانی کے راسخ اور غیر مذبذب عناصر ہیں،قطع نظر اس سے کہ کون ان کو سر انجام دیتا ہے،یہ کہانی کے بنیادی اجزا ہیں۔




۲۔




’تفاعل ‘ کی تعداد کہانیوں میں محدود ہے۔




۳۔




’ ’تفاعل‘ کی ’ترجیع ‘(SEQUENCE) ہمیشہ ایک سی رہتی ہے




۔۴




۔




باوجود تنوع کے تمام کہانیوں میں ساخت ایک جیسی ہے۔کرداروں کے ’تفاعل‘ (FUNCTIONS) کے اعتبا ر سے ایک کے بعد ایک کہانی کا تجزیہ کرتے ہوئے پروپ اس نتیجہ پر پہنچا کہ کہانیوں میں کرداروں کے ’تفاعل‘(FUNCTIONS) کی کُل تعداد اکتیس۳۱ سے کسی طرح نہیں بڑھتی،اور اگرچہ بعض کہانیوں میں عمل کی کچھ لڑیاں نہیں ملتیں، لیکن ہمیشہ اُن کی ترتیب وہی رہتی ہے۔۔۔۔۔ابتدائی منظر کے بعد جب گھرانے کے افراد سامنے آتے ہیں، اور ہیرو کی نشاندہی ہو جاتی ہے تو کہانی ان تفاعل (FUNCTIONS) میں سے سب یا بعض کی مدد سے اسی ترتیب سے بیان ہوتی ہے




:۱۔ خاندان کا کوئی فرد گھر سے غائب ہو جاتا ہے




۔۲۔ ہیرو کی ممانعت کی جاتی ہے




۔۳۔ممانعت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے




۔۴۔ولن جاسوسی کی کوشش کرتا ہے۔۵۔ولن کو اپنے ’شکار‘ (VICTIM) کے بارے میں اطلاع ملتی ہے۔۶۔ولن اپنے ’شکار ‘ کو دھوکہ دیتا ہے تا کہ اس پر یا اس کے مال و اسباب پر قبضہ کر لے۔۷۔ ’شکار‘ دامِ تزویر میں آجاتا ہے اور نادانستہ اپنے دشمن کی مدد کرتا ہے۔ (نارنگ، ص، ۱۰۹۔۱۱۰)۔




نارنگ صاحب بھی اس فہرست کو اکتیس تک لفظ بہ لفظ نقل کرنے کے علاوہ سکولز کے تجزیے کو لفظ بہ لفظ نقل کرتے ہوئے صفحہ نمبر۱۱۷ تک لے جاتے ہیں، لیکن کہیں بھی حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ ان صفحات کے علاوہ نارنگ صاحب اسی کتاب کے مختلف حصوں سے بھی خاطر خواہ اقتباسات کا سرقہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آئیے پہلے انگریزی میں رابرٹ سکولزکے اس اقتباس پر غور کریں :The last half of the nineteenth century and the last half of the twentieth were charecterized by the fragmentation of knowledge into isolated disciplines so formidable in their specialization as to seem beyond all synthesis. Even philosophy, the queen of the human sciences, came down from her throne to play solitary word games. Both the language -philosophy of Wittgenstein and the existentialism of the Continental thinkers are philosophy of retreat......Scholes, Structuralism in Literature, New York, Vail-Ballou Press,1974, p,1) )گوپی چند نارنگ کے مندرجہ ذیل اقتباس کو دیکھئے:’’ ا نیسویں صدی کے نصفِ آ خر اور بیسویں صدی نصفِ اوّل میں فکرِ انسانی تخصیص کے مختلف میدانوں میں بٹ بٹا کر اس حد تک پارہ پارہ ہوگئی تھی کہ اس میں کسی طرح کی کوئی شیرازہ بندی ممکن نظر نہیں آتی تھی ۔ اور تو اور خالص فلسفہ بھی جسے علومِ انسانیہ کا بادشاہ کہا جاتا ہے ،وہ بھی لفظوں کے الگ تھلگ پڑ جانے والے کھیل میں لگ چکا تھا




۔وٹگنسٹائن کا فلسفہ لسان ہو یا یورپی مفکرین کی وجودیت ،اصلاََ یہ سب مراجعت کے فلسفے ہیں




(ص، ۳۴ )




۔اس اقتباس میں سکولز بیسویں صدی کی اس صورتحال کو اپنے زاویے سے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ مسٹر نارنگ اگر ان مغربی تحریکوں سے براہ راست واقفیت رکھتے تو شاید اس سے مختلف نتائج اخذ کرتے۔ بیسویں صدی میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی تباہی کے ہندوستان پر بھی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ نارنگ صاحب کو اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ تویہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ انہوں نے وٹگنسٹائن کا مطالعہ کیا ہے۔اگر یہ خود وٹگنسٹاین کامطالعہ کرنے کی زحمت فرماتے تو مختلف نتائج اخذ کرسکتے تھے مگر وہ سکولز پر پختہ اعتقاد رکھتے ہیں ۔ اس کے نتائج کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی حتمی قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ رابرٹ سکولز کی مذکورہ بالا کتاب سے مسٹر نارنگ نے اپنی کتاب کے کئی ابتدائی صفحات نقل کیے ہیں ۔اس کے علاوہ سیوسئر اور ساختیات پر لکھا گیا سارا مواد اسی کتاب کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔ رابرٹ سکولز نے اس کتاب میں ساختیات کی حمایت میں لکھا ہے ۔یہ ان کا تجزیہ ہے جسے مدلل طریقے سے مسترد بھی کیا جاسکتا ہے۔ اُنیسویں اور بیسویں صدی کے سماجی ،سیاسی یا پھر معاشی کشمکش کے نتیجے میں نظریات کی تخریب اور تشکیل کے بعد جو ساختیاتی ماڈل انھوں نے ماہرِ لسانیات سیوسیرسے مستعار لیا ہے اس کا انہدام بھی پسِ ساختیات کے مباحث کے آغاز کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ اس وقت کئی مفکر خود کو ساختیات کا حامی کہنے سے کترانے لگے ۔ مختصر یہ کہ یہ تجزیہ شولز کے مکتبہ ءِ فکر کا نقطہء نظر ہے۔




ریڈیکل مارکسی مفکرین اس اجتماعی تناظر کی مختلف طرز پر تشریح و تجزیہ پیش کرتے ہیں جو پوسٹ ماڈرن تھیوری کے حوالے سے مضبوط بھی ہے اور مو ئثر بھی ۔ سوال یہ ہے کہ گوپی چند نارنگ کہاں کھڑے دکھائی دیتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔برطانوی سوشل مفکرکرسٹو فر نورس لکھتے ہیں:




Derrida's professional training was as a student of philosophy (at the Ecol Normale Superieure in Paris, where he taught until recently), and his writings demand of the reader a considerable knowledge of the subject. Yet Derrida's texts are like nothing else in modern philosophy, and indeed represent a challenge to the whole tradition and self-understanding of that discipline. Norris, Christopher. Deconstruction.3rd ed, London, Routledge,2002, P18-19)








نارنگ صاحب لکھتے ہیں




:’’تربیت کے اعتبار سے بھی دریدا فلسفی ہے، اور اس وقت بھی وہ۔۔Ecol Normale Superieure, Paris میں فلسفے کا استاد ہے۔ نیز اس کی تحریروں کو فلسفے کی بنیادی باتوں کو جانے بغیر سمجھنا بھی ناممکن ہے۔تاہم دریدا کی تحریروں کو فلسفے میں شمار کرنا بھی مشکل ہے، اس لئے کہ فلسفے میں دریدا کی تحریروں کے مماثل کوئی چیز نہیں ملتی، کیونکہ وہ پوری فلسفیانہ روایت کو اور ان بنیادوں کو جن پر فلسفہ بحیثیت ضابطہ علم قائم ہے ،چیلنج کرتا ہے‘‘ (نارنگ، ص ۲۱۷)۔




۔۔۔۔




کرسٹوفر نورس لکھتے ہیں:




Derrida refuses to grant philosophy the kind of privileged status it has always claimed as the sovereign dispenser of reason. Derrida confronts this pre-emptive claim on its own chosen grounds. He argues that philosophers have been able to impose their various systems of thought only by ignoring, suppressing, the disruptive effects of languages. His aim is always to draw out these effects by a critical reading which fastens on, and skilfully unpicks, the elements of metaphor and other figural devices at work in the texts of philosophy. Deconstruction in this, its most rigorous form acts as a constant reminder of the ways in which language deflects or complicates the philosophers project. Above all deconstruction works to undo the idea-according to Derrida, the ruling illusion of Western metaphysics- that reason can somehow dispense with language and achieve a knowledge ideally unaffected by such mere linguistic foibles. Norris, P18-19). )گوپی چند نارنگ کی کتاب کے اس اقتباس پر غور کریں








:’’دریدا فلسفے کو بحیثیت ضابطہ علم یہ آمرانہ درجہ دینے کو تیار




نہیں کہ فکرِ انسانی کے جملہ حقوق فلسفے کے نام محفوظ کردیے جائیں ۔اس کا دعوی ٰ ہے کہ فلاسفہ اپنے نظام ہائے فکر کو مسلط کرنے کے لیے زبان کے داخلی تضادات کو دباتے،پسِ پشت ڈالتے یا نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ دریدا اپنے ردِ تشکیلی مطالعات میں فلسفے کی ان کمزوریوں اور معذوریوں کو نمایا ں کرتا ہے۔ وہ بار بار نہایت سختی سے یاد دلاتا ہے کہ زبان کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ فلسفی کے کام کو مشکل سے مشکل تر بناتی ہے۔ اگرچہ مغربی مابعد الطبیعات میںیہ خیال عام رہا ہے کہ فکر انسانی کسی نہ کسی طرح زبان سے چھٹکارہ پاسکتی ہے اور سچائی کو بیان کرنے کا کوئی خالص اور مستند طریقہ وضع کر سکتی ہے۔۔۔(ص،۲۱۸۔۲۱۷) کرسٹوفر نورس سوشل فلاسفر ہونے کی حیثیت سے فلسفے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔اس لئے وہ کوئی ایسا انتہا پسندی پر مبنی بیان جاری نہیں کرتے، جس سے فلسفے کی غیر ضروری تضحیک کی جائے۔مندرجہ بالا اقتباس میں جہاں پر انہوں نے ڈیکنسٹرکشن کے حوالے سے فلسفے کا ذکر کیا ہے ،وہاں پر انہوں نے واضح الفاظ میں ’’دریدا کے مطابق‘‘ لکھ دیا ہے۔نارنگ صاحب کی اگر اب تک کی تصانیف کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نےاپنے مضامین میں کسی بھی فلسفی کے افکار پر بحث نہیں اٹھائی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ فلسفے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، جو ان کے اس اقتباس سے واضح ہے’’لیکن دریدا ناقابلِ تردید طور پر ثابت کرتا ہے کہ فلسفے کی یہ توقع واہمے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، اور فلسفے کا زبان کے شکنجے سے آزاد ہونا قطعاََ ناممکن ہے‘‘(ص۲۱۸)۔یہ سوال انتہائی بچگانہ ہے کہ زبان کے بغیر کسی قسم کا کوئی خیال پیش کیا جاسکتا ہے، یا کسی معروض کو اس کے تمام تر یا کسی بھی پہلو کو بیان کیا جا سکتا ہے۔اس کے لئے دریدا سے کسی مصدقہ سند کی ضرورت نہیں ہے۔تفکراتی فلسفے میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ ڈیکنسٹرکشن جیسی تھیوریوں کو بآسانی خود میں سمیٹ سکے۔ ابھی تک مغرب میں صرف مابعد جدید مفکروں بالخصوص دریدا کی ڈیکنسٹرکشن تفکراتی فلسفے کے خلاف عمل آراء ہوتی ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ڈیکنسٹرکشن ہیگلیائی کلیت یا لازمیت کو رد کرسکی ہے یا دلائل کی بنا پر اس کو غلط ثابت کر سکی ہے یا اس کی حدود کا تعین کرپائی ہے؟نارنگ صاحب بھی مغربی مابعد جدیدیت کے علم برداروں کی تقلید میں یہ نعرہ بھی بلند کرچکے ہیں کہ’’ مابعد جدیدیت ہر طرح کی کلیت پسندی کو رد کرتی ہے۔‘‘ رد کیوں اور کیسے کرتی ہے؟ اس کے بارے میں نارنگ کے علاوہ کسی بھی نقاد کے پاس کہنے کو چار فقرے تک نہیں ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ ادب سے زیادہ فلسفے کا مسئلہ ہے اور فلسفے کے مباحث کا اُردو میں فقدان رہا ہے۔




اُردو میں ان لوگوں کو فلسفی تصور کر لیا گیا ہے جو فلسفے سے زیادہ تصوف کی تبلیغ پر کمر بستہ رہے ہیں۔نارنگ صاحب کا مغرب کے کسی شارح کو بنیاد بنا کر ہیگلیائی کلیت یا لازمیت کے سوال کو بطور ’سچائی‘ پیش کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس کی حیثیت بھی نارنگ صاحب کے اپنے ’سچائی‘ کے معیار سے مختلف نہیں ہے۔جہاں تک ژاک دریدا کا تعلق ہے تو وہ تمام زندگی ہیگل کا معتقد رہا ہے۔جن اصحاب نے ہیگل کا توجہ سے مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ ہیگل کے لئے ’افتراق‘ کی حیثیت تضاد کی بنا پر حتمی ہے، لیکن ہیگل کے تضادکی تحلیل ہوجاتی ہے، یعنی نفی کی نفی،لیکن افتراق ہر وقت برقرار رہتا ہے۔ اس طرح ہیگل کا افتراق ایک منزل طے کر کے بھی




حتمی رہتا ہے۔ دریدا ہیگل کے افتراق کی جگہ اپنے Differanceکو شامل کرلیتا ہے، جس کا کام افتراق کی حتمیت کی بنا پر شناخت کو روکنا ہے۔ اسی نکتے پر ژاک دریدا ، ہیگل کی عظمت کوان الفاظ میں تسلیم کرتا ہے،Differance (at a point of almost absolute proximity to Hegel, as I have emphasised.... (Positions, 1982, P44). مغرب میں اس طرح کی فضا قائم ہوگئی ہے کہ جہاں ادبی و تنقیدی تھیوریوں کے حوالے سے نظریہ ساز اپنی حیثیت کو سیاست کے حوالے سے واضح کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں۔اسی طرح ان کے شارحین کو پروپیگنڈا کرنے کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ان کا کام ہی یہ ہے کہ وہ مختلف افکار کو بورژوازی کے مفادات کی روشنی میں واضح کریں۔مغربی نظریوں کے حوالے سے اس پس منظر کو سامنے رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ انسانی ذہن کے اندر جنم لینے والے خیالات کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک ان کی کوئی عملی شکل موجود نہ ہو۔پس ساختیاتی رجحان کے وجود میں آتے ہی اسے سماجی، سیاسی، اور معاشی تھیوری کا حصہ سمجھ لیا گیا۔جامعات میں اس پر مباحث اٹھائے گئے ۔ سماجی رجحانات کو پسِ ساختیات کی رو سے جاننے کی کوشش کی گئی، جسے مابعد جدیدیت کا نام دیا گیا،تاکہ عمل میں




اس کی حقیقت کھل سکے۔ کیا نارنگ صاحب جانتے ہیں کہ ہیگل کی کلیت پسندی کیا ہے؟ اگر انہیں اس بات کا یقین ہے کہ مابعد جدیدیت ’کلیت پسندی‘ کے خلاف ہے تو خود ایک مضمون تحریر کریں جس میں اس امر کو واضح کریں کہ ان کی مابعد جدیدیت کیسے کلیت پسندی کو رد کرتی ہے؟جہاں تک دریدا کا تعلق ہے تو وہ یہودیت کے تناظر میں کلیت پسندی سے نجات چاہتا ہے۔یہ فکر اڈورنو سے جنم لیتی ہوئی دریدا تک پہنچتی ہے،ان مفکروں کو یقین تھا کہ ہولوکاسٹ کو نظری جواز تفکراتی فلسفے (ہیگلیائی جدلیات)نے مہیا کیا ہے، کونکہ وہ معروض (دوسرا)کو اس کی اپنی حرکت میں دیکھنے کی بجائے اس کو اپنی حرکت(پہلے) کے مطابق ڈھالنے کی سعی کرتی ہے اور یہ عمل صرف نظریے کی شکل میں تفکر کے ذریعے طے ہوتا ہے، اس لئے اصل کی حقیقت مخفی رہتی ہے۔عدم شناخت کے یہ تصوارت ہیگل کے فلسفے میں پہلے سے موجود تھے۔ اڈورنو اس حوالے سے ہیگل کے تضادات کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہندستانی تناظر میں ڈیکنسٹرکشن اہم ہے یا ہیگل کی کلیت؟




اس امر پر بحث کی ضرورت ہے۔ دریدا یا پسِ ساختیات کا کردار اس لئے بھی زیادہ اہم نہیں ہے کہ اس کی حیثیت سماجی عوامل سے کٹنے کی وجہ سے تجریدی ہوجاتی ہے۔بہرحال اس بار نارنگ یا ان کے ہم خیال ساتھیوں کو سرقے سے گریز کرکے یہ واضح کرنا چاہیے کہ ان کے تناظر میں کس فلسفے سے مطابقت قائم کی جاسکتی ہے اور کس کا کلی یا جزوی استرداد ضروری ہے؟ہیگلیائی کلیت نارنگ یا ان جیسے کسی دوسرے خیال پرست کے ذہن میں تشکیل نہیں پاتی۔ہیگل اس کو’جوہر‘ میں تلاش کرتا ہے۔ہیگل کے لئے اہمیت’ حسی تیقن‘ کی ہے لیکن اس تیقن سے قبل ہی وہ سپرٹ کی مظہریت کو تصورکرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہیگل کے ’تصور‘ میں شعور کی موجودگی سے معروض کی اپنی جدلیاتی حرکت متاثر ہوتی ہے،لیکن اس پہلو سے آسانی سے یہ کہنا مشکل ہے کہ ہیگل خیال پرست ہے یا وہ صرف شعور ہی کے ذریعے حقیقت کو مسخ کرتا ہے۔ لینن اپنی ’فلسفیانہ نوٹ بک‘ میں ہیگل کی مختصر منطق‘ کا بھر پور تجزیہ پیش کرتے ہوئے اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ ’’سوچ کو معروض کی حرکت میں جاننا ہے لیکن سوچ کو جدلیاتی انداز اختیار کرنا چاہیے۔ ۔ ۔ حسیات حرکت کو بحیثیت کل نہیں جان سکتیں، لیکن سوچ ایسا کرسکتی ہے اور اسے ایسا کرنا چاہیے‘‘ (ص،۲۲۷)۔لینن ، ہیگل کی خیال پرستی کو ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں کہ حسیاتی انعکاس سے حاصل کی گئی سوچ ، حقیقت کو منعکس کرتی ہے؛زمان معروضی حقیقت کے وجود کی شکل ہے۔لیکن ہیگل ایسا زمان کے تصور میں نہ کہ نمائندہ حسیات کی سوچ سے تعلق کی بناء پر خیال پرست ہے۔لینن انتہائی باکمال طریقے سے ہیگل کی خیال پرستی کو واضح کرتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ خیال پرست فلسفیوں کے لئے (برکلے وغیرہ) ہیگل خیال پرست نہ ہو۔یہاں پر مابعد جدید مفکر(سرقے باز نہیں) یہ سوال اٹھا سکتے ہیں




کہ وہ ’شعور‘ کی بحث میں الجھنا ہی نہیں چاہتے، کیونکہ ان کو تو زبان کے حوالے سے ’بھگوان ‘کے آشیر باد سے قدیم ’سچائی‘کی اشاعت کا لائسنس جاری ہوچکا ہے۔اس طرح تو عین ممکن ہے کہ وہ زندگی کے تمام فیصلے بھی زبان کے فونیم کی’ کریپا‘ سے کرنا چاہیں ۔ نارنگ صاحب دو چار اقوال سن کر فتوے صادر فرما رہے ہیں۔ مابعد جدید مفکروں کی اندھی تقلید میں ہر اس فلسفے کو صرف فیشن کے طور پر مسترد کردینا چاہتے ہیں، جو تناظر کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ ان کے لئے لازم ہے کہ وہ ان فلسفیانہ قضایہ کا علم حاصل کریں اور مغربی تھیوریوں پر اپنی حیثیت کو اپنے تناظر میں واضح کریں۔علمی قضایا کی بحث میں الجھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ نارنگ صاحب کو ان کے سرقے کے بارے میں یاد دہانی کرائی جائے ۔ویسے اگر نارنگ صاحب کو سرقے سے فرصت ملتی تو شاید ان قضایا کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ ایک اور اقتباس کو دیکھتے ہیں۔ کرسٹوفر نورس لکھتے ہیں




،In this sense Derria's writings seem more akin to literary criticism than philosophy. They rest on the assumption that modes of rhetorical analysis, hitherto applied mainly to literary texts, are infact indispensable for reading any kind of discourse, philosophy included. Literature is no longer seen as a kind of poor relation to philosophy, contenting itself with mere fictive or illusory appearances and forgoing any claim to philosophic dignity and truth. This attitude has, of course, a long prehistory in Western tradition. It was plato who expelled the poets from his ideal republic, who set up reason as a guard against the false beguilements of rhetoric, and who called forth a series of critical 'defences' and 'apologise' which runs right through from Sir Philip Sydney to I. A. Richards and the Americans new critics. The lines of defence have been variously drawn up, according to whether the critic sees himself as contesting philosophy on its own argumentative ground, or as operating outside its reach on a different - though equally privileged - ground. (Norris,P19)نارنگ صاحب اس اقتباس سے متاثر ہوکر کیاکمال دکھا رہے ہیں:’’اس نظر سے دیکھا








جائے تو فلسفے سے زیادہ ادب کی ذیل میں آتی ہیں، اس کا بنیادی ایقان یہ ہے کہ لسانی یا بدیعی تجزیہ جو فقط ادبی متن کا منصب سمجھا جاتا ہے، وہ درحقیقت کسی بھی بیان(discourse )بشمول فلسفیانہ بیان کے سنجیدہ مطالعے کے لئے ضروری ہے۔دریدا کا موقف ہے کہ ادب فلسفے کا دور کا رشتہ دار نہیں، جس کو فلسفی محض لفظوں کے تخیلی توتے مینا بنانے والے ضابطے کے طور پر رد کرتے رہے ہیں، بلکہ سچائی کا حصہ دار ہونے کے ناطے ادب اسی عزت و افتخار کا مستحق ہے جو فلسفے کے لئے مخصوص ہے۔ اتنی بات معلوم ہے کہ افلاطون نے ادیبوں، شاعروں کو اپنی مثالی ریاست سے اسی لئے خارج کردیا تھا کہ عقل کے مقابلے میں ادب کی مجازیت قابلِ برداشت نہ تھی۔ سر فلپ سڈنی سے لے کر رچرڈز اور نئی تنقید تک ادب کی آزادانہ حیثیت کا دفاع کیا جاتا رہا ہے۔۔۔۔۔‘‘(نارنگ،ص،۲۱۸)۔نارنگ صاحب نے یہاں پر نورس کے لفظ ’امریکی‘ کو حذف کردیا ہے ، کہیں اُردو والے امریکہ کے نام سے ناراض نہ ہوجائیں۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ڈسکورس کو انگریزی میں لکھ دیا ہے، جس سے یہ تاثر ابھرے کہ نارنگ صاحب خود یہ تجزیہ پیش کر رہے ہیں جہاں انہوں نے ضروری سمجھا انگریزی لفظ کا استعمال بھی کردیا۔راقم کا یہ دعویٰ ہے کہ گوپی چند نارنگ کی کتاب میں دریدا اور ردِ تشکیل پرلکھا ہواتمام مواد کرسٹوفر نورس کی کتاب سے ہوبہو ترجمہ ہے۔آئیے ایک اور اقتباس پر غور کریں۔کرسٹوفر نورس لکھتے ہیں:




The counter-arguments to deconstruction have therefore been situated mostly on commonsense, or 'ordinary-language' ground. There is support from the philosopher Ludwig Wittgenstein (1889-1951) for the view that such sceptical philosophies of language rest on a false epitemology, one that seeks (and inevitably fails) to discover some logical correspondence between language and the world. Wittgenstein himself started out from such a position, but came round to believing that language had many uses and legitimating 'grammars', non of them reducible to a clear-cut logic of explanatory concepts. His later philosophy repudiates the notion that meaning must entail some one-to-one link or 'picturing' relationship between propositions and factual status of affairs. Languages now conceived of as a repertoire of 'games' or enabling conventions, as diverse in nature as the jobs they are require to do (Wittgenstein 1953). The nagging problems of philosophy most often resulted, Wittgenstein thought, from the failure to recognise multiplicity of language games. Philosophers looked for logical solutions to problems which were only created in the first place by a false conception of language, logic and truth. Scepticism he argued, was the upshot of a deluded quest for certainty in areas of meaning and interpretation that resist any such strictly regimented logical account. (Norris, P127-128). نارنگ صاحب کی ’لسانیاتی چال‘ دیکھیں:’’دریدا کی ردِ تشکیل کے خلاف جتنی بھی بحث کی گئی ہے وہ عام زبان (ORDINARY-ANGUAGE) کے نکتہء نظر سے کی گئی ہے۔خاطر نشان رہے




کہ ایسے لوگوں سے پہلے لدو گ وٹگنسٹائن۔۔(LUDWIG WITTGENTEIN 1889 - 1951)کہہ چکا ہے کہ زبان سے متعلق متشککانہ نظریے اس جھوٹی علمیات (EPISTEMOLOGY) کا حصہ ہیں جو زبان اور اشیاء میں کسی نہ کسی طرح کا منطقی ربط پیدا کرنا چاہتی ہے۔وٹگنسٹائن نے خود اپنا فلسفیانہ سفر اسی تشکیک سے شروع کیا، لیکن بعد میں وہ اسی نتیجے پر پہنچا کے زبان کے کئی طرح کے استعمال ہیں، جن سے کئی طرح کی گرائمریں پیدا ہوتی ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی گرائمر منطق کے صاف شفاف اصولوں کی سطح پر نہیں لائی جاسکتی۔وٹگنسٹائن کا فلسفہ اس بات کی تردید ہے کہ زبان میں لفظ اور شئے میں ایک اور ایک کا رابطہ ہے۔وہ زبان کا تصور ایک ایسے نظام کے طور پر کرتا ہے جس میں طرح طرح کے مقاصد کے لئے طرح طرح کے کھیل کھیلے جاتے ہیں وٹگنسٹائن کا کہنا ہے کہ فلسفے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ زبان کی کثیرالمعنیت کو زیرِ دام نہیں لاسکتا۔ فلاسفہ کو مسائل کے منطقی حل کی ضرورت ہوتی ہے،اور تشکیک تیقن کی کھوج کا نتیجہ ہے کیونکہ معنی کی منطقی تحلیل ممکن نہیں۔ غرض بقول وٹگنسٹائن وہ تمام متشککانہ فلسفے جو زبان ، منطق اور حقیقت کے درمیان مختلف النوع مطابقتوں کو نہیں دیکھ سکتے ،حیرت کا شکار ہونے پر مجبور ہیں۔‘‘(نارنگ،ص، ۲۱۹)۔اس پیراگراف کے بعد کرسٹو فر نورس ،وٹگنسٹائن کے فلسفے کی روشنی میں ردِ تشکیل کے خلاف بحث کا آغاز کرتے ہیں۔ کرسٹوفر نورس نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ وٹگنسٹائن بطور فلسفی سیوسئیر اور مابعد سیوسئیری لسانیاتی نظریے میں کن نقائص کو دیکھتا ہے؟نارنگ صاحب وٹگنسٹائن کی سیوسئیر پر فلسفیانہ تنقید کو پیش کرنا مناسب نہیں سمجھتے، کیونکہ اس طرح نارنگ صاحب کی ساختیات کی تبلیغ متاثر ہوجاتی۔اسی لئے نارنگ صاحب کو وٹگنسٹائن کی تنقید پسند نہیں آئی۔ انہیں تو صرف ان پیراگراف کا سرقہ مقصود تھا جوان کے نزدیک ردِ تشکیل کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ نارنگ صاحب کا کوئی بھی مسروقہ اقتباس ’’واوین میں نہیں ہے، لیکن مندرجہ بالا اقتباس کے بعد والے اقتباس کو واوین میں لکھتے ہیں، گو کہ یہ اقتباس بھی انہوں نے نورس کی کتاب ہی سے اٹھایا ہے۔ نارنگ وٹگنسٹائن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں،’’اگر تم ہر چیز پر شک کرنے لگو گے تو پھر تم کسی چیز پر بھی شک نہ کرسکو گے۔ہر شک کی تہہ میں تیقن ہوتا ہے‘‘




(نارنگ، ص،۲۱۹)




۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نارنگ کو اس امر کا ادراک ہے کہ کس طرح انہوں نے قاری کی آنکھوں میں دھول جھونکنی ہے۔ اسی لئے ایک ہی صفحے پر لکھے گئے اقتباسات میں سے صرف دو جملوں کو ہی واوین میں دکھاتے ہیں جبکہ بیشتر حصے کو اپنی’ تجزیاتی بصیرت‘ کا کرشمہ ثابت کر رہے ہیں۔




جاری ہے




These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply