سرقے کا کوہ ہمالیہ....پہلا حصہ

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


عمران شاہد بھنڈر.....برمنگھم

سرقے کا کوہ ہمالیہ ....پہلا حصہ

جب سے ہم نے گوپی چند نارنگ کے سرقے کا انکشاف کیا ہے اس کے بعد سے اب تک نارنگ کے حواریوں کی طرف سے جو جوابات سامنے آئے ہیں، ان میں نارنگ اور ہمنوا یہ ثابت نہیں کرپائے کہ نارنگ نے سرقے کا ارتکاب نہیں کیا، ہم اس سے قبل بھی اس ضمن میں لکھ چکے ہیں کہ اصل مسئلہ نارنگ کے سرقے کا انکشاف اور اس کے بعد حقیقی ادیبوں سے یہ توقع کرنا ہے کہ اس رجحان کو ادبی جرم گردانتے ہوئے اس انداز میں حوصلہ شکنی کی جائے کہ مستقبل میں آزادانہ تحقیق و تنقیدکا رویہ جنم لے سکے۔ اس سے یہ ہوگا کہ سارقوں کے برعکس محنتی لوگ ادبی میدان میں داخل ہونگے اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔بریخت نے انیسویں صدی کے ناول سے اخذ کیے ہوئے’ اعلیٰ‘ اصولوں کو بیسویں صدی کے آغاز میں جنم لینے والے سماجی و سیاسی تناقضات کے لیے مکمل طور پر غیر ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں ’’پرانی اعلیٰ چیزوں سے آغاز نہیں کرنا بلکہ بدترین نئی چیزوں کو بنیاد بنانا ہے۔‘‘ سرقہ اعلی خیالات کا احاطہ کررہا ہو یا غلیظ خیالات کو پروان چڑھا رہا ہو، سرقہ تو سرقہ ہی رہتا ہے، جو’ خدمت‘ اور تکریم کے برعکس تذلیل و رسوائی کا باعث بنتا ہے۔ مذکورہ بالا نکتے کی کئی بار وضاحت کے باوجود نارنگ اور ان کے حواریوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ سرقے کے مسئلے کو مخفی رکھا جائے اور سرقے کی جگہ شخصیت پرستی اور تضحیکِ شخصیت میں سے کوئی ایک زاویہ اختیار کرکے اردو میں ایک مخصوص گروہ کی قائم کی ہوئی برسوں سے چلی آرہی روایت پر کاربند رہتے ہوئے،

خود کو اس روایت کا پاسبان سمجھتے ہوئے ،اس غلیظ روایت پر فخر کیا جائے ۔یہ بھی درست ہے کہ کم تعداد ہونے کے باوجود اردو دنیا میں ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس مکروہ روایت کو تضحیک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔جدید ادب کے مدیرحیدر قریشی پر بھی کیچڑ اچھالنے کا آغاز کردیا گیا ہے، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ ادب کے ایک سنجیدہ قاری ہیں اور ان لوگوں سے زیادہ ادبی اقدار کا عملی ثبوت دیتے ہیں جو عمل کے برعکس ’اعلیٰ‘ نظری مباحث میں بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ حیدر قریشی کی بھی یہ خواہش ہے کہ ان نام نہاد ادیبوں کو بے نقاب کیا جائے جو سرقے کی بنیاد پر بڑے نقاد و شعراء بن چکے ہیں، سرقے کو ناپسندیدہ رجحان کے طور پر دیکھنے میں حرج ہی کیا ہے؟ ہماری جب حیدر قریشی سے شناسائی ہوئی اس سے قبل ہمارے مضامین ’’دی پاکستان پوسٹ لندن، ۲۰۰۵‘‘ اور ’’سالنامہ نیرنگِ خیال ۲۰۰۶‘‘ میں شائع ہوچکے تھے۔ہمارے آشکار کیے ہوئے نارنگ کے سرقوں کو اردو ادب میں ایک غلاظت تصور کرتے ہوئے جس طرح حیدر قریشی نے اس حقیقی معنوں میں منفی اور مجرمانہ رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ہمارے مضامین کو دوبارہ شائع کیا ہے، مستقبل میں ان کے اس مثبت اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

تاہم وہ لوگ اس اقدام کی تحسین کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے جو ادب میں اس رہزانہ رجحان کو پروان چڑھانے میں ملوث ہیں، جن حواریوں کے لیے نارنگ کا سرقہ ابھی تک عقدۂ لاینحل ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ابھی تک سرقے اور حقیقی تنقید و تخلیق کے مابین جزوی طور پر بھی امتیاز کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے باطن میں ابھی تک اصل اور نقل کی اضدادی کشمکش بھی شروع نہیں ہو پائی ۔ ان کا سفر یک رخا ہے، ان کے باطن میں اثبات کی امکانی ترکیب کچھ اس انداز میں سلب ہوچکی ہے کہ اس کے بحال ہونے کے امکانات تک مخدوش ہیں۔نارنگ کے حواریوں کی تین مختلف تحریریں ہماری نظر سے گزر چکی ہیں۔ تینوں تحریروں میں سرقے کو نظر انداز کرکے ذاتیات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے، جو قطعی طور پر غیر ادبی رجحان کو برقرار رکھنے کی ایک کوشش ہے۔نارنگ یا ان کے کسی حواری سے ادب میں مثبت اقدار کا رجحان پیدا کرنے کی امید بھی کیسے رکھی جاسکتی ہے؟ ان کے نزدیک خداکو سرقے کا انکشاف کرنے والوں کو’ توفیق‘ دینی چاہیے کہ نارنگ سے بڑا کام کر کے دکھائیں ، ہمیں یہ خبر نہیں کہ نارنگ کو یہ’ توفیق‘

کس نے عطا فرمائی ہے کہ اس قدر دلیری سے انھوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ بہرحال ہم اس قسم کی ’توفیق‘ کو انتہائی معذرت کے ساتھ قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ نارنگ اور ان کے وہ حواری جن کی تحریریں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کو فلسفیانہ اصطلاحات کی تفہیم کے لیے کم از کم دس برس درکار ہیں، نارنگ کو سہارا دینے کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں۔ علمی سطح پر دیکھیں تو یہ لوگ نارنگ کو کیا سہارا دے سکتے ہیں جن کو خود نارنگ کی بیساکھیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اہم نکتہ یہ ہے کہ اب تک اردو دنیا سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص نہ ایسے حوالے پیش کرسکا ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ ہم نے نارنگ کے سرقے سے متعلق جن ابواب کے حوالے رقم کیے تھے وہ صحیح نہیں تھے، اورنہ ہی اس سچ کو اردو دنیا سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص چیلنج کر سکاہے کہ نارنگ کی کتاب میں ساختیات اور پس ساختیات والا حصہ لفظ بہ لفظ ترجمہ نہیں ہے۔ہمارا یہ بھی کہنا ہے کہ مترجم اور سارق بننے میں زیادہ فرق نہیں ہوتا ،

اس فرق کو قائم رکھنے کے لیے متعلقہ ادیب میں سچی ادبی روح کا ہونا ضروری ہوتا ہے، نارنگ کے حوالے سے اس کا مسلسل فقدان نظر آرہا ہے۔اگر نارنگ خود کو سارق تسلیم نہیں کرتے تو کتاب پر بحیثیت مترجم نارنگ کا نام لکھنے پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، جب چند فقرے تک خود تحریر نہیں کیے، ’افہام و ترسیل‘ کے لیے شارحین کی کتابوں کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا گیا ہے تو مصنف ہونے کی دہائی کس لیے دی جارہی ہے؟ سارق کو ’ادب کا کوہ ہمالیہ‘کون کہہ سکتا ہے؟ کوہِ ہمالیہ کا تعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،بشرطیکہ نارنگ کی ’’ادبی میراث‘‘ میں سے سرقے کے پہلو کو حذف کرکے نہ دیکھا جائے۔یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ نارنگ نے بلاشبہ سرقے کا ’کوہِ ہمالیہ‘ تیار کیا ہے۔ ادبی سچائی اور ادبی اقدار کی بات وہ لوگ کیسے کرسکتے ہیں جو علمی و انسانی سچائی سے کوئی واسطہ تک نہیں رکھتے۔جو اپنی تحریروں میں سماجی و اخلاقی اقدار کے برعکس خود ساختہ ادبی اقدار کی بنیاد پر ادب کا دربار عالیہ تعمیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ گروہ بندیوں میں حواریوں کی حیثیت کسی ضمیر فروش شخص سے زیادہ ہرگز نہیں ہوتی، جبکہ سچے لوگوں کے لیے ’ادبی‘ شخصیات کی صرف اتنی اہمیت ہوتی ہے، جس حد تک شخصیات ادبی اقدار کے معیار پر پورا اترتی ہیں۔حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ادب برائے ادب کا واویلا کرنے والے ’ادب ‘ کو اہمیت دیتے ہیں، لیکن ادیبوں کی ادبی ’میراث‘ کا تعین ذاتی تعلقات کی بنا پر کرتے ہیں۔ نارنگ کے حوالے سے دیکھیں تواس قسم کے رویوں کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری خود نارنگ پر عائد ہوتی ہے کہ کیوں انھوں نے سرقے سے متعلقہ صورتحال کو پیچیدہ بنا رکھا ہے؟ گزشتہ برس سرقے سے متعلق نکات کے حوالے سے نارنگ سے ایک سوال کیا گیا جس کا نارنگ نے مشکوک سا جواب دیا۔پہلے سوال کی جانب چلتے ہیں:’’کہاجاتاہے کہ ساختیاتی تنقید کو اردو ادب میں پیش کرنے والوں نے اُسے ترجمہ یا اخذ وتلخیص کی صورت میں پیش کیا ہے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں‘‘نارنگ نے سوال کا دو ٹوک اور متعلقہ جواب دینے کی بجائے اردو کے مضمون نویسوں کے لیے اپنے مذکورہ انٹرویو میں ’’شہرہ آفاق تصنیف‘‘ کے بارے میں صفائی پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں

کہ ’’میرے سامنے ایسے نمونے تھے جہاں لوگ بات توفلسفے کی کرتے ہیں لیکن بہت جلد تخئیل کے پروں سے اڑنے لگتے ہیں اور ’ایجاد بندہ ‘کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے اصل متن سے زیادہ خودکونمایاں کرنے میں لگ جاتے ہیں یاپھر اپنے اسلوب کاشکار ہوکرکم وبیش انشائیہ لکھنے لگتے ہیں ‘‘ (ص،۱۱)۔نارنگ صاحب اگر وہ انشائیہ لکھنے لگتے ہیں تو لکھنے دیں، آپ اپنے سرقے کی وضاحت کریں۔سوال تو آپ سے کیا گیا ہے اور آپ نے تسلیم کیا ہے کہ آپ نے ’’ترجمہ و تلخیص‘ ‘بھی کی ہے۔ یہ کیا مہمل جواب ہے کہ’’ ترجمہ و تلخیص میں نے کی ہے ‘‘ محض اس لیے کہ اہلِ اردو انشائیہ لکھنے لگتے ہیں؟ کیا انٹرویو کو مزاح کے کسی پروگرام کے طور پر پیش کرنا تھا؟مزید فرماتے ہیں ’’ ایک تو اصطلاحیں نہیں تھیں دوسرے نئے فلسفیوں کااندازایساپیچیدہ،معنی سے لبریز اور گنجلک ہے کہ اسے سائنسی معروضی صحت کے ساتھ قاری تک منتقل کرنا زبردست مسئلہ تھا ‘‘(ص،۱۱)۔ اس سے زیادہ کم فہمی پر مبنی اقتباس راقم نے اپنی تمام زندگی میں نہیں پڑھا۔ جو شخص مغربی تھیوری کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کرتا ہے وہ سائنسی معروضیت کی بات ہی کیسے کرسکتا ہے؟ ہندوستان میں پروگریس پریس یا Penguin کی شائع شدہ کوئی ڈکشنری دستیاب ہوگی، اس طرح کی اصطلاحات کے استعمال سے قبل اس قسم کی ڈکشنریوں کا مطالعہ ہی فرما لیا ہوتا۔ شری نارنگ صاحب اگر آپ کے پاس ’اصطلاحیں نہیں تھیں تو اس میں دوسروں کا کیا قصور ہے؟ دوسروں کا حوالہ دیکر، ان کے نقائص نکال کر اپنی غلطی پر پردہ کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟ اس سے مضحکہ خیز بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص زید یہ کہے کہ اس نے سرقہ اس لیے کیا تھا کہ دوسرے شخص بکر کو لکھنا نہیں آتا۔ اسے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر وہ سرقہ نہ کرتا تو وہ خود ’تخئیل کے پروں سے اڑنے لگتا۔‘‘ ان اقتباسات کودیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے

کہ اس وجہ سے نارنگ نے سرقے کا ارتکاب کیا تاکہ وہ خود کو خود ساختہ مضمون نویسوں اور نام نہاد نقادوں سے ممیز کرسکیں، ممیز ہونے کے پہلو کو قبول کیا جاسکتا ہے، مگر اس امتیاز کی گہرائیوں میں سرقہ پیوست ہے۔ اگر وہ سرقے کا ارتکاب نہ کرتے تو پھر دوسروں سے خود کو الگ کیسے کرسکتے تھے؟اس کا جواب دینا باقی ہے۔ حقیقت میں اس اقتباس میں اردو سے تعلق رکھنے والے نقادوں کا احاطہ کیا گیا ہے، مگر خود کو سرقے ہی سے ان سے الگ رکھا گیا ہے۔ یہ اقتباس جہاں دیگر نقادوں کی علمی بصیرت کو عیاں کرتا ہے وہاں نارنگ کی اہلیت کو بھی کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ اسی لیے اوپر کہا گیا ہے کہ نارنگ اور حواریوں کو زیرِ سرقہ نہیں بلکہ زیرِ تعلیم رہنے کی اشد ضرورت ہے۔تاہم نارنگ نے غلط موقع پر یہ کہہ کر کہ’’ فلسفے میں سائنسی معروضیت درکار ہوتی ہے‘‘ (ص،۱۱)، اپنی کم علمی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ سائنسی معروضیت کی اس حد تک مہمل تعبیر کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ نارنگ سرقے کے ارتکاب کے بعد صورتحال کو پیچیدہ یا ابہام میں رکھنے کے لیے جو کچھ بھی کہیں گے، اس سے ان کے فکری تضادات مزید نمایاں ہوتے چلے جائیں گے۔ نارنگ نے جو دلیل استعمال کی ہے اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ فلسفہ علمیات میں ’سائنسی معروضیت‘ کا ذکر کر رہے ہیں یا پھر فلسفہ جمالیات میں انھیں ’سائنسی معروضیت‘ درکارہے؟ مابعد جدیدیت میں زبان سے الگ کسی بھی معروضی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاتا، جبکہ جدلیاتی فلسفوں میں معروضی حقیقت انسانی سبجیکٹ سے الگ، اپنی حرکت میں موجود رہتی ہے۔ نارنگ کے کچھ ایسے بھی اقتباسات موجود ہیں جن میں وہ ’’پورے وثوق ‘‘سے عرض کرنا چاہتے ہیں ،کہ تھیوری یعنی ادبی نظریہ سازی یا فلسفہ ادب ایک مکمل مثالی (آدرشی )صورتحال ہے‘‘ ۔(مابعد جدیدت پرمکالمہ،ص،۵۰)۔ اس دعوے سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ معروضیت نارنگ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ان کے اس فقرے میں رومانوی جمالیات کی وہ گونج سنائی دے رہی ہے جو کانٹین فلسفے سے شروع ہوئی اور مابعد جدیدیت تک پہنچی۔ نارنگ نے تھیوری کو معروضی عمل سے کیسے الگ کرلیا

اور اس کے بعد محض اپنے سرقے کے دفاع کے لیے ’سائنسی معروضیت‘ کی اصطلاح کو کیوں تراش لیا؟ اس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔اگر ہم یہ سمجھیں کہ نارنگ کے ذہن میں کوئی بھی اصطلاح واضح انداز پر موجود نہیں ہے، وہ شعرا ہی کی طرح تھیوری یا پھر فلسفہ جمال کو بھی کسی ’کیفیت‘ کے اثر کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، یا پھر یہ سمجھیں کہ وہ فلسفے کی بنیاد پر سائنسی معروضیت پر یقین رکھتے ہیں؟ تاہم یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ دونوں رویے و ترجیحات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ اگر وہ فلسفہ جمالیات میں سائنسی معروضیت کے دعوے سے انحراف کریں، ایک طرف ان کا جواب اثبات میں ہے دوسری طرف نفی میں، تو پھر انھیں یا ان کی پوری ٹیم کو لوکاچ کے فلسفے سے تجزیاتی بحث کرنا پڑے گی، قطع نظر اس سے کہ ان کی تحریروں میں تجزیاتی مباحث کا کلی طور پر فقدان ہے۔لوکاچ کے معروضی جمالیاتی نظریے کے بارے میں یہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ علمیات کا مسئلہ ہو یا جمالیات کا، لوکاچ دونوں صورتوں میں معروضی تضادات میں مماثلت کو دیکھتا ہے، تعقلات ہو یا تخیل دونوں صورتوں میں ان کی نوعیت یکساں رہتی ہے، مگر ان تضادات کی تحلیل کا عمل علمیاتی اور جمالیاتی حوالوں سے مختلف طریقوں سے طے پاتاہے۔اگر نارنگ خود سے متصادم ہوکر فلسفہ جمالیات میں معروضیت کا انکار کردیں، جیسا کہ انھوں نے اوپر کیا ہے، تو پھر انھیں ’’ترجمے یا تلخیص‘‘ کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب کے لیے کوئی اور دلیل تلاش کرنا ہوگی۔اگر نارنگ معروضیت کے دعوے پر قائم رہیں تو’ خیالی‘ یا ’آدرشی‘ کو داؤ پر لگانا کم از کم اس صورت میں ضروری ہوجاتا ہے، جس صورت میں نارنگ اس کو پیش کرتے ہیں۔نارنگ کے دعوے اور جواز سے اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں ہے کہ نارنگ بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ انھوں نے’’فلسفے میں سائنسی معروضیت‘‘ کا استعمال محض سرقے کے دفاع کے لیے کیا ہے، ورنہ نارنگ سے یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ وہ ایک طرف مابعد جدیدیت کو بغیر کسی بھی طرح کی تنقید کے قبول کرلیں اور اس کے بعد ’سائنسی معروضیت‘ کا سہارا لینا شروع کردیں؟

مابعد جدیدیت کو جس انداز میں مغرب سے ہتھیایا گیا ہے، اس سے زیادہ ’سائنسی معروضیت‘ کی تضحیک اور کیسے ہوسکتی ہے؟’سائنسی معروضیت ‘ میں جو مقولات تشکیل دیے جاتے ہیں ان میں شعور کی درستگی سے زیادہ معروضی انداز میں متشکل ہوئے مقولات کی درستگی درکار ہوتی ہے۔جب سوچ کو تجریدات کے سپرد کردیا جاتا ہے تو سوچ کی دررستگی سے غرض ہوتی ہے۔ لیکن سوچ کی درستگی معروض کے تمام پہلوؤں کی درستگی کیسے ہوسکتی ہے؟نارنگ نے سرقے کے علاوہ مابعد جدیدیت کو سمگل کرنے کی جو حرکت کی ہے اگر ان ’لاتشکیلی‘ مقولات کو اپنے تناظر سے ماخوز مقولات کے مدِ مقابل رکھ کر جانچتے تو اس کے باوجود کہ مقولاتی تجریدات کی نوعیت معروضیت سے عاری ہوتی، پھر بھی ان کی اس ’کاوش‘ کو کسی حد تک پزیرائی مل سکتی تھی۔ مابعد جدید علمیات سے آگاہی رکھنے والے قارئین جانتے ہونگے کہ یہ فلسفے کی حدود متعین کرنے کی ایک کوشش ہے۔ فلسفے میں سائنسی معروضیت کا سوال فلسفے کو درپیش چیلنج کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔فلسفے میں سائنسی معروضیت کے دعوے کی سب سے جامع مثال ہیگل کا جدلیاتی فلسفہ ہے۔تاہم ہیگل کے فلسفے میں معروضیت کا سوال انسانی شعور سے الگ نہیں ہے۔لیکن ہیگل کے فلسفے میں مقولات کا کردار کانٹین فلسفے کے برعکس مقرونی نوعیت کا ہے، گو کہ ہیگل کی معروضیت کی تشریح میں شعور کے اولین کردار میں نفی کی نوعیت تجریدی ہوجاتی ہے، جو معروضیت کے سوال کو کسی حد تک نظر انداز کرتی ہے، اس کے باوجود ہیگل کے فلسفے میں معروض کے تجزیے کے دوران سائنسی معروضیت کا پہلو اس لیے بھی غالب رہتا ہے کہ اس میں مقولات فلسفے کی تمام تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں، جبکہ ہیگل کے اپنے عہد میں پائے جانے والے رجحانات سے، جو حسی ادراکات سے حاصل ہوتے ہیں، ان مقولات کا موازنہ کیا جاتا ہے، یہ بالکل ایسا ہے جیسا کہ آئن سٹائن اپنے پیش رو ہیگل کے طریقے پر عمل کرتا ہوا نیوٹن کے مطالعے کے دوران نیوٹن کی تھیوری کو اپنے عہد میں ابھرنے والے نئے حقائق سے منسلک کرکے دیکھتا ہے، اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچتا ہے

کہ وہ اس کے عہد کے حقائق کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں۔معروضیت کا دوسرا پہلو فلسفہ مادیت کے زمرے میں آتا ہے، اگر نارنگ اس کو تسلیم کرتے ہیں، تو انھیں ان امتیازات کی نشاندہی کرنا ہوگی جو معروضیت کا مادی پہلو (جس میں شعور کا سوال ثانوی حیثیت اختیار کرجاتا ہے) اور معروضیت کا وہ پہلو جس میں شعور کی اولیت برقرار رہتی ہے۔لیکن افسوس کے نارنگ کا علم انتہائی سطحی ہے، نارنگ نے نہ ہی کبھی سائنس کی کسی کتاب کو چھوا ہے اور نہ ہی کبھی فلسفے کو درخور اعتنا سمجھا ہے۔مابعد جدید مفکر ژاک دریدا نے اپنی مختصر کتاب ’پوزیشنز‘ میں ’لاتشکیل‘ اور سائنس کے مسئلے پر سوال اٹھایا ہے۔اگر ہمارے اذہان میں ’فلسفہ لاتشکیل‘ واضح اور صریح انداز میں موجود ہے، تو ہمیں یہ علم ہونا چاہیے کہ اس میں تعقلات (Concepts )سے جڑے ہوئے ہر اس فلسفے اور سائنسی عمل کی تنقید شامل ہوتی ہے، جو ’وجودی و الہیاتی‘ یا پھر لوگوس وغیرہ کی بنیاد پر وجود پزیر ہوا ہو۔ دریدا کو چونکہ یقین ہے کہ جس سائنس کا آغاز یونان سے ہوا ، اس میں مابعد الطبیعات کی تنقید کے باوجود مابعد’الطبیعاتی ثبوتیت‘(Metaphysical Positivism) قائم رہتی ہے، لہذا لاتشکیل کو لوگوس سے اس انداز میں نبرد آزما ہونا ہے کہ سائنس کو مابعد الطبیعات کے اس پہلو سے نجات مل جائے، جو تعقلات کی بنیاد پر معنویت کو جنم دیتا ہے۔دریدا کے الفاظ میں’’تحریریات کو لوگوس کی بنیاد پر قائم ہوئی سائنسی معنویت سے تجاوز کرنے والے سائنسی عمل کو مضبوط بنانا ہے‘‘ (ص،۳۶۔۳۵)۔جہاں تک سماجی سائنسوں کا تعلق ہے جن سے فلسفہ نبرد آزما ہوتا آیا ہے، ان میں تعقلات کی بحث سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی، جبکہ ’لاتشکیل‘ انہی تعقلات کی تنقید کا نام ہے۔ دریدا کے الفاظ میں یہ ’’سائنس کی حدود متعین کرتی ہے۔‘‘ لاتشکیل جس ’تحریریات‘ کو تعقلاتی فلسفے‘ کی تنقید کے لیے استعمال کرتی ہے، جو سائنسی معروضیت کی دعویدار ہے، اسے نئی سائنس کہنا بھی مناسب نہیں ہے،

جو ’’نئے مافیہ اور نئے علاقے سے سروکار رکھتی ہو‘‘ (ایضاََ،ص،۳۶)۔ ’لاتشکیل‘کا مفہوم سمجھنے والے اور اس پر یقین رکھنے والے شخص کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی حرکت کا دفاع کرنے کے لیے جب چاہے جس مرضی دلیل کو غلط پیرائے میں پیش کردے؟ اس پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے فلسفے سے نابلد قاری کو یہ مشورہ دینا ضروری ہے کہ وہ جمالیاتی تھیوری سے متعلق نارنگ کی کتابوں کا مطالعہ ہرگز نہ کرے، کیونکہ دلائل اور ان کے تسلسل میں فقدان سے گمراہی کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ نارنگ مزید فرماتے ہیں کہ’’میری کتاب کے شروع کے دونوں حصے تشریحی نوعیت کے ہیں ۔ ۔۔۔جہاں ضروری تھا وہاں تلخیص اورترجمہ بھی کیاہے۔ ۔۔نئے فلسفیوں اور اُن کے نظریوں اوران کی بصیرتوں کی افہام وتفہیم میں نے اخذ و قبول سے بے دھڑک مددلی ہے۔۔ ۔۔واضح رہے خیالات سوسئیر ،لیوی سٹراس ،رومن جیکب سن ، لاکاں ،دریدا ،بارتھ فوکو، کرسٹیوا ،شکلووسکی ،باختن وغیر ہ کے ہیں، میرے نہیں۔ اِ سی لئے کتاب کاانتساب اُن سب فلسفیوں اور مفکروں کے نام ہے جن کے خیالات پرکتاب مشتمل ہے ۔ اس امر کی وضاحت دیباچے میں کردی گئی ہے کہ "خیالات اورنظریات فلسفیوں کے ہیں افہام وتفہیم اور زبان میری ہے ۔"‘‘ (سہ ماہی "ادبِ عالیہ انٹرنیشنل "وہاڑی کے شمارہ نمبر2،جلد نمبر8کے اپریل ،مئی ،جون 2008ء صفحہ نمبر11)۔نارنگ نے جو نام گنوائے ہیں (سوسئیر ،لیوی سٹراس ،رومن جیکب سن ، لاکاں ،دریدا ،بارتھ فوکو، کرسٹیوا ،شکلووسکی ،باختن) نارنگ کی’’شہرہ آفاق تصنیف ‘‘ کو پڑھ کر کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ نارنگ نے براہِ راست ان میں سے کسی بھی کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ دریدا ،بارتھ فوکو، کرسٹیوا، شکلووسکی ،باختن وغیرہ پر لکھا گیا ہر لفظ رامن سیلڈن کی کتاب کا حرف بہ حرف ترجمہ ہے (دریدا اور ردِ تشکیل پر کافی مواد نورس کی کتاب سے لیا گیا ہے، گزشتہ مضامین میں اس پہلو کو حوالوں سے ثابت کیا جاچکا ہے)۔ اس انٹرویو کے پہلے فقرے کے مطابق نارنگ سمجھتے ہیں کہ ان کی کتاب کے دو حصے ’’تشریحی نوعیت کے ہیں‘‘( واضح رہے کہ انہی دو حصوں میں ساختیات اور مابعد ساختیات کی’ بحث‘ ہے)۔حقیقت یہ ہے کہ یہ دو حصے واقعی تشریحی نوعیت کے ہیں

مگر یہ تشریح نارنگ نے ہرگز نہیں کی، نارنگ نے تو مغربی شارحین کی تشریحات کو جوں کا توں اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اگر نارنگ کی دیگر کتابوں کا ذکر کریں جس میں آپ نے تھیوری یا تنقید پر ’بحث ‘کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی دیگر’تصانیف‘ بھی تمام و کمال تشریحی نوعیت کی ہیں۔ اس لیے اس کتاب (ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات) اور ان کتابوں (جدیدیت کے بعد، مابعد جدیدیت پر مکالمہ) کے درمیان اس فرق کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ انٹرویو لینے والا اگر تشریح اور تنقید و تجزیے کے مابین فرق کو سمجھ رہا ہوتا اور اس نے نارنگ کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوتا، تو یہ سوال ضرور اٹھاتا۔اگر کتابوں کا مطالعہ ہی نہیں کیا تو انٹرویو لینے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ؟ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے حلقے میں مطالعے کے بغیر محض صلاح مشورے ہی سے ادبی و علمی قضایا کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نارنگ کے انٹرویو،جس کا اقتباس اوپر پیش کیا گیا ہے،کو توجہ سے پڑھیں تو واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے کسی حد تک یہ تسلیم کرلیا ہے کہ ان کی کتاب کے بعض حصے’ ترجمہ و تلخیص‘ ہیں

،حقیقت یہ ہے کہ نارنگ نے ’ترجمہ و تلخیص بھی ‘ نہیں بلکہ ’ترجمہ و تلخیص‘ ہی کی ہے۔ اگر ان کے جواب کو مزید کریدنے کی کوشش کی جاتی تو کچھ اور حقائق سامنے لائے جاسکتے تھے، یا پھر راقم کے لکھے ہوئے مضامین میں سے ترجمہ کیے ہوئے ابواب انگریزی حوالوں کے ساتھ پیش کیے جاتے اور ان سے یہ سوال کیا جاتا کہ ان کے حوالے کہیں بھی موجود نہیں ہیں، اور ان مضامین میں پیش کیے گئے اقتباسات چند فقروں پر مشتمل نہیں بلکہ سرقہ کیے ہوئے ابواب کا ایک طویل سلسلہ ہے جو نارنگ کی کتاب تقریباََ ۲۰۰ صفحات پر محیط ہے (پہلے تین مضامین کی حد تک)۔اور اگر نارنگ صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کے حوالے ان ابواب کے اندر موجود ہیں تو ان سے ان حوالوں کی نشاندہی کی درخواست کی جاتی۔ اس کے بعد نارنگ کا جواب خالی ازدلچسپی ہر گز نہ ہوتا۔ نارنگ نے اپنے جواب میں ابہام کو قائم رکھنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے، جھجک نمایاں ہے، کہیں کہیں شرمندگی کا پہلو بھی ابھرتا ہے۔ اگر نارنگ صرف یہی کہتے کہ مذکورہ کتاب ’’تلخیص و ترجمہ‘‘ ہی ہے تو ابہام دور ہوجاتا، لیکن ایک اہم ترین سوال پھر بھی باقی رہتا کہ پھر نارنگ خود کو مصنف کیوں کہہ رہے ہیں؟ نارنگ کا جواب ایک بار پھر قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتا، جو اردو سے تعلق رکھنے والے بیشتر خود ساختہ ادیب و نقاد اور فکری و علمی سطح پر معذور نارنگ کے ان حواریوں کو مزید تسلی دینے کے لیے کافی ہوسکتا تھا جو نارنگ کے دفاعی کمان میں بددیانتی کے تمام اوزاروں سے لیس کھڑے ہیں، مگر سچے ادیب کے لیے نارنگ کی اس کتاب کی حقیقت کو سمجھنا مزید آسان ہوجاتا۔ اوریجنل لکھنے والوں کے لیے نارنگ سے لیے گئے انٹرویوکے مذکورہ بالااقتباس میں پیش کیے گئے اعترافات ناکافی ہیں۔ مثلاََ ان کا یہ تسلیم کرلینا کہ انھوں نے ’’ترجمہ و تلخیص‘‘ بھی کی ہے، کسی حد تک تسلی بخش ضرور ہوسکتا ہے، مگر یہ کتاب سے متعلق کل سچائی کا انکشاف نہیں ہے۔ جس حد تک ادبی دیانت کی ضرورت تھی یا ہے، وہ نہ ہی نارنگ میں کہیں دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی ان کے کسی ذہنی معذور حواری میں نظر آتی ہے۔یہاں تک کہ انٹرویو لینے والوں میں بھی مفقود ہے، جو مکمل تیاری کے ساتھ انٹرویو لینے کے لیے نہیں بیٹھتے۔ انٹرویو کی نوعیت دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ نارنگ سے لیے گئے انٹرویو میں سوالات کا انتخاب یقیناََ نارنگ کے انٹرویو لینے والے کے ساتھ تعلق کی نوعیت کو سامنے رکھ کر کیا گیاہے۔

انٹرویو میں سوالات کے نتیجے میں سامنے آنے والے جوابات میں سے پھر سوالات نکالے جاتے ہیں۔یہاں پر ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ انٹرویو بھی غیر جانب دار نہیں ہے۔مستقبل میں اگر کوئی غیر جانب دار شخص نارنگ کا انٹرویو کرے تو صرف یہ سوال پوچھا جائے کہ نارنگ صاحب آپ اپنی ’’شہرہ آفاق‘‘ تصنیف کے حوالے سے خود کو مترجم تسلیم کرتے ہیں یا پھر خود کوسارق کہلوانا پسند کریں گے ؟ اگر انھیں مترجم پر اعتراض ہو تو ان کے وہ تمام صفحات انھیں پیش کیے جائیں جو لفظ بہ لفظ ترجمہ ہیں، گو کہ ان صفحات کی تفصیل متن کے اندر نہیں دی گئی، اس کے باوجود اگر نارنگ یہ کہیں کہ انھوں نے کہیں خلا میں ہی صفحات کی تفصیل دے رکھی ہے، تو پھر نکتہ یہ ہے کہ انھیں مصنف کیسے تصور کرلیا جائے؟نارنگ نے اپنے انٹرویو میں ’بے دھڑک‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ کم از کم میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ علمی و فکری قضایا کی بحث میں ’بے دھڑک‘سے کیا معنی اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ خواہ کتنے ہی ’بے دھڑک‘کیوں نہ ہوجائیں، لیکن صرف یہ خیال رہے کہ کسی کی کتاب یا مضمون پر پر اپنا نام نہ لکھ دیں۔ اگر آپ یہ فرماتے ہیں کہ ’’بے دھڑک‘‘ سے ہم اپنی مرضی کا مطلب نکال لیں تو اس سے ہم یہی کہیں گے کہ نارنگ نے لفظ بہ لفظ جو ترجمہ پیش کیا ہے، اس کے حوالے تک نہیں دیے۔اگر یہ سچ ہے تواس کو قبول کرلینے میں کیا حرج ہے؟ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ نارنگ نے ایک اور کتاب ’’مابعد جدیدیت پر مکالمہ‘‘ میں اپنا نام بطورِ مرتب لکھا ہے۔ ’’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ میں جب تمام ابواب لفظ بہ لفظ ترجمہ ہیں تو خود کو مصنف کے طور پر پیش کرنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔سرقے سے متعلق مسئلے کو مغر بی فلسفیوں کے خیالات سے متعلق بحث میں گم نہیں کیا جاسکتا ۔یہ بالکل درست ہے کہ خیالات مغربی فلسفیوں کے ہی ہیں، لیکن اس نکتے کا اطلاق نارنگ کی مذکورہ کتاب پر نہیں ہوتاکیونکہ اس میں الفاظ تک مغربی شارحین سے جوں کے توں اٹھائے گئے ہیں، اس کا اطلاق البتہ ان کی دیگر کتابوں پر کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ان میں الفاظ تو نارنگ کے ہیں مگر خیالات ان میں مغربی مفکرین ہی کے ہیں۔ ان میں پیش کیے گئے خیالات کا تعلق نارنگ کی ان قضایا کی تفہیم سے ہے، بے شک ان کی تفہیم بھی ادھوری ہے۔ جیسا کہ ان کی کتاب ’’جدیدیت کے بعد‘‘ اور مرتب کردہ ’’مابعد جدیدیت پر مکالمہ‘‘ اسی کتاب کا چربہ ہیں،کوئی ایک بھی خیال ایسا نہیں جس کو نارنگ نے مغرب سے اٹھا نہ لیا ہو۔ راقم نے اپنے کسی اور مضمون میں اس کا احاطہ کردیا ہے۔ ہمارے لیے ان کتابوں میں بھی دلچسپی محض نارنگ کی صحیح یا غلط تفہیم کی حد تک ہے، نہ کہ یہ کہ ان میں نارنگ کو نظریہ ساز تسلیم کر لیا جائے۔ یہ واضح رہے کہ ’’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ پر ہمارے اعتراضات کا تعلق صرف ان پہلوؤں سے ہے، جو نارنگ کے اعتراف کی صورت میں یا تو’ ترجمہ ہیں‘، بصورتِ دیگر سرقے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں ۔ نارنگ یا تو یہ تسلیم کریں کہ کتاب لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے اور کتاب پر اپنا نام بطورِ مترجم تحریر کریں، اگر نارنگ یہ تسلیم نہیں کرتے تو وجہ بیان کریں

کہ انھیں سارق کیوں نہ کہا جائے؟ راقم نے اپنے پہلے مضمون کا عنوان ہی یہ دیا تھا ’’گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں۔‘‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ اردو کا ایوارڈ یافتہ نقاد اتنے سنگین جرم کا ارتکاب کیسے کرسکتا ہے؟ اس لیے ہماری نشاندی کے بعد ممکن ہوسکتا تھاکہ نارنگ اس جانب توجہ مرکوز کرتے اور اگر یہ واقعی غلطی ہے تو اسے تسلیم کرکے اس کا ازالہ کرلیا جاتا۔ نارنگ نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور لمبی خاموشی تان لی تو ہمیں انھیں سارق کہنا پڑا، جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی انھیں سارق تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے وہ بھی نارنگ ہی کی طرح ادبی میدان کا رہزن ہے۔

جاری ہے۔

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply