گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


عمران شاہد بھنڈر

(برمنگھم)

گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں تازہ ترین علمی اضافوں کے ساتھ

عمران شاہد بھنڈر کا یہ مضمون اپنی ابتدائی شکل میں نیرنگِ خیال راولپنڈی میں شائع ہوا تھا۔جب گوپی چند نارنگ کے مزید سرقے دریافت ہوئے تو مضمون دوگنا ہو گیا اوریہ جدید ادب جرمنی شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا۔اس دوران گوپی چند نارنگ کے مزید سرقہ شدہ اقتباسات ہی نہیں ملے،بعض ابواب انگریزی کتابوں سے نقل کرکے اپنی دانشوری بگھارنے کا حیران کن انکشاف بھی ہوا۔اس طرح یہ مضمون اب مزید تازہ ترین ہو گیا ہے۔جس طریقے سے گوپی چند نارنگ نے انگریزی سے ما بعد جدیدیت کے ترجمے بغیر حوالے کے اپنی دانش کے طور پر چھاپے ہیں،اس سے کچھ بعید نہیں کہ ابھی یہ مضمون مزید وسعت اختیار کرے۔ تاہم اس وقت تک یہ تازہ ترین صورت میں ہے۔عمران شاہد بھنڈر پوسٹ ماڈرن ازم پر انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں لیکن لگتا ہے یہ گوپی چند نارنگ پر بھی انگلینڈ سے پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ ہمارا علمی المیہ دیکھیں کہ گوپی چند نارنگ نے انگریزی سے سرقے کرکے جو کتاب لکھی ہے،پاکستان سے انہیں اسی کتاب پر ایک بہت بڑا ایوارڈ دیا گیا ہے۔

ارشد خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گوپی چند نارنگ کا نام اردو ادب کی خدمات کے حوالے سے خاصا اہم سمجھا جاتا ہے ۔ ان کی خدمات کے عوض ان کو حکومتِ ہند نے پدھم شری اور حکومتِ پاکستان نے نیشنل ایوارڈ سے نوازا ۔ حالیہ چند برسوں کے دوران ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب انھوں نے پوسٹ ماڈرن ازم ،جو مغربی سیاسی ،سماجی ،معاشی اور ثقافتی سرگرمیوں کا نتیجہ تھا ،کا تعارف اہلِ اردو سے کروایا ۔اہلِ اردو کی اکثریت نے پوسٹ ماڈرن ازم کو مغرب زدہ کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی ،تاہم گوپی چند نارنگ نے اپنی علمی جستجو کو جاری رکھا اور مخالفتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پوسٹ ماڈرن ازم کی مابعد جدیدیت کے نا م سے اپنی کتاب ساختیات ،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات میں تشریح کی ،جو ۱۹۹۴ء میں لاہور سے شائع ہوئی ۔ساختیات دراصل ایک لسانیاتی تحریک تھی جسے سوئس ماہرِ لسانیات سیوسےئرکے لسانیاتی ماڈل سے اخذ کیا گیا ۔ یہ لسانیاتی نظریہ چونکہ سائنسی ہونے کا دعویدار تھا اس لیے اس ماڈل میں معنی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے بعد ازاں ترامیم کی گئیں ، بہرحال آج لسانیات مغربی درسگاہوں میں بحیثیت سائنس ہی پڑھائی جاتی ہے ۔ لیوائی سٹراس نے یہ دعویٰ کیا کہ سماجی سائنسوں میں صرف لسانیات ہی ایک ایسا شعبہ ہے جسے حقیقی سائنس کا درجہ دیا جاسکتا ہے ۔رولاں بارتھ نے اسی لسانیاتی ماڈل کی بنیاد پر فرانسیسی ثقافت کے امتیازی خدوخال وضع کیے۔لسانیاتی کے باطنی رشتوں پر ثقافتی عوامل کی بنیاد دوسری جنگِ عظیم کے بعد رکھی گئی، جس کی وجہ سیاسی اور معاشی حالات تھے۔ نظریہ سازوں نے یہ سوچا کہ امن و سکون سے اگر مختلف معاشروں کے ظاہری خدو خال کی بنیاد ہی تہہ نشین نسبت اور افتراق پر رکھ دی جائے تو شاید مستقبل میں جنگوں کی ضرورت محسوس نہیں کی جائے گی۔ سیو سئیرکا ’’سگنیفائڈ‘‘ حتمیت کی علامت تھا ، رولاں بارتھ کی کتاب "مائیتھالوجی" بھی ’’سگنیفائڈ‘‘ کی حتمیت کی داعی ہے ،جس کا مطلب یہ ہوا کہ معنی متعین شدہ ہیں۔ لسانیاتی بنیادوں پر اگر معنی حتمی ہے تو لسانیاتی ثقافتوں کی وضع کردہ شناختوں کو بھی حتمی تسلیم کرنا ضروری ہوگیا۔ اس خطرناک پہلو کا ادراک رولاں بارتھ کو بھی ہوگیا تھا

فرانس میں۱۹۶۰ء میں ساختیاتی ماڈل کے انہدام کی وجہ بھی یہی تھی۔رولاں بارتھ کے علاوہ لاکاں اور دریدا وغیرہ کوبھی اس نظریے میں مضمرتباہ کن عوامل کا احساس مکمل طور پر ہونے گیا تھا،جس کی وجہ سے انھوں نے انفرادی ،ثقافتی اور ادبی سطح پر شناخت کے تصور کو ہی داؤ پر لگا دیا، تاہم اس سے پہلے ہی معاشی تقاضوں کی وجہ سے مغربی سامراج نے منڈیوں کی تلاش میں غریب ممالک پر یلغار کردی تھی۔ مغربی سیاسی حکمران پسِ ساختیات کے برعکس ساختیاتی فکر سے چمٹے رہے۔ انھوں نے اسے حتمی سمجھ کر ظلم و جبر کا جواز تلاش کر لیا۔ سماجی و ثقافتی سطح پرلسانیاتی ماڈل نے محض جبر کو پروان چڑھایا، جبکہ ادبی سطح پر یہ اب بھی کار آمد ہے ۔پوسٹ ماڈرن ازم کی ثقافتی یا معاشرتی جہت سے اختلاف ممکن ہے، لیکن لسانیاتی ماڈل کو محض اس بناء پر اہلِ مشرق کالعدم قرار نہیں دے سکتے کہ یہ مغرب زدہ ہے ۔ اگر اہلِ اُردو اس سائنسی نظریے کی بنیاد میں مغربی سماجی ،سیاسی یا ثقافتی عنصر کا عمل دخل دیکھ کر اسے مسترد کرتے ہیں تو یقیناََ انھیں نیوٹن کے کششِ ثقل کے نظریے کو بھی رد کرنا چاہیے ۔ اس مثال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا عبث ہوگا کہ ان دونوں سائنسی نظریات کو ایک ہی کلیے کے تحت پرکھا جائے،مقصودیہ واضح کرنا ہے کہ سائنسی نظریات کی قبولیت یا استردادکا عمل ہر طرح کے تعصب سے بالا معروضی قوانین کے تابع ہونا چاہیے۔ سائنسی نظریات دنیا کی کسی بھی لیبارٹری میں ایک ہی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں ۔سیوسئر کی انقلاب آفریں دریافت یہی تھی کہ اس نے پہلے سے موجود زبان کے اصول و قواعد کو دریافت کیا، جو معنی کو ممکن بنا تے تھے ۔اُردو بھی اپنی ایک ساخت رکھتی ہے ۔اس میں معنی کے امکانات کو واضح کرنے والے اصول وقواعد کو سیوسئر کے لسانیاتی نظریے کی رو سے اخذ کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں پر ثقافتی ،سیاسی، معاشرتی یا پھر معاشی تضادات اورامکانات کی وجہ سے اُمید و یاسیت کا تعلق ہے تو اس کے لیے مخصوص تناظر کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔اس لیے اس مرحلے پر مباحث وتجزیات

کے لیے راستے کھل جانے چاہیں نا کہ فتوے جاری کرکے اُمید و امکانات کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردئیے جائیں ۔اہلِ اُردو کو تو ویسے بھی اس حکم کا پابند رہنا چاہیے کہ علم کی کھوج کے لیے خواہ چین بھی جانا پڑے تو ضرور جائیں ۔عرب فلاسفراس حکم کی افادیت سے بخوبی آگاہ تھے ۔کنڈی نے پلوٹینس کی کتاب Enneads کا ترجمہ ارسطو کی دینیات کے نام سے عربی میں شائع کیا ۔ محمد بن موسیٰ الخوارزمی نے سنسکرت زبان سے علمِ ریاضی اور علمِ ہئیت کا ترجمہ ۸۳۰ء میں عربی میں شائع کیا ۔ ابنِ رشد نے ارسطو کی منطق اور مابعدالطبیعات کی تشریح کی(برٹرینڈ رسل ،مغربی فلسفے کی تاریخ ،ص،۴۲۲۔۴۱۳)۔منطق ،ریاضی ،سائنس اور فلسفیانہ تحقیقات کو انھوں نے (آج کے قنوطی فکر کے حامی جعلی تخلیق کاروں کے برعکس) ’’خیالات کی جگالی‘‘ کبھی نہیں سمجھا تھا ،بلکہ ان علوم کے حصول کو انھوں نے ذہن و تخیل کی وسعت اور انسانی عظمت کی معراج کا ذریعہ گردانا تھا ۔علوم کی درآمد کے اس دور کوآج ہم لوگ فخر سے

بیان کرتے ہیں ۔گوپی چند نارنگ کو بھی بحیثیت ایک شارح کافی مشکلات پیش آئیں،جو ان کی طبیعت پر کچھ اس طرح اثر انداز ہوئیں کہ دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’ بعض کرم فرما ہر کام میں کیڑے ڈالتے ہیں ۔یہ بھی مبارک کام ہے ،لیکن کچھ لوگ سرے سے ہی ہاتھ اُٹھادیتے ہیں کہ ہماری تو سمجھ میں نہیں آتا ۔ یوں وہ اختلاف کرنے کے حق سے بھی خود کو محروم کردیتے ہیں ،کیونکہ اختلاف کرنے کے لیے بھی بات کا سمجھنا شرط ہے۔۔۔۔ایسے لوگ اصلاََ ہمدردی کے مستحق ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اس سے نقصان ڈسکورس کا نہیں خود انھیں کا ہے ‘‘ ( ص،۱۳۔۱۲ )۔تاریخِ انسانی کا کوئی بھی دور ہو نئی فکر کی مخالفت ہر عہد میں کسی نہ کسی صورت میں ہوتی رہی ہے ۔ کانٹ کا یہ کہنا درست ہے کہ’’ بیشتر لوگ ہر تجدید کو اپنی مصلحتوں سے متصادم سمجھتے ہیں ۔‘‘ تاہم ارتقاء کا سفر اس طرح کے مزاحمتی خیالات کے باوجود جاری و ساری رہتا ہے ۔

اس حقیقت کو کسی کتاب میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ،بلکہ معاشرتی و ثقافتی حالتوں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔پوسٹ ماڈرن ازم عہدِ حاضر کی غالب تحریک ہے، جسے بعض مغربی نظریہ ساز ہائی ماڈرن ازم کا بحران بھی قرار دیتے ہیں،یہی زاویہ فکر میرے مقالے کا موضوع ہے جس کی تکمیل کے لیے میں یونیورسٹی آف سینٹرل انگلینڈ،برمنگھم سے منسلک ہوں ۔پوسٹ ماڈرن ازم میں برپا ہونے والے ادبی و تنقیدی نظریات کی تحقیق کے سلسلے میں مجھے اُردو میں متعارف کرائے گئے نظریات تک رسائی کا موقع ملا ۔کافی جستجو کے بعد میں گوپی چند نارنگ کے حوالے سے

متذکرہ بالا حقائق تک پہنچا ۔ اُردو میں ساختیاتی فکر کس طرح داخل ہوئی ہے ؟مجھے اُمید تھی کہ یہ ایک نیا زاویہ ہو گا۔ اُمید تھی کہ ہندوستانی اور پاکستانی معاشرے کی ضروریات اور ترجیحات کو سامنے رکھ کر کسی حد تک دفاعی حربہ اختیار کیا ہو گا۔، کیونکہ علوم کے حوالے سے مغرب پر سبقت کا خیال محض اب داستان پارینہ بن کر رہ گیا ہے۔ دفاع تو دور،گوپی چندکی وضاحتیں بھی مشکوک نکلیں ۔ جوں جوں اُن کی کتاب کا مطالعہ کرتا رہا مایوسی بڑھتی رہی ،کیونکہ کتاب میں کسی بھی سطح پر اوریجنیلٹی کا فقدان تھا۔مغربی نظریہ سازوں کے انتہائی پیچیدہ و دقیق افکار کی تفہیم کے بغیر حرف بہ حرف نارنگ صاحب نے بغیر کوئی حوالہ دئیے انھیں اپنے نام سے منسوب کردیا ہے۔مغربی درسگاہوں میں یہ روایت جڑیں پکڑ چکی ہے کہ اگر ہم کسی بھی نظریہ ساز کے اقتباس کو لفظ بہ لفظ قلم بند کریں تو کتاب کا ایڈیشن ،پبلیشر کا نام اور صفحہ نمبر کا

حوالہ دینا ضروری ہوتا ہے ۔بصورتِ دیگر Plagiarism کے مرتکب کے خلاف ڈسپلینری ایکشن لیا جاتا ہے ۔جس کے نتیجے میں درسگاہ سے بے دخلی بھی ممکن ہو سکتی ہے ۔گوپی چند نارنگ کی کتاب میں سب سے بنیادی نقص یہ ہے کہ انھوں نے پوسٹ ماڈرن ازم کے حقیقی نظریہ سازوں ، سیوسئر، لیوائی سٹراس ،لاکاں ،فوکو،دریدا اوربار تھ وغیرہ کے افکار تک براہِ راست رسائی حاصل نہیں کی بلکہ ان کے شارحین ،رابرٹ سکولز(شولز بھی پڑھا جاسکتا ہے)،جوناتھن کلر،کیتھرین بیلسی ،پیٹر بیری ، ٹیرنس ہاکس اورکرسٹوفر نورس کے تجزیات و افکار کو بغیر حوالہ دئیے لفظ بہ لفظ اپنے نام سے بیان کیا ہے ۔ گو کہ انھوں نے چند جگہوں پر حوالے کے ساتھ اُردو اور انگریزی اقتباسات کو

جوں کا توں نقل کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں دوسروں کے خیالات کی اہمیت کا احساس تھا۔ دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’ افکار و خیالات تو فلسفیوں اور نظریہ سازوں کے ہیں ،تفہیم و ترسیل البتہ میری ہے ‘‘ (ص ،۱۴ ) ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ گوپی چند نارنگ نے مصادر میں کتب کی تفصیل دے رکھی ہے اور جہاں انھوں نے ضروری سمجھا صفحات کی تفصیل بھی رقم کی۔ جو تفصیل انھوں نے دے رکھی ہے اس مضمون میں انھیں فکری دیانت کی بناء پر نظر انداز کیا گیا ہے ۔اگر چند ایک اقتباسات لفظ بہ لفظ، مصادر میں بغیر صفحہ نمبر کی تفصیل کے تحریر کیے ہوتے تو شک کے فائدے کی بناء پر انھیں یقیناََ نظر انداز کر دیا جاتا ،لیکن اتنی اہم اغلاط کی پردہ پوشی کرنا اُردو ادب میں قائم شدہ روایت کو مزیدطول دینے کے مترادف ہے، جو یقیناََ قابلِ تحسین عمل نہیں ہے۔اس مضمون میں میں نے گوپی چند نارنگ کے نقل کے رحجان کو عیاں کرنے کے علاوہ پوسٹ ماڈرن ازم کے حوالے سے ان کے فکری تضادات اور قباحتوں پر بھی مختصر بحث کی ہے۔

آئیے چند ایک اقتباسات پر غور کرتے ہیں ۔گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں ، ’’اس سوسےئری تناظر سے ظاہر ہے کہ ادب کا وہ نظریہ جسے حقیقت نگاری کہتے ہیں ،قابلِ مدافعت نہیں ہے۔ یہ دعوی ٰکہ ادبی فارم حقیقت کا عکس پیش کرتی ہے ،صرف تکرار بالمعنی، (Tautological) ہے۔اگر حقیقت سے ہماری مراد وہ حقیقت ہے جس کا ہم تجربہ کرتے ہیں ،یعنی جو تفریقی طور پر زبان کے ذریعے قائم ہوتی ہے تو یہ دعوی کہ ’حقیقت نگاری حقیقت کا عکس پیش کرتی ہے ، دراصل یہ ہوا کہ ،حقیقت نگاری اس دنیا کا عکس پیش کرتی ہے جو زبان کے ذریعے قائم ہوتی ہے‘(Constructed in Language) ظاہر ہے یہ’ تکرار بالمعنی‘ (Tautology) کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔(ص،۷۸)کیتھرین بیلسی لکھتی ہے،From this post-Saussurean perspective it is clear that the theory of literature as expressive realism is no longer tenable. The claim that a literary form reflects the world is simply tautological. If by 'the word' we understand the world we experience, the world differentiated by language, then the claim that realism reflects the world means that realism reflects the world constructed in language. This is a tautology................(Belsey, Catherine. Critical Practice, London, Routledge, 2003, P,43)

گوپی چند

نارنگ نے جو اقتباس درج کیا ہے اس میں سے بیلسی کے لفظ پوسٹ کو حذف کیا ہے جس سے بیلسی کا قائم کردہ معنی بھی متاثر ہوا ہے۔تاہم اس کے صفحہ نمبر کا حوالہ کہیں نہیں ہے ۔ دوسرا انھوں نے مندرجہ بالا اقتباس میں" تکرار بالمعنی" کو واوین میں لکھ کر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ خاص اصطلاح کسی دوسرے نظریہ ساز سے ماخوذہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ سارے کا سارا اقتباس جسے یہاں مختصراََ پیش کیا گیا ہے بیلسی کی کتاب سے ماخوذہے ۔ مندرجہ بالا تجزیہ کیتھرین بیلسی کا ہے گوپی چند نارنگ کا نہیں ہے ۔مغرب میں بیلسی کی یہ کتاب ایک تعارفی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے ،جو برطانیہ میں بی اے کے طلبہ کے لیے تنقیدی نظریات کا مختصر تعارف پیش کرتی ہے ۔ یہاں قارئین کے لیے اس امر کا ادراک بھی ضروری ہے کہ گوپی چند نارنگ نے محض ایک ہی اقتباس کو نقل نہیں کیا بلکہ بیلسی کی اسی کتاب سے کئی اقتباسات لفظ بہ لفظ اپنے نام سے ترجمہ کیے ہیں ۔آئیے ایک اور اقتباس پر توجہ مرکوز کریں ،’’ سیو سئر کی دلیل لفظوں کی ان کڑیوں پر مبنی ہے جو ایک تصور کے لیے مختلف زبانوں میں پائے جاتے ہیں ۔

’اگرلفظ ما قبل موجود تصورات کے لیے قائم ‘ ہوتے تو ایک زبان سے دوسری زبان میں ان کے معنی متبادل پائے جاتے ،لیکن ایسا نہیں ہے ،(کورس ص،۱۱۶) حقیقت یہ ہے کہ مختلف زبانیں دنیا کی چیزوں کو مختلف طور پر دیکھتی اور ظاہر کرتی ہیں ۔سیوسئر نے کئی مثالیں دی ہیں ۔فرانسیسی میں ایک لفظ ہےMouton اس کے برعکس انگریزی اس کے متبادل Muttonاور Sheepمیں فرق کرتی ہے‘ (گوپی چند نارنگ ،ص،۶۸)۔اب بیلسی کی طرف رجوع کرتے ہیں،Saussure's argument depends on the different division of the chain of meaning in different languages. ' If words stood for pre-existing concepts' they would all have exact equivalents in meaning from one language to the next; but this is not true' (Saussure, 1974: 116). The truth is that different languages divide or articulate the world in different worlds. Saussure gives a number of examples. For instance, where French has the single mouton, English differentiates between mutton, which we eat, and sheep.............(Belsey, 36-37)

. طوالت کے باعث اس اقتباس کو بھی مختصر رکھا گیا ہے ،تاہم انتہائی قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ بیلسی نے اپنے تجزیے میں سیوسئر کی کتاب سے لیے گئے حوالے کو بشمول صفحہ نمبر پیش کیا ہے ،جبکہ گوپی چند نارنگ نے یہ تاثر قائم کیا ہے کہ سیوسئر کا حوالہ انھوں نے بیلسی کی کتاب سے اخذ نہیں کیا بلکہ انھوں نے سیوسئر کا براہِ راست مطالعہ کیا ہے ،یہ ادبی بدیانتی کی واضح مثال ہے۔گوپی چند نارنگ کے مندرجہ ذیل اقتباس کو دیکھئے،’’ ا نیسویں صدی کے نصفِ آ خر اور بیسویں صدی نصفِ اوّل میں فکرِ انسانی تخصیص کے مختلف میدانوں میں بٹ بٹا کر اس حد تک پارہ پارہ ہوگئی تھی کہ اس میں کسی طرح کی کوئی شیرازہ بندی ممکن نظر نہیں آتی تھی ۔ اور تو اور خالص فلسفہ بھی جسے علومِ انسانیہ کا بادشاہ کہا جاتا ہے ،وہ بھی لفظوں کے الگ تھلگ پڑ جانے والے کھیل میں لگ چکا تھا۔وٹگنسٹائن کا فلسفہ لسان ہو یا یورپی مفکرین کی وجودیت ،اصلاََ یہ سب مراجعت کے فلسفے ہیں ۔(ص، ۳۴ )۔آئیے انگریزی میں رابرٹ سکولز کے اس اقتباس پر غور کریں

،The last half of the nineteenth century and the last half of the twentieth were charecterized by the fragmentation of knowledge into isolated disciplines so formidable in their specialization as to seem beyond all synthesis. Even philosophy, the queen of the human sciences, came down from her throne to play solitary word games. Both the language- philosophy of Wittgenstein and the existentialism of the Continental thinkers are philosophy of retreat......(Scholes, Structuralism in Literature, New York, Vail-Ballou Press,1974, p,1)

اس اقتباس سے نارنگ صاحب یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ انہوں نے وٹگنسٹائن کا مطالعہ کیا ہے۔اگر یہ خود وٹگنسٹاین کامطالعہ کرنے کی زحمت فرماتے تو شاید مختلف نتائج اخذ کرتے لیکن انہوں نے سکولز پر پختہ اعتقاد رکھا اور اس کے نتائج کو ہی حتمی حیثیت عطا فرما دی۔ رابرٹ سکولز کی مذکورہ بالا کتاب سے نارنگ صاحب نے اپنی کتاب کے کئی ابتدائی صفحات نقل کیے ہیں ۔اس کے علاوہ سیوسئر اور ساختیات پر لکھا گیا سارا مواد اسی کتاب کا لفط بہ لفظ ترجمہ ہے۔ مصادر میں گو کہ اس کتاب کانام درج ہے لیکن سوال تو لفظ بہ لفظ ترجمے کا ہے ،محض ترجمہ کردینے سے کوئی بھی خود کو مصنف کہلوانے میں حق بجانب نہیں ہو سکتا۔ رابرٹ سکولز نے اس کتاب میں ساختیات کی حمایت میں لکھا ہے ۔یہ ان کا تجزیہ ہے جسے مدلل طریقے سے مسترد بھی کیا جاسکتا ہے۔ اُنیسویں اور بیسویں صدی کے سماجی ،سیاسی یا پھر معاشی کشمکش کے نتیجے میں نظریات کی تخریب اور تشکیل کے بعد جو ساختیاتی ماڈل انھوں نے ماہرِ لسانیات سیوسیرسے مستعار لیا ہے اس کا انہدام بھی پسِ ساختیات کے مباحث کے آغاز کے ساتھ ہوگیا تھا۔ اس وقت کئی مفکر خود کو ساختیات کا حامی کہنے سے کترانے لگے تھے۔ مختصر یہ کہ یہ تجزیہ رابرٹ کے مکتبہ ءِ فکر کا نقطہء نظر ہے ۔ریڈیکل مارکسی مفکرین اس اجتماعی تناظر کی مختلف طرز پر تشریح و تجزیہ پیش کرتے ہیں جو پوسٹ ماڈرن تھیوری کے حوالے سے مضبوط بھی ہے اور مو ئثر بھی ، لیکن سوال یہ ہے کہ گوپی چند نارنگ کہاں کھڑے دکھائی دیتے ہیں؟ آئیے گوپی چند نارنگ کی کتاب سے ایک اور اقتباس پر غور کریں ،’’دریدا فلسفے کو بحیثیت ضابطہ علم یہ آمرانہ درجہ دینے کو تیار نہیں کہ فکرِ انسانی کے جملہ حقوق فلسفے کے نام محفوظ کردیے جائیں ۔اس کا دعوی ٰ ہے کہ فلاسفہ اپنے نظام ہائے فکر کو مسلط کرنے کے لیے زبان کے داخلی تضادات کو دباتے،پسِ پشت ڈالتے یا نظر انداز کرتے رہے ہیں۔۔

۔۔۔(ص،۲۱۸۔۲۱۷)کرسٹوفر نورس انگریزی میں لکھتے ہیں ،

Derrida refuses to grant philosophy the kind of privileged status it has always claimed as the sovereign dispenser of reason. Derrida confronts this pre-emptive claim on its own chosen grounds. He argues that philosophers have been able to impose their various systems of thought only by ignoring, suppressing, the disruptive effects of languages............

........(Norris, Christopher. Deconstruction.3rd ed, London, Routledge,2002, P18-19)

گوپی چند نارنگ

کی کتاب میں دریدا اور ردِ تشکیل پرتقریباََ تمام مواد کرسٹوفر نورس کی کتاب کا ہوبہو ترجمہ ہے ۔مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر یہاں اقتباسات ،جو کہ بے شمار ہیں ،دینے سے گریز کیا گیا ہے ۔ مذکورہ بالا حوالہ جات کے علاوہ روسی ہئیت پسندی پر لکھے گئے باب کا بیشتر حصہ جوناتھن کلر کی Strucuralist Poeticsسے نقل کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ رومن جیکبسن پر لکھا گیا مکمل باب ٹیرنس ہاکس کی کتابStructuralism and Semioticsسے لفظ بہ لفظ گوپی چند نارنگ نے ترجمہ کیا ہے۔ آئیے اقتباس ملاحظہ فرمائیں،’’روسی ہئیت پسندوں کے ضمن میں ہم مکارووسکی کے اس خیال سے بحث کر آئے ہیں کہ’ زبان کا تخلیقی استعمال فن پارے میں زبان کو ’پیشِ منظر‘ میں لے آتا ہے،

یعنی اظہاری عمل اپنے آپ کو نمایاں کرتا ہے، جیکبسن اس پر اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شاعری کی تخلیقی زبان میں استعاراتی پہلو نمایاں رہتا ہے، نثر کی تخلیقی زبان میں انسلاکی پہلو زیادہ حاوی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرادفیت(equivalence) شاعری میں اس قدر اہمیت رکھتی ہے ۔ متوازیت بھی مرادفیت کا ایک رخ ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘(۱۴۰)اب

Terence Hawkesکے

اس انگریزی اقتباس پر توجہ فرمائیں،We have already noticed the argument of Jakobson's fellow Prague school critic Mukarovsky with regard to foregrounding: that the aesthetic use of language pushes into the foreground the 'act of expression' itself. Jakobson offers the more refined proposal that the metaphoric mode tends to be foregrounding in poetry, whereas the metonymic mode tends to be foregrounded in prose. This makes the operation of 'equivalence' of crucial importance to poetry........(Structuralism and semiotics, 1984, p80) مندرجہ بالا دونوں اقتباسات سے یہ نمایاں ہو رہا ہے کہ مکارووسکی کا حقیقی تجزیہ گوپی چند نارنگ کے برعکس ہاکس کی بصیرت کا نتیجہ ہے۔ اس اقتباس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ نارنگ صاحب کتنی چالاکی سے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مکارووسکی کی براہِ راست مطالعہ کیا ہیں، جبکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔نارنگ صاحب نے محض ایک دو الفاظ کے افتراق سے اقتباس کو نقل کیا ہے۔جسے راقم نے اس لیے یہاں قلم بند کیا کہ یہ واضح کیا جاسکے کہ نارنگ صاحب سے

یہ کوتاہی ارادۃََ سر زد ہوئی ہے۔ ان کا خیال ہوگا کہ ایسا کرنے سے ان کی کاروائی پر پردہ پڑ جائے گا۔دیکھیے ہاکس ’جمالیاتی ‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے اور نارنگ اسے ’ تخلیقی ‘ سے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نارنگ صاحب بھی واوین کا استعمال کر رہے ہیں اور ہاکس بھی ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ کس کی اصطلاح کو کیوں اور کب استعمال کرنا چاہتا ہے۔بحیثیت مجموعی یہ کتاب نارنگ صاحب کی کاروائی کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ اس مضمون کے قاری کو چاہیے کہ وہ دیگر کتب کے ساتھ ساتھ ہاکس کی اس کتاب کا مطالعہ زیادہ توجہ سے کرئے کیونکہ اس باب کی حرف بہ حرف نقل کے علاوہ مسٹر نارنگ نے Levi straus, Barthes,Greimasاور Todorovپر لکھا گیا تمام موادہاکس کی اسی کتاب (ص، ۱۹۶۔ ۸۷) سے نقل کیا ہے

۔

یہاں پر تمام اقتباسات کو درج کرکے مضمون کو طول دے کرقاری کے لیے کر اکتاہٹ کا سامان کرنا مقصود نہیں ۔ اس لیے بہتر ہے کہ قاری خود اصل ذرائع تک رسائی حاصل کرے۔اس کے علاوہ لاکاں پر لکھے گئے باب کے لیے دیکھیے( نارنگ، ص، ۱۹۳۔ ۱۸۱)اور پیٹر بیری کا Psychoanalytic criticismپر لکھا گیا باب (ص، ۱۱۸۔ ۹۶)۔ایماندارانہ طریقۂ کار یہ تھا کہ گوپی چند نارنگ براہِ راست اصل کتابوں سے استفادہ کرتے اور جہاں کہیں فقروں کو لفظ بہ لفظ نقل کرتے وہاں حوالہ درج کرتے ۔ اگر وہ ثانوی ذرائع استعمال کرنا بھی چاہتے تھے تو علمی دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئے مکمل حوالے دیتے۔ انہیں یہ فکر تو ستاتی رہی کہ مغربی منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے لیکن مغربی ممالک میں علمی دیانت داری کے عمل نے انہیں کسی بھی طرح کی تحریک عطا نہیں کی۔ ایسا عمل یقیناََ اُردو سے وابستہ نئی نسل کے لیے ایک اچھی مثال کے ساتھ ساتھ اُمید افزا بھی ہوتا ۔ کتاب کا وہ حصہ جو مشرقی شعریات پر مبنی ہے وہ میری تحقیق کا قطعاََ موضوع نہیں تھا۔ اس لیے وہ حصہ اس مضمون کی بحث سے خارج ہے۔ اس مضمون میں کتاب کے مآخذات کا انکشاف کرکے ایک رحجان تشکیل دے دیا گیا ہے اب اگر اُردو سے وابستہ محققین مشرقی شعریات والے حصے کو بھی زیرِ تحقیق لانا چاہیں توشاید مزید انکشافات ممکن ہو سکیں۔.برصغیر پاک و ہند کے دانشوروں نے مشرقی انسان کو ذرات کی محض انفعالی تجسیم تصور کیا ہے جو مغرب زدہ نظریاتی و فکری دلدل میں پھنس کر اس کی قوت کی شدّت کو زیر کرنے کے لیے فکری سطح پر اپنا نظریہ تخلیق نہیں کرتا

جو مغربی نظریے کی مزاحمت کرے(مخالفت نہیں)، مشرقی خود ساختہ دانشور مغربی فکر میں اترتے ہی غرقاب ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہتا ہے۔وہ مزاحمت کی بجائے اسی کی حرکت کی سمت میں دھنستا چلا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج شناخت متعین کرنے والے عوامل اس کے لیے مسئلہ ہی نہیں رہے۔

وہ اس حد تک ذہنی کشمکش کا شکار ہے کہ نعرہ تو روایت کا بلند کرتا ہے اور بہتا پوسٹ ماڈرن ازم کی رو میں ہے۔ بات مذہبی آئیڈیالوجی کی کرتا ہے اور کچلا شدّتِ خواہش کے تحت جاتا ہے، علَم آزادیءِ فکر کا بلند کرتا ہے لیکن تخیل پر غلامی بھی خود ہی مسلط کرتا ہے۔جینا مستقبل میں چاہتا ہے زندگی کی تلاش ماضی بعید کے دھندلکوں میں کرتا ہے ۔"اصل" کے مسائل کو ترک کر کے" دوسرے" کی تلاش میں چل نکلا ہے ۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھ رہا کہ" دوسرے" کا ظہور مغربی تاریخ کے ایک خاص وقت پر ہوا ہے۔گوپی چند نارنگ کو بھی مغرب میں Jazz کی دھن پرکشش محسوس ہوتی ہے لیکن ہندوستان میں غیر انسانی جرائم کا ارتکاب متحرک نہیں کرتا ۔برطانیہ میں اسّی کی دہائی میں تیار شدہ جوتوں کا سرخ رنگ ضرور متاثر کرتا ہے جو پوسٹ ماڈرن ازم کاجزوِ لازم ہے، لیکن ہندوستان میں اقلیتوں پر مسلط کی گئی برسوں پرانی کتھا جو آج بھی پورے تعصب سے دہرائی جاتی ہے، نارنگ صاحب کی توجہ کا مرکز نہیں بنتی ۔ برصغیر پاک و ہند کے

ساٹھ کروڑ عوام خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ارو دنیا کا پچاسی فیصد سرمایہ چار سو نوے خاندانوں کے پاس مرتکز ہے یہ سب کچھ برصغیر کے دانشور کو آج بھی نظر نہیں آتا ۔ویسے مارکس نے دولت کے اس ارتکاز کی پیشین گوئی اُنیسویں صدی کے آغاز میں کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کردی تھی۔ اگر یہی پوسٹ ماڈرن ازم کا ماحصل ہے تو پھر مارکس ہی سب سے بڑا پوسٹ ماڈرنسٹ کہلوانے کا مستحق ہے اور اس کے ساتھ وہ افلاس زدہ عوام بھی پوسٹ ماڈرنسٹ ہیں جو مارکس کی پیشین گوئی کی سچائی کامواد ہیں۔یہاں پر سوال یہ ہے کہ کیا ’ازم ‘

محض چند افراد کی سرگرمی پر محیط ہے ؟ مابعد جدیدیت کے حوالے سے گوپی چند نارنگ نے جن نکات پر گفتگو کی ہے وہ تضادات سے پُر نظر آتے ہیں، جن کا اظہار مذکورہ کتاب کے علاوہ ان کی دوسری مرتب کردہ کتاب (اُردو مابعد جدیدت پر مکا لمہ ، ۲۰۰۰)میں بھی کیا گیا ہے۔جیسا کہ کتاب کے نام سے واضح ہے کہ اس میں اُردو ادب میں برپا ہونے والی تبدیلیوں کو اس کے اپنے سیاسی ،معاشی ،سماجی اور ثقافتی پسِ منظر میں بیان کیا جانا چاہیے تھا ،لیکن اس کتاب میں ایسا کچھ نہیں ہے۔گوپی چند نارنگ نے ادبی وثقافتی سطح پر عالمی منظر نامے کی اہمیت پر زور دیا ہے ،جس سے ان کی مراد مغربی منظرنامہ ہے،جو یقیناََ مغربی آئیڈیالوجی کا مظہر ہے جس نے نہ صرف مغربی معاشرے،بلکہ تیسری دنیا کے ممالک میں پائے جانے والے انگنت تضادات کو دبا رکھا ہے ۔

ایسا کرنے سے اُردو ادب کے اپنے پس منظر میں جنم لینے والے حقیقی مسائل بھی دبے رہیں گے ۔کتاب میں بعض جگہوں پر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گوپی چند نارنگ ارادتاََ اپنے مسائل کی پردہ پوشی میں مصروف ہیں ۔دوسری صورت میں اُنھیں شاید مسائل یا ڈسکورس کا ادراک و شعور نہیں ہے ۔ مثلاََ جیسے وہ اپنی کتاب ’’ساختیات پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ کے دیبا چہ میں لکھتے ہیں’’ متن ہر گز خود مختار و خود کفیل نہیں ہے کیونکہ اخذِ معنی کا عمل غیر مختتم ہے‘‘ (ص ۱۱)۔ نارنگ صاحب سے یہاں یہ غلطی سر زد ہوئی ہے کہ وہ اخذِ معنی کو متن سے با ہر دیکھ رہے ہیں۔ دریدا کے مطابق اخذِ معنی کا عمل متن سے باہر قطعاََ نہیں ہے۔اسی کتاب کے چوتھے باب میں جو ’’ردِتشکیل ‘‘ کے نام سے لکھا گیا ہے اس میں مو صوف لکھتے ہیں ’’دریدا کا کہنا ہے معنی کوئی ماورائی موجودگی نہیں ہے جو متن سے ورے،قریب یا دور وجود رکھتی ہو اور جس کو نقاد ڈھونڈ نکالے۔معنی متن کے اندر ہے اور جیسے ہی متن تحریر ہوتا ہے

وہ اپنی ردِ تشکیل کا بیج بو دیتا ہے ‘‘(ص ۲۳۲)۔گو پی چند نارنگ کے مندرجہ بالادونوں بیانات میں واضح تضاد ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُنھیں مابعد جدید تھیوری کی تفہیم کی مزید ضرورت ہے،

بالخصوص دریدا کی ’’ردِ تشکیل‘‘ کی۔دریدا واضح طور پر Of Grammatology میں کہتا ہے کہ There is nothing outside the text (p227). اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ جونہی متن وجود میں آتا ہے،اس کی حیثیت خود مختار ہو جا تی ہے۔اس کے بعد معنی کے اخذ ہونے کے عمل کا انحصار متن پر ہوتا ہے نہ کہ خارجی دنیا پر۔زبان تو خود بھی خارجی عوامل سے مبرا قرار نہیں پاتی۔ البتہ ردِ تشکیل کے عمل کے دوران متن خود کو سائنسی بنیادوں پرDeconstruct کرنے کا مکمل طور پر اہل ہوتا ہے۔ بہر حال اس تضاد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گوپی چند نارنگ پوسٹ ماڈرن تھیوری کی تفہیم سے عاری ہیں۔مغربی مابعد جدیدیت کی حتمیت کو تسلیم کرنا اس کی مرکزیت کو قائم کرنے کے مترادف ہے ،جو مابعد جدیدیت کی اپنی روح کے بھی منافی ہے۔کہیں کہیں یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ گوپی چند نارنگ کو اپنے معاشرے کی اہمیت کا احساس بھی جگانے کی کوشش کرتا ہے۔اس کیفیت میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے۔تمام معاشروں اور ثقافتوں کو نئے چیلنج اور نئی تبدیلیوں کا سامنا ہے ۔ ہم بھی نئے حالات اور نئے مسائل سے دوچار ہیں ،اور

انھی کی رعایت سے علومِ انسانیہ اور ادب اور آرٹ میں نئی سوچ اور نئے رویے سامنے آرہے ہیں،ظاہر ہے کہ اُردو کی ہماری ادبی فکر ،ہمارے اپنے چیلنج اور ہماری اپنی ضرورتوں کی روسے ہوگی ‘‘(ص،۱۳)۔وہ نئے حالات اور ضروریات کیا ہیں،؟ان کی طرف مکمل توجہ کی ضرورت تھی تاہم اُنھوں نے محض بیان جاری کیا ہے ،ڈسکورس کی تشکیل نہیں کی۔اس پیراگراف اور کتاب کے بقیہ صفحات میں درج مواد کا تضاد اس امر کا داعی ہے کہ اہلِ اُردو کو محض تسلی کے چند کلمات سنائے جاتے ہیں۔ تبدیلی کی نوعیت اور تقاضے مخصوص ثقافت اور سماج کے بطن سے جنم لیتے ہیں جس کے پس منظرمیں انگنت عوامل عمل آراء ہوتے ہیں، جن کی تلاش و تجزیہ نظریہ سازوں کا کام ہے۔ اس کے برعکس اُردو ادب اور ہندوستانی معاشرے میں پائے جانے والی تبدیلی کی خبر گوپی چند نارنگ کو فریڈرک جیمسن یا لیوٹارڈ کی بدولت ہوئی ہے اور اس خبر کے بعد جس ڈسکورس کی تشریح ہورہی ہے ،وہ مغربی تشکیل ہے جسے آنکھیں بند کر کے قبول کرنے کا درس دیا جاریا ہے۔اگر تناظر الگ الگ ہے تو سب کے لیے معنی کی حتمیت کیوں؟زبان اور سوچ الگ نہیں ہیں ۔ب

یلسی کہتی ہے کہ’’ زبان اور سوچ کا تعلق نئے معنی اور دنیا کے تجزیے کے نئے طریقوں کی وضاحت کرتا ہے ،جو طریقہ ہائے کار وضع ہوجاتا ہے معنی اسی کے اندر قائم ہوتا ہے۔نئے معنی قائم کرنے کے لیے، زبان اور سوچ کے تعلق کو تبدیل کرنا ہوگا۔‘‘ جس کے لیے ایک نئے ڈسکورس کی ضرورت ہے جو پاک و ہند کے یکساں اور متضاد مفادات سے تشکیل پائے۔فریڈرک جیمسن کی نظر سے دیکھنے سے اسی کا لفظ اور معنی ایک مخصوص تناظر اور ’’ساخت ‘‘میں خود کا اظہار کرے گا ۔گوپی چند نارنگ چونکہ مختلف تناظر میں ہیں ،اس لئے بھی انھیں مابعد جدیدیت کی رو سے اپنا ڈسکورس تشکیل دینا پڑے گا۔ دوسرا نکتہ جس کا سرسری طور پر ذکر کیا گیا ہے وہ مابعد جدیدیت کو تسلیم کرکے مغرب کی مرکزیت کو تسلیم کرنا ہے ،یعنی مابعد جدیدیت کو آفاقیت عطا کردی جائے ،جو کہ خود آفاقیت کے خلاف ہے ۔گوپی چند نارنگ نے ’مابعد جدیدیت ،بعد از جدیدیت ، بعد جدیدیت ،پسِ جدیدیت‘(ص ،۹۲)۔

جیسی اصطلاحیں مغربی پوسٹ ماڈرن مفکروں کی اندھی تقلید میں استعمال کر کے مابعد جدیدیت کو آفاقیت عطا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایسا کرنے سے وہ مابعد جدیدیت کی وضع کردہ اصطلاحوں سے مکمل طور پر انحراف کر رہے ہیں ۔اپنے ایک مضمون ’ ’مابعد جدیدیت عالمی تناظر میں ‘‘وہ لکھتے ہیں کہ’’مابعد جدیدیت تھیوری سے زیادہ صورتحال ہے،یعنی جدید معاشرے کی تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی حالت ،نئے معاشرے کا مزاج،مسائل ،ذہنی رویے یا معاشرتی و ثقافتی فضا یا کلچر کی تبدیلی ،جو کرائسس کا درجہ رکھتے ہیں‘‘ (ص،۱۹)۔ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ہم میں بہت سے ،سابقہ مفروضات کے اسیر ہیں اور ان سے ہاتھ اُٹھانے کو تیار نہیں ،اس لیے نئے قضایا نے جو نئی روشنی دی ہے ،اس کو اکثر لوگ دیکھ ہی نہیں پاتے ۔‘‘مندرجہ بالا دونوں اقتباسات کو بنظرِ غور دیکھیں تو تضادات کھل کر سامنے آجائیں گے ۔ایک طرف مابعد جدیدیت انھیں روشنی کا منبع دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف خود ہی اسے کرائسس بھی سمجھتے ہیں ،جو حقیقت میں کرائسس ہی ہے ۔اہلِ اُردو کا تو المیہ ہی یہ رہا ہے کہ انھیں’ روشنی‘ اپنی سرحدوں سے باہر ہی دکھائی دیتی ہے۔اس پر بھی کوئی خاص اعتراض نہیں ہے۔،اگریہ روشنی ہے تو کس کے لیے؟ اگر مشرقی اور مغربی سماجی، سیاسی اور معاشی قضایہ کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نظریہ وضع کیا جائے جس میں ایک موئقف اختیار کیا جائے۔ اس میں بھی ہندستان کے کسی ایک طبقے کی نمائندگی نہیں بلکہ تمام طبقات کو ذہن میں رکھا جائے۔ کیا نارنگ صاحب جانتے ہیں کہ دریدا کی ردِ تشکیل اور پال دی مان کی ردِ تشکیل سماجی، سیاسی سطح پر عملیت اور ادبی نظریات کے درمیان تفاوت سے طے پاتی ہے ؟نارنگ صاحب کو مابعدجدیدیت کرائسس دکھائی دیتی ہے تو اس کو کرائسس کی جانب دھکیلنے والے عوامل کو تجزیاتی بنیادوں پر پرکھا جائے۔ اردو میں مغرب کی مرکزیت نہ صرف مابعد جدیدیت کے حوالے سے ،بلکہ اُردو میں جدیدیت کی بناء پر بھی مسلّم ہے

اس طرح ترقی پسندی جس کا مارکسیت کی حقیقی روح سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ،جو صرف کم علمی کا نتیجہ تھی ،اس نے بھی اپنی مرکزیت کو پاک و ہند سے باہر تلاش کیا۔ مابعد جدیدیت ہو ،جدیدیت یا پھر ترقی پسندی ،یہاں پر ان کی مخالفت مقصود نہیں ہے ،بلکہ مخالفت کو تخلیقی اور اختراعی جہت پر استوار کرنا ہے۔جہاں تک’ عظیم نظریات‘ کی موت کا دعوی ہے تو اس میں کوئی سچائی نہیں ہے ۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جو معاشی ترقی ہوئی تو کسی قدر عام انسان کی خو شحالی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فرض کرلیا گیا کہ’ عظیم نظریات ‘ دم توڑ چکے ہیں ۔ مغربی درسگاہوں سے وابستہ زر خرید دانشوروں نے یہ کہنے میں جلد بازی سے کام لیا کہ مغرب میں طبقات کا بھی خاتمہ ہو چکاہے۔ پیداواری عمل سے جنم لینے والے طبقات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ظاہر ہے کہ اگر طبقہ ہی نہیں رہا تو مارکسیت کس کی نمائندگی کرئے گی۔ اس جھوٹ کو چھپانے کے لئے دانشوروں نے نظریاتی سطح پر کئی طرح کے گل کھلانے کی کوشش کی، جو بدقسمتی سے رائیگاں گئی۔اور ایک بار پھر مارکس کی ’’کمیونسٹ مینے فیسٹو ‘‘میں بیان کی گئی حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ سرمایہ داری کی ترقی یافتہ شکل میں صرف دو طبقات ہی آمنے سامنے ہوں گے یعنی ورکنگ کلاس اور سرمایہ دار طبقہ

۔یہ وہ طبقات ہیں جن کے مفادات سرمایہ داری نظام میں کبھی بھی ایک نہیں ہو سکیں گے ۔امریکہ میں دیکھیں توہیگلیائی مارکسی مفکر فریڈرک جیمسن مابعد جدیدیت پر کاری ضرب لگاتا ہے اور دوسری طرف وہ’ عظیم نظریات ‘کے لاشعور کی تہوں میں چلے جانے کا داعی ہے ۔ایسا وہ اس لیے کہتا ہے کہ وہ امریکی معاشرے میں سرمایہ داری کے تیسرے مرحلے میں چلے جانے پر یقین رکھتا ہے(یہ تصور اس نے ارنیسٹ مینڈل سے مستعار لیا ہے)۔

اس کے باوجود وہ مابعد جدیدیت کی تناظراتی حیثیت کو واضح کر دیتا ہے۔تناظرکے در آنے سے تاریخ کی اہمیت قائم رہتی ہے۔بلاشبہ اس نکتے پراس کا طریقہ کار مارکس سے مستعار لیا ہوا ہے جس کے مطابق سرمایہ داری نظام میں پیداواری قوتیں مسلسل ترقی کرتی رہتی ہیں اور آخر کار تضادات سامنے آنے لگتے ہیں۔ فریڈرک جیمسن مابعدجدیدیت کو قطعََ خلائی طیارا تصور نہیں کرتا جسے کسی بھی ملک میں اتارا جاسکے ۔وہ اسے زمینی قوتوں سے وابستہ دیکھتا ہے جن کا تعلق پیداواری عمل اور صارفی ثقافت سے جڑجاتا ہے۔ اس حوالے سے امریکی یا یورپی معاشرے میں بھی’’ عظیم نظریات‘‘ کے غیر متحرک ہونے یا ختم ہونے کے متعلق بحث کی خاصی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان یا ہندوستان میں ’عظیم نظریات‘(اسلام ،ہندوازم،مارکسیت وغیرہ)کی گمشدگی کا اعلان سراسر دروغ گوئی پر مبنی ہے ۔نظریاتی مباحث میں کوئی قباحت نہیں ہے،تاہم عملی سطح پر انگنت تضادات ہیں ۔یہ عملی تضادات بالآخر صورتحال کو مبہم بنا دیتے ہیں جس طرح آج اردو کے نام نہاد دانشوروں نے بنا رکھا ہے۔ہندوستان میں حالیہ برسوں میں مذہبی انتہا پسند جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی ‘کے کارناموں کا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے ۔پنجاب میں سکھوں اور گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کو کیا نام دیا جائے گا ؟دوسری جانب اسلامی انتہا پسندی بھی عروج پر ہے ۔مغرب میں بھی آنکھیں بند کرکے مابعد جدیدیت کی Whole Saleتبدیلی کا دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے۔

ٹیری ایگلٹن کو آکسفورڈ یونیورسٹی سے اس کے نظریات کی بدولت ہی فارغ کیا گیا۔عملی سطح پر انتہا پسندی اور نظریاتی سطح پر مابعدجدید مباحث۔ تضادات کتنے واضح ہیں! پاکستان یا ہندوستان کے حوالے سے ’عظیم نظریات ‘ کے انہدام کا دعویٰ قطعاََ غلط ہے۔گوپی

چند نارنگ کے فکری تضادات کو دیکھ کر یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ اُن میں لاکاں کی اصطلاح میں شعور،زبان کے علامتی نظام کی شکل میں ،جبکہ لاشعور امیجنری کے روپ میں ،بیک وقت عمل آراء ہورہے ہیں ۔ایک اور جگہ پر کہتے ہیں ،’’مارکسزم کی آزاد تعبیروں اور سوشل ازم کی معنویت ختم ہوگئی ہے ایسا بھی نہیں ،بلکہ یہ معنویت آج کی دنیا میں بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں اور ہندوستان میں پہلے سے زیادہ ہے‘‘

(ص ،۸۷)

۔اگر زیادہ ہے تو یہ بوجھ اُنھوں نے کس کے کندھے پر رکھا ہے ؟مندرجہ بالا اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں انھوں نے ادبی سے زیادہ معاشرتی اور سیاسی جہت کی طرف اشارہ کیا ہے۔محض اشارہ کر دینا ہی کافی نہیں ،بلکہ اس کی مختلف اور نئی تعبیروں سے نظریاتی اور عملی سطح میں مطابقت قائم کرنا ہے ۔ گوپی چند کا لہجہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اُنھیں کسی نظریے سے کوئی مخالفت نہیں ،بلکہ وہ تو آزاد فکر انسان ہیں۔ یہ کہنے کے بعد وہ پھر مابعد جدیدیت کی جانب ہی لوٹتے ہیں۔ اگر ہندوستانی یا پاکستانی معاشرے میں ماضی کی نسبت امتیازات قائم ہوبھی چکے ہیں تو اُنھیں مغربی مابعد جدیدیت کے جھنڈے تلے ہی نشان زد کیوں کیا جائے، تاہم یہ واضح رہے کہ مارکسزم تشریح اور تعبیر کا نام نہیں ہے،

بلکہ ایک عملی سرگرمی ہے ۔نظریہ سازوں کا حقیقی مقصد نظریے اور عمل میں ہم آہنگی قائم کرنا ہے ۔جیسا کہ ایلن ووڈز لکھتا ہے کہMarxism is not an academic exercise. گوپی چند نارنگ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں اور ثقافتی و سماجی نقاد کے برعکس ادبی نقاد ہیں ۔دوسری طرف ہندوستانی عوام کی اکثریت تما م تر حیاتیاتی افتراق کے باوجود انسانوں کے زمرے میں ہی آتی ہے ۔ایک غریب انسان کی فکری پرواز اس کی معاشی اور سماجی ترجیحات کے جبر تلے آکر معذور ہوچکی ہوتی ہے ۔وہ اس قابل ہی نہیں ہوتا کہ تصورات کی تشکیل کرسکے ۔مابعد جدیدیت جس طریقے سے اہلِ اُردو میں متعارف کرائی جارہی ہے ،یہ اس فرق کو دوام عطا کرنے کی ایک کوشش ہے،جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جاہل اور عالم ،امیر اور غریب،رجائی اور قدامت پسنداور برہمن اور شودرکے درمیان پائی جانے والی تفاوت کو ختم کیا جائے یا پھر اسے رولاں بارتھ کی ’’مائیتھالوجی‘‘ میں تشکیل کردہ ثقافتی تہوں کی حتمیت کو قبول کرکے قومی شناخت کا مظہر قرار دے دیا جائے ۔یعنی ہندوستان میں برہمن اور شودر کے درمیان تفاوت کو ہندوستانی ثقافت کا جزوِ لاینفک قرار دے کر مابعد جدیدیت کی تقلید میں حتمی شناخت عطا کردی جائے ۔بصورتِ دیگر اگر گوپی چند نارنگ اس صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں تو نظریہ سازی کا عمل ممکن ہوسکتا ہے ۔طاقتور ملک کمزور ملک کا اسی طرح ذہنی و مادی استحصال کرتا ہے،

جس طرح کمزور ملک کا حاکم اپنے ہی ملک کے کمزور عوام کاکرتاہے۔ موافقت اورہم آہنگی دونوں سطحوں پر ضروری ہے ،کیونکہ یہ انصاف کا تقاضا ہے اور مابعد جدیدیت کی واحد مبنی بر موافقت قدر ’انصاف ‘ ہی ہے ،جس کی حمایت کرنا اور اسے مرکزیت عطا کرنا اس لیے ضروری ہوگیا تھا کہ لیوٹارڈ کے پاس کہنے کو کچھ اور نہیں تھا اور وہ نٹشے کا ہم خیال بھی نہیں بننا چاہتا تھا ۔پاک و ہندکے پس منظر میں مابعد جدیدیت کے حوالے سے تھیوری کی تشکیل کس طرح کی جائے ؟ آئیے دو مابعد جدید مفکروں کے متخالف نظریات پر غور کرتے ہیں۔

ہیبر ماس مغربی معاشرتی زندگی کو ٹکروں میں بٹا ہوا دیکھتا ہے ۔اس کے نزدیک سائنس، تکنیک ،فن اور سیاست جیسے شعبوں میں بھی وسیع خلیج حائل ہوچکی ہے ۔اس نے ان ٹکڑوں میں وحدت قائم کرنے کے لیے ’ابلاغی نظریے ‘کو متعارف کرایا ۔ ہیبرماس کلیت پسندی پر یقین رکھتا ہے اور دوسری طرف عقل کا بھی مخالف ہے اس کے نزدیک ذہن عقلیت کا منبع نہیں ہے ،اس کے برعکس ابلاغ کی قابلیت ہے ،جس کو بنیاد بناکر وہ مختلف شعبوں میں موافقت قائم کرنا چاہتا ہے ۔ہیبر ما س کے نزدیک تھیوری کا کام ان شرائط کو متعین کرنا ہے ،جن کی بنیاد پر حقیقی ابلاغ ممکن ہوسکے ۔ہیبر ماس کے ’ابلاغی نظریے‘ میں فن کا کردار اہم ہے ،جس کا مقصدکلیت پسند فلسفوں کی پیدا کی ہوئی ’نجات‘ کی خواہش کو عملی جامہ پہنانا ہے ۔یہ ہے مابعد جدیدیت سے نمٹنے کا طریقہءِ کار، جو ہیبر ماس کا تخلیق کردہ ہے۔ دوسری طرف لیوٹارڈ لسانیاتی چالوں کے ساتھ طاقت کا رشتہ جوڑ کر بٹی ہوئی لسانیاتی چالوں کو باطنی طور پر عمل آرا ء دیکھتا ہے ،جو ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔لسانیاتی چالیں مختلف اداروں سمیت ہر جگہ عمل آراء ہیں ۔

انھی کی بنیاد پر اصول و قواعد وضع کرکے مخالف اور کمزور آوازوں کو خاموش کردیا جاتا ہے۔ یعنی طاقت کا اصول ہر جگہ متحرک ہے۔ تاہم وہ ہیبر ماس کے برعکس فن کی علویت کو پانے کی صلاحیت پر یقین کرتے ہوئے ہیگلیائی اور کسی قدر ہیبر ماس کی کلیت کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔وہ اپنے مضمون What is Postmodernism میں ہیبر ماس کی سماجی و ثقافتی نامیاتی وحدت کا مزاق اُڑاتا ہے۔ وہ فن سے کلیت کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرنے کا متقضی ہے ۔مقصود یہاں ہیبر ماس یا لیوٹارڈ کے طریقہ ہائے کار کی وکالت کرنا نہیں ہے،کیونکہ عملی فلسفیانہ نقطہ ء نظر سے ان کے طریقہءِ کار میں بھی نقائص پائے جاتے ہیں۔ یہاں پر اس نکتے کی وضاحت کرنا ہے

کہ اہلِ اُردو بالخصوص گوپی چند نارنگ نے مغربی مابعد جدیدیت اور ہندوستانی معاشی ،سیاسی اور سماجی صورتحال میں کیا تضادات دیکھے ہیں یا پھر وہ ہندوستان اور امریکی معاشرے میں کوئی فرق ہی نہیں سمجھتے ۔کیا ہندوستان کے انگنت داخلی تضادات اور پھر عالمی سطح پر اس کی ترجیحات وتلازمات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے ہی کسی طریقہءِ کار کی توقع گوپی چند نارنگ سے کی جاسکتی ہے؟فرانسیسی فلسفی مثل فوکومابعد جدید مفکر ہے جومارکسی اقدار کا بھی قائل ہے اور اسے سرمایہ داری ہی کی طرح طاقت کا سرچشمہ بھی گردانتاہے۔ اس کے نزدیک طاقت کا مرکز صرف ریاست ، فوج یا پولیس ہی نہیں ہے ،بلکہ سماجی گروہ ،مختلف ڈسکورس کو وضع کرکے اپنی آئیڈیالوجی پر مبنی معنی کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں ،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مزاحمتی طریقہءِ کار کو اپنایا جائے ۔مغربی ڈسکورس میںیہی خیالات مابعد جدیدیت کی حقیقی روح ہیں۔ یعنی macro-narrative نہیں بلکہ micro-narrative۔اقلیتیں اپنے حقوق مانگیں نہیں ،بلکہ چھین لیں ۔

وہ ملکی نظام میں اصلاحات کی خواہش نہ کریں ،بلکہ مزاحمتی طریقہءِ کار اختیار کریں ، فوکو سرعام سماجی گروپوں کی حمایت میں نکلتا تھا ۔اس کے مزاحمتی فلسفے کو بنیاد بناکر ہم جنس پرستوں نے مغربی معاشرے میں اپنی شناخت کو قائم کیا۔ سرمایہ داری منطق کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان مزاحمتوں کے مدِ مقابل اپنی مزاحمت قائم کرکے اپنی توانائی کو ضائع نہ کرے ۔اس سارے عمل کو سامنے رکھتے ہوئے سرمایہ داری نظام کے اندر انقلابیت کے مستقل ہونے کو تسلیم کرلیا گیا، جبکہ حقیقت میں ان گروپوں کے مفادات کو معاشی مفادات کے تابع کرکے کنٹرول کرنے کا اک نیا ذریعہ دریافت کرلیا گیا ۔ہندوستان اپنے داخلی تضادات کی وجہ سے بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔

کیا گوپی چند نارنگ بحیثیت پوسٹ ماڈرن مفکر ،ہندوستان میں مسلمانوں ،سکھوں اور عیسائیوں کے ساتھ کھڑے ہوکر ان کی الگ شناخت قائم کرنے کا بیڑا اُٹھا سکتے ہیں ؟کیا وہ بحیثیت مابعد جدید مفکر اُنھیں ہندوستان میں اقلیتوں کو مزاحمتی فلسفہ اپنانے کا درس دے سکتے ہیں ؟ہندوستان میں اکثریت کی رسائی ہی ان مزاحمتی فلسفوں تک نہیں ہو پاتی ۔جن افرادکی رسائی ان تک ممکن ہوتی ہے ان کے اذہان پہلے ہی کئی طرح کی فکری پراگندگی کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں ۔ جو کمی رہ جاتی ہے اسے برہمن ازم کی غیر انسانی آئیڈیالوجی سے پورا کردیا جاتا ہے ۔ثقافتی عوامل کو آئیڈیالوجی سے کچلا جاتا ہے۔اور دعوے اس طرح کے کیے جاتے ہیں کہ آئیڈیالوجی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ رولاں بارتھ کی "متھ" مارکس کابیان کردہ بورژوا تصورِ آئیڈیالوجی،مشرقی مذہبیت و توہم پرستانہ روایتِ تصوف ابھی بھی مغربی اور مشرقی معاشرے میں ظاہری وباطنی سطح پر متحرک ہیں۔وہ اپنے جبری تفاعل سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ان کی تدفین کا محض غلط تاثر قائم کر دیا جائے؟اگر نہیں تو پھر کس آئیڈیالوجی کا خاتمہ مقصود ہے؟اگر آئیڈیالوجی ابھی زندہ ہے تو سماجی سطح پر مابعد جدیدیت کیسی؟

ٹیری ایگلٹن کا یہ کہنا درست ہے،

A dominant power may legitimate itself by promoting beliefs and values congenial to it; naturalising and universalising such beliefs so as to render them self-evident and apparently inevitable; denigrating ideas which might challenge it, excluding rival forms of thought, perhaps by some but systematic logic; and obscuring social reality......(Ideology, p5)

ہندوستان میں کئی تحریکیں

اسی کی زد میں آکر دم توڑ رہی ہیں ۔دوسری طرف کئی محازوں پر مزاحمتیں بڑھ رہی ہیں، لہذا دانشوروں کو چاہیے کہ صدیوں سے قائم شدہ ’معنی ‘کے نیچے دبے ہوئے معنی کے ظہور کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں ۔اس کے لیے یقیناََ ایک الگ عملی ڈسکورس کی ضرورت ہے۔Bakhtin کے نقطہء نظر سے وہ خارجیت سے تشکیل پائی ہوئی زبان سے جنم لے۔عہدِ حاضر کا سب سے اہم مسئلہ مشرق اور مغرب کے مابین اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بین القوامی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس کی تکمیل مشرق کو عالمی ایجنڈے سے حذف کرکے ممکن نہیں بلکہ بحیثیت اہم فریق اس کی شمولیت ضروری ہے۔ اس شمولیت کوبامعنی اسی صورت بنایا جاسکتا ہے جب مغربی نظریات کی تہہ میں پیوست عوامل کی تفہیم کرکے انھیں مشرقی ثقافتی ،سماجی ،سیاسی اور معاشی صورتِ حال کے مدمقابل رکھ کر جانچا جائے۔ اس تقابل کے دوران جہاں مشرق و مغرب کی صورتِ حال کے مابین تضادات ظاہر ہوں انھیں اپنے مفادات کی روشنی میں نظریا نہ چاہیے ۔لیوٹارڈ نے تکنیکی عہد میں علوم کی صورت پزیری کا نظریہ یورپی اور امریکی سیاسی ،معاشی اور سائنسی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر پیش کیا ہے ،جیسا کہ وہ خود اپنی کتاب ’مابعد جدید


حالت علم پر ایک رپورٹ ‘کے تعارف میں کہتا ہے کہ،

The text that follows is an occasional one. It is a report on knowledge in the most highly developed societies......

پاکستان یا ہندوستان کس حد تک ترقی یافتہ ممالک کے صف میں شمار ہوتے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔تاہم مابعد جدیدیت کا لفظ بہ لفظ پاکستان یا ہندوستان کی صورتِ حال پر اطلاق کہاں کی دانشوری ہے ۔مابعد جدیدیت مغربی ثقافتی حالت ہے ،جو بحران کی عکاس ہے، جیسا کہ نارنگ صاحب نے بھی سن رکھا ہے۔ ویسے بھی یہ کو ئی آسمانی صحیفہ نہیں جسے سب کے لیے لازمی قرار دے دیا جائے ۔ ویسے اب تو صحیفوں کے حوالے سے بھی ردِ عمل سامنے آنے لگا ہے۔مابعد جدیدیت تو ایک خاص مقام پر انسانی سرگرمی کا اظہار ہے۔(یہ واضح رہے کہ مذکورہ مضمون میں مقصود پوسٹ ماڈرن ازم یا پھر ساختیاتی فکر پرمفصل تنقید نہیں ہے ،بلکہ چند اہم نکات کی جانب اشارہ کرنا اور نارنگ صاحب کے کارنامے کا انکشاف ہے)۔پاک و ہند کا المیہ یہ ہے کہ ہر عہد میں بے شک نظریہ سازی کا عمل ہو یا کوئی تخلیقی عمل ، افسانہ نویس کی کہانی کی تلاش کا عمل ہو، مشرق کا کوئی شاعر ہو یا مشرق کا کوئی’’ فلسفی شاعر ‘‘اوریجنیلٹی کا ہمیشہ فقدان رہا ہے ۔چند لوگ جو ادب پر براجمان ہوتے ہیں ان کو اہلِ اُردو کی ذہنی معذوریوں کا شاید ادراک ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل قریب یا بعید میں ان کی غیر تخلیقی سرگرمیاں آشکار نہیں ہونگی ،

جس کی وجہ سے وہ مغربی افکار کو اپنے ناموں سے منسوب کر کے خود نظریہ ساز بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ان حقائق کے ظاہر ہوجا نے سے علمی ہیجان سرد پڑجاتا ہے ۔ادب سے وابستہ افراد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔ نا اہلی کا احساس بڑھنے لگتا ہے اور احساسِ کمتری پروان چڑھنے لگتاہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ ایسے اعمال سے چشم پوشی کرنا بھی جرم کا ارتکاب کرنے کے مترادف ہے ۔اوریجنیلٹی کی کمی کی وجہ سے ہی اُردو کی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کبھی مغربی درسگاہوں میں اس امر کی ضرورت محسوس کی گئی ہے ،کیونکہ ایسی کتابیں مغربی درسگاہوں میں فکر کی کسی بھی نہج کو مہمیز عطا نہیں کرسکتیں ۔فرض کیجےئے کہ گوپی چند نارنگ کی مذکورہ کتاب کا اگر انگریزی میں ترجمہ کیا جائے توکتنے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ،کیونکہ مغرب کی تمام کتب کے حقوق یا تو مصنفین کے پاس یا پھر پبلیشرز کے پاس ہوتے ہیں ۔ ان کتب کی انگریزی زبان میں اشاعت سے گوپی چند نارنگ کی ساری زندگی کی محنت بھی رائیگاں جائے گی اور ان کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔ ہندوستان میں ہونے والی تحقیق جن خطوط پر استوار ہے یہ راز بھی فاش ہو جائے گا

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply