گوپی چند نارنگ کی ’سچائی‘ اور تناظرسرقے کی زد میں....حصہ سوئم (آخری حصہ)

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


عمران شاہدبھنڈر

(برطانیہ)

گوپی چند نارنگ کی ’سچائی‘ اور تناظرسرقے کی زد میں

حصہ سوئم.....آخری حصہ

نارنگ صاحب کے اس طرح سرقہ کرنے کے بعد اس خیال کاذہن میں ابھرنا جائزہے کہ اگر نارنگ صاحب خود مابعد جدید تھیوری کو نہیں سمجھ سکے تو طالب علموں کو کیسے سمجھا سکتے ہیں؟ اگر وہ خود اس تھیوری کو سمجھ چکے ہوتے تو لفظ بہ لفظ سرقے کی ضرورت پیش نہ آتی۔اگر تھیوری کو سمجھ کر اسے مغربی پس منظر میں بیان کرتے، یعنی ماڈرنٹی کے امتیازی اوصاف جو اسے پوسٹ ماڈرنٹی سے الگ کرتے ہیں،

اس کے بعد برِصغیر کی سماجی یا ثقافتی صورتحال کے ساتھ اس کا موازنہ اور ان امتیازات کی نشاندہی جو ان دونوں تناظر میں موجود ہیں۔ اس صورت میںیہ نارنگ صاحب کا ایک اہم کارنامہ تصور کیا جاتا۔مشکل فکر پر مبنی کتابوں کے بارے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی مفکر تعارف پیش کرتا آیا ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کتاب کے مشکل مفہوم کو اس طرح پیش کیا جائے کہ دوسروں کے لئے اسے سمجھنا آسان ہوجائے۔جہاں تک فلسفیوں یا عالموں کا تعلق ہے تو ان کے باطن میں علمی تجسس کی شدت ہی اس قدر ہوتی ہے کہ وہ براِ ہ راست ا صل ذرائع کا فہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ الفارابی لکھتا ہے کہ اس نے ارسطو کی شہرہء آفاق تصنیف ’میٹافزکس‘ کا چالیس بار مطالعہ کیا لیکن پھربھی اسے سمجھ نہ پایا۔اس طرح مغربی فلسفی شوپنہاور کہتا ہے کہ وہ کانٹ کی بے مثل تصنیف ’’تنقید عقل محض‘‘ کو اسّی بار پڑھنے کے بعد سمجھ پایا۔اُردو کے ’عالموں ‘سے یہ توقع کرنا بے کار ہے کہ وہ کسی فلسفیانہ کتاب کو چند بار پڑھنے کے بعد اگرتفہیم نہیں ہوسکی تواس کودوبارہ سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے نزدیک کسی مفکر کے پیش کردہ تعارف کو بغیر تفہیم کے

اپنے نام سے منسوب کردینا زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔گوپی چند نارنگ نے جو حرکت کی ہے وہ بھی اسی ذیل میںآتی ہے۔ اگر وہ مابعد جدید تھیوری کو سمجھ چکے ہوتے تو اس کے بعد اسے اپنے الفاظ میں بیان کرنا مشکل نہ ہوتا۔اس طرح ان پر سرقے کی مصدقہ مہر بھی چسپاں نہ ہو پاتی۔اگر وہ مابعد جدید تھیوری کو اس کے تناظر یعنی ان تمام تر سماجی، سیاسی اور معاشی تضادات کی روشنی میں اورمغربی مفکروں کے افکار کو تجریدی انداز میں نہیں بلکہ ان کے تناظر کو سمجھنے کی سعی کے طور پر پیش کرتے تو اُردو کے طالب علم کے لئے تھیوری کا پسِ منظر عیاں ہونے سے تاریخ، سماج اور معیشت جیسے عوامل کی اہمیت سماجی تشکیل کے حوالے سے قابلِ تفہیم ہوتی۔نارنگ صاحب نے جو طریقہ ء کار اختیار کیا ہے، ایک طرف تو وہ کھلم کھلا سرقہ ہے دوسری طرف انہوں نے مابعد جدیدتھیوری کو جنم دینے والے تضادات کو نظر انداز کر کے مابعد جدید تھیوری کو مکمل طور پر تجریدی رنگ میں نہ صرف پیش کیا ہے، بلکہ اسے قبول بھی کیا ہے۔ جہاں تک نارنگ صاحب کی اپنی علمیت کا سوال ہے تو ظاہر ہے کہ جو شخص صرف سرقہ ہی پیش کرسکا ہے اور ظاہر ہونے کے بعدسرقے کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے تو اس کا محرک یقیناََ علم سے محبت نہیں بلکہ شخصیت پرستی کا پہلوہے۔ مغربی زر خریددانشوروں کی تقلید میں شخصیت پرستی کے پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے سبجیکٹ کے ختم ہونے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ جبکہ اسی سبجیکٹ پر شخصیت پرستی کے تمام تصور کی بنیاد ہے،اگر یہ تصورِ سبجیکٹ ختم ہوگیا ہے، تو وہ کون سی حتمی شناخت قائم کرنے کا داعی ہے؟ نارنگ صاحب کو تو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عدم شناخت کا تمام تصور ہی بے کار ہے۔لیکن سب سے پہلے یہ ہمیں ہر انسان کے باطن میں ملتا ہے، جو سماجی عوامل کی مطابقت یا عدم مطابقت سے کمزور یا مضبوط ہوتا ہے۔ شناخت کا تصور، جس کے خلاف مابعد جدید مفکر برسرِ پیکار ہیں،وہ ہمیں ہیگل کے فلسفے میں ملتا ہے،

مگر اس مفہوم میں نہیں کہ جس میں اسے پیش کیا جارہا ہے، بلکہ اس تصور کو مغربی بورژوائی کے مفادات سے ہم آہنگ کر کے پیش کیا جارہا ہے۔ ہیگل کے لئے ’دوسرا‘ اہم ہے، اس کا استحصال نہیں ہوسکتا، گو کہ ہیگل کے لئے یہ تصور خیال پرستانہ انداز میں موجود ہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہیگل معروضی تقاضوں کے تحت انسانی پیداواری عمل کی قوت سے آگاہ نہیں تھا۔یہ درست ہے کہ ہیگل کا’ تصور‘کافی حد تک عمل کے برعکس تفکر کے ذریعے تبدیلی کا خواہاں ہے۔مارکس نے ہیگل کی کتاب ’سپرٹ کی مظہریات‘ میں محنت سے وابستہ اس پہلو کو دیکھ لیا تھا۔ اور اس کی اتھاہ گہرائی میں اتر کر تفکراتی فلسفے کی بجائے تبدیلی کو عمل سے مشروط کردیا۔ژاک دریدا بھی مارکس کی تفکر کے برعکس عمل میں تبدیلی کے عمل کو واضح طور پر دیکھتا ہے مگر وہ ہیگل کے فلسفے میں ان عوامل کو نہیں دیکھ سکا جو مارکس نے کافی عرصہ قبل دیکھ لئے تھے(دریدا کے اس پر ذکر کے حوالے سے دیکھیے ’پوزیشنز‘ صفحہ نمبر، ۴۳)۔دریدا جانتا ہے کہ تفکراتی فلسفے پر حملہ کرنا آسان ہے، اسی وجہ سے اس کا حملہ اسے اس مقام پر لے جاتا ہے جہاں پر ژاک دریدا صرف اور صرف خیال پرست بن کر ہی سامنے آتا ہے، کیونکہ وہ بھی تفکراتی جدلیات کو عمل کے برعکس زبان میں ہی تلاش کرتا ہے۔جہاں تک مارکس ، اینگلز اور لینن کا تعلق ہے تو ان کے خلاف دریدا کوئی بھی حتمی بیان جاری نہیں کرتا ۔ وہ جانتا ہے کہ مارکس یا لینن کا شعور ہیگل کے

شعور سے بنیادی طور پر مختلف ہے اس لئے اس کوDifferanceکے احاطے میں گھسیٹنا درست نہیں ہے، سماجی سطح پر مادی جدلیات بنیادی طور پر پیداواری عمل اور انسانوں کے عمل سے جنم لینے کی وجہ سے تفکراتی جدلیات سے مختلف ہے، جس میں عامل عمل کے دوران نہ صرف خارجی صورتحال کو پیش نظر رکھتا ہے بلکہ وہ خود کو عمل اور اس عمل کو نظریائے جانے کے عمل کو بھی تجزیے میں شامل کرتا ہے۔اس طرح وہ خود تجزیے کے دوران تجزیے میں داخلی اور معروضی حوالوں سے شامل ہوتا ہے۔معروضیت سے یہاں مراد تجزیے کے عمل کی معروضیت سے بھی ہے۔دریدا کہتا ہے:But it is true that in Marx, as in Engels and Lenin, the putting into question of the self-certainty of consciousness is not "based on Differance".(Position,P62)اگر مارکس اور اینگلز کا قائم کردہ تصورِ شعور ،جو سماجی حرکت سے تشکیل پاتا ہے ، وہ نہیں ہے جو ساختیاتی خیال پرست یقین کرتے ہیں تو دریدا کی مارکسیت پر تنقید یا دریدا کے مبلغوں کی مارکسیت پر اپنی اذعانی طبع کے تحت فضول قسم کی تنقید کا

کوئی جواز موجود نہیں رہ جاتا، کیونکہ دریدا کے فلسفے میں Differance کا کردار بنیادی ہے جو ’التوا‘ اور ’مختلف‘ کے راستے میں حائل رہتا ہے اور شناخت کو قائم نہیں ہونے دیتا۔ دریدا واضح الفاظ میں یہ اعتراف کرتا ہے کہ’’ مارکسیت کے خلاف وہ کچھ نہیں کہہ رہا کیونکہ وہ اس کا قائل ہے‘‘ (ایضاََ،ص، ۶۳)۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ دریدا کو مادیت پسند تصور کیا جائے۔خودکو مادیت پسند کہنے سے مادیت کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ مادیت کا مسئلہ یہ ہے کہ خارجی عمل کو کچھ اس طرح نظریایہ جائے کہ مادیت کا تصور ذہن سے ابھرنے کی بجائے خارجی حقیقت اور اس تک پہنچنے والے عمل کا احاطہ کرلے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دریدا کی بجائے اڈورنو اپنے فلسفے کے تمام تر نقائص کے باوجود مادیت پسند ہے۔ہیگل پر اڈورنو کی تنقید اس کا واضح ثبوت ہے۔ دریدا کے برعکس خارجی دنیا اڈورنو کے لئے اسی لئے اہم ہے کہ وہ مادیت کی تلاش میں مابعد الطبیعات کی آغوش میں پناہ نہیں لیتا۔ اڈورنو کا لوکاچ پر حملہ بھی اس کے ’شعور‘ کے خلاف ردِ عمل کا نتیجہ ہے، اسی وجہ سے پرولتاریہ کی شعور کے ذریعے ہوئی علمیاتی تفریق کو اڈورنو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، لوکاچ کے لئے شناخت انقلاب کے لئے ضروری ہے گو کہ وہ سماجی کے برعکس شعوری ہے۔ اڈورنو کے نزدیک تفکراتی شناخت کا ہر تصور معروض کی خود میں شناخت ختم کرنے کے مترادف ہے ۔ (یہاں پر یہ واضح رہے کہ اڈورنو اور دریدا دونوں یہودی ہیں اور دونوں کے لئے ’دوسرے ‘کا سوال اہم تھا ، دونوں ’دوسرے‘ کو ہیگلیائی کلیت سے نجات دلوانا چاہتے تھے)۔

وہ اس حقیقت سے باخبر ہے کہ مادی جدلیات میں سچائی (نارنگ صاحب کی سچائی نہیں) کی حیثیت اضافی اور محدود ہے جو خود کو معروضی حرکت سے مطابقت قائم کرنے کے عمل میں تقویت بخشتی ہے۔مادی جدلیات معروض کو جمود کے برعکس اس کی حرکت میں دیکھتی ہے، جس میں حرکت ہمہ وقت تضادکو خود میں شامل رکھتی ہے، جس سے تغیر بھی مستقل ہوتا ہے۔ اس طرح جدلیات ازخود تشکیل پاتی ہے۔اس اعتبار سے دیکھیں تو دریدا کی Trace ’نشان‘کو اس اعتبار سے پیش کرتی ہے کہ وہ تناظر کے حوالے سے تاریخ (ماضی)اور مستقبل کے عوامل کو ’نشان‘ میں شامل کرلے۔’نشان‘ کا اس طرح خارجیت سے تشکیل پانا اسے معروضایہ ہوا تصور کرنے کے لئے شواہد فراہم کرتا ہے۔ دریدا چونکہ ہیگل، کانٹ اور مارکس وغیرہ سے متاثر ہے اس لئے متن کے باہر سے وہ داخلی حس، مادیت، مابعدالطبیعات اور دیگر عوامل کو شامل کرتا ہے۔

اگر دریدا ایسا نہیں کرتا تو اس کے لئے ڈیکنسٹرکٹ کرنے کا عمل مشکل ہوجاتا ہے۔’ٹریس‘ کے دم چھلے سے مندرجہ بالا عوامل کی شمولیت کے اسی عمل کی بناء پر وہ خود کو مادیت پسند بھی کہلوانا چاہتا ہے۔چونکہ وہ دیگر عوامل کو بھی شامل سمجھتا ہے اس لئے اسے مادیت پسند کہنا مناسب نہیں ہے۔مارکسی مادیت میں ان عوامل کو ذہن نشین کیا جاتا ہے۔ اور خیال پرستانہ عوامل کی شناخت قائم کر کے جدلیات کی روشنی میں سارے عمل کو نظریایہ جاتا ہے۔دریداجن موجود عوامل کو وہ متن میں شامل کرتا ہے پھر انہی کو وہ اپنی خود ساختہ تھیوری کے ذریعے ڈیکنسٹرکٹ کرنے کا دعوی کرتا ہے۔ دریدا اس عمل کو صرف زبان کے اندر سرانجام دیتا ہے۔ جبکہ حقیقی مادیت کے لئے خارجیت میں انسانی عمل سے ارتباط میں سچائی کا ظہور پذیر ہونا

ضروری ہے۔ اس اعتبار سے دریدا کو مادیت پسند کہنا صحیح نہیں ہے۔ (دریداخود کو مادیت پسند کہلا کر فخر محسوس کرتا تھا) ۔ دریداکے حوالے سے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ وہ مارکسزم کی سچائی کو ایک ایسے وقت تسلیم کرنے لگا،جب مغرب اور امریکہ میں مارکسیت کی موت کے دعوے کئے جارہے تھے۔اس کی وجہ سیاسی اور معاشی حالات تھے، جن کو نظر انداز کر کے مغربی مابعد جدیدیت کی تبلیغ کسی ادبی گناہ سے کم نہیں ہے۔ قاری کو یہ علم ہونا چاہیے کہ مابعد جدیدتھیوری کا دعوی ۱۹۴۰ کے بعد ہی کیوں کیا گیا ہے؟ ڈیکنسٹرکشن پندرھویں صدی میں سامنے کیوں نہیں آئی؟ سماجی حوالوں سے ماڈرنٹی کا تعلق صنعتی انقلاب کے ساتھ کیوں قائم کیا جاتا ہے؟کیا صرف سوچ بدلتی ہے اور خارجی عوامل جوں کے توں رہتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ خارج میں برپا ہونے والی تبدیلیاں فکری اعتبار سے صورتحال کو نظریانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اگر سوچ ہی سب کچھ ہوتی تو زمان کے دورانیے کی ضرورت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔پاکستان یا ہندوستان میں خود ساختہ نقادوں کا مغربی تھیوری کو اس کے پس منظر سے محروم کر کے بیان کرنے کا عمل مجرمانہ سرگرمی کے مترادف ہے۔طالب علم یا قاری حقیقی دنیا سے کٹ کر صرف خیالات کی دنیا میں بسیرا کر لیتا ہے۔ایک ایسا

قاری جس کے لئے استحصال اور شناخت کا مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ افسوس کہ ایسے نقادوں کے تجریدی سرقوں کی وجہ سے ہی دربار کے خاتمے کے باوجود اس کا بھرپور احساس ذہنوں سے محو نہیں ہوتا۔ درباری سوچ آج بھی زندہ ہے، شاعری میں قافیہ پیمائی یا یوں کہیں مکھی پہ مکھی مارنے کے رجحان کے علاوہ کوئی مثبت رجحان نہ پنپ سکا۔آج اسی سوچ کے تحت شاعری اور تنقید تماش بینی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔شناخت اور عملی زندگی میں جدوجہد جیسی اقدار ،ان سارق ’نقادوں ‘کے ناقابلِ معافی جرائم کے فروغ کی وجہ سے رخصت ہو گئی ہیں،ان کے پاس ’سچائی‘ کا اپنا معیار ہے جو کسی صورت بھی عہدِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ کسی ایسی سچائی کو حاصل کر رہے ہیں جو بیش قیمت ہے۔ ویسے تو اس سوچ کا ماخذ قدیم توہم ہی ہے، مگر جدید دور میں جمالیات کو اس نظر سے دیکھنے کا رجحان جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ کے زور دار ’جمالیات محض‘ کے فلسفے سے پروان چڑھا ہے۔ کانٹ کی قائم کردہ عقل و وجدان کی یہ تفریق عہدِ قدیم کی خوف زدہ صورتحال کی عکاسی کرتی معلوم ہوتی ہے،جب عیسائی دہشت گرد پادری آزاد طبع فلسفیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔مغربی تہذیب کا یہ پہلو عیسائی دہشت گردی کی وجہ سے دب گیا،

جسے صرف عیسائی دہشت گردوں کے ماوارائی مفادات کے تحت دیکھ کر ہی قابل فہم بنایا جاسکتا ہے۔ جب تک ان فلسفوں کے ظہور کے محرکات کا سراغ نہیں لگایا جاتا اس وقت تک گمراہی کے اس سلسلے کو دوام حاصل رہے گا۔ علم صرف مغربی درسگاہوں میں ہی نہیں بکتا بلکہ ہمارے سماج کے ہر پہلو سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔آقا اور غلام کی برسوں پرانی تفریق کے ختم ہونے کا وقت ہے۔جرمن فلسفی ہیگل Master اور Slave کے درمیان دوطرفہ شناخت کو خود شعوری کے احساس میں

شعور کی اپنی خواہش کو مدِ نظر رکھ کر کرتا ہے ،جس کے مطابق ’معروض‘ کو فنا کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ اسے تسلیم کرنا ضروری ہوتاہے۔’دوسرے ‘کو ختم کر کے قائم کی گئی شناخت کا رخ بدل بھی سکتا ہے۔اس لئے آقا کی فتح مکمل نہیں بلکہ اندر سے خالی ہے۔ہیگل واضح کرتا ہے کہ’دوسرا ‘بھی ایسا کرسکتا ہے۔اس لئے اصل سوال ہم آہنگی قائم کرنے کا ہے۔ہیگل کا مسئلہ یہ رہا کہ اس نے صرف تفکراتی جدلیات کے ذریعے ،یعنی فکر کے ذریعے، اس عمل پر قابو پانے کی کوشش کی۔اڈورنو جب ہیگل پر اپنی ’منفی جدلیات ‘ میں حملہ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں ’دوسرے ‘کا تصور ہٹلر کی’ہولوکاسٹ‘ کی شکل میں موجود ہے، جو مغربی بورژوازی کے مطابق یہودیوں پر مسلط کی گئی ۔اڈورنو کے مطابق ’دوسرے‘ سے مراد یہودی ہے، جسے تفکر کرنے والا صرف تفکر سے فتح کرنا چاہتا ہے۔جہاں کہیں ظلم ٹوٹتا ہے وہاں پر’شعور‘ جواز فراہم کرتا ہے۔اس طرح اڈورنو اسے ’شعور‘ کا کارنامہ قرار دے کر ہیگل کے فلسفے سے جوڑتا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ اڈورنو کی فکر کسی حد تک مارکسی خطوط پر استوار ہے، لیکن آخری تجزیے میں اڈورنومارکس کے عظیم مقصد سے بے نیاز ہوکریہودیت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ہیگل کی مخالفت کا مقصد بھی یہی ہے۔ اس کی واضح مثال فرانس میں ۱۹۶۸ کے طالب علم انقلاب کے اس واقعے کی صورت میں ملتی ہے ،جب ایک ایرانی طالب علم کا قتل ہوا۔ اڈورنو سے کہا گیا کہ وہ اپنا لیکچر منسوخ کرکے طالب علم انقلاب کی حمایت کرے، مگراس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔اڈورنو مارکسیت کے مرکزی خیال ،جو کہ پرولتاریہ کی جدوجہد سے وابستہ ہے، کے معیار پر پورا نہ اتر سکا۔اس مغربی تناظر میں ۱۹۴۰ کے بعد ’روشن خیالی پروجیکٹ ‘کی مخالفت کا تصور کلی طور پر سماجی، سیاسی، اور معاشی عوامل کا تابع ہے، جس نے یہودیوں کی شناخت کو داؤ پر لگا دیا۔اس لئے اس کا اصل محرک یہودیوں کی ’شناخت‘ کا مسئلہ ہی رہا ہے۔جہاں تک دوسرے پسے ہوئے طبقات کا تعلق ہے ، ان کی جدوجہد ان کی نظریاتی وابستگیوں کے مطابق

آگے بڑھتی رہی ہے۔اس اعتبار سے مغرب میں افکار کی جنگ مغربی زمین پر لڑی گئی ،جس کا محرک زمینی تضادات کے علاوہ آسمانی آئیڈیالوجی بھی ہے۔ اگر کہیں تھیوری نے کلی تجریدی شکل اختیار کی (آلتھیوسے وغیرہ کی سائنسی جبریت کی شکل میں)، وہاں پر بھی حقیقی عوامل کا تعلق سماج کے ساتھ ہی رہا، جو ہر نئی سماجی تشکیل اور معاشی ارتقاء سے معنی بدلتا رہا۔ ان عوامل کو کلی طور پر سمجھے بغیر اس کے بارے میں معقول بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اُردو کے نقاد جب مغربی اصطلاحات ،روشن خیالی، ماڈرنٹی یا پوسٹ ماڈرنٹی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ واضح نہیں کر پاتے کہ ان اصطلاحات سے ان کی کیا مراد ہے؟ مغربی پوسٹ ماڈرنٹی کو مشرقی پوسٹ ماڈرنٹی کے مقابل کیسے رکھا جائے؟(کیا پاکستان یا ہندوستان میں پوسٹ ماڈرنٹی کا ظہور ہوچکا ہے؟’نقادوں‘ کے تبلیغی عمل کے حوالے سے نہیں،بلکہ ٹھوس سماجی اور پیداواری قوتوں کے حوالوں سے جن کے ارتقاء سے مابعد جدیدیت کی بحث کا آغاز ہوا)۔ مغربی ماڈرنٹی کا گہرا تعلق صنعتی انقلاب کے ساتھ ہے جو برطانیہ میں واقع ہوا، روشن خیالی کی تحریک کا آغاز فرانس میں ڈیکارٹ کی عقلیت پسندی سے ہوا۔اگرپاکستان یا ہندستان کے تناظر میں ان اصطلاحات کا استعمال مغربی تناظر میں پیداواری ساختوں اور سماجی عمل میں عقلی و وجدانی کردار کو واضح نہیں کرتا ، تو یہ صورتحال کو گنجلک بنانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ایک ایسا گمراہ کرنے والا عمل جس کی پھیلائی گئی پراگندگی کی صفائی کا ذمہ آنے والی نسلوں کے سر رہے گا۔نارنگ صاحب فلسفیانہ مباحث میں اپنی غیر تفکرانہ طبع کی وجہ سے قدیم ’سچائی‘ کے معیار کی تبلیغ کے علاوہ ، ہر طرح کی تنقیدی بصیرت سے عاری دکھائی دیتے ہیں،

اسی وجہ سے وہ سرقہ کرنے پر مجبور ہوئے ۔ان حالات میں فلسفے سے بے زاری کے ا ظہار کا محرک بھی فطری نوعیت کا ہے ۔ کرسٹوفر نورس کے تمام اقتباسات کو جناب نارنگ اپنے نام سے منسوب کرتے ہیں مگر جہاں نورس بحیثیت فلسفی(کسی حد تک) فلسفے کا ذکر کرتے ہیں، نارنگ صاحب ان کو نظر انداز کردیتے ہیں۔جہاں پر نورس، وٹگنسٹائن کے حوالے سے سیوسئیرپر اس کی تنقید کا ذکر کرتے ہیں، نارنگ صاحب اس کو کمال صفائی سے حذف کر جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ وٹگنسٹائن کا فکری رویہ’ اینٹی ڈیکنسٹرکشنسٹ ‘ ہے ۔ نورس کاخیال ہے کہ وٹگنسٹائن کے نزدیک مابعد سیوسےئر ی متونی مباحث میں کئی قباحتیں پائی جاتی ہیں(جن مفکروں نے سیوسئیر کا خود مطالعہ کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ سیوسئیر کبھی تو زبان کو معروض سے جوڑ کر دیکھتا ہے اور کبھی سیوسئیر کے تجزیے میں زبان اور معروض کے تعلق میں معروض حذف ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ وٹگنسٹائن کا خیال ہے کہ ’’سگنیفائر اور سگنیفائڈ کے درمیان شگاف کا مطلب تشکیک پسندی کے روایتی فلسفے کی غلطی کو دہرا نے کے مترادف ہے‘‘)۔ نارنگ صاحب ان قباحتوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ اس سے ان کے ماورائی موقف اور ان کی تجزیے سے یکسر عاری علمیت کو زک پہنچتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ’ سچائی‘ کے بارے میں ان کے اپنے نظریات انتہائی پختہ ہیں۔ انھیں صرف اس قدیم ’سچائی‘ کی تبلیغ ہی مطلوب ہے، جس کا دامن انھوں نے اپنی ’شہرۂ آفاق‘ کتاب کی تکمیل کے دوران تھامے رکھا ۔ان کے افکار کس آئیڈیالوجی سے جنم لے رہے ہیں،

یہ ان کے یک طرفہ انتہا پسندانہ تبلیغی رویے سے ظاہر ہو رہا ہے۔ انھیں’ردِ تشکیل ‘بھی شاید اسی لئے پرکشش دکھائی دیتی ہے کہ اس میں قدیم توہم کا پر تو نظر آتا ہے۔شاید اسی لئے ہیگلیائی ’ کلیت‘ کی تفہیم کے بغیر صرف اور صرف مغربی بورژوا ’دانشوروں‘ کی تقلید میں رد کرنے کا واویلا کررہے ہیں۔یہ استرداد کیسے ہوا ؟اس کے بارے میں تجزیہ تو دور ،ان کی شہرہء آفاق مسروقہ کتاب سے چند متعلقہ فقرے تک تلاش کرنا ایک عملِ بیکار سے زیادہ کچھ نہیں ،جو کلیت یا لازمیت پر ان کی فلسفیانہ بصیرت(اگر ہے) کی جانب اشارہ کرسکیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ اُردو زبان میں عمانوئیل کانٹ ، ہیگل یا مارکس کے فلسفے کا بھر پور تنقیدی جائزہ کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ خود ساختہ نقادوں کی اکثریت نے ایک یا دو ’فقرے‘ یاد کر رکھے ہوتے ہیں، کسی مخصوص آئیڈیالوجی کے مطابق وہ ان فقروں کو ’احکامات‘ کی شکل میں پیش کرتے ہیں، جبکہ مخالفین متخالف نظریات سے چند فقروں کو اپنی آئیڈیالوجی کے تحت ’احکامات‘ ہی کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ اس طرح بیشتر نقاد ایک یا دو فقروں میں فلسفے کا ذکر کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ وہ لاعلم قاری جو فلسفیوں کے فلسفے کی پیچیدگیوں سے قطعاََ ناواقف ہوتا ہے، جسے اشعار پر ’واہ واہ ‘کرنے کا پیشہ عنایت کیا گیا ہے ، وہ ان نقادوں کے ان ’احکامات‘ پر بھی ستائش کے رویے کو قائم رکھتا ہے۔ فلسفیانہ گہرائی یا فلسفے کی تفہیم کی صورت میں فلسفے کے اثرات نہ ہی نقادوں کے افکار میں کہیں دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی قاری کے عملِ قرأت سے مطالعے کا احساس جھلکتا ہے۔عدم تفہیم کی وجہ سے سماجی تغیر میں لازمیت کے متقاضی موقف کی تشکیل ہی نہیں ہوپاتی۔اس طرح بیسویں صدی اور پہلی صدی کے امتیازی خدوخال ان نقادوں کی ماورائیت میں نجات پانے کی خواہش کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ان گمراہ کرنے والے رویوں سے نجات پانے کے لئے آج جہاں سرقے سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے تو وہاں علوم کو تنقیدی نظر سے اپنے تناظر میں دیکھنا بھی بے حد ضروری ہے

۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مابعد جدیدیت کی اصلیت کی ایک جھلک؟؟ ’’شیطانی آیات‘‘ کے حوالے سے سلمان رشدی مابعد جدیدیت کا علم بردار ’’یہ میرے لیے بے حد دلچسپی کی بات تھی کہ مجھے جدیدیت کے عظیم نمائندہ جوزف کونراڈکے بعد ما بعد جدیدیت کے علم بردار سلمان رُشدی پر کام کرنے کا موقع ملا۔۔۔رُشدی کی بطور مصنف نشوونما اور اس کے فن کی اختراعی نوعیت نے اسے مابعد جدیدیت فکر کا بڑا نمائندہ بنا دیا ہے۔‘‘

(مابعد جدید مفکرD.C.R.A. Goonetilleke کی کتاب Salman Rushdie سے اقتباس)

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply