تعزیت نامہ برائے مابعد جدیدیت

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


اشعر نجمی

(مدیر سہ ماہی اثبات ۔ممبئی)

تعزیت نامہ برائے مابعد جدیدیت

اس بار اس باب میں ایک ایسے ادبی مسئلہ کو شامل کیا جارہا ہے جس کا قصہ تقریباً تمام ہوچکا ہے۔ میری مراد مابعدجدیدیت سے ہے۔ جو لوگ عالمی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں، وہ یقیناًمیری تائید کریں گے کہ تھیوری ہر محاذ پر ناکام ہوچکی ہے اوراپنا بوریا بستر باندھ کر رخصت بھی ہوچکی۔ مغربی ممالک بطور خاص امریکہ اور برطانیہ میں اب اس کا کوئی نام لیوا بھی باقی نہیں رہا۔لیکن ہندوستان میں کچھ ’’باقیات الصالحات ‘‘ہیں جنھیں اب بھی امید ہے کہ مابعدجدیدیت کو کم سے کم ’’بزور بازو‘‘تو منوایا ہی جاسکتا ہے۔ اردو میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ مابعد جدیدیت کے علم بردار ہیں اور ان کا کہنا ہے : ’’یہ سیاسی مسائل نہیں، یہ فلسفۂ ادب کے مسائل ہیں اور فلسفۂ ادب یعنی تھیوری کی سطح پر طے پا رہے ہیں۔ اردو میں ان مسائل کی تفہیم میں کچھ وقت لگے گا۔ اس لیے کہ جب تک ہم سابقہ مفروضات سے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے اور مانوس Categories سے ہٹ کر سوچنے کے لیے (جنھیں ہم نے ایمان کا درجہ دے رکھا ہے) خود کو تیار نہیں کریں گے، ہم برابر مغالطوں اور خوش فہمیوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ ‘‘ نارنگ کا یہ بیان ان کی کتاب ’’ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعدجدیدیت‘‘ میں شامل ہے ۔ یہ اقتباس اس خطبے سے ماخوذ ہے جو موصوف نے دسمبر ۱۹۹۵ میں غالب اکادمی، نئی دہلی کی سلور جوبلی کے موقع پر دیا تھا۔ ۱۳ سال پہلے نارنگ صاحب نے یہ امید جتائی تھی کہ ’’اردو میں ان مسائل کی تفہیم میں کچھ وقت لگے گا‘‘ لیکن صد حیف کہ اب تک یہ ’’مسائل‘‘ توضیح طلب ہیں۔ نارنگ مابعد جدیدیت کی تعبیر و تفہیم اور اردو ادب میں اس کے اطلاق کی وضاحت کرنے سے قاصر رہے ہیں لیکن کم سے کم انھیں ان سوالوں کے جواب ضرور دینے چاہئیں تھے جو گذشتہ دو برسوں سے عمران شاہد بھنڈر ان سے کررہے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی خاموشی شان استغنا کا استعارہ نہیں بلکہ اعتراف جرم کا وسیلہ ضرور نظر آتی ہے۔ آج پوری اردو دنیا کی نظر نارنگ پر ہے اور وہ ان سنگین الزامات پر ان کے جواب کی منتظر ہے جو عمران شاہد نے دلائل اور حوالوں کی مدد سے ان پر لگائے ہیں۔اصل موضوع پر آنے سے قبل مناسب معلوم ہوتاہے کہ قارئین کو سب سے پہلے عمران شاہد بھنڈر کے ان الزامات سے مختصر اً آگاہ کر دیا جائے جو انھوں نے نارنگ پر لگائے ہیں۔ عمران شاہد بھنڈر کا تعارف گذشتہ شمارے میں کرایا جا چکا ہے لیکن ایک بار پھر ہم بتادیں کہ وہ برمنگھم یونیورسٹی (برطانیہ)میں مابعد جدیدیت پر پی۔ایچ۔ڈی کررہے ہیں۔ انھوں نے نارنگ کی معروف کتاب ’’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ پر سرقے کا الزام عائد کیا ہے

اور اس ضمن میں انھوں نے صرف ’ہوائی فائرنگ‘‘ کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسلسل دو طویل مضامین میں کئی مغربی مفکرین مثلاً کیتھرین بیلسی، رابرٹ سکولز، کرسٹوفر نورس، رامن سیلڈن ،جان سٹرک وغیرہ کی کتابوں کے اقتباسات در اقتباسات کا نارنگ کی کتاب میں شامل ڈھیروں اقتباسات سے براہ راست موازنہ کرکے سبھی کو انگشت بدنداں کردیا ۔ ان کے یہ دونوں مضامین ۱؂ جرمنی سے شائع ہونے والے معروف ادبی جریدہ’’جدید ادب‘‘میں متواتر شائع ہوئے جس کے مدیر حیدر قریشی ہیں۔ ان مضامین کے کچھ اقتباسات ’’شب خون خبر نامہ‘‘ (الہٰ آباد) میں بھی شائع ہو چکے ہیں اور میری اطلاعات کے مطابق سہ ماہی ’’مژگاں‘‘ (کولکاتہ) کے تازہ شمارے میں بھی بطور ’قند مکرر‘ شائع ہوئے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عمران شاہد بھنڈر کا یہ طویل اور چشم کشا مقالہ اب کتابی شکل میں ’’اثبات پبلی کیشنز ‘‘ میں طباعت کے مرحلوں سے گزررہا ہے جو بہت جلد قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا۔ عمران شاہد کا لگایا ہوا الزام ذاتی نہیں ،ادبی ہے جسے صرف یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے پیچھے گروہی تعصب کارفرما ہے۔

وہ قارئین جنھوں نے اب تک عمران شاہد کے دونوں مضامین نہیں پڑھے ہیں، ہمارا مشورہ ہے کہ اس باب کو پڑھنے سے قبل انھیں ضرور پڑھ لیں ورنہ وہ اپنی رائے قائم کرنے میں حق بجانب نہ ہوں گے۔ اس معاملے کو ’’فاروقی بنام نارنگ‘‘ کا نام بھی نہیں دیا جاسکتا ، کیوں کہ اول تو عمران شاہد ، فاروقی سے ہزاروں کیلومیٹر دور برطانیہ میں بیٹھے ہیں ، دوم یہ کہ فاروقی اور عمران صرف ایک دوسرے کے ’’نام اور کام‘‘ سے واقف ہیں اور سوم یہ کہ عمران کے وہ تمام الزامات دلائل اور حوالوں کے ساتھ ہیں جنھیں کوئی آنکھ کا اندھا ہی ردّ کرسکتا ہے۔ جدید ادب کے مدیر حیدرقریشی نے صحافتی دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئے نارنگ کو کئی بار دعوت دی کہ اگر وہ چاہیں تو ان الزامات کا جواب ’’جدید ادب‘‘ کے صفحات میں دے سکتے ہیں(’’اثبات‘‘ کے صفحات بھی نارنگ کے جواب کے لیے حاضر ہیں) لیکن نارنگ نے جواب دینا تو کجا، ایسی خاموشی اختیار کرلی جس سے اس شک کو تقویت ملنے لگی کہ ان کے پاس عمران شاہد کے لگائے گئے الزامات کے جواب ہی نہیں ہیں۔یہی نہیں بلکہ انھوں نے حیدر قریشی اور ان کے جریدے پر اپنے ’’ذرائع‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے دباؤ بھی ڈالا کہ وہ اس سلسلے کو بند کریں

ورنہ انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ہم اس باب میں حیدر قریشی کا وہ مضمون بھی شائع کررہے ہیں جس میں اس قضیے کی پوری روداد شامل ہے ۔ حیدرقریشی کے ساتھ نارنگ نے جو نازیبا حرکت کی ہے، وہی عمران شاہد بھنڈر کے الزامات کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ زبان و ادب کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھا شخص جس کے علم و بصیرت کی لوگ قسمیں کھاتے ہوں ، وہ اس طرح کی حرکت کرے ۔ لیکن نارنگ کی مجبوری یہ ہے کہ وہ جب اپنے ’بے پایاں علم‘ کے ذریعہ عمران شاہد کے دعووں کو مسترد نہ کرسکے تو ’بزور بازو‘جواب دینے پر آمادہ ہوگئے۔ پتہ نہیں، ’ارادت مندان نارنگ‘ کا حیدرقریشی کا خط پڑھ کر کیا ردعمل ہوگا؟

ممکن ہے کہ ساجد رشید جیسے نارنگ کے حمایتی ایک بار پھر یہ الزام جڑ دیں کہ نارنگ ’’ہندو‘‘ ہیں، اس لیے انھیں سارق ثابت کیا جارہا ہے اوراس طرح ایک بار پھر اس ایشو کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جائے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم گذشتہ دو شماروں میں عمران شاہد بھنڈر کے دو مضامین شائع کرچکے ہیں جن کا اس قضیے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میں نے گذشتہ شمارے میں قارئین کے استفسار پر عمران شاہد کا ایک مختصر تعارف بھی پیش کیا تھا جس پر صحافی اور ادیب شمیم طارق کا ایک طویل خط ہمیں موصول ہواہے، جو من وعن شائع کیا جارہا ہے۔ دراصل یہی خط اس سنگین ادبی مسئلے کو اس باب میں شامل کرنے کا بنیادی محرک بھی ہے۔

شمیم طارق نے گوپی چند نارنگ کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’الزام تراشی کسی قلم کار کا ادبی تعارف نہیں بن سکتی‘۔حیرت ہے کہ شمیم طارق جیسا پڑھا لکھا اور غیر جانب دار شخص عمران شاہد بھنڈر کے ان مضامین کو اب تک صرف ’’الزام تراشی‘‘ کے خانے میں رکھنا چاہتا ہے، جب کہ مذکورہ مضامین میں نارنگ کے ذریعہ کیے گئے سرقے کو حوالوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ شمیم طارق ،نارنگ کی مذکورہ کتاب میں شامل دیباچہ پیش کرتے ہیں، جو کچھ یوں ہے کہ ’’افکار وخیالات تو فلسفیوں اور نظریہ سازوں کے ہیں، تفہیم و ترسیل البتہ میری ہے‘‘۔اب اگر نارنگ کی اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے ان فلسفیوں اور نظریہ سازوں کے افکار و نظریات کوان کی متنازعہ کتاب میں سے خارج کردیا جائے تو ہاتھ میں شاید صرف گردپوش ہی باقی رہ جائے گا۔کسی کی فکری کاوشوں سے اثر قبول کرنا یا انھیں بطور استدلال اپنے کام میں لانا برا نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کسی مضمون یا کتاب سے بعض حصوں کو مستعار لینا بھی جرم نہیں ہے۔ بس شرط اتنی ہے کہ اصل مضمون یا کتاب کا حوالہ متن کے ساتھ دے دیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو عبارتوں کے ساتھ واوین کا التزام رکھا جائے اور حاشیے پر یا مضمون کے آخر میں وضاحتی نوٹ دے کا اصل ماخذ کا اعلان کردیا جائے۔ یہ طریقہ ان لوگوں کا ہے جو لکھنے اور پڑھنے کی Ethics کا لحاظ رکھتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں۔ لیکن صد حیف کہ ’اردو زبان و ادب اور تنقید و تحقیق کی بااعتبار اور باوقار شخصیت‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جنھوں نے مغربی مفکرین کی تحریروں سے صفحے کے صفحے اور پیراگرا ف بغیر حوالوں اور وضاحتی نوٹ کے اغوا کرلیے اور انھیں اپنی ملکیت بنا کر قا رئین کے سامنے پیش کردیا، ان کے دفاع کے لیے شمیم طارق جوازجوئی کررہے ہیں۔ میری سمجھ میں ایک بات اور نہیں آئی کہ شمیم طارق نے نارنگ کی فضیلت اور عمران شاہد کے الزام کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے شمس الرحمن فاروقی کو تیسرے فریق کی حیثیت سے کیوں پیش کیا؟ اگر فاروقی نے نارنگ کی اس کتاب کو ’بین العلومی کارنامہ‘ کبھی کہا بھی تھا تو اس سے عمران شاہد کے دعوے کی تکذیب کیسے ہوجاتی ہے؟ ممکن ہے کہ فاروقی نے اس وقت ان مفکرین کو نہ پڑھا ہو جن کی کتابوں سے نارنگ نے سرقہ کیا ہے، ورنہ ’’شب خون خبرنامہ‘‘ میں عمران شاہد کے مذکورہ مضامین کے اقتباسات شائع کرکے وہ اپنے ہی قول کو کیوں ردّ کرتے؟

اس ضمن میں تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ اگر شمیم طارق ، نارنگ کے دفاع کے لیے فاروقی کا یہ بیان معتبر سمجھتے ہیں تو پھر فاروقی کے ان بیانات کے بارے میں موصوف کا ردعمل میں ضرور جاننا چاہوں گا جن میں نارنگ کی مختلف ادبی اور غیر ادبی دھاندلیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیا شمیم طارق ان بیانات کو بھی سند تسلیم کرتے ہیں جس طرح فاروقی کے اس بیان کو انھوں نے بطور سند پیش کیا ہے؟اب رہی شمیم طارق کی یہ بات کہ ’الزام تراشی کسی قلم کار کا ادبی تعارف نہیں بن سکتی‘، تو انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عمران شاہد بھنڈر نے کسی غزل یا نظم یا افسانے کے سرقے کا انکشاف نہیں کیا ہے بلکہ گذشتہ صدی کے سب سے بڑے ادبی اور علمی سرقے کو اس صدی میں Expose کیا ہے اور اس کے لیے انھوں نے مابعدجدیدیت ہی نہیں دیگر علوم کے مفکرین کی کتابوں کو کھنگالا ، جو آسان کام نہیں ہے۔ شمیم طارق نے اپنے خط میں ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ ’’ جن سیکڑوں کتابوں کا حوالہ باربار آیا ہے، ان پر ستارے کا نشان ہے‘‘۔عمران شاہد کا مقالہ شاید ان کی نظروں سے گذرا نہیں ہے یا پھر ان کے لگائے گئے الزامات کی تصدیق شمیم طارق نے نارنگ کی متنازعہ کتاب سے نہیں کی ورنہ انھیں معلوم ہوتا کہ عمران شاہد جن صفحات اور پیراگراف کو سرقہ کہہ رہے ہیں، وہاں نہ تو ستارے کا نشان ہے ، نہ ہی چاند اور سورج کا۔ نارنگ کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے شمیم طارق اتنے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ وہ یہ بھی کہنے سے نہیں چوکتے کہ ’’ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ مسائل کو پانی کردیتے ہیں اور ان کی بات دل میں اترجاتی ہے‘‘۔ اس کے بعدوہ شاہد بھنڈر کے حق میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’بھنڈر صاحب کو اللہ توفیق دے تو بجائے منفی چیزوں کے وہ نارنگ صاحب سے بڑا کام کرکے دکھائیں۔ اردو میں کام کرنے والوں کی بڑی ضرورت ہے‘‘۔ نارنگ کی خوبیوں پر پانی پھیرنے والے عمران شاہد کے کارنامے کو منفی کہہ کر شمیم طارق نے ایک طرح سے ’’سرقہ‘‘ جیسی لعنت کا دفاع کیا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ نارنگ کی اس مذموم حرکت کی مذمت کرتے اور عمران شاہد کے شکرگذار ہوتے، انھوں نے’’ مثبت ‘‘اور ’’منفی‘‘ کی تعریف ہی بدل ڈالی۔ کیا شمیم طارق یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس طرح کے اخلاقی جرم سے چشم پوشی کرنی چاہیے؟ کیا انھیں یہ نہیں پتہ کہ نارنگ کی اس حرکت سے عالمی ادب میں ہندوستان اور اردو زبان پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا انھیں یہ نہیں معلوم کہ پاکستان کے جامعات میں اب نارنگ کی دوسری کتابوں کو بھی چھانا پھٹکا جانے لگا ہے؟ کیا شمیم طارق یہ چاہتے ہیں کہ اس روش کی حمایت کرکے اردو میں اس چلن کو عام کردیا جائے اور ان کا پردہ فاش کرنے والوں کو ہی مطعون کیا جائے؟ شمیم طارق میرے اور ’’اثبات‘‘ کے سچے خیرخواہوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس کے عوض حق بینی اور حق شناسی کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ انھیں یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ عمران شاہد بھنڈر سے بہت پہلے فضیل جعفری نے اپنے ایک طویل مضمون میں اشارہ کردیا تھا کہ مذکورہ کتاب نارنگ کی تصنیف نہیں تالیف ہے۔ سکندر احمد نے تو نارنگ کی تمام کتابوں کا محاسبہ کر ڈالا اور اعداد و شمار سے بتادیا تھا کہ نارنگ کی کتنی کتابیں تصنیف ہیں، کتنی تالیف ہیں، کتنے تراجم ہیں

اور کتنی مرتبہ ہیں۔ شمیم طارق نے اپنے خط میں ایک سوال بھی اٹھایا ہے کہ ’’ ایک زبان سے دوسری زبان میں سرقہ کرنے والے میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ایک زبان سے تھیوری کا سرقہ کرکے کسی دوسری زبان کے فن پارے کا تجزیہ کرسکے ...‘‘۔ ان کی اس بات نے مجھے چونکا دیا ،کیوں کہ انھوں نے بہت ہی معقول سوال اٹھایا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر نارنگ کی متنازعہ کتاب سرقے کا نتیجہ ہے تو پھر یقیناًان کی بقیہ کتابیں بھی تضادات کا شکار ہوں گی جن میں انھوں نے مابعدجدیدیت کا تجزیہ پیش کیا ہے اور جو اب تک سرقے کے الزام سے مبرّا ہیں۔ میں نے فون پر عمران شاہد سے بات کی تو انھوں نے اپنی زیر تکمیل کتاب میں سے وہ باب مجھے فوراً ارسال کردیا جس میں انھوں نے نارنگ کی دوسری کتابوں پر گرفت کی ہے ۔ اس مضمون کو پڑھ کر اس بات کی ایک بار پھر تصدیق ہوجاتی ہے کہ نارنگ نے مابعدجدیدیت کو سمجھا ہی نہیں ہے ، لہٰذا ان کی بقیہ کتابوں میں تضادات کا ایک سلسلہ ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ مابعدجدیدیت تو دور، فلسفے کے ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں ۔زیر نظر شمارے میں عمران شاہد کا یہ مضمون ۲؂اس لیے زیادہ توجہ طلب ہو جاتا ہے کہ اس بار نارنگ کی دوسری کتابیں زد میں ہیں جن کی مدد سے صاحب مضمون نے ایک طرف تو نارنگ کی ’’مابعد جدیدعلم برداری‘‘پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، دوسری طرف انھوں نے یہ بھی دکھا دیا کہ نارنگ چونکہ سارق ہیں، اس لیے وہ مابعدجدیدیت کو Assimilate نہیں کرپائے جس کے نتیجے میں یہ تضادات نظر آ رہے ہیں۔ فضیل جعفری کا زیر نظر مضمون اگرچہ ’’ذہن جدید ‘‘ میں دوقسطوں میں شائع ہوچکا ہے لیکن اس خیال سے اس کی دوسری قسط کو شامل اشاعت کرلیا گیاہے کہ اس مضمون سے بھی ہمیں نارنگ کے فکری تضادات کو قریب سے دیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ عمران شاہد کی زبان فلسفیانہ ہے (کیوں کہ وہ بنیادی طور پر فلسفے کے ہی آدمی ہیں) جب کہ فضیل جعفری کا مضمون اردو قارئین کو پیش نظر رکھ کررقم کیا گیا ہے۔ حیدر قریشی کی صحافتی دیانت داری پر، میں انھیں سلام کرتا ہوں۔ اس کے عوض انھیں جو قیمت چکانی پڑی، میں اس کی مذمت کرتا ہوں اور انھیں یقین دلاتا ہوں کہ ’’اثبات‘‘ اور اردو دنیا کے تمام دیانت دار، مخلص اورانصاف پسند قارئین اس آزمائشی گھڑی میں ان کے ساتھ ہیں۔ قارئین !آپ کا کیا خیال ہے؟ (مطبوعہ سہ ماہی اثبات ممبئی۔شمارہ نمبر ۳۔دسمبر ۲۰۰۸ء تا فروری۲۰۰۹ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱

جدید ادب میں نارنگ صاحب کے سرقہ کے حوالے سے دو نہیں بلکہ شمارہ نمبر۹،۱۰ اور ۱۱ میں تین مضامین شائع کیے جا چکے ہیں۔ان میں سے پہلا مضمون اضافوں کے ساتھ عکاس کے شمارہ ۵ میں بھی شائع کیا گیا تھا۔اس مضمون کو متعدد اخبارات و رسائل نے جدید ادب کا حوالہ دے کر شائع کیا تھا۔ ۲؂یہ مضمون اثبات میں شائع ہوا ہے،یہاں اسے شامل نہیں کیا گیا۔کیونکہ یہاں صرف سرقہ کے حوالہ جات والے عمران شاہد کے مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔

(ادارہ عکاس انٹرنیشنل)

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply