اردو ادب میں سرقہ اور اس کا دفاع کب تک؟

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


عمران شاہد بھنڈر

(برمنگھم)

اردو ادب میں سرقہ اور اس کا دفاع کب تک؟

گزشتہ برس میں نے گوپی چند نارنگ کی کتاب ’’ساختیات پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘میں نقالی کے رحجان کی نشاندہی کرنے کے لئے ایک مضمون بہ عنوان’’گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں‘‘تحریر کیا ، جو پہلی بار ۲۰۰۶ میں ’ ’نیرنگِ خیال‘‘ کے سالنامے میں شائع ہوا۔اُس کے بعد اس مضمون پر از سرِ نو نظر ڈالی اور نئے تحقیقی مواد کی بنیاد پر چند اور اقتباسات بشمول تمام تفصیلات ضبطِ تحریر میں لایا،جو ’’جدید ادب‘‘کے شمارہ نمبر ۹، جولائی تا دسمبر۲۰۰۷ء میں دوبارہ شائع ہوا۔اس مضمون میں تناظرکے اعتبار سے اپنی ترجیحات متعین کرنے کے سلسلے میں بھی چند حوالے مغربی مابعد جدید مفکروں (لیوٹارڈ، ہیبرماس، فوکو وغیرہ) کے افکار کے مختصرتنقیدی جائزے کے بعد پیش کیے گئے تھے۔اس مضمون میں نقالی کے رجحان کو عیاں کرنے کے علاوہ مقصود محض تناظر کی اہمیت کوواضح کرنا تھاتاکہ ادبی و نظریاتی اعتبار سے ’’ پر اسراریت ‘‘ کو بنیاد بنا کر اہلِ اُردو جس ’’خلائی مشن ‘‘پر رواں دواں ہیں اور تجرید کی مسلسل تبلیغ پر کمر بستہ ہیں وہ زمین پر اُتر کر گرد و پیش کی تفہیم اپنے داخلی و خارجی محرکات کی نوعیت اور ضرورت کے تحت کرکے ادبی یا سماجی سطح پر کوئی اپنا لائحہءِ عمل تیار کریں،بجائے اس کے کہ دوسروں کے نظریات اور اُن نظریات کی باطنی منطق میں ربط بطورِ دلیل تلاش کرتے رہیں۔ایسا کرنے سے اپنے معاشرے میں ادبی میدان صوفی کی خانقاہ بننے کے علاوہ اور کچھ نہیں بن سکے گا ۔ معاشرہ خارجی اثر کے تحت اپنی نامیاتی وحدت سے محروم ہوکرصرف دماغوں کے اندر مابعد جدید منطق کے تابع ہوجائے گا ۔ادبی ، سماجی ، حتی کہ سیاسی اعتبار سے مغربی فکر پر فیصلہ کن اثر چھوڑنے والی فرانز فینن کی کتاب The Wretched of the Earth کا حوالہ مثال کے طور پر دیا جا سکتا ہے جس نے مغرب میں پوسٹ کالونیل ادبی و سماجی تنقید پر شدید اثرات مرتب کیے تھے۔کیا اردو ادب یا تنقیدمیں کوئی ایسی کتاب موجود ہے کہ جو داخلی و خارجی مفادات کی غیر یکسانیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ،تمام معاشرتی مفادات کو اپنے تناظر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے لکھی گئی ہو اور جس کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کے بعد مغربی مفکر اپنی تنقید کے خطوط درست کرنے لگیں اور اپنی جامعات میں اس کو بھی جگہ دیں، جیسا کہ فینن کی کتاب کے بعد ہوا تھا۔نہ کہ وہ الٹا یہ کہنے لگیں کہ یہ مخلوق تو ہماری ہی تقلید پر کمر بستہ ہے۔ اگر ایڈورڈ سعید ان کے دفاع پر اترتا ہے تو تعریف کا حامل قرار پاتا ہے اور حوالے کے لیے اس کا نام کئی محفلوں میں سننے کو ملتا ہے۔

اگر مشرق کا کوئی باشندہ ادب و تنقید میں اپنا موقف پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ساتھ ہی ادب میں سماجی مسائل کے آنے سے ادب خطرے میں پڑ جاتا ہے۔اگر فینن اپنی تصنیف کے ذریعے نظریاتی اعتبار سے عالمی استحصالی زاویوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے تو اہلِ اردو تمام تضادات کے باوجود مغرب کے ساتھ کس اشتراکیت کے خواہاں ہیں؟ مغربی مفکر اگر اپنے داخلی مفادات کے حق میں دلائل تراشتے ہیں تو اردو والوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔کیا وہ محض خود کو عالم ثابت کرنے کے چکر میں رہتے ہیں؟ اس میں بھی کوئی حرج نہیں اگر ان کی علمیت کسی تنقیدی سوچ کو پروان چڑھائے، مگرنقل کا رحجان تو خود تنقیدی سوچ کے نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ اس نکتے کا میں بعد میں تفصیلی جائزہ لوں گاْ ۔میں اپنے مضمون ’’گوپی چند نارنگ مصنف یا مترجم؟‘‘ میں نقالی کے رحجان کو عیاں کرنے کے علاوہ صرف مذکورہ بالا نکتے کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی تھی۔ گوپی چند نارنگ کے کارنامے کے انکشاف کے سلسلے میں تحریر کیے گئے مضمون کے مرکزی نکتے پر کوئی خاص ردِ عمل نہیں ہوا جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ بے شمارر خودساختہ ادیبوں، نقادوں اور محققوں نے اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا شروع کردیا ہوگا کہ اسی عمل کی بنا پر تو وہ تنقید کے عالم بنے ہوئے ہیں۔ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مابعد جدید مباحث ادب سے وابستہ زیادہ تر لوگوں کی فہم سے بالا ہوں، لیکن اس مضمون میں مباحث اور تجزیات پر تو توجہ مرکوز ہی نہیں کی گئی تھی۔ اس کا مرکزی زاویہ تو علمی و فکری بددیانتی کے رحجان کی نشاندہی تھی اور اگر توجہ نقالی سے ذرا ہٹتی تو شاید تناظر کی اہمیت واضح ہونے سے کچھ پیش قدمی داخلی تقاضوں کے تحت بھی ہوجاتی مگر یہاں تو حالات یہ ہیں کہ بلاواسطہ طور پر نقالی کے حق میں دلائل دیے جانے لگے ہیں۔ پاکستان کے علاقے بورے والا سے بہر حال اہلِ اُردو کی جانب سے اختیار کی گئی خاموشی ٹوٹی ہے۔جاوید حیدر جوئیہ صاحب نے ’’جدیدادب ‘‘میں شائع ہونے والے مضمون

’’ گوپی چند نارنگ مترجم یامصنف؟‘‘ کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اُنھوں نے گوپی چند نارنگ کے نقالی کے رجحان کو ہدفِ تنقید نہ بنا کر جہاں اس رویے کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مشیروں کے پیشگی دفاع پر چل نکلے ہیں۔ جوئیہ صاحب کے مضمون یا خط کا میں نے بنظرِ غورجائزہ لیا ہے۔ اس مضمون میں میں نے یہ کوشش کی ہے کہ اُن کے تمام اہم اعتراضات کا اُسی ترتیب سے جواب پیش کروں جو اُنھوں نے اپنی تحریر میں اختیار کی ہے۔ان کے کئی ایک نکات کو میں نے غیر ضروری اور انتہائی ابتدائی نوعیت کے سمجھ کر نظرانداز کردیا ہے۔یہاں پر یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جوئیہ صاحب نے میرے مضمون کا مطالعہ بقول اُن کے ’دوتین بار‘ کیا ہے اورجس نتیجے پر وہ پہنچے ہیں وہ مضمون کو’دو تین‘ بار پڑھنے کے بعد ہی پہنچے ہیں یہ امر بھی قابلِ غور ہے انہیں اس بات کا بھی پوری طرح یقین نہیں ہے کہ انہوں نے مضمون کو کتنی بار پڑھا ہے؟ بہرحال اُن کے اعتراضات کا جائزہ لیتے وقت اس مضمون کے قاری کو اصل مضمون کے حوالے سے جوئیہ صاحب کے بھر پور مطالعے کا خیال اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے ۔ اس کے علاوہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ گوپی چند نارنگ نے ٹیرنس ہاکس کی کتاب Structuralism and Semioticsکو چند ایک پیراگراف کی ترتیب کو تبدیل کر کے ساری کی ساری کتاب ترجمہ کر کے اپنے نام سے شائع کرادی ہے۔پہلے ہم جوئیہ صاحب سے بات شروع کرتے ہیں۔جناب جوئیہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ میں سوچتا رہا کہ کیا ساختیات ہر ملک میں الگ الگ ہے؟

الگ الگ ہے تو یہ ’’سائنس‘‘ کیسے ہوگئی؟ اور سائنس ہے ، اور بقول بھنڈر صاحب ’’سائنسی نظریات‘‘ دنیا کی ہر لیبارٹری میں ایک ہی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں‘‘، تو پھر سائنس کا ’دفاع‘ کیونکر ممکن ہے،اور وہ کونسی ’’سائنسز‘‘ ہیں جنھیں ملکی معاشروں کی ضروریات اور ترجیحات کو مدِ نظر رکھ کر ’’دفاعی حربہ اختیار‘‘ کیا گیا ہے؟ ‘‘اس سے قبل کہ اس پیراگراف پر بات شروع کی جائے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے گزشتہ مضمون سے ایک اقتباس دیا جائے جس میں میں نے مختلف سائنسز میں حدِ امتیاز کھینچنے کی کوشش کی تھی، ملاحظہ فرمائیں،’’ اس مثال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا عبث ہوگا کہ ان دونوں سائنسی نظریات کو ایک ہی کلیے کے تحت جانچا جائے، مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ سائنسی نظریات کی قبولیت یا استرداد کا عمل ہر طرح کے تعصب سے بالا معروضی قوانین کے تابع ہونا چاہیے۔‘‘ ۔۔۔۔۔اس مضمون میں جوئیہ صاحب کو نارنگ صاحب کا دفاع مقصود تھا اس لیے انہوں نے بیشتر حوالوں کو غلط پیرائے میں استعمال کر کے اپنی جانب داری کا ثبوت دیا ہے۔ اگر اس مضمون سے جوئیہ صاحب کا نام حذف کردیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مضمون کو گوپی چند نارنگ نے خود تحریر کیا ہے کیونکہ اس سے زیادہ دفاع کرنے میں نارنگ صاحب خود بھی ناکام رہتے۔مندرجہ بالا نکتے کی بحث کو سمجھنے کے لیے یہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ میں اس بحث میں سیوسےئر کی لسانیاتی تھیوری کا مفصل جائزہ نہیں لوں گا اور نہ ہی سیوسےئر کی تھیوری کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کیونکہ اس کے لیے موضوع سے ہٹنا پڑے گا۔ میں صرف معنی آفرینی کے لیے سیوسےئر کی تھیوری میں معروضی عنصر کے نہ ہونے سے جنم لینے والے قضیوں کا ذکر کروں گا

جو معنی کی نوعیت کو یکسر تبدیل کردیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ صرف ’لفظ‘ کو معروضی تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔یا یوں کہیں کہ لفظ کی ’’میٹیریل‘‘ حیثیت پر توجہ مرکوز کروں گا۔جہاں تک لسانیاتی ساختیات کا تعلق ہے تو وہ سیوسئیر کے نظریے کے مطابق اپنی ہی باطنی منطق کے تحت معنی کو وجود میں لاتی ہے،جس میں افتراق، اضافیت، خود مختار، (Arbitrary) ، لونگ اور پارول وغیرہ جیسے عناصر شامل ہوتے ہیں۔سیوسئیر زبان کو معنی آفرینی کے لئے معروضایہ(Objectified) ہوا نہیں سمجھتا۔اس کے نزدیک لفظ یا سائن self referential ہے ۔اس طرح وہ ’لفظ ‘ کو اس کے مادی پہلو سے محروم کرکے محض تجرید کی سطح تک لے جاتا ہے، جبکہ مادی نقطہ نظر سے ہم جانتے ہیں کہ معنی آفرینی کے لئے ’لفظ‘ کو تناظر عطا کرنا ضروری ہے اور یہ ثابت کرنا انتہائی مشکل ہے کہ ’لفظ‘ میں معروضیت کا کوئی بھی پہلو شامل نہیں ہے۔زبان معنی آفرینی کے لئے اپنے ہی باطنی رشتوں (افتراق،اضافیت، خود مختار، لونگ اور پارول )کی محتاج ضرور ہوسکتی ہے، لیکن یہ عمل کسی نہ کسی تناظر میں طے پانا چاہیے۔ فرض کریں کہ کوئی ب شخص کہتا ہے کہ

’’ غریب کا استحصال ہورہا ہے‘‘یقیناََ یہ فقرہ موضوعیت کے برعکس معروضی اہمیت کا حامل ہے اور بغیر تناظر کے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوسکتی۔مزید وضاحت کے لئے اپنے ہی مضمون ’’گوپی چند نارنگ مترجم یا مصنف‘‘ سے کیتھرین بیلسی کا ایک اقتباس دے رہا ہوں جسے جوئیہ صاحب پہلے ہی دو یاتین بار پڑھ چکے ہیں۔بیلسی کے مطابق’’ زبان اور سوچ کا تعلق نئے معنی اور دنیا کے تجزیے کے نئے طریقوں کی وضاحت کرتا ہے،جو طریقہ ہائے کار وضع ہو جاتا ہے معنی اُسی کے اندر قائم ہوتا ہے۔نئے معنی قائم کرنے کے لئے زبان اور سوچ کے تعلق کو تبدیل کرنا ہوگا۔‘‘ زبان اور سوچ کا تعلق دو سطحوں پر عمل آراء ہوتا ہے، ایک داخلی اور دوسری خارجی۔داخلی اور خارجی کے درمیان رشتہ انتہائی پیچیدہ، متضاد اور مبہم ہے۔یہ بہر حال طے ہے کہ سوچ کی تشکیل میں خارجی عناصر فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ شعور کی نوعیت داخلی بھی ہو سکتی ہے اور خارجی بھی تو پھر ہمیں بڑی باریکی سے ان دونوں کے مابین افتراق کی نشاندہی کرنی ہوگی۔آئیے عمانوئیل کانٹ کی کتابs Critique of Pure Reason The میں بیان کیے گئے فرد کے داخلی و خارجی شعور پر غور کرتے ہیں۔ اس کے بعد میں اسی تصور کی روشنی میں ہیگل کے فلسفے کا مختصر جائزہ لے کر دریدا کے Differance کے بارے میں پراسرار تھیوری پر تنقیدی نظر ڈالوں گا۔ژاک دریدا کے بارے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس نے مغربی دنیا کے سب سے عظیم فلسفی عمانوئیل کانٹ کے خیالات کو ہیگل ،فختے اور شیلنگ کے ذریعے جان کر

ان کی اہم فلسفیانہ اصطلاحات کو لسانیات پر لاگو کردیا ۔اس نے عقلیت ، شعور، سیلف ، افترق وغیرہ جیسی اصطلاحوں کا مفہوم سمیٹ کر مختلف ناموں سے لسانیات کی مناسبت سے اصطلاحات وضع کیں (Differance, Trace, Supplement, etc,) اور زبان کے اندر سے معنی کی تلاش شروع کردی۔ یہاں پر جو کچھ دریدا کہتا ہے اسے آنکھیں بند کر کے تسلیم کرنا قابلِ قبول نہیں ہے ۔ دریداکے فلسفے کے مآخذات کا سراغ لگانا اور ان کی سچائی کو جاننے کی کوشش کرنا بھی مقصود ہے۔ یہ دسویں جماعت کا امتحان نہیں جس میں صرف سوالات کا جواب دینا ہی کافی ہوتا ہے۔ یہ آزادانہ تحقیق کا ا پنے موقف کی روشنی میں تجزیہ کرنے کا سوال ہے۔ ہمارا اپنا ایک موقف ہے جس کے مطابق سچائی زبان کے اندر ہی نہیں پائی جاتی بلکہ ہماری تمناؤں کے برعکس خارجی دنیا میں بھی موجود ہے جس کا انسان اپنی ہی سرگرمی کے ذریعے شعور حاصل کر کے

اسے تبدیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔عمانوئیل کانٹ کے فلسفے کے سکالرز کو اس کے فلسفے میں شامل تصورِ بدیہیت اور خارجی اعتبار سے اس کے تفاعل سے پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے۔ کانٹ کے فلسفے میں ’بدیہی‘ (a Priori) کا استعمال ’فوق تجربی جمالیات‘ (Transacendental Aesthetic) میں فطرت کو بحیثیت وجدانی مظہر کے طور پر کیا جاتا ہے، جس میں فطرت کا ادراک ہمیں حسیات کے ذریعے ہوتا ہے ، اس میں کوئی بھی خارجی طریقہ ہائے کار وضع نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ ہر طرح کے معروض، دلچسپی، خواہش اور تصور سے بالا تر ہے۔اس میں صرف اور صرف فوق تجربی سیلف باطنی طور پر تفکراتی عمل سے گزرتا ہے۔ کانٹ نے واضح کیا تھا کہ شعور کی منطقی اہلیت دراصل سیلف کی موجودگی بطورِ سوچنے والے فرد کی حیثیت سے کرتی ہے۔ ایسا فرد اپنی ہی منطق کے تحت تشکیل پاتا ہے۔اس طرح کے فرد کو کانٹ کے فلسفے کی رو سے Noumenal I کہا جاتا ہے۔ کانٹ کا ’’نومینل سیلف‘‘زمان اور ہر طرح کی ترکیبی وحدت سے آزاد ہے لیکن مکان سے آزاد نہیں ہے۔جبکہ دوسرا ’سیلف‘ زمان و مکان میں موجود ہوتا ہے۔ گو کہ خارجی عوامل کی شمولیت سے متشکل ہوتا ہے مگر خارج کے تمام مقولات پہلے ہی سے دیے گئے ہوتے ہیں، جنہیں سبجیکٹ اپنی ہی داخلی حس سے جانتا ہے، یعنی جب فرد یہ کہتا ہے کہ وہ ترکیبی وحدت سے قبل ازادراک کی خصوصیت کو جانتا ہے تو وہ دراصل خود کے شعور ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ ایک طرف وہ خود کے شعور ہونے کا پتہ دیتا ہے اور دوسری طرف اسے شعوری سرگرمی کا بھی شعور ہوتا ہے۔یعنی یہ شناخت وہ اپنے شعور سے جو اس کا ’’دوسرا‘‘ ہے ، سے قائم کرتا ہے۔یہاں پر افترق تو ہے لیکن شناخت کا لمحہ بھی آتا ہے۔

اس طرح کانٹ نے فرد کی دوئی کا تصور پیش کیا تھا جس نے ایک طرف تو ڈیکارٹ کے تصورِ فرد کی دھجیاں بکھیر دیں،کیونکہ ڈیکارٹ کا فرد مطلق حیثیت کا مالک تھا، جبکہ دوسری طرف سیلف کو دو لخت ((Decentered کرکے بعد کے تمام فلسفے کے لیے راستہ ہموار کیا۔کانٹ کے مطابق دوسرے فرد کی نوعیت پر مزید غور کرتے ہیں جو مظہراتی دنیا سے وابستہ ہوتا ہے جسے Phenomenal I کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ ظاہرسے تشکیل پاتا ہے۔’’فوق تجربی فرد‘‘ کی وضاحت کرنے کے بعد کانٹ واضح کرتا ہے کہ’استخراجی منطق‘ (Deductive Logic) فطرت کو’ تصوراتی مظہر ‘(Conceptual Representation) کے طور پر دیکھتی ہے، یعنی مظہراتی فطرت’ ترکیبی وحدت‘ (Synthetic Unity) کے طور پر شامل ہوتی ہے۔جسے فہم کے اشتراک سے تصور کی صورت دی جاتی ہے۔ اس عمل میں کانٹ کے مطابق مادہ فرد کے اندر بھی موجود ہوتا ہے جو حسیات کی بنیاد پر خارجی مادے پر ردِ عمل کرتا ہے، لیکن اس میں فہم شامل ہوتی ہے۔جہاں تک فطرت

(خارجی دنیا)

کا تعلق ہے تو اس کی حیثیت وجدانی ہوتی ہے جس میں’زمان ومکان‘ مادی صورتوں میں موجود ہوتے ہیں۔زمان ومکاں میں مادیت کے عنصر کا مطلب یہ ہے کہ اسے سوچ کے ذریعے تشکیل دیا جاسکتا ہے۔اس میں داخلیت اور خارجیت دونوں عناصر شامل ہیں۔اس طرح کانٹ نیاایک طرف ’’مخفی سیلف‘‘ اور ’’مظہراتی سیلف‘‘ کے درمیان یہ حدِ فاصل کھینچی تھی کہ علم کے حصول اور اس میں اضافے کے لیے ’’مظہراتی سیلف‘‘ کو ہی متحرک ہونا پڑتا ہے کیونکہ اس میں فرد معروض سے برسرِ پیکار ہوتا ہے، دوسری طرف اس نے ’’نومینل سیلف‘‘ کو اس کے تفاعل کے اعتبار سے الگ کردیا۔ کانٹ کا Transcendental subject سماجی عمل میں شریک نہیں ہوسکتا مگر وہ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ قائم رہتاہے۔دوسری طرف مظہراتی سبجیکٹ ہے جو سماجی عمل میں شریک تو ہوتا ہے لیکن سچائی کو نہیں پاسکتاکیونکہ بقول کانٹ ’’شے بالذات‘‘ خود کو مخفی رکھتی ہے۔یہی نکات ہیں جنہوں نے ہیگل کو اپنا الگ فلسفہ تشکیل دینے کے لیے بنیادی مواد مہیا کیا ۔ ہیگل ایک طرف تو کانٹ کی ’’ شے بالذات‘‘ کو تسلیم نہیں کرتا اور دوسری طرف کانٹ کے Trancsendental subject کے عدم شمولیت کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔کانٹ کے’’نومینل سیلف‘‘ کی حیثیت قبل از تاریخ کی ہے، یعنی اس کا مآخذ تاریخ کے ہر مآخذ سے قبل ہے،جو وجدان کی a Priori حیثیت کا قائل ہے اورجو تمام انسانی تجربے کی لازمی شرط بھی ہے ۔ اسے دنیا میں تلاش کرنا اور اس میں سے تجربے کے تما م عناصر کو دریافت کرناناممکنات میں سے ہے۔دریدا کا Differance یا Trace بھی بقول اس کے ’مآخذ‘ سے قبل کا’ مآخذ‘ ہے۔ دریدا نے Differance کے بارے میں کئی بار کہا ہے کہ اس کا مآخذ ہر طرح کی ’موجودگی‘ او’ر شناخت ‘سے قبل دریافت کیا جاسکتا ہے ۔ کانٹ کے مفہوم میں دریدا کا پراسرار عنصر معنی خیزی کو تو ممکن بناتا ہے لیکن خود اپنے مآخذ کی کوئی خبر نہیں دیتا۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ Differance کی حیثیت Objectified نہیں ہے ۔ اس طرح دریدا کانٹ کے ’نومینل سیلف‘ کے قریب چلا جاتا ہے جو خود Objectified نہ ہوتے ہوئے بھی معنی خیزی کا سبب بنتا ہے۔ دریدا کے نزدیک Differance and Trace اس طرح کا پراسرار عنصر ہے جو معنی خیزی کے عمل کو ممکن بناتا ہے،اگر each so-called present element, each element appearing on the scene of presence, is related to some thing other than itself. ( SP, p,142-143). لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خود کو مخفی رکھے۔ دریدا چونکہ systematic مفکر نہیں تھا اس لیے اس نے ایک ہی تھیم کی وضاحت کے لیے مختلف اصطلاحات بغیرکسی ربط کے استعمال کر کے نقادوں کے ڈیکنسٹرکشن سے مختلف نتائج اخذ کرنے کے لیے راستہ کھول دیا۔اب یہاں پر ایک طرف تو دریدا معنی کی تلاش میں ہیگل کی The science of Logicکے سب سے بنیادی تھیم ’افتراق و اپو زیشن‘ کی بنیاد پر معنی خیزی کے عمل کو مستعار لیتا ہے اور دوسری جانب کانٹ کے’ نومینل سیلف‘ کے مماثل ہوجاتا ہے۔ کانٹ نے اس تصور کو ادھورا چھوڑ دیا جسے بعد ازاں اس کے پیش رو جرمن فلسفی شیلنگ نے واضح طور پر تشکیل دیا۔

پیٹر ڈیوز نے ثابت کیا ہے کہ دریدا کا تصورِ Differance حقیقت میں شیلنگ کے’’ سبجیکٹ‘‘ کے تصور کے مشابہ ہے، جو اپنی عدم شمولیت کے بغیرمعنی کو متعین کرتا ہے۔ ہیگل کے دریدا پر اثر کا جائزہ لینے کے لیے دریدا کے مضمون Differance کا مطالعہ بہت ضروری ہے جس میں اس نے واضح طور پر ہیگل کے اثر کو تسلیم کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس سوچ اور زبان کے تعلق کی ہم وضاحت کرنا چاہتے ہیں وہ تو یقیناََ خارج سے ہی تشکیل پائی ہوئی ہونی چاہیے، خارج سے تشکیل ہونے والی زبان کی نوعیت کیا ہوگی؟ اور اس زبان اور باطنی زبان میں حدِ امتیاز کس طرح قائم کیا جاسکتا ہے؟ اگر خارج میں زمان و مکان کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جانا چاہیے تو بے شک زبان اپنی ہی باطنی منطق کے تحت عمل کرئے ،لیکن اس کے باوجود خارجی عوامل معنی کے

اعتبار سے زمان و مکان کے تقاضوں کے تحت مختلف معنی کی تشکیل کریں گے۔ خارج ہی وہ لیبارٹری ہے جو زبان کے اپنے معنیاتی رشتوں کے باوجود تناظر کو ملحوظِ خاطر رکھے گی اور ایک تناظر کو دوسرے تناظر سے خارجی منطق کے تحت جدا کرئے گی۔جن کے حوالے سے داخلیت کی اپنی زبان ہوسکتی ہے جیسا کہ کانٹ نے The Critique of Pure Judgement میں واضح کیا تھا ۔ مارکسی نقطہ نظر سے اس پہلو سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں حیاتیاتی نقطہ نظر سے آغاز سے ہی ماحولیاتی عوامل کی شمولیت ہو جاتی ہے۔یہاں چونکہ دونوں ’’سیلف‘‘ کے امتیاز کو واضح کرنا ہے اس لیے داخلی و خارجی زبان کو الگ الگ کیا جارہا ہے۔مارکسی لسانیات کی وضاحت کے لیے یہ مناسب موقع نہیں ہے۔لسانیات کا شمار سوشل سائنسز میں ہوتا ہے اور لیوائی سٹراس کو تو ویسے بھی یقین ہوگیا تھا کہ لسانیات ہی حقیقی سائنس ہونے کا درجہ رکھتی ہے، جو اپنے قوا نین کے مطابق مختلف قسم کے معنی پیدا کرتی ہے،

یقیناََ یہ عمل انتہائی پیچیدہ اور متضاد عوامل کی پیکار کا نتیجہ ہے۔ہر زبان اگر اپنے پس منظر میں تشکیل پائے تو بالائی سطح پر معنی کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے۔ ہمارا سوال پھر وہی ہے کہ برطانوی معاشرتی یا ثقافتی تناظر میں جنم لینے والے معنی کا ہوبہو اطلاق پاکستانی ثقافت پر کیسے کیا جاسکتا ہے؟دریدا کی Of Grammatology کے دیباچے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر ڈیرک نے مجھے کہا کہ گائتری سپیوک لٹریچر کی استاد تھی نہ کہ فلسفے کی ، اس لیے اس کا دریدا کی کتاب کا ترجمہ اور اس کا تحریر کیا ہوا دیباچہ شک سے بالا نہیں ہے۔فلسفے کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں جنہیں ادب کے قاری کو محتاط رویہ اختیار کرکے پڑھنا چاہیے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر اس بات پر مصر تھا کہ زبان فرد کے اندر ازخود بولتی ہے، اس عجب خیال کو سادہ الفاظ میں تھیوری کے برعکس

اپنے اور زبان کے تعلق کی نوعیت کو سمجھ کر بھی مسترد کیا جاسکتا ہے۔اگر زبان پر ہمارا اختیار ہے اور ’’خلائی مشن‘‘ کے برعکس سماج کے ساتھ بھی ہمارا کوئی تعلق ہے تو سماجی عمل کی بہتر تفہیم کر کے ہم پہلے سے موجو د مغربی ’’کوڈز‘‘ کی جگہ اپنا ایک الگ ’کوڈ‘ بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔اسی کو میں نے ’دفاعی حربہ ‘قرار دیا تھا۔اگر اس عمل کے لیے زیادہ صلاحیت درکار ہے تو کم از کم اپنے تناظر میں زبان کے objectification کے پہلو کو سامنے رکھ کر اپنا نقطہ نظر پیش کیا جاسکتا تھا۔بیسویں صدی میں ’’بیگانگی‘‘ کے نتیجے میں اس طرح کی علمیات کی توقع کرنا قطعاََ حیرت انگیز امر نہیں ہے۔ مجموعی طور پر بیسویں صدی جنگوں، انقلابات اور ردِ انقلابات کی صدی تھی۔ اس کے علاوہ بیسویں صدی سامراج کے وجود میں آنے کی صدی تھی۔جس کے اثرات نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ مغربی ممالک کے داخلی تضادات کی صورت میں بھی سامنے آئے۔معیشت کی چوکھٹ پر ہر قابلِ قدر چیز بکنے لگی ۔ مزدور کی پیدا کردہ جنس (commodity ) کے ساتھ ساتھ فنی پیداوار بھی معیشت کی غلامی کرنے لگی۔پیداواری عمل سے جنم لینے والی ’بیگانگی‘ ثقافتی سطح پر پوسٹ ماڈرن ازم کے روپ میں سامنے آئی اور مغربی تہذیب کے رکھوالوں نے اسے ’’ردِ ثقافت‘‘ (Counter culture) کے نام سے پکارنا شروع کردیا۔اس سارے عمل کو مارکسی مفکروں نے ایک صدی قبل ہی آشکار کر دیا تھا۔سرمایہ داری نظام کے سامراج کا روپ اختیار کرنے کا انتہائی شاندار تجزیہ مارکس کے ’’سرمایہ‘‘ کی پہلی جلد کے باب چھبیس میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، جسے بعد ازاں لینن نے اپنی کتاب ’’سامراج، سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں

ٹھوس سائنسی بنیادوں پر ثابت کیا اور سامراج کے وجود میں آنے کی سچائی سے آگاہ کیا۔مابعد جدیدیت کی ادبی جہت ، مغربی ثقافت یا اس کافلسفہ (پسِ ساختیات) یہ’’بیگانگی‘‘ کی صورتیں ہیں ۔پسِ ساختیاتی رحجان مغربی ممالک کے اپنے داخلی تضادات کا نتیجہ ہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ یہ سائنس ہے تو اسے ہر حال میں قبول کرنا ہے بلکہ اصل سوال تو اس کی حدود کا تعین اور اس کے تضادات کی نشاندہی کرنا ہے۔اس کے علاوہ یہ جاننے کی کوشش کہ مابعد جدید فلسفے کا اس کے عہد سے کیا تعلق ہے؟نیوٹن کی تھیوری اگر ناقابلِ عمل ہو تو اسی کے اطلاق کرنے کا مسلسل اصرار اس سے اعلی حقائق تک پہنچنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے، اس کے لیے یقیناََ آئن سٹائن کو پکارنا ہوگا۔اسی طرح اگر اہلِ اردو کے اپنے تقاضے ’’ڈیکنسٹرکشن‘‘ پورے نہیں کرتی تو اور بھی ایسی سائنسز موجود ہیں جو ان کی معروضی صورتحال سے ہم آہنگ ہونے کی پوری صلاحیتیں رکھتی ہیں۔۱۹۶۸ میں جب فرانس میں طالب علم اورفیکٹری مزدوروں کا انقلاب آیا تو سارتر، فوکو، لاکاں اور لیوٹارڈ وغیرہ ڈرائنگ رومز(خانقاہ) میں بیٹھ کر شاعری کے عروض پر بحث نہیں کر رہے تھے۔ وہ تو سڑکوں پر نکل کر مزدوروں اور طالب علموں سے سوال پوچھتے تھے تاکہ ان وجوہ کا علم ہو جن کی وجہ سے یہ لوگ سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔

وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے نظریے کو صرف تجریدی تصور کیا جائے ۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ وہ اپنے نظریات کی سچائی کو زمین پر ہی ثابت کریں۔یہی وجہ ہے کہ دریدا اگر فرد کی تشکیل ثقافتی زبان کے اندر کرتا ہے تو لیوٹارڈ اسی زبان میں طاقت کے عنصر کو غالب دیکھتا ہے، جبکہ فوکو زبان کے برعکس سماج میں طاقت کے کھیل کی عمل آرائی کو حتمی تصور کرتا ہے۔فوکو کہتا ہے کہ I believe one's point of reference should not be the great model of language and signs, but that of war and battle. The history which bears and determines us has the form of a war rather than a language: relations of power, not relations of meaning. (Power/Knowledge, p,114). اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ فوکو کسی ٹھوس بنیاد پر اپنی تھیوری وضع کرنا چاہتا تھا۔معنی کی مخالفت کا مقصدصرف روشن خیالی منطق میں کار فرما معنی کا انہدام تھا۔مشل فوکو کا ’فرد‘ طاقت کی تشکیل تھا،اس طرح فوکو معروضیت کو تو سمیٹتا ہے مگر اپنے دلائل کا پسِ منظر چھپانے میں ناکام رہتا ہے۔ اسے تو فرد کی فطرت کا انہدام اور اپنے عہد میں جنم لینے والی ہم جنس پرستانہ تحریکوں کی کامیابی درکار تھی ۔ اگر فوکو ’معنی‘ کو تسلیم کرلیتا تو اسے اپنے فرد کی نفی کرنی پڑتی، اس نے مناسب سمجھا کہ فرد کی فطری حیثیت کو چیلنج کرئے ۔

اس لیے اس نے معروضی اور عقلی سچائی کا انکار کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اگر عقلیت پسندی کی بنا پر قائم کیا گیا سچائی کی دریافت کا تصور ہی غلط ہے تو وہ فرد کیسے قائم رہ سکتا تھا۔نئے فرد کو وہی درجہ دلانے کے لیے اس نے طاقت اور مزاحمت جیسی اصطلاحات استعمال کیں۔ اپنی تحریک کو فتح دلانے کی خاطر فوکو کہنے لگا کہ ’مزاحمت اور طاقت‘ ہر جگہ پر ہے۔مزاحمت ، طاقت کے اندر موجود ہے جو اس کو کمزور کرتی ہے۔فوکو کی یہ تھیوری ۱۹۶۸ کے پس منظر میں مزید ترقی کرتی گئی۔ جیسا کہ میں نے واضح کیا ہے مغرب میں ادبی و سماجی نقاد ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر مختلف موضوعات پر خیال آرائی اپنے سماجی پس منظر میں کرنے کے علاوہ سماجی عمل میں حصہ بھی لیتے ہیں۔ جس فوکو،

دریدا ، سارتر یا ہائیڈیگر کاحوالہ اردو تنقید میں بطورِ عالمانہ قسم کی بحث کے استعمال کیا جاتا ہے، یہ لوگ تو مختلف قسم کی تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں اور مختلف گروہوں اور طبقات کے ساتھ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے نظریاتی اور عملی سطح پر لڑے ہیں۔ اس طرح جو فلسفہ وہ پیش کرتے رہے ہیں ان کا ان کے سماج کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ژاک دریدا کو ہی دیکھیں کہ کس طرح اس نے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد امریکہ کی حمایت کی، جبکہ امریکہ کے عراق پر حملے کو غلطی قرار دیا۔۱۹۶۸ کے طالب علم انقلاب کی اس نے حمایت کی اور بعد میں دست بردار ہوگیا۔۱۹۹۵ میں دریدا نے سوشلسٹ امیدوار لیونل جوزفن کی سیاسی پارٹی میں حصہ لیا اور اس کی باقاعدہ حمایت کی۔سیاسی سطح پر اختلاف بھی اپنی تھیوری کی روشنی میں ہی کیا۔ اُردو کا دانشور یا ’’سوشل مفکر‘‘ سیاست کے نام سے بھی خائف ہوجاتا ہے اور اس کا ادب خطرے میں پڑنے لگتا ہے ۔ بالکل ملاّ یا پنڈت کی طرح جوخدا کو طاقت ور بھی کہتے ہیں اور خطرے میں بھی سب سے پہلے خداکو ڈالتے ہیں۔نارنگ صاحب جیسے نقادبغیر کسی پس منظر کے اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ اب کونسی تھیوری تشکیل پانے والی ہے تاکہ دوسروں سے پہلے وہ اس تھیوری کی رپورٹنگ کرکے بڑا نقاد کہلوانے کا تمغہ حاصل کر لیں ، جس میں ان کو خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوجاتی ہے، لیکن علمی بددیانتی کی جس روایت کو وہ مضبوط کر رہے ہیں اس کے لیے آج نہیں تو کل انہیں قصور وار ضرور ٹھرایا جائے گا، اگر چند لوگ جو ئیہ صاحب جیسے ہوسکتے ہیں جو اس قسم کے رویوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو مستقبل میں ایماندارانہ نقطہ نظر رکھنے والے لوگ بھی سامنے آسکتے ہیں۔

یہ تو مختصر سی بحث لسانیات کی اس کے اپنے اصولوں کے تحت معروضیت کو سمیٹ کر معنی کی تشکیل کرنے کے بارے میں تھی۔جوئیہ صاحب نے اپنے خط میں جو اعتراضات اٹھائے ہیں ، ان پر بحث کی گنجائش شاید موجود ہو ۔ گوپی صاحب کے دفاع میں انہوں نے جو دلیل پیش کی ہے کہ گوپی صاحب ’جلدی‘ میں صفحہ نمبر لکھنا بھول گئے تھے، یہ دلیل ان کے اور گوپی صاحب کے درمیان ایک interaction کی خبر دیتی ہے۔ جوئیہ صاحب کو یہ کیسے علم ہوا کہ گوپی صاحب’جلدی‘ میں صفحہ نمبر لکھنابھول گئے تھے ؟ہمیں اس امرسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ویسے یہاں پر یہ عرض کردی جائے کہ کتاب لکھتے وقت اگر مصنف کو تفکراتی عمل سے گزر کر اوریجنل زاویہ اختیار کرنا ہے تو وہ دوسرے کئی معاملات میں’’جلدی‘‘ کرسکتا ہے ، مگر کتاب کے بارے میں نہیں۔آئزک نیوٹن جب اپنے کام میں مصروف ہوتا تھا تو اکثر اس کا کھانا اس کی بلی کھاجایا کرتی تھی نہ کہ وہ بلی کو دھیان لگا کر اس کا کھانا خود کھا جاتا تھا۔گزشتہ مضمون’’گوپی چند نارنگ مصنف یا مترجم؟‘‘ میں جو اقتباسات پیش کیے گئے تھے ،شاید اس مضمون کے قاری نے یہ سوچا ہو کہ بس یہی اقتباسات ہیں ،حالانکہ اس مضمون میں یہ واضح کردیا گیا تھا کہ اقتباسات کو اختصار سے پیش کیا جارہا ہے۔

اس مضمون کی طوالت کے پیش نظر بھی اقتباسات کو مختصر رکھا گیا ہے۔ ہمارا یہ دعوی ہے کہ گوپی چند نارنگ صرف کتاب کے تعارف میں بحیثیت شارح دکھائی دیتے ہیں۔ ’’مشرقی شعریات‘‘ والے حصے کے بارے میں کچھ بھی یقین سے کہنا مشکل ہے اور کتاب کا باقی حصہ لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔اپنے اس دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے لیے ایک بار پھر مجھے اس تمام مواد (صفحہ نمبر، کتب کا نام وغیرہ سمیت) کو ترتیب دینے کے لیے تگ و دو کرنی پڑی ۔ اس بار کچھ اس طرح کی غلطیوں کا انکشاف کیا گیا ہے کہ جوئیہ صاحب تو دور گوپی صاحب خود بھی اس کا دفاع کرنے میں ناکام رہیں گے۔ بہرحال حق ان کے پاس محفوظ رہے گا۔ ٹیرنس ہاکس کی کتاب Structuralism and Semiotics میں سے گوپی صاحب نے ساری کتاب لفظ بہ لفظ محض ان کی ترتیب بدل کر نقل کی ہے۔ مثلاََ اگر ٹیرنس ہاکس ایک پیراگراف پہلے لکھتا ہے تو

اسی پیراگراف کو گوپی صاحب درمیان میں لکھ دیتے ہیں۔اگر الفاظ وہی ہیں تو محض پیراگراف کی ترتیب بدلنے سے کیا ہوگا۔ ویسے یہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت ان کے ذہن میں جولیا کرسٹیوا کیintertexuality کی تھیوری گردش کررہی ہو۔ آئیے اس پیراگراف کا flavour دیکھتے ہیں۔ ٹیرنس ہاکس ، Todorov پر لکھے ہوئے باب میں کچھ یوں کہتا ہے،The notion that literary works are ultimately about language, that their medium is their message, is one of the most fruitful of structuralist ideas and we have already noticed its theoretical foundations in the work of Jakobson. It validates the post-romantic sense that form and content are one, because it postulates that form is content. At one level, this permits, for instance, Todorov to argue that the ultimate subject of a work like The Thousand and One Night is the act of story-telling, of narration itself: that for the character involved- indeed for homo loquens at large- narration equals life: 'the absence of narration death'........... (Structuralism and Semiotics, p,100). گوپی چند


نارنگ صاحب یوں تحریر فرماتے ہیں،’’یہ خیال کہ ادبی فن پارہ زبان سے قائم ہوتا ہے ، اور زبان ہی پیغام ہے: 'THE MEDIUM IS THE MESSAGE'بنیادی ساختیاتی نظریہ ہے، اور جیکب سن نے اس کی نظریاتی بنیادوں کو واضح کیا تھا۔ یہ خیال پَس رومانوی تصور کی بھی توثیق کرتا ہے کہ فارم اور مواد دراصل ایک ہیں، کیونکہ اس میں یہ تصور جاگزیں ہے کہ فارم ہی مواد ہے۔ اسی خیال کی بنا پر تودوروف نے ایک جگہ یہ نہایت دلچسپ بحث اٹھائی کہ الف لیلی جیسے شاہکار کا بنیادی ’موضوع‘ دراصل خود کہانی کہنے کا عمل‘ ہے کیونکہ کردار سب انسان (HOMO LOQUENS) یعنی’بولنے والے جاندار‘ ہیں

اور ان کے لیے کہانی سنانا زندہ رہنے کی علامت ہے اور کہانی کے ختم ہوجانے کا مطلب ہے موت۔ ‘‘ 'NARRATION EQUALS LIFE: THE ABSENCE OF NARRATION DEATH' P' 92 (ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، صفحات،۱۲۹۔۱۳۰)۔مندرجہ بالا پیراگراف قارئین سے انتہائی توجہ کا تقاضہ کرتا ہے۔ گوپی صاحب نے اوپر والے اقتباس میں بعض فقرے واوین میں بھی لکھے ہیں اور اس کے بعد آخر میں ایک فقرہ انگریزی میں بھی لکھا ہے اوریہاں تک کہ صفحہ نمبر بھی درج کیا ہے جس میں اصل ذریعے کا حوالہ نہیں ہے۔اس سے وہ یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے Todorov کی کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لفظ بہ لفظ اس اقتباس کا مطالعہ ٹیرنس ہاکس کی کتاب کے صفحہ نمبر ۱۰۰ پر کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نقاد گوپی چند نارنگ صاحب نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تاکہ قاری کہیں اپنی توجہ ٹیرنس ہاکس کی کتاب کی طرف مرکوز نہ کربیٹھے۔

اگر ٹیرنس ہاکس کی کتاب ۱۹۸۴ میں شائع نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ گوپی چند نارگ ،ٹیرنس ہاکس پر سرقے کا الزام عائد کردیتے۔

(یہ یاد رہے کہ یہ سارا باب ہاکس کی کتاب سے ترجمہ کیا گیا ہے)

۔آئیے اب ایک اور اقتباس پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ٹیرنس ہاکس کہتا ہے،We have already noticed the arguments of Jakobson's fellow Prague school critic Mukarovsky with regard to 'foregrounding': that the aesthetic use of language pushes into the foreground 'the act of expression' itself. Jakobson offered the most refined proposal that the metaphoric mode tends to be foregrounded in poetry, whereas the metonymic mode tends to be foregrounded in prose. This makes the operation 'equivalence' of crucial importance to poetry, not only in the area of analogy, but also in the area of 'sound' of those metrical, rythmic and phonic devices,.......continue. (Terence Hawkes, P, 80).نارنگ صاحب کا یہ توجہ طلب اقتباس یوں ہے،

’’روسی ہےئت پسندوں کے ضمن میں ہم مکارووسکی کے اس خیال سے بحث کر آئے ہیں کہ’ زبان کا تخلیقی استعمال فن پارے میں زبان کو ’پیش منظر‘ میں لے آتا ہے، یعنی اظہاری عمل اپنے آپ کو نمایاں کرتا ہے۔ جیکب سن اس پر اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شاعری کی تخلیقی زبان میں استعاراتی پہلو نمایاں رہتا ہے، نثر کی تخلیقی زبان میں انسلاکی پہلو زیادہ حاوی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’مرادفیت‘ EQUIVALENCE شاعری میں اس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ متوازیت بھی مرادفیت کا ایک رخ ہے۔ ردیف و قوافی، اصوات، اور اوزان وبحور تکرار و متوازیت کی جو اہمیت ہے،

وہ اسی قبیل سے ہے‘‘جاری ہے (ص، ۱۴۰)۔آئیے ٹیرنس ہاکس کے ایک اور اقتباس پر غور کرتے ہیں،ُPoetic language is deliberately self-conscious, self-aware. It emphasises itself as a medium over and above the 'message' it contains: it characteristically draws attention to itself and systematically intensifies its own linguistic qualities. As a result, words in poetry have the status not simply of vehicles for thought, but of objects in their own right, autonomous concrete entities, In Sausure's terms, then, they cease to be 'signifiers' and become 'signifieds', ...(P, 63-64).نارنگ صاحب لکھتے ہیں:’’شعری زبان عمداََ اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے، یہ خود آگاہ اور خود شناس ہوتی ہے۔ یہ موضوع یا پیغام سے بلند تر ہوکر ، جو اس کے ذریعے بیان ہوا ہے،خود اپنی حیثیت کا احساس دلاتی ہے۔ شعری زبان کا بنیادی تفاعل توجہ کو اپنی جانب مبذول کرنا اور اپنے اوصاف کو نمایاں کرنا ہے۔ نتیجتاََ شعری زبان میں الفاظ فقط خیال یا جذبے کی ترسیل کا ذریعہ نہیں رہتے،

بلکہ خود ٹھوس حقیقت بن جاتے ہیں جو قائم بالذات ہوتی ہے۔ ساسئیر کے معنی میں لفظ محض signifiers نہیں رہتے بلکہsignified بن جاتے ہیں۔۔۔‘‘جاری ہے (ص،۸۹)۔ٹیرنس ہاکس کے اس اقتباس پر غور فرمائیں،Formalist theory realised that the 'meaning' habitually carried by words can never be fully seperated from the words themselves because no word has 'simple' one meaning. The 'meaning of A is not simply A1 or A2 or A3, for A has a larger capacity to mean which derives from its particular context or use. No word is ever really a mere proxy for a denoted object. Infact the transaction of 'meaning' has a coplexity of dimensions which the 'poetic' use of language further complicates. Poetry, in short, does not seperate a word from its meaning, so much as multiply - bewildering - the range of meanings available to it... (P, 64)

.نارنگ صاحب کے اس اقتباس پر نظر ڈالتے ہیں:’’ہےئت پسندوں کو اس کا احساس تھا کہ لفظ معنی سے اور معنی لفظ سے یکسر جدا نہیں کیے جاسکتے، اور معنی کا نظام اتنا سادہ نہیں جتنا بالعموم سمجھا جاتا ہے۔الف کا مطلب محض الف ۱، الف۲، یا الف ۳ نہیں ہے کیونکہ الف کے معنی سیاق و سباق سے اور دوسرے لفظوں سے مل کر یکسر بدلتے رہتے ہیں۔ کوئی لفظ کسی شے کے محدود معنی میں ہمیشہ کے لیے قائم نہیں ہے۔ پس شعری زبان اگرچہ لفظ کو قائم بالذات کرتی ہے لیکن اس کو معنی سے جدا نہیں کرتی، بلکہ اس کے مختلف مفاہیمی امکانات کو ابھارتی ہے، یعنی معنیاتی قوسِ قزح کو پیدا کرتی ہے۔ معنی کی یہ بوقلمونی اکثر طلسمِ خیال یا حیرت و استعجاب کی کیفیت کی حامل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘جاری ہے (ص،۸۹)۔ان تمام حوالہ جات کے بعد، اس رحجان کی حوصلہ شکنی کے لیے، مثبت انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے،

نہ کہ نقالی کے دفاع کی تیاری کے لیے فقروں کو غلط پیرائے میں بیان کرنے کے لیے نقالی کے حق میں دلائل تراشنے کی کوشش کی جائے۔آج وہ وقت نہیں ہے کہ مغربی علمی آمریت کے سامنے سجدہ ریز ہوا جائے۔ایک بار پھر ایسے رویے پنپنے چاہئیں جن سے علوم کا ارتقاء ممکن ہو۔ لیوٹارڈ ’’پوسٹ ماڈرن کنڈیشن‘‘ کے پہلے باب میں کمال کی پیشین گوئی کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مستقبل میں مغربی اقوام اس لیے دنیا پر حکومت کریں گی کیونکہ علومپر ان کی بالا دستی ہوگی۔ لیوٹارڈ کے اس بصیرت افروز فقرے کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کو عملی جامہ نقل یا سرقے سے کبھی نہیں پہنایا جاسکتا۔اب ان تمام علوم میں آگے بڑھنا مقصود ہے ورنہ اہلِ اردو اسی بات پر خوش ہوتے رہیں گے کہ ’’ اہلِ مغرب نے سب کچھ ہم سے لیا ہے۔‘‘ اس کے بعد جوئیہ صاحب کی ساختیات میں تصورِ مرکزیت کے حوالے سے’’ ڈاکٹر وزیر آغا‘‘ کے مضمون کی روشنی میں دی گئی اطلاع کہ ’’ساختیات کے مرکزیت کے تصور کو وحدت الوجود کی فکر کے مماثل ‘‘سمجھنا چاہیے، کا جوئیہ صاحب کے اس خط سے کوئی خاص تعلق واضح نہیں ہورہا ۔اگر ان کا ارادہ کسی مختلف موقف کی بنا پر بحث کا آغاز کرنے کے بارے میں تھا تو یقیناََ انہیں اس امر کی کچھ وضاحت پیش کرنی چاہیے تھی بالکل ایسی جیسی وہ مجھ سے دریدا کے ’’ متن‘‘ کے بارے میں میرے نفسِ مضمون سے غیر متعلقہ ہونے کے باوجود توقع کررہے تھے۔ اگر اس بحث کے لیے نارنگ صاحب کی کتاب سے کوئی قضیہ اٹھاتے تو زیادہ بہتر تھا کیونکہ ہم نے گوپی چند نارنگ صاحب کے عدم موقف کا ذکر کیا تھا۔ابھی تک نارنگ صاحب کی کتاب میں صرف نقل کے رحجانات پر توجہ دی گئی ہے۔ فکر کے اعتبار سے ان کے تمام تضادات اور مضمون نگاری کے تقاضوں کے تحت ان کی قباحتوں کا تفصیلی جائزہ نہیں لیا گیا۔ جوئیہ صاحب یا نارنگ صاحب اپنی کمزوری کو وزیر آغا کے’’ وحدت الوجود‘‘ موقف سے دور نہیں کرسکتے۔تاہم وزیر آغا کا یہ عمل اس اعتبار سے قابلِ تحسین ہے کہ وہ اپنا ایک موقف رکھتے ہیں ،وہ کس حد تک ڈیکنسٹرکشن اور ’’وحدت الوجود‘‘ میں ربط تلاش کر پائے،

اس امر کا تجزیہ کرنا اس مضمون کے دائرہ سے خارج ہے۔ اگر جوئیہ صاحب کو وزیر آغا کا موقف ’’بجا‘‘ لگا ہے تو کیا کسی اور شخص کو نانرگ ساحب کے کسی بھی موقف کو اختیار نہ کرنے کا عمل بھی ’’بجا‘‘ لگا ہے یا نہیں؟ اگر محترم جوئیہ صاحب ان کی نقل یا ان کے مفہوم میں Intertexuality کے دفاع پر کمربستہ ہوسکتے ہیں تو ان کے کسی موقف کو عیاں کیوں نہیں کرسکتے؟ شاید وہ کسی اور جگہ یہ موقف پیش کریں کہ گوپی چند نارنگ نے’’ مشرقی شعریات‘‘ والے حصے میں ساختیاتی تھیوری کو چار ہزار برس قبل، ہندستان کے کسی گاؤں میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ایک یا دو فقروں کا حوالہ بھی تلاش کرلیں، تو یہاں پر عرض یہ ہے کہ ایک یا دو فقرے مفروضہ Hypothesis تو ہوسکتے ہیں ، مربوط انداز میں پیش کی گئی تھیوری نہیں۔افلاطون کے

فلسفے میں’ شعور ‘کا لفظ پڑھ کر یہ فیصلہ دے دینا کہ شیلنگ یا کولرج نے بھی یہی لفظ استعمال کیا ہے،لہٰذا ان دونوں کا فلسفہ افلاطون کے فلسفے سے ملتا جلتا ہے، یہ رویہ گہرے تنقیدی تجزیے کا غماز معلوم نہیں ہوتا۔ شعور کا لفظ تو تمام فلسفی استعمال کرتے ہیں، اصل سوال تو اصطلاحات میں امتیاز قائم کرنا ہوتا ہے۔اگرجوئیہ صاحب کو یقین ہے کہ ’’مشرقی شعریات‘‘ کی گوپی چند نارنگ صاحب کی تشریح درست ہے اور یہ مشرقی موقف ہے تو اس کا انگریزی ترجمہ بھی ہوجانا چاہیے، کم از کم کوئی موقف تو سامنے آئے، ابھی تک تو سیاست سے لے کر ادب تک کچھ بھی اپنا نہیں ہے۔ دوسری طرف شاید گوپی چند نارنگ صاحب ساختیات یا ڈیکنسٹرکشن کے بارے میں اپنا موقف جان بوجھ کر چھپانا چاہتے ہیں۔

اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔بہرحال جہاں تک وزیر آغا کے ساختیات کو’ وحدت الوجود‘ سمجھنے کا سوال ہے تو جس پیرائے میں جوئیہ صاحب اس نکتے کو بیان کر رہے ہیں اس کا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جہاں تک ’’مماثل‘‘ ہونے کا تعلق ہے تو اسے زبان کے اندر سے اس کے اپنے رشتوں اور تضادات میں تلاش کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ویسے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ تمام پرندوں کے پر ہوتے ہیں، تو کیا اس سے تمام پرندوں کو ایک ہی نام دیا جاسکتا ہے؟ محض پروں کی بنیاد پر توہم پرستی کو تو ترقی مل سکتی ہے لیکن سائنسی طرزِ فکر پنپنے میں اس طرح کے رویے مانع ہوں گے۔کسی بھی ایک فلسفے کو کسی دوسرے فلسفے سے رد کرنا غیر منطقی اورغیر سائنسی سوچ کا نتیجہ ہوتاہے۔کانٹ کے فلسفے کو ہیگل کے فلسفے سے رد نہیں کیا جاسکتاتاوقتیکہ ہیگل، کانٹ کے

فلسفے کے تضادات کانٹ کے فلسفے کے اندر سے نہ دکھائے۔نارنگ صاحب بھی ساختیات کے تضادات دکھا سکتے تھے لیکن اس سے پہلے ان تضادات کو سمجھنا ضروری تھا۔نارنگ صاحب تو لاکاں پر لکھے گئے باب، جس کا ترجمہ انہوں نے پیٹر بیری کی کتاب Begining Theory سے کیا ہے، میں لاکاں اور فرائیڈکے درمیان تضاد کو بھی نہیں دکھا سکے۔عام قاری کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ فرائیڈکو یہاں پر گھسیٹنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی؟ کیا نارنگصاحب صرف یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ فرائیڈ کے بارے میں بھی جانتے ہیں؟محض جاننا ہی کافی نہیں ہوتا۔ مفکر کی فکرکوآگے بڑھانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر دو نظریہ سازوں کا ذکر کیا ہے تو دونوں کے درمیان فرق دکھانا ضروری ہوجاتا ہے

(اس فقرے کے بعد اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ جوئیہ صاحب اس بات پر اعتراض اٹھا دیں کہ لاکاں کو نظریہ سازنہیں کہنا چاہیے تھا)۔اگرنارنگ صاحب ہی کسی خیال کو آگے نہیں بڑھا سکے تو طالبِ علم سے کیا امید رکھیں گے کہ وہ علوم کے ارتقاء میں اپنا حصہ کیسے ڈالیں؟ کیا علوم کو صرف ایک بار سیکھنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسے فارمولے کی شکل عطا کردی جائے اور آنے والی نسلوں کے لیے اسے مقدس قرار دے دیا جائے۔ادبی تھیوری، فلسفہ یا سائنس کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بچپن میں ملاّ یا پنڈت سے لیا ہوا کوئی درس معلوم ہو۔اس طرح ملاّ ، پنڈت یا پھر نارنگ صاحب میں فرق کیسے کیا جائے گا؟اس طرح کا فرق محض موضوع کے مختلف ہونے کی بنا پر قائم نہیں کیا جاسکتا۔یہ دیکھنا ہے کہ اس موضوع تک پہنچنے کے لیے ہم کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

اب پھر اسی نکتے کی جانب لوٹتے ہیں جس میں مرکزیت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اگر ژاک دریدا سیوسئیر کے حتمی سگنیفائڈ میں مابعدالطبیعاتی جمود اور مرکزیت کو عیاں کر چکا تھا اور اس میں تسلسل کا دعویدار تھا تو جوئیہ صاحب ’’وحدت الوجود ‘‘کا ذکر کر کے کیا ثابت کر رہے ہیں ، اس کی مزید وضاحت کی ضرورت تھی۔ ویسے اُن سے یہ عرض ہے کہ جس سمپوزیم کا انہوں نے ذکر کیا ہے جس میں مضمون پڑھا گیا تھا اس کا کوئی نام بھی تو ہونا چاہیے یا شاید ان کا ارادہ یہ ہو کہ اس مضمون کو بھی نارنگ صاحب کیIntertextuality کی بھینٹ چڑھا کر جناب نارنگکا نام بطورِ مصنف تحریر کر دیا جائے۔ بہرحال دریدا کے مضمون جس کا شاید وہ حوالہ دینا چاہتے تھے لیکن گریز کیا ،اس کا نام Structure, Sign and Play تھا ۔) اس مضمون کا نام اس لیے دیا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں کہیں نارنگصاحب اس کے ترجمے پر

اپنا نام نہ تحریر فرما دیں(۔ اسی میں دریدا نے لسانیات کی بنیاد پر ہر جگہ مرکزیت قائم کرنے کی کوشش کچھ ان الفاظ میں کی تھی، The center is the center of totality, and yet, since the center does not belong to the totality...the totality has its center elsewhere.(Structuralist Controversy,247) اگر جوئیہ صاحب اس طرح کی کسی تشریح میں ’’وحدت الوجود ‘‘ کو تلاش کررہے ہیں توپھر ان کے اس تیقن کو واقعی ’بجا‘ کہنا چاہیے۔افلاطون کو پڑھنے کے بعد جب کانٹ کو پڑھا جائے تو چند صفحات کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید افلاطون کو ہی پڑھا جارہا ہے ۔ تا وقتیکہ کہ کانٹ کے فلسفے کی صحیح تفہیم ہونی شروع نہ ہوجائے۔تاہم اس قضیے میں بحث کی کافی گنجائش موجود ہے۔دریدا سے بھی قبل رومن جیکب سن اور رولاں بارتھ ’مرکزیت‘ کے تصور کی نشاندہی کرچکے تھے

اور اس سے نبردآزما ہونے کے لیے راستہ بھی ہموار کرچکے تھے۔یہ رحجان بارتھ کے مضمون ’’مصنف کی موت ‘‘ ہی میں پنہاں نہیں تھا بلکہ اس کے ایک اور مضمون MythToday میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں اس نے’ متھ ‘ کو ’’لونگ‘‘ کے مماثل قرار دیا اور اس کے ذریعے ثقافت کو ’نیچرل لائز‘ کرنے کی وضاحت پیش کی ۔بارتھ نے ثقافتی سطح پرمعنی خیزی(Signification ) کے عمل میں ٹھہراؤ کی بجائے تسلسل کو لازمی گردان کر ’’مائیتھالوجی‘‘ کے مرکزی خیال کی نفی خود ہی کردی تھی۔جبکہ رومن جیکب سن نے۱۹۴۲ میں ’ فونیم ‘کی تنقید کے دوران’فونیم‘ کو سیوسےئر کے برعکس باقی تمام لسانیاتی اکائیوں سے مختلف قرار دیا جس کو سیوسئیر سمجھ کر اس کا اطلاق ’سائن‘ کی سطح پر کرنے میں ناکام رہا تھا۔جیکب سن نے ’فونیم‘ میں معنی آفرینی کے لیے سائن میں اپوزیشن کے رحجان کو نمایاں کیا۔ جیکبسن کی ’فونیم‘کی تھیوری ’سگنیفائیڈ‘ کی حتمیت کو چیلنج کرتی تھی، مثال کے طور پر اس نے جرمن زبان کے الفاظ (nacht ) رات اور (nachte ) راتیں کو پیش کر کے علیحدگی میں معنی کے نہ ہونے کی اغلاط کو واضح کر دیا کیونکہ ایک ہی لفظ میں تکثیریت کا پہلو برآمد ہورہا تھا، تو کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا جائے کہ ساختیات محض ایک واہمہ تھا؟

اگر اردو میں زبان کے حوالے سے کسی نے اس قدر بھرپور مطالعہ پیش کیا ہو تو جوئیہ صاحب مہربانی فرما کر اس کا حوالہ ضرور پیش کر دیں۔ جو ئیہ صاحب کی مفروضہ قائم کرنے کی کوشش سے میری حیرت میں بدستور اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ ژاک دریدا کو ڈیکنسٹرکشن کی تھیوری پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ اردو میں اس طرح کے اعلیٰ درجہ کے نقاد بھی موجود ہیں جو ڈیکنسٹرکشن کے حق میں بھی بولتے ہیں اور اپنی حمایت میں پروپیگنڈا قسم کے مضمون لکھوا کر اپنی مستقل موجودگی قائم کرنے کے بھی خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔

دریدا جس ’موجودگی ‘ Presence کے تصورکے خلاف دریدا، کانٹ ، ہیگل،سیوسےئر، ہسرل اور ہائیڈیگر وغیرہ کی مدد سے برسر پیکار ہوتا رہا ہے،آج اس کی تھیوری کے تقریباََ اکتالیس اور اس کی موت کے تین برس بعد اس کی اپنی ’موجودگی‘ تمام دنیا کو ایک بار پھرعدم ’موجودگی‘ کے تصور کے خلاف لڑنے پر مجبور کرررہی ہے۔فرد موجود ہے لیکن اپنی عدم موجودگی کے حق میں دلائل دے رہا ہے۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس نے بحیثیت ایک لسانیاتی خیال پرست ’مابعد الطبیعات‘ کے خلاف جنگ لڑی تھی۔اگرچہ اس نے ’مابعدالطبیعات‘ کو محض اپنے دماغ کے اندر ہی ختم کرنا چاہا تھا۔ Gershom Scholem تو یہ کہتا ہے کہ دریدا ’’قدیم عہد نامہ‘ کے مرکزی تصور کہ یہودیوں کا خدا فرد کے اندر خود کو ظاہر کرئے گا ، کو ڈیکنسٹرکشن کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یقیناََ یہ تصور یہودی متصفوانہ روایت سے جاملتا ہے، تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دریدا چالاکی سے تمام دنیا کو یہودیت کی سچائی کا یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کے لیے اس نے الفاظ کا سہارا لیا۔ہیبر ماس ، دریدا کے بارے میں یوں اظہارِ خیال کرتا ہے کہAll denails not withstanding, remains close to Jewish mysticism. (PDM, P, 183)ژاک دریدا نے سماجی تعلقات کو ان کی اپنی فطرت میں دیکھنے کی بجائے لسانیات میں تلاش کیا۔ بہرحال اس کی بعد میں آنے والی کتابوں بالخصوص Spectres of Marx میں وہ ایک بار پھر مارکس کی جانب رجوع کرنے پر اصرار کرتاہے۔اس طرح وہ اپنی ہی تھیوری کی حدود متعین کردیتا ہے۔(اس کی مکمل بحث کے لیے میرا مضمون،’ژاک دریدا کے فلسفے کا مآخذ‘ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے)۔

جوئیہ صاحب نے نارنگ صاحب کے بارے میں میرے مضمون کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا اور جس سے اُنھیں شاید کافی ’’تپ چڑھی ‘‘ تھی کہ گوپی چند نارنگ ’’ادبی نقاد ہی کیوں بنا سیاسی لیڈر یا سوشل مفکر بن کر ’’میدانِ کار زار ‘‘ میں کیوں نہیں آیا؟‘‘اُن کی اس ’’تپ‘‘ کا محرک اُن کی ’’وحدت الوجود‘‘ کی خواہش کے اظہار میں نظر آرہا ہے ۔در اصل وہ مجھے ’’سوشل مفکر‘‘کے بر عکس ’خلائی‘ یا ’وحدت الوجودی‘ مفکر کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ویسے اگر’ جلدی‘ نہ کی جائے اور ذرا ٹھہر کر سوچنے کی کوشش کی جائے تو واضح ہوگا کہ اس خواہش کے اظہار میں اُنھوں نے ٹھوس سماجی عوامل کے بر عکس مابعدالطبیعاتی تناظر کو خوب ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ لیکن سوال تو پھر تجرید کی تبلیغ پر ہی منتج ہوتا ہے۔اس فکر نے تو ایک عرصہ سے اُردو ادب کا محاصرہ کررکھا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ادب کا بڑا حصہ محض گناہ بخشوانے کی سعی معلوم ہوتی ہے،جبکہ اصل سوال تو ’ٹھوس‘ کی وضاحت کا ہے۔ دوسری جانب جن مفکروں کی تھیوریوں کو درآمد کیا جاتا ہے وہ تو سارے کے سارے سماجی ، سیاسی اور ادبی مفکر تھے جیسا کہ ہم وضاحت کر آئے ہیں۔جوئیہ صاحب نے اُردو ادب میں اوریجنیلٹی کے فقدان اور نقالی کے جواز کے رحجان کی حوصلہ افزائی کے لئے جولیا کرسٹیوا کی بین المتونیت Intertextuality کی’ تھیوری ‘ کا حوالہ پیش کیا ہے۔ نقالی کے دفاع کے لئے شاید اُن کے نزدیک اس سے بہتر حوالہ کوئی نہیں تھا۔

اب ہم اُمید کرسکتے ہیں کہ اُن کی اس سوچ کی اشاعت کے بعد دریدا کی Of Grammatology یا پھر فوکو کی کتاب The Archaeology of Knowledge میں چند ایک ترامیم کے ساتھ جوئیہ صاحب کے کسی ’نقاد‘ قسم کے مشیر کانام بحیثیت مصنف کے لکھا ہوگا۔ویسے اگر جولیا کرسٹیوا کو اس بات کا علم ہوجاتا کہ اُردو میں اس کی تھیوری کا یہ مطلب لیا جارہا ہے تو وہ شاید اپنی زندگی میں ہی اس نظریے سے دست بردارہو جاتی اور اگر اسے کہیں یہ خبر ہوجاتی کہ اردو کا کوئی خود ساختہ بڑا ’نقاد‘ اس کے تمام کام کو’ ہتھیانے‘ کی تیاری میں ہے تو

وہ شاید علمی وفکری کام چھوڑ کر کسی ’حمام‘ کی سرپرستِ اعلیٰ بننے کو ترجیح دیتی۔ اب وہ حمام میں بھی تو حصہ دار نہیں بن سکتی تھی۔اپنے اسی intertextuality کے نقطہءِ نظر کی وضاحت کے سلسلے میں محترم جوئیہ صاحب اپنے ہی چند نکات سے تضاد پیدا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ وہ بڑی حیرت سے اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ ’’کیا پوسٹ ماڈرن ازم تھیوری ہے؟‘‘ اور اب خود ہی کہہ رہے ہیں کہ’’ جولیا کرسٹیو ا کی intertextuality کی تھیوری۔‘‘اگر جولیا کرسٹیوا کی’ تھیوری‘ بقول جوئیہ صاحب’تھیوری‘ ہے تو کیا وہ پوسٹ ماڈرن فکر کی حامل نہیں ہے؟ پوسٹ ماڈرن تھیوری دراصل تھیوری ہی ہے، جس کی تہہ میں ساختیات کے برعکس پسِ ساختیاتی علمیات کارفرما ہے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ پس ساختیات پوسٹ ماڈرن بالائی ساخت کی بنیاد ہے ۔ پسِ ساختیات افتراق، اضافیت، خود مختار وغیرہ جیسے عوامل کو حتمی سمجھتی ہے تو دوسری طرف پوسٹ ماڈرن ثقافت میں بھی سگنیفائر کے تسلسل کی منطق کارفرما ہے۔بالکل اس طرح جیسے لیوائی سٹراس کے علم البشریات کی تہہ میں لسانیات متحرک تھی۔پوسٹ ماڈرن ازم کے متعلق مندرجہ بالااقتباس میں جناب جوئیہ صاحب نے جولیا کرسٹیوا کی Intertextuality کو’ تھیوری ‘ کہا ہے، جبکہ راقم کی پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری کی اصطلاح پسند نہیں آئی۔اگر اتنی سی وضاحت سے اُن کی تسلی نہ ہوئی ہو تو Lucy Niall کی مرتب کردہ اینتھالوجی ،جو The Postmodern Literary Theory کے نام سے شائع ہوئی ہے، محترم اُس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اہل اردو کا المیہ یہ ہے کہ خود ساختہ مفکر خود بھی اور اپنے طالب علموں کو بھی اصطلاحات میں پھنسائے رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے اصطالاحات کو تقدس عطا کرنا ہوتا ہے، نہ کہ انہیں تنقیدی نظر سے دیکھنا مقصود ہوتا ہے۔ اس وجہ سے جن اصطلاحات کو وہ رٹہ لگا لیتے ہیں پھر اس سے باہر انہیں کوئی معنی دکھائی ہی نہیں دیتا تاوقتیکہ بارتھ یا دریدا انہیں نیا معنی سمجھانے کے لیے میدان میں نہ اتر آئیں۔ یہاں پر یہ عرض کردوں کہ بعض اوقات خود بھی سوچ لینا ضروری ہوتا ہے۔ کیا جوئیہ صاحب یا ان کے مشیر اس بات سے باخبر ہیں کہ فرانسیسی ڈیکنسٹرکشن کو امریکہ میں اہم تبدیلیوں کے بعد قبول کیا گیا تھا۔اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ڈیکنسٹرکشن مختلف تناظر میں پہنچ چکی تھی۔کیا اردو والوں کے لیے اپنا کوئی تناظر موجود ہے یا پھر وہ ہر تناظر کو ہی اپنا تناظرسمجھتے ہیں؟

جوئیہ صاحب نے کرسٹیوا کا ذکر بھی صحیح وقت پر کیا ہے۔ یقیناََ کرسٹیوا کی سوچ میں واضح تبدیلی فرانس میں ۱۹۶۸ کے طالب علم اورمزدور انقلاب کے بعدآتی ہے کیونکہ اس وقت زبان کے حوالے سے تناظر کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ کرسٹیوا نے ۱۹۶۸ کے بعد Revolution in Poetic Language The تحریر کی ،جس میں زبان کے حوالے سے ’صورتحال‘ کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ اگر رولاں بارتھ ’حظ‘ اٹھانے کے لیے ایک تناظر کی تخلیق ضروری سمجھتا ہے تو لکھنے کے لیے صورتحال کی اہمیت سے انکار کیونکر کیا جاسکتا ہے۔بہرحال اسی وقت کرسٹیوا نے اپنی کتاب میں مارکسی Vocabulary کا استعمال کیا اور زبان کو ہی صورتحال کے مطابق ٹھوس معنی عطا کرنے کی کوشش پر زور دیا۔یہی وجہ ہے کہ کرسٹیوا کو Situationist کہا جانے لگا۔ یہ بات طے ہے کہ’ لفظ‘ اپنے محرکات کو چھپانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔ ویسے تو مغربی ڈسکورس میں ظلم، ناانصافی، تشدد وغیرہ جیسے ’الفاظ‘ استعمال کرنے سے گریز کیا جاتا ہے، لیکن اگر ان کا استعمال کر بھی لیا جائے تو لفظ اصل تناظر کی شدت کو مدہم کرسکتا ہے۔دانشور کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ متذکرہ بالا الفاظ کے استعمال سے ان کی الفاظ کے محرکات کی طرف توجہ مبذول ہونے لگتی ہے۔ فرض کریں کہ اگرمارکسی مفہوم میں لفظ’ استحصال‘ یا جنس (commodity) کا استعمال کیا جاتا ہے تو جب تک ان الفاظ کا پسِ منظر دریافت نہیں کیا جائے گا ، حقیقی معنی کا تعین کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ مارکسی مفکروں کو سگنیفائر کی آمریت کبھی قبول نہیں ہوسکتی ۔وہ حالات جو ان الفاظ کو استعمال کرنے کا راستہ ہموار کررہے ہیں جب تک انہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کی جائے گی،اس وقت تک تناظر کی اہمیت بھی واضح نہیں ہوگی اور الفاظ محض ’’جمالیاتی تماش بینی‘‘ کا ذریعہ بننے کے علاوہ اور کوئی اثر پیدا نہیں کریں گے۔ کرسٹیوا کو اس امر کا ادراک تھا کہ زبان معنی تو اپنی ہی منطق سے پیدا کرئے گی لیکن اگر زبان کو ’سچویشن‘ عطا کردی جائے تو اس وجہ سے خارجی ، متعلقہ اور لازمی تقاضوں کی تکمیل ہوسکتی ہے۔ اس مفہوم میں زبان ہر ’لیبارٹری‘ میں سائنس تو رہتی ہے لیکن معنی کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔ جب ۱۹۶۸ء میں ساختیاتی ماڈل کا شیرازہ بکھرا اور ساختیاتی مفکر اپنی ساختیاتی شناخت سے

انحراف کرنے لگے تو حتمی شناختوں کے تصور کو زک پہنچی تو عمل کے برعکس نظریاتی سطح پر سگنیفائڈ سے چھٹکارا مل گیا(صرف نظریاتی سطح پر)۔اُسی پسِ ساختیاتی رحجان کے پیشِ نظر فرانسیسی فلسفی لیوٹارڈ نے امریکی حکومتی ادارے کی استدعا پر امریکی معاشرے کی حالت پر۱۹۷۹ء میں ایک رپورٹ لکھی جسے The Postmodern condition: A Report on Knowledge کا نام دیا گیا۔اس رپورٹ میں لیوٹارڈ نے دو سو پچاس سے زائد تحریروں کے حوالے قلمبند کیے ۔ جن میں سے صرف ایک حوالہ بھی مشرقی ممالک سے تلاش کرنے کی کوشش مایوسی پر منتج ہوگی، یعنی مغربی مفکر نے مشرقی ممالک کو اپنے فکری ایجنڈے سے حذف کرنے میں ہی اپنی بقا محسوس کی۔ مقصود اُسے سماجی و ادبی مفکروں اور سائنسدانوں کے افکار کی روشنی میں معروضی رجحان کو عیاں کرنا تھا۔لیوٹارڈ پر پسِ ساختیاتی رجحان غالب تھا۔اس نے بالائی ساخت کی تشریح اسی تصور کے تحت کی۔اس وضاحت کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ پسِ ساختیاتی رجحان ، پوسٹ ماڈرن ازم کی علمیات ہے۔مابعد جدید یت دراصل عہدِ حاضر کی انحطاط پذیر معروضی صورتحال ہے ، اس کے وجود میں آنے کے تمام محرکات میں مغربی دنیا کے داخلی تضادات کے علاوہ عالمی سرمایہ داری نظام اور بالخصوص سٹالن ازم کا انہدام تھا۔ مغربی معیشت نے ۱۹۳۰ کے بحران کے بعد جان مینارڈ کینز کی ریاستی مداخلت کی تھیوری کو بنیاد بنا کر خاطر خواہ ترقی کی تھی ۔ مغربی بورژوازی نے اسے مارکسی معیشت کا نعم البدل قرار دے دیا۔ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے تضادات پھرشدت اختیار کرگئے اور سامراج نے دنیا میں تباہی برپا کردی۔ ۱۹۵۰ کے بعد پھر جان کینز کو ہی مدد کے لیے پکارا گیاجس سے معاشی ترقی ریکارڈ سطح پر ہوئی ۔یہاں تک کے ۱۹۷۰ کے بعد نیو کینزازم کی تھیوری کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی تھی گو کہ وہ مستقل نہیں تھی ۔ایک بار پھر تکنیکی انقلاب برپا ہوا جس نے مغربی معاشرے کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا۔مختصر یہ کہ عظیم لینن کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی اور سرمایہ داری سامراجی مراحل میں داخل ہوگئی۔ تکنیکی انقلاب سے معیشت کے تمام میدانوں میں ری سٹرکچرنگ کی ضرورت محسوس ہوئی جس سے ایک نئے بحران کا اضافہ ہوا۔اس ذہنی کشمکش کے بعد اور کوئی چارہ کار موجود نہیں تھا کہ منتشر شدہ سماج کی تشریح روایتی فلسفوں کے برعکس نئے انداز میں کی جاتی۔ ثقافتی سطح پر جن تفریقات نے جنم لیا ان کے بعد نظریہ سازوں نے بالائی ساخت کو زبان کی ساخت کا عکس قرار دے دیا۔ یہی وہ دور تھا جب معروضیت، سچائی ، ارتقاء اور سماج کی نامیاتی وحدت کو شک کی نظر سے دیکھا گیا۔

پوسٹ ماڈرن علمیات کا تقاضہ یہ تھا کہ ہر اس خیال، فلسفے اور نظریے کی دھجیاں بکھیر دے جو نجات کا علمبردار ہونے کا دعوی کرئے ۔ مابعد جدید مفکروں نے یہ سوچا گیا کہ سماج کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ ’نجات‘ کا مقصد یہ ہے کہ کسی صورتحال کو کسی چوکھٹے سے گزارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ لاکاں سمیت ارتقاء کے کئی مخالف نظریہ سازوں نے یہ کہا کہ کسی بھی عمل کی تفیہم حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کی جائے۔ فرانس میں فوکو اور رولاں بارتھ وغیرہ نے اپنی جبلی ہم جنس پرستانہ ضرورت کا دفاع کیا ،جو ان کے ہر قول سے جھلکتا ہے۔اردو میں گوپی چند نارنگ صاحب جیسے نقاد اپنے داخلی تضادات پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے علمیت کا اثرپیدا کرنے کے چکر میں مصروف ہوگئے اور تھیوری کو اس کے تناظر سے محروم کرکے مشرقی طالب علم کو فکری حوالوں سے گمراہ کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا۔

جوئیہ صاحب کا آخری قابلِ ذکر نکتہ یہ ہے کہ راقم کو’’ اردومیں پہلے سے قائم‘اس روایتی حمام کے سب ننگوں کو ننگا ‘‘ دکھانا چاہیے۔ بہر حال جوئیہ صاحب نے یہ تو تسلیم کیا کہ ’’ننگے‘‘ کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں، لیکن اس بات کی کوئی سمجھ نہیں آئی کہ یہ ذمہ داری وہ مجھے کیوں سونپنا چاہتے ہیں،جبکہ خود وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے دریدا کے انگریزی مضمون کا خود مطالعہ کیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اس مضمون کا نام نہیں بتایا، بہرحال ان کی انگریزی پر دسترس ہونے کو تسلیم کرلیتے ہیں اور اسی تناظر میں ان سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ’ حمام‘ مجھ سے زیادہ ان کے قریب ہے اور ویسے بھی مقالے کا موضوع’’ پلیجر ازم ان اردو لٹریچر‘‘ نہیں ہے اس لیے جوئیہ صاحب کو خود بھی کچھ تگ و دو کرنی چاہیے ورنہ’حمام‘ میں ’ننگوں‘کی تحسین کا پہلو تو ہمہ وقت موجود ہے۔

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply