سرقے کا کوہ ہمالیہ....چوتھا حصہ

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under

عمران شاہد بھنڈر....برمنگھم
سرقے کا کوہ ہمالیہ ... چوتھا حصہ
’’یاؤس کہتا ہے کہ یہ سوچنا غلط ہے کہ کوئی بھی فن پارہ تمام زمانوں کے لیے ہے یا آفاقی ہے، یا اس کے جو معنی خود اس کے زمانے میں متعین ہوگئے، وہی معنی ہر عہد میں قاری پر واجب ہیں۔ ادبی فن پارہ ایسی چیز نہیں جو قائم بالذات ہو، اور جو ہر عہد میں قاری کو ایک ہی چہرہ دکھاتا ہو۔ بقول یاؤس فن پارہ کوئی یاد گار تاریخی عمارت نہیں، جو تمام زمانوں سے ایک ہی زبان میں بات کرئے گی۔ گویا ادب کی دنیا میں ہم کسی ایسے’ افق اور توقعات‘ کا تصور قائم نہیں کرسکتے
جو سب زمانوں کے لیے ہو۔ ایسا کرنا تاریخی حالت کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ یعنی ہم کس کو صحیح مانیں، سابقہ قارئین کی رائے کو، یا مابعد کے قارئین کی رائے کو، یا خود اپنے دور کی قارئین کی رائے کو‘‘ ( نارنگ ،ص ۳۰۶۔ ۳۰۵)۔ اس کے بعد ویلیمز بلیک کے ذکر سے نارنگ نے سرقہ جاری رکھا ہوا ہے۔واضح رہے کہ کہیں بھی صفحہ نمبر نہیں دیا گیا۔ایک بار پھر رامن سیلڈن کی جانب چلتے ہیں،
The French semiotician Michael Riffaterre agrees with the Russian Formalists in regarding poetry as a special use of language. Ordinary language is practical and is used to refer to some sort of 'reality', while poetic language focuses on the message as an end in itself. He takes this formalist view from Jakobson, but in a well-known essay he attacks Jakobson's and Levi-Strauss's interpretation of Baudelaire's 'Les Chats'. Riffaterre shows that the linguistic features they discover in the poem could not possibly be perceived even by an in formed reader. All manner of grammatical and phonemic patterns are thrown up by their structuralist approach, but not all the features they note can be part of the poetic structure for the reader. However, Riffaterre has some difficulty in explainig why something perceived by Jakobson does not count as evidence of what readers perceive in a text.Riffaterre developed his theory in Semiotics of Poetry (1978), in which he argues that competent readers go beyond surface meaning. If we regard a poem as a string of statements, we are limiting our attention to its 'meaning', which is merely what it can be said to represent in units of information. If we attend only to a poem's 'meaning' we reduce it to a (possibly nonsensical) string of unrelated bits. A true response starts by noticing that the elements (signs) in a poem often appear to depart from normal grammar or normal representation: the poem seemes to be establishing significance only indirectly and in doing so ' threatens the literary representation of realty'. It requires only ordinary linguistic competence to understand the poem's 'meaning', but the reader requires'literary competence' to deal with the frequent ' ungrammaticalities' encountered in reading a poem. Faced with the stumbling-block of ungrammaticalness the reader is forced, during the process of reading, to uncover a second (higher) level of significance which will explain the grammatical features of the text. What will ultimately be uncovered is a strcutural 'matrix', which can be reduced to a single sentence or even a single word. The matrix can be deduced only indirectly and is not actually present as a word or statement in the poem. The poem is conected to its matrix by actual versions of the matrix in the form of familiar statements, cliches, quotations, or conventional associations. it is the matrix which ultimately gives a poem unity. this reading process can be summarised as follows: 1. Try to read it for ordinary 'meaning': 2. Highlight those elements which appear umgrammatical and which obstruct on ordinary mimetic interpretation: 3. Discover the 'hypograms' (or commonplaces) which receive expanded or unfamiliar expression in the text; 4. Derive the 'matrix' from the ' hypograms'; that is, find a single statement or word capable of generating the ' hypograms' and the text. (Seldon, P,60-61).
نارنگ کے سرقے کی جانب چلتے ہیں،’’مائیکل رفاٹیر شعری زبان کے بارے میں روسی ہئیت پسندوں کا ہم نوا ہے کہ شاعری زبان کا خاص استعمال ہے۔ عام زبان اظہار کے عملی پہلو پر مبنی ہے، اور کسی نہ کسی حقیقت (REALTY ) کو پیش کرتی ہے، جبکہ شعری زبان اس ’اطلاع‘ پر مبنی ہے جو ہئیت کا حصہ ہے اور مقصود بالذّات ہے۔ ظاہر ہے اس معروضی ہئیتی رویے میں رفاٹیر، رومن جیکبسن سے متاثر ہے ، لیکن وہ جیکبسن کے ان نتائج سے متفق نہیں جو جیکبسن اور لیوی سٹراس نے بودلئیر کے سانٹ Les Chat کے تجزیے میں پیش کیے تھے۔ ریفا ٹیر کہتا ہے کہ وہ لسانی خصائص جن کا ذکر جیکبسن اور سٹراس کرتے ہیں، وہ کسی عام ’باصلاحیت قاری‘ کے بس کے نہیں۔ ان دونوں نے اپنے ساختیاتی مطالعے میں جس طرحکے لفظیاتی اور صوتیاتی نمونوں کا ذکر کیا ہے، یہ خصائص کسی بھی ’ جانکار قاری‘ کی ذہنی صلاحیت کا حصہ نہیں ہو سکتے۔ ایک تربیت یافتہ قاری سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ متن کو اس خاص طریقے سے پڑھے ۔ تاہم رفاٹیر یہ بتانے سے قاصر ہے کہ جیکبسن کا مطالعہ اس بات کی شہادت کیوں فراہم نہیں کرتا کہ قاری متن کا تصوّر کس طرح کرتا ہے۔رفاٹیر کے نظریے کی تشکیل اس کی کتاب:semiotics of poetry (1978) میں ملتی ہے۔ اس میں رفاٹیر نے اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے کہ باصلاحیت قاری متن کی سطح پر پیدا ہونے والے معنی سے آگے جاتا ہے۔ اگر ہم نظم کو محض معلومات کا مجموعہ سمجھتے ہیں توہم صرف اس معنی تک پہنچ پائے ہیں جو معلومات سے متعلق ہیں۔ ایک صحیح قرات ان نشانات (signs ) پر توجہ کرنے سے شروع ہوتی ہیں جو عام گرامر یا عام معنی کی ترجمانی سے ہٹے ہوئے ہوں۔ شاعری میں معنی خیزی بالواسطہ طور پر عمل آرا ہوتی ہے، اور اس طرح وہ حقیقت کی لغوی ترجمانی سے گریز کرتی ہے، متن کی سطح پر کے معنی جاننے کے لیے معمولی لسانی اہلیت کافی ہے،لیکن ادبی اظہار کے رموزو نکات اور عام گرامر سے گریز کو سمجھنے اور اس کی تحسین کاری کے لیے خاص طرح کی اَدبی اہلیت شرط ہے۔ ایسے لسانی خصائص جن میں استعمالِ عام سے انحراف کیا گیا ہو، قاری کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ معنی خیزی کی داخلی سطح کو بھی دیکھے، جہاں اظہار کے اجنبی خصائص معنی سے روشن ہوجاتے ہیں ۔ نیز ان تمام مقامات پر بھی نگاہ رکھے جن میں زبان و بیان کے بعض خصائص کی تکرار ہوئی ہے۔ ریفاٹیر اسے نظم کا ساختیاتی MATRIX کہتا ہے جسے مختصر کرکے ایک کلمے یا ایک لفظ میں بھی سمیٹا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ MATRIX ایک کلمے یا ترکیب کی صورت میں نظم میں موجود ہو، چناچہ اس کو متن سے اخذ کرسکتے ہیں۔ نظم اپنے ظاہریMATRIX کے ذریعے داخلیMATRIX سے جڑی ہوتی ہے۔ ظاہری MATRIX بالعموم جانے پہچانے بیانات، کلیشے، یا عمومی تلازمات اور مناسبات سے بُنا ہوتا ہے۔ نظم کی وحدت اس کے داخلی MATRIX کی دین ہے۔۔۔۔۱۔ سب سے پہلے متن کو عام معنی کے لیے پڑھنا چاہیے۔۲ ۔پھر ان عناصر کو نشان زد کرنا چاہیے، جن میں زبان کے عام گرامری چلن سے گریز ہے، اور جو حقیقت کی عام ترجمانی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔۳ ۔اس کے بعد ان عام اظہارات پر نظر رکھی جائے جن کو متن میں اجنبیایا گیا ہے۔۴۔ آخراََ ان تمام اظہارات سے داخلی Matrix اخذ کیا جائے، یعنی وہ کلیدی کلمہ یا لفظ یا ترکیب جو تمام اظہارات یا متن کو خلق generate کرتی ہو‘‘( نارنگ،ص، ۳۱۸۔۳۱۶)۔ اس اقتباس میں ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے اور جو اس اقتباس کو دوسرے اقتباسات سے ممیز کرتا ہے کہ اس میں نارنگ نے سیلڈن کا نام لیا ہے، یقیناََ سیلڈن اپنا نام خود نہیں لے سکتے تھے۔ سیلڈن کا نام لینے کے بعد نارنگ نے سیلڈن کے الفاظ کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کردیا، گو کہ اس کا حوالہ نہیں دیا، چونکہ لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا گیا ہے، اور سیلڈن کے نام کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، اس لیے نارنگ کو یہ رعایت مل سکتی ہے کہ جہاں انھوں نے سیلڈن کا حوالہ دیا وہاں پر انھیں سارق نہ کہا جائے، لیکن مترجم اس صورت میں بھی کہنا ضروری ہے۔ یعنی اس اقتباس کے صرف دوسرے مختصرحصے میں سارق نہیں تو مترجم ہیں، گو کہ حوالہ دینے کا طریقہ کار غلط ہے، جب کسی کے خیالات کا خلاصہ کیا جاتا ہے تو اس صورت میں اپنے الفاظ کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔نارنگ نے سیلڈن کے خلاصے کو پیش کیا ہے، اس لیے اس میں ’’افہام و تفہیم‘‘ تک سیلڈن کی ہے۔فرض کریں کوئی شخص افلاطون کی کتاب ’’ریپبلک‘‘ کا اردو میں دس صفحات پر تعارف پیش کرتا ہے،ایسی صورتحال میں ’’افہام و ترسیل‘‘ کا معیار اس کا اپنا ہوگا۔اگر اس اردو تعارف کو کوئی شخص انگریزی میں ترجمہ کردیتا ہے
تو وہ یہ ہرگز نہیں کہہ سکتا کہ ’افہام و ترسیل‘ اس کی اپنی ہے۔ اگر وہ کسی اور زبان کے مفکر کے مضمون یا تعارف کو اپنی زبان میں لفظ بہ لفظ ترجمہ کرتا ہے تو اس صورت میں خود کو ’’افہام و ترسیل‘‘ کا وسیلہ سمجھنا بددیانتی کی مثال ہوگی۔ اگر اردو میں نارنگ یا ان کے گرد پھیلے ہجوم کے کسی رکن کی جانب سے اس طرح کے کسی معیار کو قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تو اردو ادب کی بقا کے لیے اس طرح کی کاوشوں کو نیست و نابود کرنا ہوگا۔ اسی اقتباس میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جہاں سیلڈن کاحوالہ نہیں دیا گیا وہاں بھی حرف بہ حرف ترجمہ کیا جارہا ہے، اور صفحہ نمبر کاحوالہ کہیں نہیں دیا جارہا، نہ ترجمے کی صورت میں اور نہ سرقے کی صورت میں۔ تاہم دیگر ابواب میں نام تک نہ لینے والی حرکت نارنگ کو سارقوں کی فہرست میں
لاکھڑا کرتی ہے
۔ The notion of 'structure', he argues, even in 'structuralist' theory has always presupposed a 'centre' of meaning of some sort. This 'centre' governs the structure but is itself not subject to structural analysis (to find the structure of the centre would be to find another centre). People desire a centre because it guarantees being as presence. For example, we think of our mental and physical life as centred on an 'I'; this personality is the principle of unity which underlies the structure of all that goes on in this space. Freud's theories completely undermine this metaphysical certainty by revealing a division in the self between conscious and unconscious. Western thought has developed innumerable terms which operate as centring principles: being, essence, substance, truth, form, begining, end, purpose, consciousness, man, God, and so on. It is important to not that Derrida does not assert the possibility of the thinking outside such term; any attempt to undo a particular concept is to become caught up in the terms which the concept depends on. For example if we try to undo the centring concept of consciousness by asserting the disruptive counter force of the 'unconscious', we are in danger of introducing a new centre, because we can not choose but enter the conceptual system (conscious/unconscious) we are trying to dislodge. All we can do is to refused to allow either pole in a system (body/soul, good/bad, serious/unserious) to become the centre and guarantor of presence. This desire for a centre is called 'Logocentrism' in Derrida's classical work Of Grammatology. 'Logos' (Greek for 'word') is a term which in the New Testament carries the greatest possible concentration of presence: ' In the begning was the word'......... Phonocentrism treats writing as a contaminated form of speech. Speech seems nearer to originating thought. When we hear speech we attribute to it a presence which we take to be lacking in writing. The speech of the great actor, orator, or politician is thought to posses presence; it incarnates, so to speak, the speaker's soul. Writing seems relatively impure and obtrudes its own system in physical marks which have a relative permanence; writing can be repeated (printed, reprinted, and so on) and this repition invites interpretation and reinterpretation. Even when a speech is subjected to interpretation it is usually in written form. Writing does not need the writer's presence, but speech always implies an immediate presence. The sounds made by a speaker evaporate in the air and leave no trace (unless recorded), and therefore do not appear to contaminate the originating thought as in writing. Philosophers have often expressed there dislike of writing; they fear that it will destroy the authority of philosophic truth. This Truth depends upon pure thought ( logic, ideas, propositions) which risk contamination when written. Francis bacon ............ (Seldon, 144-145).
واضح رہے کہ سیلڈن یہاں پر ختم نہیں کرتے ، بیکن کی بحث دیکھنے کے لیے قاری مذکورہ ایڈیشن کے صفحہ۱۴۵ سے مطالعہ جاری رکھے جو اسے صفحہ ۱۵۷ تک لے جائے گا جس میں سیلڈن نے دی مان، بلوم، ہارٹمین اور ملر وغیرہ کا تعارف بھی پیش کیاہے۔ سیلڈن کی یہ کتاب بی اے کے طالب علموں کے لیے ہے جبکہ نارنگ کی یہ حرکت اردو کے ’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ادیبوں کی سمجھ سے بھی باہر ہے۔ اس وقت ضروری یہ ہے کہ نارنگ کے سرقے کی نشاندہی کی جائے
:جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

One Response to "سرقے کا کوہ ہمالیہ....چوتھا حصہ"

  1. اعجاز عبید on October 17, 2009 at 7:01 PM

    برادرم، میں اس بحث میں تو حصہ لینا نہیں چاہتا کہ نارنگ بھی میرے بزرگ ہیں اور حیدر قریشی میرے دوست۔ کیا اس کی برقی کتاب بنائی جا سکتی ہے۔ اس سے اس مسئلے سے جڑنے والکوں کا بھلا ہو جائے گا کہ نستعلیق میں دیکھ سکیں گے۔
    ویسے آپ بھی اس بلاگ کو نستعلیق کیوں نہیں کر دیتے۔ بہت سے بلاگ نستعلیق میں لکھے جا رہے ہیں بلاگ سپاٹ پر ہی۔ مثلاً
    http://natiqa.blogspot.com

Leave a Reply