سرقے کا کوہ ہمالیہ.....آخری حصہ

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under | Leave a Comment


عمران شاہد بھنڈر.....برمنگھم

سرقے کا کوہ ہمالیہ .... آخری حصہ

’’ساختیات سے بحث کرتے ہوئے دریدا کہتا ہے کہ ساختیاتی فکر میں
ساخت (سٹرکچر) کا تصور اس مفروضے پر قائم ہے کہ معنی کاکسی نہ کسی طرح کا مرکز ہوتا ہے
یہ مرکز ساخت کو اپنے تابع رکھتا ہے، لیکن خود اس مرکز کو تجزیے کے تابع نہیں لایا جاسکتا ( ساخت کے مرکز کی نشاندہی کا مطلب ہوگا دوسرا مرکز تلاش کرنا) انسان ہمیشہ مرکز کی خواہش کرتا ہے اس لیے کہ مرکز ’موجودگی‘ کی ضمانت ہے: 'CENTRE GUARANTEES BEING AS PRESENCE'مثال کے طور پر ہم اپنی ذہنی اور جسمانی زندگی کو مرکزیت عطا کرتے ہیں ضمیر ’میں‘ کے استعمال سے ضمیر’میں‘ یا ’ہم‘ کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ فرض کیجیے زبان میں ضمیر ’میں‘ یا ’ہم‘ نہ ہوں تو ہم اپنی ’ موجودگی‘ کا اثبات کیسے کریں گے۔ الغرض ’موجودگی‘ اس وحدت کا اصول ہے جو دنیا کی تمام سرگرمیوں کی ساخت کی تہہ میں کارفرما ہے۔ دریدا کا کہنا ہے کہ فرائڈ نے شعور اور لاشعور کی تقسیم کو بے نقاب کرکے وجود کی وحدت کے مابعد الطبیعاتی اعتقاد کی جڑ کھوکھلی کردی۔ غور سے دیکھا جائے تو فلسفے کی بنیاد ہی ایسے تصورات پر ہے جو معنی کو ’مرکز‘ عطا کرنے کے اصول پر قائم ہے، مثلاََ خدا، انسان، وجود، وحدت، ’شعور‘، حق، خیر، شر، جوہر، اصل۔ دریدا یہ دعوٰی نہیں کرتا

کہ ان اصطلاحات سے باہر ہوکر سوچنا ممکن ہے۔ بلکہ یہ اصطلاحات معنی کے جس ’مرکز‘ پر قائم ہیں، وہ ان میں نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر یہ بھی کہیں کہ یہ تصورات قائم بالذات نہیں ہیں، بلکہ قائم بالغیر ہیں تو معنی کا مرکز ’غیر‘ میں بھی نہیں ہے۔ ’غیر‘ کو مرکز تسلیم کرنے کا مطلب ہوگا پھر سے اصطلاحوں میں گرفتار ہونا یا نیا مرکز تسلیم کرنا کیونکہ ’غیر‘ بھی تو قائم بالذات نہیں ہے۔ مثلاََ اگر ’شعور‘ کے مرکز کو یہ کہہ کر ختم کیا جائے کہ لاشعور کی تخریبی قوت انسانی شخصیت میں ایک رد کرنے والے معمل کے طور پر کارفرما رہتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ایک نئے مرکز کو تسلیم کررہے ہیں،کیونکہ تصور کے جس نظام(شعور/لاشعور) کو ہم بے دخل UNDO کررہے ہیں۔ اس سے ہم انتخاب نہیں کرسکتے، بلکہ اس میں ہمیں خود داخل ہونا پڑے گا۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ طرفین ( شعور/لاشعور،جسم/روح، حق/باطل) میں سے کسی ایک کو مرکز بننے یا ’موجودگی‘ (PRESENCE) کا ضامن بننے کی اجازت نہ دیں۔۔۔۔۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ دریدا کے کلاسیکی کارنامے OF GRAMMATOLOGY میں لفظوں پر تصورات کے قائم ہونے کو) (LOGOCENTRISM ، لفظ مرکزیت کہا گیا ہے۔LOGOS یونانی لفظ ہے نیا عہد نامہ میں LOGOS ایسی اصطلاح ہے جو ’موجودگی‘ کے تصور سے لبا لب بھری ہوئی ہے۔۔۔۔ 'IN THE BEGINING WAS THE WORD' (نارنگ، ص، ۲۰۸۔۲۰۷)۔’’صوت مرکزیت PHONOCENTRISM) ) کی رو سے تحریر دراصل تقریر (تکلم) کی وہ شکل ہے جو تقریر کی ملاوٹ لیے ہوئے ہے۔ تقریر ہمیشہ اصل خیال سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ جب ہم تقریر (تکلم) سنتے ہیں تو ہم اسے ’موجودگی‘ PRESENCE) ) سے منسوب کرتے ہیں جس کی تحریر میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ کسی بھی بڑے خطیب، اداکار یا سیاست داں کی تقریر کے بارے میں برابر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ’موجودگی‘ رکھتی ہے، یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ تقریر بولنے والے کی روح کی تجسیم ہے۔

تقریر کے مقابلے میں تحریر غیر خالص ہے اور اپنے نظام کو تحریری نشانات سے آلودہ کرتی ہے جو بے شک نسبتاََ مستقل ہیں۔ تحریر کو دہرا سکتے ہیں، محفوظ کرسکتے ہیں، بار بار چھاپ سکتے ہیں۔ اور یہ تکرار تفہیم اور باز تفہیم کے لامتناہی سلسلے کو راہ دیتی ہے۔ تقریر کی بھی جب تفہیم کی جاتی ہے تو نالعموم ایسا اس کو ضبطِ تحریر میں لاکر ہی ممکن ہے۔ تحریر کے لیے مصنف کی ’موجودگی‘ ضروری نہیں۔ اس کے برعکس تقریر سے مراد متکلم کی فوری ’موجودگی‘ ہے۔ مقرر کی آواز فوری ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے اور اس کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے تقریر کے خیال میں ملاوٹ کا شائبہ نہیں، جو تحریر میں ممکن ہے۔ قدیم فلسفہ دانوں نے اسی لیے تحریر کی مخالفت کی ہے، کیونکہ وہ خائف تھے کہ تحریر سے فلسفیانہ صداقت کا تحکم ختم ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ صداقت خالص فکر پر مبنی ہے (منطق،خیالات،قضایا) ان کو تحریر سے آلودگی کا خدشہ تھا۔ فرانسس بیکن ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ‘‘ جاری ہے (نارنگ،ص،۲۱۰) یہاں پر بھی یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ نارنگ نے لفظ بہ لفظ ترجمہ کرکے صفحہ نمبر کا حوالہ نہ ہی متن اور نہ ہی مصادر میں پیش کیا ہے، لیکن اس بات سے انکار کرنا محال ہے کہ یہ ترجمہ نہیں ہے۔جب رامن سیلڈن کے ژاک دریدا پر لکھے ہوئے باب یا پھر ان کی تمام کتاب کا مطالعہ کریں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ سیلڈن کی اس کتاب کے دریدا سمیت تمام مضامین تنقیدی نوعیت کے قطعی طور پر نہیں ہیں،بلکہ یہ کتاب برطانیہ میں کالجوں کے بچوں کو سامنے رکھ کر اس انداز میں لکھی گئی ہے کہ بچوں کو تفہیم میں آسانی رہے۔ نارنگ نے اردو کے’ اعلیٰ ادیبوں‘ (ان کے ارد گرد پھیلے ہوئے) کو سامنے رکھ کر اس کا ترجمہ کیا ہے۔ مطلب یہ کہ نارنگ کی نظر میں برطانیہ کے چھوٹی جماعتوں میں زیرِ تعلیم بچوں اور اردو کے علم و فکر سے دور’اعلیٰ ادیبوں‘ میں قطعی کوئی فرق نہیں ہے۔ سیلڈن کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ ان کا مقصد بالکل واضح ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ پیچیدہ خیالات کی ان کی ’تشریح‘ کا مقصد کیا ہے؟

جن لوگوں نے براہِ راست ژاک دریدا کا مطالعہ کیا ہے ان کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں ہوگا کہ سیلڈن نے دریدا پر جو کچھ لکھا ہے وہ ’تحریریات‘ کے پہلے باب، ’فلسفے کی حدود‘ میں سے The Closure of the Concepts کے علاوہ اسی کتاب میں سے دریدا کے ایک اور مضمون ’دستخط، واقعہ اور تناظر کا‘ خلاصہ ہے۔ خیالات بلاشبہ دریدا ہی کے ہیں یادیگر ابواب میں دوسرے تمام فلسفیوں ہی کے ہیں ’’البتہ افہام و ترسیل‘‘ سیلڈن کی ہے۔ نارنگ کی فہم سرقے کی حدود عبور نہیں کرپائی۔ دریدا نے ’فلسفے کی حدود‘ لکھی جبکہ نارنگ نے ’سرقے کی حدود‘ کو اپنے عمل سے تہس نہس کردیا۔راقم نے اپنے ایک مضمون ’’نارنگ کی باطل اور محکومانہ مابعد جدید تعبیریں‘‘ میں یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ نارنگ نے چونکہ ترجمے کیے ہیں اس لیے نارنگ کی عقل میں فلسفے کے پیچیدہ قضایا داخل نہیں ہوسکے۔ سیلڈن کے مذکورہ بالا اقتباس میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح سیلڈن نے معنویت اور مرکزیت کو ’لاتشکیل‘ کے فلسفوں سے جوڑا ہے، اس کی وجہ صاف ظاہر ہے جو دریدا کے براہِ راست مطالعے سے ان لوگوں کی سمجھ میں آنے لگتی ہے جو علمی نقطہ نظر سے فلسفیانہ پسِ منظر رکھتے ہوں۔ نارنگ نے مذکورہ بالا اقتباس ترجمہ تو کردیا مگر اس کی تفہیم میں ناکام رہے۔ اس لیے جب کبھی ترجمے کی کتابوں کو بند کرکے کچھ کہنا چاہتے ہیں،کسی نامعلوم قسم کی ’لاتشکیل‘ میں الجھ جاتے ہیں۔سرقہ حواریوں کو تو مجتمع کرسکتا ہے ، عمیق تنقیدی بصیرت عطا نہیں کرسکتا۔ نارنگ کے حواریوں کی تحریروں کا مقصد نارنگ کے سرقوں سے چشم پوشی اور ان کو قبل از تجربہ تصور کرکے ان کی شخصیت کا دفاع کرنا ہے۔ نظریہ علم ہویا فلسفہ جمال یا پھر شخصیت پرستی کا ہی کوئی پہلو کیوں نہ ہو،اعلیٰ و ادنیٰ کا تعین محض بدیہی a priori)) بنیادوں پر نہیں کیا جاسکتا۔شخصیات کی عظمت کا تعین بھی فوق تجربی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ بعد از تجربی بنیادوں پر ہی کیا جاسکتا ہے۔ہمیں فلسفی برکلے کے فلسفہ فوق الطبیعی جوہریت سے کوئی دلچسپی نہیں رہی،اس کا استرداد انیسویں صدی کے آغاز ہی میں عمل میں آچکا تھا۔ اس کے مطابق تو بدیہیت کی بنیاد پران اوصاف کو بھی بیان کردیا جاتا ہے جو کبھی ’موجود‘ ہی نہیں ہوتے۔’’کوہ ہمالیہ‘‘ کی اونچائی دیکھ کر ہی اسے ’’کوہ ہمالیہ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔

’’کوہ ہمالیہ‘‘ کو فوق تجربی بنیادوں پر محض تصور کرلینا درست نہیں ہے۔ ہم شخصیات کے حوالے سے بھی جو معروضی مقولات تشکیل دیتے ہیں ان میں تصوریت کی غلاظت کے برعکس عمل کا استناد درکار ہوتا ہے۔اوصاف کو منسوب کرنا نہیں بلکہ عمل کی معروضی ماہیت سے اخذ کرنا ہمارے فلسفے کا جزوِ لازم ہے۔ عمل کا مقرونی تسلسل وحدتِ خیال کی تحلیل اور اسے متصوری کے برعکس حقیقی بنیادوں پر پارہ پارہ کردیتا ہے۔اس موقع پر یہ ذکر بھی بے جا نہ ہوگا کہ گزشتہ چھ برس سے ہر برس ہم عہد حاضر کے بے شمار اردو شعراء اور افسانہ نگاروں اور نقادوں کی کتابوں کو کوڑے میں پھینکتے ہیں۔ پچھلے بدھ کو ہم نے اردو کی پینتس کتابیں کالے بیگ میں ڈال کر کوڑے میں محض اس لیے پھینک دیں کہ، ان پینتس کتابوں میں ایک بھی قابل ذکر شعر اور ایک بھی ایسا افسانہ نہیں تھا جسے ادب کے زمرے میں رکھا جاسکے، یہ واضح ہی نہیں ہوپاتا کہ یہ لوگ کیوں اور کیا لکھ رہے ہیں؟ حوصلہ ہے ان پبلشروں کا جو محض پیسے کی خاطر اردو ادب کو اس طرح کے کوڑے کرکٹ سے بھر رہے ہیں۔ ’مصنفین‘ کو تو شہرت درکار ہوتی ہے، اس کے لیے ہر جائز و ناجائز وسیلہ استعمال کیا جاتا ہے،لیکن ادب میں جو غلاظت مجتمع ہورہی ہے ، اس کے بارے میں کوئی بھی سنجیدگی سے سوچنے کو تیار نہیں ہے۔ہمارے ایک قریبی غیر ادبی دانشوردوست نے کہا کہ ان کتابوں کو لائبریری میں جمع کرادیں، ہم نے جواب دیا کہ اس گندگی کو محفوظ کرنے کے جرم کا ہم ہرگز مرتکب نہیں ہونا چاہتے۔ ہمارا ایمان ہے کہ جہاں اچھی کتاب بہترین دوست ہے تو وہاں بری کتاب بدترین دشمن بھی ہے۔برٹرینڈ رسل اپنی کتاب’’ لوگوں کو سوچنے دو‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’ اس طرح کی کتابیں پڑھ کر ہر برس ہزاروں کی تعداد میں جامعات سے شاہدولے شاہ کے چوہے نکلتے ہیں۔‘‘نارنگ کی سرقہ کی ہوئی کتابیں ابھی تک کوڑے کی نذراس لیے نہیں کیں کہ ممکن ہے مستقبل میں سرقے سے متعلق مزید حقائق درکار ہوں۔جو لوگ براہِ راست بارتھ، فوکو اور دریدا کا مطالعہ کرسکتے ہیں انھیں بد نیتی پر مبنی مواد کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر زبان کا مسئلہ ہے تو جو لوگ جامعات میں درس دیتے ہیں ، وہ انتظامیہ سے استدعا کرکے ان کتابوں کے تراجم بھی کراسکتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ایسی جگہوں پر معمور بااختیار لوگوں کو سب سے زیادہ دانشور بننے کا شوق ہے۔شوقیہ ادیب، شوقیہ افسانہ نویس ، شوقیہ شعراء اور اب شوقیہ نقاد و دانشو اور اب شوقیہ مدیران !کیا اس امر سے کوئی اختلاف کرسکتا ہے کہ اگر تراجم کا کام شروع ہوگیا تو ادبی خدمت گزار قسم کے افسانہ نویسوں اور نقادوں کی موت واقع ہوسکتی ہے؟ابنِ رشد اور ابنِ سینا وغیرہ نے ارسطو کی کتب کے تراجم کیے اور ان کی شرح کی۔ ارسطو اور رُشد کے افکار کے درمیان واضح حد امتیاز کھینچی جاسکتی ہے۔ہم نے ابنِ رشد، ابنِ خلدون اور ابِن سینا کی کتابیں حاصل کرنے کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ مغرب میں بھی بے شمار پبلشروں کو فون کیے۔ ابنِ رشد، ابنِ سینا یا ابن خلدون کا کوئی حواری موجودنہیں ہے، جو انھیں ’’کوہ ہمالیہ‘‘ کہہ سکے، اس کے باوجود ان دانشوروں کی علمی اہمیت کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا۔نارنگ کے حواری ان کے سرقے کی’ میراث ‘کو تضحیک کی نظر سے دیکھنے کی بجائے، گوپی چند نارنگ کو ’’ایک اعلی ادبی میراث کے حامل‘‘ ادیب و نقاد قرار دیتے ہیں۔‘‘ جیسا کہ حواری نارنگ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نارنگ ’’ ادب کے کوہ ہمالیہ‘‘ ہیں، جن پر لکھ کر شہرت حاصل ہوتی ہے۔یہ ایک ایسی غلیظ اور مکروہ سوچ ہے جس نے برسوں سے اردو ادب کا محاصرہ کررکھا ہے کہ کسی نام نہاد ’’بڑے نام‘‘ پر لکھنے سے ’شہرت‘ حاصل ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے ارسطو، افلاطون، مارکس ، کانٹ اور ہیگل پر بھی لکھا ہے، وہ بھی شہرت کے حصول کے لیے تھا؟نارنگ اور ان کے حواریوں کا جمِ غفیر ان فلسفیوں کے پیچیدہ افکار کی تفہیم تک کرنے سے قاصر ہے، نارنگ سے سوال کریں کہ اگر مسئلہ شہرت کا حصول نہیں تھا، تو سرقے کی ضرورت ہی کیا تھی؟شہرت کی خواہش اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ تحقیق کی اصل روح تک پہنچنے سے پہلے ہی محض اپنے گرد حواریوں کے ہجوم کے ہجم میں اضافہ کرنے کے لیے سرقوں کا ارتکاب کرلیا جائے۔

ہمارے ہاں ایک مکروہ روایت یہ بھی پروان چڑھ چکی ہے جو شاید فارسی سے اردو میں داخل ہوئی ہے کہ اگر کسی لکھنے والے کے سرقوں، مغالطوں اور غلط تعبیروں کو عیاں کیا جائے تو اس نقص کو’ منفی‘ تحریر تصور کرلیا جاتا ہے۔اگر یہ درست ہے تو قدیم یونان سے لے کر ’’مابعد جدید‘‘ عہد حاضر تک مغرب میں پیش کیا گیا ہر فلسفہ و فکر ’منفی‘ تحریروں پر ہی مشتمل سمجھا جانا چاہیے، اگر یہ سچ ہے تو پھر کیوں سر سید سے اقبال تک مغربی تحریروں سے متاثر ہونے کی روایت کو’منفی‘ تصور کیا جائے؟ اقبال نے تو خود نٹشے، افلاطون اورکانٹ سے استفادہ کیا اور پھر انکے خلاف بھی لکھا تو کیا اسے بھی ’منفی‘ تصور کرلیا جائے؟یا پھر اقبال پر کچھ نازل ہونا شروع ہوچکا تھا؟یہ ذہن نشین رہے کہ اقبال کی مخالفت کے باوجود نٹشے کو کوئی فرق نہیں پڑا۔نٹشے بیسویں صدی میں یورپ کی گلیوں میں زندہ ہوگیا، جبکہ اقبال کو حضرت کے مقام پر فائز کرکے الماری کی آخری شیلف پر رکھ دیا گیا۔نٹشے سے انگنت زاویے اخذ کیے گئے، اس کے لیے اس کے فلسفے میں مضمر فاشسٹ خیالات کی وجہ سے نٹشے کورسوا ہونا پڑا، اقبال کوتعریف و تحسین تک محدود کردیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نٹشے لامحدود ہوگیا اور اقبال محدود ہوکر رہ گیا۔اس نکتے پر بحث یہاں مقصود نہیں ہے، اس کا تفصیلی تجزیہ ہم نے اپنے غیر مطبوعہ مضمون ’’اقبال اور جرمن فلسفہ‘‘ میں کردیا ہے۔خود نارنگ کی توجہ جب سرقے سے ہٹتی ہے تو جدیدیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس نے ’’ابہام و اشکال کو فارمولہ بنا کر اجنبیت اور مریضانہ داخلیت کو ایمان کا درجہ دے کر ۔۔۔۔ادبی چھوت چھات کو فروغ دے کر ادب کو بے جان کر دیا‘‘ (جدیدیت کے بعد،۵۰)۔ قطع نظر اس امر کے کہ یہ اقتباس اردو کے مفہوم میں ’منفی ‘ہے، یہ مابعد جدیدیت کے بنیادی فلسفے کے بھی منافی ہے، کیونکہ نارنگ کے یہ فقرے ’’ویلیو ججمنٹ‘‘ کے حامل ہیں۔اس قسم کے فقرے مابعد جدیدیت کے علم برداروں سے سن کر حیرت ہوتی ہے، کسی بھی طرح کا تصدیقی عمل مابعد جدیدیت کی نفی کرتا ہے۔برطانیہ کے اسکولوں میں جی سی ایس ای (بارہ جماعتیں) کرنے والے بچوں کو کسی نئے زاویے سے شیکسپےئر پر سخت تنقید کرنے کے علاوہ مغرب کے اہم ترین فلسفیوں اور ادبی نقادوں کے افکار کو فکری و نظری سطح پر، لیکن دلائل کی بنیاد پر پرخچے اڑانے کا کہا جاتا ہے، ایسی ہزاروں تحریریں موجود ہیں جن میں فلسفیوں ، نقادوں اورناول نگاروں سے اختلاف کیا جاتا ہے،

لیکن جب کوئی حقیقی زاویہ سامنے آتا ہے تو اس سے علمی و نظری سفر آگے بڑھتا ہے، اور کسی کی’ شہرت‘ خراب نہیں ہوتی۔نارنگ اگر ادیب و نقاد ہیں تو ان کی ’شہرت‘ کوئی خراب نہیں کرسکتا، لیکن اگر وہ سارق ہیں، تو سرقے کے حوالے سے ان کی ’شہرت‘ کو ’شہرت‘ کے اعلیٰ معیار پر کوئی تیسرے درجے کا حواری کبھی نہیں لاسکتا۔راقم نے خود جب یونیورسٹی آف سنٹرل انگلینڈ میں جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ پر اپنے مضمون کا خاکہ تیار کرکے معروف فلسفی ڈاکٹر مارک ایڈیس کو دکھایا تو مارک ایڈس کے راقم کے ذہن پر نقش الفاظ ملاحظہ فرمائیں ’’تمہیں مضمون لکھنے کے لیے کہا تھا، تم نے رپورٹ تیار کردی، یہ بتاؤ کہ کانٹ کا فلسفہ عہد حاضر سے کیونکر ہم آہنگ نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’تمہیں کانٹ کو تباہ Destroy)) کرنا ہے۔‘‘ مارک ایڈیس کی بات سن کر ہمارے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ نارنگ سمیت پاکستان اور ہندوستان میں مابعد جدیدت کے مبلغ نہ ہی نقاد ہیں ، نہ ہی یہ مضمون نویس ہیں اور نہ ہی یہ اوریجنل لکھاری ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مغربی ادب کے رپورٹرز ہیں، جو صرف یہ بتاتے ہیں کہ رولاں بارتھ نے کیا کہا تھا؟ کرسٹیوا کے الفاظ یہ ہیں، وغیرہ وغیرہ۔تاہم یہ بھی سچ ہے کہ یہ لوگ اچھے رپورٹر زبھی نہیں ہیں، کیونکہ ان کی قوتِ مدرکہ اپنے حقیقی تفاعل ، یعنی ادراک کے عمل سے محروم ہے۔نارنگ کو نقاد بننے کے لیے کم از کم چار سال برطانیہ جیسے ملک سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نارنگ ایک اعلیٰ نقاد بن جائیں گے بلکہ نارنگ کے باطن میں حقیقی تنقیدی روح بیدار ہوجائے گی، اعلیٰ و ادنیٰ کا تعین اس کے بعد ہی ہوسکے گا۔فرانس کے معروف فلسفی اور ثقافتی حوالوں سے مابعد جدیدیت کے پہلے داعی لیوٹارڈ ہیں، جن کی کتاب The Postmodern Condition: A report on Knowledge سے حقیقت میں مابعد جدیدیت کی بحث کا آغاز ہوا، کیونکہ لیوٹارڈ ہی وہ شخص تھا جس نے’’ بڑے بیانیوں کی موت‘‘ کا علان کیا۔ اس کتاب کا بنظرِ غور مطالعہ فرما نے سے عیاں ہوگا کہ اس کتاب میں لیوٹارڈ کا طرز اظہار مغربی تناظر میں تجزیاتی نہیں ہے، وجہ صاف ظاہر ہے اور جو عنوان سے بھی عیاں ہے کہ یہ مغربی معاشروں کی حالت کو جوں کا توں بیان کرنے کی کوشش ہے، جسے رپورٹ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں وضاحتیں اور تشریحات درکار ہوتی ہیں، گو کہ مغرب میں لکھی گئی رپورٹیں بھی تجزیاتی نوعیت کی ہوتی ہیں، لیکن تجزیاتی رپورٹ میں مضامین جیسی گہرائی نہیں ہوتی۔نارنگ نے سرقے کا ارتکاب کیا ، وہاں پر نارنگ سارق ہیں، جہاں پر اپنے الفاظ میں کچھ لکھنے کی کوشش کی وہاں پر رپورٹر ہیں۔مختصر یوں کہ نارنگ ادب کے صحافی ہیں۔نارنگ اور حواریوں کے نزدیک نارنگ ’’ادب کا کوہ ہمالیہ‘‘ ہیں، جبکہ ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ نارنگ نے سرقے کا ’کوہ ہمالیہ‘ تیار کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نارنگ سے اختلاف کرتے وقت بھی محتاط رہنا پڑتا ہے کہ مستقبل میں کہیں اختلافی نکات کا سرقہ بھی سامنے نہ آجائے، جس سے یقیناََ ہماری کم علمی بھی سامنے آسکتی ہے کہ ہمیں یہ معلوم کیوں نہ ہوسکا کہ یہ حصہ بھی مسروقہ ہے۔اس سرقے کے باوجود نارنگ کی پزیرائی وہی لوگ کرسکتے ہیں، جن کا ادب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ نارنگ ہی کی طرح ادب میں گھس آئے ہیں، یہ ادب کی خدمت نہیں کررہے بلکہ یہ ادب کا سہارا لے کر ادب سے اپنی خدمت کرارہے ہیں۔ مجموعی طور پر فہم سے عاری حواریوں کے وسیلے سے نارنگ کے یہ تضحیکی اور دفاعی ہتھکنڈے کسی طرح بھی قاری کی نظر میں ان کی تکریم کا باعث نہیں بن سکتے۔ ہماری زیرِ طبع کتاب میں سرقے سے متعلق مزید انکشافات کیے گئے ہیں،

سرقے کے علاوہ مابعد جدیدیت پر کی گئی بحث نارنگ اور ان کے حواریوں کی فہم سے کلی طور پر بالا ہوگی ، جبکہ سرقے سے متعلق بھی حواریوں کے سارق ’کوہ ہمالیہ‘ کو کلی طور پر مسمار کردے گی۔ نئی نسل کویقین ہے کہ سرقے کی بنیادوں پر قائم کیے گئے ان ادبی کدوں کے منہدم ہونے سے اردو میں اوریجنل ادبی و تنقیدی اقدار کا، سماجی اقدار کی حرکت میں، ان کے تناظر میں، تعین ہوسکے گا ۔ہمارا اس بات پر بھی پختہ یقین ہے کہ ارسطو کا نظریہ نقل آج تک غیر متعلقہ نہیں ہوسکا، گو کہ اس کی ہےئت میں تبدیلی ضرور ہوئی ہے، ہمارے معاشروں میں جاگیر داری اور راہبانہ نظام آج بھی سماج میں بسنے والی اکثریت کے علاوہ ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے اذہان میں راسخ ہوچکا ہے، نارنگ کے گرد ذہنی معذورحواریوں کا جم غفیر اسی نظام کا شاخسانہ ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ شخصیت پرستی کے مارے ان ادبی جاگیرداروں اور بیساکھیوں کے متلاشی حواریوں کے پاس ادبی نظام کی اصلاح کا کوئی طریقہ ء کار موجود نہیں ہے، یہ لوگ زوال کے تسلسل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتے۔ ادبی جاگیردار کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ادبی جاگیر کوہر جائز و ناجائز طریقے سے وسعت دیتا رہے، یہی کچھ نارنگ نے کیا ہے۔بہرحال جاگیرداری نظام میں بھی آہستہ اصلاح پسندی کا رجحان موجود ہوتاہے۔ اگرہم یہ توقع کریں کہ نارنگ کو ادب سے سچا لگاؤ ہے اور علمی و ادبی قضایا بقول نارنگ ان کی ’’ داخلی ضرورت کا بھی حصہ ہیں‘‘ تونارنگ کو اپنے گزشتہ ادبی جرائم پر پشیمان ہوکر نئے سرے سے سچائی و سنجیدگی کے ساتھ ادب میں داخل ہونا پڑے گا۔

داخلیت کو خارجیت سے برسرِ پیکار کرنا پڑے گا۔نارنگ کے سرقے کا محرک شہرت و تحسین کی خواہش اور شہرت دینے والے حواریوں کی تحسین نارنگ کو مزید سرقوں کی جانب لے گئی۔اب ضروری یہ ہے کہ نارنگ اپنے سرقوں کو تسلیم کرکے دوبارہ الف سے آغاز کریں۔ نارنگ کے لئے اپنے ادبی جرائم کا کفارہ ادا کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ’’ادب کے کوہ ہمالیہ‘‘ جیسے عنوان کا تعین آخر میں ہونا چاہیے نہ کہ آغاز یا درمیان میں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرفِ آخر:مابعد جدیدیت نے مصنف اور متن دونوں کو بے توقیر کرکے تخلیقی لحاظ سے بانجھ نقادوں کو ادب پر مسلط کرناچاہا تھا۔مابعد جدیدیت ہی کے ایک طالب علم کے ذریعے گوپی چند نارنگ کے سرقوں کے انکشاف کے بعدمصنف اور متن کی توقیر میں اضافہ اور تخلیقی لحاظ سے بانجھ نقادوں کے تحکمانہ فیصلوں کا رد ہو گیا ہے۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں سے متعلق اس خاص نمبر کے ورق تمام ہوئے اورسرقے باقی ہیں۔۔ ۔ ۔ ارشد خالد

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

سرقے کا کوہ ہمالیہ....چوتھا حصہ


Filed under | 1 Comment

عمران شاہد بھنڈر....برمنگھم
سرقے کا کوہ ہمالیہ ... چوتھا حصہ
’’یاؤس کہتا ہے کہ یہ سوچنا غلط ہے کہ کوئی بھی فن پارہ تمام زمانوں کے لیے ہے یا آفاقی ہے، یا اس کے جو معنی خود اس کے زمانے میں متعین ہوگئے، وہی معنی ہر عہد میں قاری پر واجب ہیں۔ ادبی فن پارہ ایسی چیز نہیں جو قائم بالذات ہو، اور جو ہر عہد میں قاری کو ایک ہی چہرہ دکھاتا ہو۔ بقول یاؤس فن پارہ کوئی یاد گار تاریخی عمارت نہیں، جو تمام زمانوں سے ایک ہی زبان میں بات کرئے گی۔ گویا ادب کی دنیا میں ہم کسی ایسے’ افق اور توقعات‘ کا تصور قائم نہیں کرسکتے
جو سب زمانوں کے لیے ہو۔ ایسا کرنا تاریخی حالت کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ یعنی ہم کس کو صحیح مانیں، سابقہ قارئین کی رائے کو، یا مابعد کے قارئین کی رائے کو، یا خود اپنے دور کی قارئین کی رائے کو‘‘ ( نارنگ ،ص ۳۰۶۔ ۳۰۵)۔ اس کے بعد ویلیمز بلیک کے ذکر سے نارنگ نے سرقہ جاری رکھا ہوا ہے۔واضح رہے کہ کہیں بھی صفحہ نمبر نہیں دیا گیا۔ایک بار پھر رامن سیلڈن کی جانب چلتے ہیں،
The French semiotician Michael Riffaterre agrees with the Russian Formalists in regarding poetry as a special use of language. Ordinary language is practical and is used to refer to some sort of 'reality', while poetic language focuses on the message as an end in itself. He takes this formalist view from Jakobson, but in a well-known essay he attacks Jakobson's and Levi-Strauss's interpretation of Baudelaire's 'Les Chats'. Riffaterre shows that the linguistic features they discover in the poem could not possibly be perceived even by an in formed reader. All manner of grammatical and phonemic patterns are thrown up by their structuralist approach, but not all the features they note can be part of the poetic structure for the reader. However, Riffaterre has some difficulty in explainig why something perceived by Jakobson does not count as evidence of what readers perceive in a text.Riffaterre developed his theory in Semiotics of Poetry (1978), in which he argues that competent readers go beyond surface meaning. If we regard a poem as a string of statements, we are limiting our attention to its 'meaning', which is merely what it can be said to represent in units of information. If we attend only to a poem's 'meaning' we reduce it to a (possibly nonsensical) string of unrelated bits. A true response starts by noticing that the elements (signs) in a poem often appear to depart from normal grammar or normal representation: the poem seemes to be establishing significance only indirectly and in doing so ' threatens the literary representation of realty'. It requires only ordinary linguistic competence to understand the poem's 'meaning', but the reader requires'literary competence' to deal with the frequent ' ungrammaticalities' encountered in reading a poem. Faced with the stumbling-block of ungrammaticalness the reader is forced, during the process of reading, to uncover a second (higher) level of significance which will explain the grammatical features of the text. What will ultimately be uncovered is a strcutural 'matrix', which can be reduced to a single sentence or even a single word. The matrix can be deduced only indirectly and is not actually present as a word or statement in the poem. The poem is conected to its matrix by actual versions of the matrix in the form of familiar statements, cliches, quotations, or conventional associations. it is the matrix which ultimately gives a poem unity. this reading process can be summarised as follows: 1. Try to read it for ordinary 'meaning': 2. Highlight those elements which appear umgrammatical and which obstruct on ordinary mimetic interpretation: 3. Discover the 'hypograms' (or commonplaces) which receive expanded or unfamiliar expression in the text; 4. Derive the 'matrix' from the ' hypograms'; that is, find a single statement or word capable of generating the ' hypograms' and the text. (Seldon, P,60-61).
نارنگ کے سرقے کی جانب چلتے ہیں،’’مائیکل رفاٹیر شعری زبان کے بارے میں روسی ہئیت پسندوں کا ہم نوا ہے کہ شاعری زبان کا خاص استعمال ہے۔ عام زبان اظہار کے عملی پہلو پر مبنی ہے، اور کسی نہ کسی حقیقت (REALTY ) کو پیش کرتی ہے، جبکہ شعری زبان اس ’اطلاع‘ پر مبنی ہے جو ہئیت کا حصہ ہے اور مقصود بالذّات ہے۔ ظاہر ہے اس معروضی ہئیتی رویے میں رفاٹیر، رومن جیکبسن سے متاثر ہے ، لیکن وہ جیکبسن کے ان نتائج سے متفق نہیں جو جیکبسن اور لیوی سٹراس نے بودلئیر کے سانٹ Les Chat کے تجزیے میں پیش کیے تھے۔ ریفا ٹیر کہتا ہے کہ وہ لسانی خصائص جن کا ذکر جیکبسن اور سٹراس کرتے ہیں، وہ کسی عام ’باصلاحیت قاری‘ کے بس کے نہیں۔ ان دونوں نے اپنے ساختیاتی مطالعے میں جس طرحکے لفظیاتی اور صوتیاتی نمونوں کا ذکر کیا ہے، یہ خصائص کسی بھی ’ جانکار قاری‘ کی ذہنی صلاحیت کا حصہ نہیں ہو سکتے۔ ایک تربیت یافتہ قاری سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ متن کو اس خاص طریقے سے پڑھے ۔ تاہم رفاٹیر یہ بتانے سے قاصر ہے کہ جیکبسن کا مطالعہ اس بات کی شہادت کیوں فراہم نہیں کرتا کہ قاری متن کا تصوّر کس طرح کرتا ہے۔رفاٹیر کے نظریے کی تشکیل اس کی کتاب:semiotics of poetry (1978) میں ملتی ہے۔ اس میں رفاٹیر نے اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے کہ باصلاحیت قاری متن کی سطح پر پیدا ہونے والے معنی سے آگے جاتا ہے۔ اگر ہم نظم کو محض معلومات کا مجموعہ سمجھتے ہیں توہم صرف اس معنی تک پہنچ پائے ہیں جو معلومات سے متعلق ہیں۔ ایک صحیح قرات ان نشانات (signs ) پر توجہ کرنے سے شروع ہوتی ہیں جو عام گرامر یا عام معنی کی ترجمانی سے ہٹے ہوئے ہوں۔ شاعری میں معنی خیزی بالواسطہ طور پر عمل آرا ہوتی ہے، اور اس طرح وہ حقیقت کی لغوی ترجمانی سے گریز کرتی ہے، متن کی سطح پر کے معنی جاننے کے لیے معمولی لسانی اہلیت کافی ہے،لیکن ادبی اظہار کے رموزو نکات اور عام گرامر سے گریز کو سمجھنے اور اس کی تحسین کاری کے لیے خاص طرح کی اَدبی اہلیت شرط ہے۔ ایسے لسانی خصائص جن میں استعمالِ عام سے انحراف کیا گیا ہو، قاری کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ معنی خیزی کی داخلی سطح کو بھی دیکھے، جہاں اظہار کے اجنبی خصائص معنی سے روشن ہوجاتے ہیں ۔ نیز ان تمام مقامات پر بھی نگاہ رکھے جن میں زبان و بیان کے بعض خصائص کی تکرار ہوئی ہے۔ ریفاٹیر اسے نظم کا ساختیاتی MATRIX کہتا ہے جسے مختصر کرکے ایک کلمے یا ایک لفظ میں بھی سمیٹا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ MATRIX ایک کلمے یا ترکیب کی صورت میں نظم میں موجود ہو، چناچہ اس کو متن سے اخذ کرسکتے ہیں۔ نظم اپنے ظاہریMATRIX کے ذریعے داخلیMATRIX سے جڑی ہوتی ہے۔ ظاہری MATRIX بالعموم جانے پہچانے بیانات، کلیشے، یا عمومی تلازمات اور مناسبات سے بُنا ہوتا ہے۔ نظم کی وحدت اس کے داخلی MATRIX کی دین ہے۔۔۔۔۱۔ سب سے پہلے متن کو عام معنی کے لیے پڑھنا چاہیے۔۲ ۔پھر ان عناصر کو نشان زد کرنا چاہیے، جن میں زبان کے عام گرامری چلن سے گریز ہے، اور جو حقیقت کی عام ترجمانی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔۳ ۔اس کے بعد ان عام اظہارات پر نظر رکھی جائے جن کو متن میں اجنبیایا گیا ہے۔۴۔ آخراََ ان تمام اظہارات سے داخلی Matrix اخذ کیا جائے، یعنی وہ کلیدی کلمہ یا لفظ یا ترکیب جو تمام اظہارات یا متن کو خلق generate کرتی ہو‘‘( نارنگ،ص، ۳۱۸۔۳۱۶)۔ اس اقتباس میں ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے اور جو اس اقتباس کو دوسرے اقتباسات سے ممیز کرتا ہے کہ اس میں نارنگ نے سیلڈن کا نام لیا ہے، یقیناََ سیلڈن اپنا نام خود نہیں لے سکتے تھے۔ سیلڈن کا نام لینے کے بعد نارنگ نے سیلڈن کے الفاظ کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کردیا، گو کہ اس کا حوالہ نہیں دیا، چونکہ لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا گیا ہے، اور سیلڈن کے نام کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، اس لیے نارنگ کو یہ رعایت مل سکتی ہے کہ جہاں انھوں نے سیلڈن کا حوالہ دیا وہاں پر انھیں سارق نہ کہا جائے، لیکن مترجم اس صورت میں بھی کہنا ضروری ہے۔ یعنی اس اقتباس کے صرف دوسرے مختصرحصے میں سارق نہیں تو مترجم ہیں، گو کہ حوالہ دینے کا طریقہ کار غلط ہے، جب کسی کے خیالات کا خلاصہ کیا جاتا ہے تو اس صورت میں اپنے الفاظ کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔نارنگ نے سیلڈن کے خلاصے کو پیش کیا ہے، اس لیے اس میں ’’افہام و تفہیم‘‘ تک سیلڈن کی ہے۔فرض کریں کوئی شخص افلاطون کی کتاب ’’ریپبلک‘‘ کا اردو میں دس صفحات پر تعارف پیش کرتا ہے،ایسی صورتحال میں ’’افہام و ترسیل‘‘ کا معیار اس کا اپنا ہوگا۔اگر اس اردو تعارف کو کوئی شخص انگریزی میں ترجمہ کردیتا ہے
تو وہ یہ ہرگز نہیں کہہ سکتا کہ ’افہام و ترسیل‘ اس کی اپنی ہے۔ اگر وہ کسی اور زبان کے مفکر کے مضمون یا تعارف کو اپنی زبان میں لفظ بہ لفظ ترجمہ کرتا ہے تو اس صورت میں خود کو ’’افہام و ترسیل‘‘ کا وسیلہ سمجھنا بددیانتی کی مثال ہوگی۔ اگر اردو میں نارنگ یا ان کے گرد پھیلے ہجوم کے کسی رکن کی جانب سے اس طرح کے کسی معیار کو قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تو اردو ادب کی بقا کے لیے اس طرح کی کاوشوں کو نیست و نابود کرنا ہوگا۔ اسی اقتباس میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جہاں سیلڈن کاحوالہ نہیں دیا گیا وہاں بھی حرف بہ حرف ترجمہ کیا جارہا ہے، اور صفحہ نمبر کاحوالہ کہیں نہیں دیا جارہا، نہ ترجمے کی صورت میں اور نہ سرقے کی صورت میں۔ تاہم دیگر ابواب میں نام تک نہ لینے والی حرکت نارنگ کو سارقوں کی فہرست میں
لاکھڑا کرتی ہے
۔ The notion of 'structure', he argues, even in 'structuralist' theory has always presupposed a 'centre' of meaning of some sort. This 'centre' governs the structure but is itself not subject to structural analysis (to find the structure of the centre would be to find another centre). People desire a centre because it guarantees being as presence. For example, we think of our mental and physical life as centred on an 'I'; this personality is the principle of unity which underlies the structure of all that goes on in this space. Freud's theories completely undermine this metaphysical certainty by revealing a division in the self between conscious and unconscious. Western thought has developed innumerable terms which operate as centring principles: being, essence, substance, truth, form, begining, end, purpose, consciousness, man, God, and so on. It is important to not that Derrida does not assert the possibility of the thinking outside such term; any attempt to undo a particular concept is to become caught up in the terms which the concept depends on. For example if we try to undo the centring concept of consciousness by asserting the disruptive counter force of the 'unconscious', we are in danger of introducing a new centre, because we can not choose but enter the conceptual system (conscious/unconscious) we are trying to dislodge. All we can do is to refused to allow either pole in a system (body/soul, good/bad, serious/unserious) to become the centre and guarantor of presence. This desire for a centre is called 'Logocentrism' in Derrida's classical work Of Grammatology. 'Logos' (Greek for 'word') is a term which in the New Testament carries the greatest possible concentration of presence: ' In the begning was the word'......... Phonocentrism treats writing as a contaminated form of speech. Speech seems nearer to originating thought. When we hear speech we attribute to it a presence which we take to be lacking in writing. The speech of the great actor, orator, or politician is thought to posses presence; it incarnates, so to speak, the speaker's soul. Writing seems relatively impure and obtrudes its own system in physical marks which have a relative permanence; writing can be repeated (printed, reprinted, and so on) and this repition invites interpretation and reinterpretation. Even when a speech is subjected to interpretation it is usually in written form. Writing does not need the writer's presence, but speech always implies an immediate presence. The sounds made by a speaker evaporate in the air and leave no trace (unless recorded), and therefore do not appear to contaminate the originating thought as in writing. Philosophers have often expressed there dislike of writing; they fear that it will destroy the authority of philosophic truth. This Truth depends upon pure thought ( logic, ideas, propositions) which risk contamination when written. Francis bacon ............ (Seldon, 144-145).
واضح رہے کہ سیلڈن یہاں پر ختم نہیں کرتے ، بیکن کی بحث دیکھنے کے لیے قاری مذکورہ ایڈیشن کے صفحہ۱۴۵ سے مطالعہ جاری رکھے جو اسے صفحہ ۱۵۷ تک لے جائے گا جس میں سیلڈن نے دی مان، بلوم، ہارٹمین اور ملر وغیرہ کا تعارف بھی پیش کیاہے۔ سیلڈن کی یہ کتاب بی اے کے طالب علموں کے لیے ہے جبکہ نارنگ کی یہ حرکت اردو کے ’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ادیبوں کی سمجھ سے بھی باہر ہے۔ اس وقت ضروری یہ ہے کہ نارنگ کے سرقے کی نشاندہی کی جائے
:جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

سرقے کا کوہ ہمالیہ....تیسرا حصہ


Filed under | Leave a Comment


عمران شاہد بھنڈر

(برمنگھم)

سرقے کا کوہ ہمالیہ ... تیسرا حصہ

اس کے بعد پروفیسر سیلڈن نے جیمسن پر مختصر بحث کی ہے ، اس کو بھی نارنگ نے جوں کا توں اٹھالیا ہے۔جوں کا توں اٹھانے کا مطلب یہ ہوا کہ ایگلٹن ہی کی طرح نارنگ نے جیمسن کی بھی کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا، سیلڈن جیمسن کے حوالے سے بھی مغربی طالب علم کو آسان الفاظ میں سمجھانے کے لیے جو تعارف پیش کرتے ہیں ، نارنگ اس کو لفظ بہ لفظ اٹھاکر سیلڈن کی افہام و ترسیل کو ایک بار پھر اپنی ’’ افہام و ترسیل‘‘ بنا کر پیش کرتے ہیں۔پہلے سیلڈن کی جانب چلتے ہیں:In America, where the labour movement has been partially corrupted and totally excluded from political power, the appearance of a major Marxist theorist is an important event. Jameson believes that in the post-industrial world of monoply capitalism the only kind of Marxism which has any purchase on the situation which explores the 'great themes of Hegel's philosophy - the relationship of part to whole, the opposition between concrete and the abstract, the concept of totality, the dialectic of appearance and essence, the interaction between subject and object'. For dialectical thought there are no fixed and unchanging 'objects'; an 'object' is inextricably bound up with a larger whole, and is also related to a thinking mind which is itself part of a historical situation. Dialectical criticism does not isolate individual literary works for analysis; an individual is always a part of a larger structure (a tradition or a movement) or part of a historical situation. The dialectical critic has no pre-set categories to apply to literature and will always be aware that his or her chosen categories (style, character, image, etc.) must be understood ultimately as an aspect of the critics on historical situation........ A Marxist dialectical criticism will always recognise the historical origins of its own concepts and will never allow the concepts to ossify and become insensitive to the pressure of reality. We can never get outside our subjective existence in time, but we can try to break through the hardening shell of our ideas 'into a more vived apprehension of reality itself'. His The Political Unconscious (1981) retains the earlier dialectical conceptio of theory but also assimilates various conflicting traditions of thought (structuralism, poststructuralism, Freud, Althusser, Adorno) in an impressive and still recognisably Marxist synthesis. Jameson argues that the fragmented and alienated condition of human society implies an original state of primitive communism in which both life and perception were collective.............. All ideologies are 'strategies of containment' which allow society to provide an explaination of itself which suppresses the underlying contradiction of history; it is history itself (the brute reality of economic Necessity) which imposes this strategy of repression. Literary texts work in the same way: the solutions which they offer are merely symptoms of the suppression of history. Jameson cleverly uses A.J Greimas' structuralist theory (the 'semiotic rectangle') as an analytic tool for his own purposes. Textual strategies of containment present themselves as formal patterns. Greimas' structuralist system provide a complete inventry of possible human relations... which when applied to a text's strategies, will allow the analyst to discover the posibilities which are not said. This 'not said' is the represses history. Jameson also developes a powerful argument about narrative and interpretation. He believes that narrative is not just a literary form or mode but an essential 'epistemological category'; reality presents itself to the human mind only in the form of the story. Even a scientific theory is a form of story.( Seldon, P, 95-97). نارنگ کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں،’’امریکہ میں فریڈرک جیمیسن جیسے اہم مارکسی نظریہ ساز کا پیدا ہونا خاصا دلچسپ ہے۔۔۔۔ جیمسن کا خیال ہے کہ ’پس صنعتی‘ دنیا میں جہاں اجارہ دارانہ سرمایہ داری کا دور دورہ ہے، مارکسزم کی صرف وہی قسم کامیاب ہوسکتی ہے جو ہیگل کے فلسفے کی عظیم تھیم سے جڑی ہوئی ہو، یعنی جز کا کل سے مربوط ہونا، ٹھوس اور مجرد کا متضاد ہونا، کلیت کا تصور، ظاہری شکل اور اصل میں جدلیانہ کشمکش اور موضوع اور معروض کا عمل در عمل، وغیرہ۔ بقول جیمسن جدلیاتی فکر میں کوئی مقررہ اور تغیر نا آشنا معروض نہیں ہے، اور ہر معروض ایک بڑے کل سے ناقابل شکست طور پر جڑا ہوا ہے، اور سوچنے والے ذہن سے جو خود تاریخی صورتحال سے جڑا ہوتا ہے۔ جدلیاتی تنقید انفرادی فن پاروں کا الگ الگ تجزیہ نہیں کرتی، کیونکہ فرد ایک وسیع تر بڑی ساخت کا حصہ ہے جو ایک روایت یا تحریک بھی ہوسکتی ہے ۔ سچا جدلیاتی نقاد ادب پر پہلے سے طے شدہ زمروں کا اطلاق نہیں کرتا،

وہ اس بات کا بھی لحاظ کرتا ہے کہ خود اس کے منتخب کردہ زمرے مثلاََ اسلوب، کردار، امیج وغیرہ بالآخر خود اس کی تاریخی صورتحال کا جُز ہیں۔ مارکسی جدلیاتی تنقید کو ہمیشہ اپنے تاریخی مآخذ کا احساس ہونا چاہیے اور تصورات کو ہرگز جامد نہ ہونے دینا چاہیے تاکہ حقیقت کا صحیح ادراک ممکن ہو۔ بے شک ہم زماں کے اندر اپنی موضوعی حالت سے باہر نہیں آسکتے، لیکن خیالات کے سخت ہوتے ہوئے خول کو توڑ سکتے ہیں تاکہ حقیقت کی بہتر طور پر تفہیم کرسکیں۔جیمسن کی کتاب THE POLITICAL UNCONSCIOUS, (1981) میں جدلیاتی فکر کے تسلسل کے ساتھ متعدد متضاد عناصر کو سمونے کا عمل ملتا ہے، مثلاََ ساختیات، پسِ ساختیات نو فرائیڈیت، التھیوسے ادورنو وغیرہ۔ جیمسن کا کہنا ہے کہ موجودہ سماج کی پارہ پارہ اور اجنبیانہ حالت میں قدیم زمانے کی اشتراکی زندگی کا تصور مضمر ہے، جس میں زیست اور تصورات سب ملے جھلے اور اجتماعی نوعیت کے تھے، جیمسن کا یہ بھی خیال ہے کہ تمام آئیڈیالوجی اقتدار حاصل کرنے اور قابو میں رکھنے (CONTAINMENT) کے طور طریقوں کی شکل ہے جو سماج کو اس بات کا موقع دیتی ہے کہ تاریخ کے تہہ نشیں تضادات کو دبایا جاسکے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ تاریخ جو ’’اقتصادی ضرورت کی وحشی حقیقت ہے‘‘ ''THE BRUTE REALITY OF ECONOMIC NECESSITY'' جبر کے ان طور طریقوں کو خود ہی مسلط کرتی ہے۔ ادبی متن بھی اسی طرح عمل آراہوتا ہے، کیونکہ بالعموم متن جو حل پیش کرتا ہے، وہ خود تاریخ کے جبر کی علامت ہوتا ہے۔جیمسن نے ساختیاتی مفکر گریما کے نشانیاتی مثلث کو اپنے مقاصد کے لیے کامیابی سے برتا ہے۔ تاریخی جبر کے طور طریقے ہےئتی نمونوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ گریما کا ساختیاتی نظام ممکنہ انسانی رشتوں کے گوشواروں پر مبنی ہے۔ اسے اگر متون پر آزمایا جائے تو وہ مقامات ظاہر ہوجاتے ہیں جو نہیں کہے گئے۔ یہ نہ کہے گئے مقامات وہ تاریخ ہیں جو دبا دی گئی۔جاری ہے۔۔۔۔۔جیمسن نے بیانیہ اور اس کی توضیح کے بارے میں بڑی کارآمد بحث کی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ بیانیہ محض ایک ادبی فارم یا طور نہیں ہے بلکہ ایک ’علمیاتی زمرہ‘ (EPISTEMOLOGICAL CATEGORY) ہے، اس لیے کہ حقیقت قابلِ فہم ہونے کے لیے خود اپنے آپ کو کہانی کے فارم میں پیش کرتی ہے۔ اور تو اور ایک سائنسی نظریہ بھی کہانی ہوسکتا ہے‘‘ (۲۶۹۔۲۶۷)۔نارنگ کا یہ اقتباس یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ اگر قاری کو توفیق ہو تو اسی تسلسل میں دونوں کتابوں کو سامنے رکھتے ہوئے مطالعہ جاری رکھنے سے یہ انکشاف ہوجائے گا کہ لفظ بہ لفظ ترجمے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ گو کہ نارنگ انتہائی عیاری سے مختلف پیراگرافوں کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کرنے کے باوجود ان کی ترتیب بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن راقم نے مسروقہ مواد کی شناخت کو آسان کرنے کے لیے تسلسل کو ختم نہیں ہونے دیا۔ مثال کے طور پر نارنگ پہلے ایک صفحے کا ترجمہ کرتے ہیں اس کے بعد اگلے صفحے سے ایک پیراگراف اٹھا کر دوبارہ پہلے صفحے سے ترجمے کو جاری رکھتے ہیں۔ یقیناََ اس طرح کے سرقے کو گرفت میں لانا آسان نہیں ہوتا ،کیونکہ عام قاری جب دیکھتا ہے کہ دو فقرے لفظ بہ لفظ ترجمہ ہیں،لیکن اس کے بعد آٹھ فقرے چھوڑ دیے گئے ہیں، تو وہ سوچ سکتا ہے کہ شاید یہی دو فقرے ترجمہ ہیں اور ان کا حوالہ غلطی سے نہیں دیا گیا۔ اس کے ذہن میں یہ نکتہ آسکتا ہے کہ اس کے بعد اس صفحے سے کوئی اور پیراگراف نہیں اٹھایا گیا تو وہ سرقے کے پہلو کو نظر انداز کرسکتا ہے ۔دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ نارنگ دوبارہ پہلے صفحے کی جانب پلٹتے ہیں، اور تمام و کمال ترجمہ کرکے قاری کو احمق بنانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ قاری کو پیچیدگی سے محفوظ رکھنے کے لیے ،راقم نے یہ کوشش کی ہے کہ نارنگ کی کتاب اور دیگر ترجمہ شدہ کتابوں میں تسلسل کو قائم رکھا جائے۔اوپر والے اقتباس میں دیکھیں کہ کس طرح نارنگ نے اردو میں انگریزی کا حوالہ استعمال کیا ہے اور اسے واوین میں لکھ دیا ہے۔ گو کہ اس انگریزی اقتباس کا صفحہ نمبر نہیں دیا گیا۔ چونکہ یہ واضح ہے اس لیے اعتراض کی گنجائش نہیں ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پورا اقتباس جو یہاں پیش کیا گیا ہے، اور اس باب میں جس دیگر مواد کی نشاندہی کی گئی ہے اس کا حوالہ کہیں نہیں ہے۔ایمانداری کا تقاضا تو یہی تھا کہ مکمل باب ہی واوین میں رکھا جاتا،

لیکن اس کے لیے خود کو صرف مترجم کی حد تک ہی ظاہر کیا جاسکتا تھا جو نارنگ کو گوارہ نہ ہوسکا۔اس کے بعد دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نارنگ مارکسزم اور مارکسی ادبی تنقید پر کھل کر رائے دیتے ہیں۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ’ سرمایہ‘ کے تینوں ابواب کا مطالعہ تو انھوں نے ضرور کر رکھا ہوگا۔ اس کے علاوہ جدلیات کو بھی بخوبی سمجھ رہے ہونگے۔ اینگلز کے وضع کیے ہوئے جدلیاتی اصولوں کی گہرائی میں بھی اترے ہونگے۔اس لیے جیمسن اور ایگلٹن وغیرہ پر تو بڑے وثوق سے کچھ کہنے کی حالت میں ہونگے۔ پھر یہ خیال آتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ نارنگ نے مارکس اور اینگلز کو سیاسی معاشیات کے زمرے میں رکھ کر ان کا مطالعہ ضروری نہ سمجھا ہو، جیسا کہ اردو ادب میں مطالعے کے بغیر فتوے جاری کرنے کا رجحان موجود ہے ۔ لیکن اس امر پر کوئی شک نہیں ابھرتاکہ نارنگ نے ایگلٹن اور جیمسن تک کو نہیں پڑھا۔ ایگلٹن اور جیمسن دونوں ادبی و ثقافتی ناقدین ہیں، مغربی دنیا میں ان کو نظر انداز کرکے موجودہ ادبی وثقافتی رجحان کے بارے میں معقول بات کیسے کہی جاسکتی ہے؟ جونہی رامن سیلڈن کی کتاب کا مطالعہ کرتے چلے جائے یہ حقیقت منکشف ہوتی چلی جاتی ہے

کہ نارنگ نے ایگلٹن اور جیمسن کے علاوہ بے شمار دوسرے ناقدین کی کتب کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اس لیے نارنگ علم کی اس سطح پر نہیں کہ انھیں نقاد کہا جاسکے، تنقید میں ان کی حیثیت شارح سے زیادہ نہیں ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ ان کے حواری انھیں کس مقام پر فائز کرتے ہیں۔ اپنے دعوے کے حق میں ثبوت فراہم کرنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر رامن سیلڈن کی کتاب کے اس باب کا مطالعہ کرنا ہوگا جو نارنگ کے سرقے کی بھینٹ چڑھا ہے۔ آئیں یاؤس پر لکھے گئے باب پر غور کرتے ہیں، سیلڈن کے الفاظ ملاحظہ کریں،

Jauss, an important German exponant of "reception" theory, gave a historical dimension to reader-oriented criticism. He tries to achieve a compromise between Russian Formalism which ignores history, and social theories which ignores the text. Writing during a period of social unrest at the end of the 1960, Jauss and others wanted to question the old canon of German literature and to show that it was perfectly reasonable to do so.... He borrows from the philosophy of science (T.S Kuhn) the term "paradigm" which refers to the scientific framework of concepts and assumptions operating in a particular period. "Ordinary science" does its experimental work within the mental world of a particular paradigm, until a new paradigm displaces the old one and throws up new problems and establishes new assumptions. Jauss uses the term "horizon of expectations" to describe the criteria readers use to judge literary texts in any given period.... For example, if we consider the English Augustan period, we might say that Popes's poetry was judged according to criteria, naturalness, and stylistic decorum (the words should be adjusted according to the dignity of the subject) which were based upon values of Popes's poetry. However this does not establish once and for all the value of Pope's poetry. During the second half of the eighteenth century, commentators began to question whether Pope was a poet at all and to suggest that he was a clever versifies who put prose into ryrhyming couplets and lacked the imaginative power required of true poetry. Leapfrogging the ninteenth century, we can say that modern readings of Pope work within a changed horizon of expectations: we now often value his poems for their wit, complexity, moral insight and their renewal of literary tradition. In Jauss's view it would be equally wrong to say that a work is universal, that its meaning is fixed forever and open to all readers in any period: 'A literary work is not an object which stands by itself and which offers the same face to each reader in each period. It is not a monument which reveals its timeless essence in a monologue.' This means, of course, that we will never be able to survey the successive horizons which flow from the time of a work down to the present day and then, with an Olympian detachment. to sum up the works final value or meaning. To do so would be to ignore the historical situation. Whose authority are we to accept? That of the readers? The combined opinion of readers over time? (Raman Seldon. P,52-53)

. اس اقتباس کے بعد پروفیسر سیلڈن ویلیمز بلیک کی مثال دینے لگتے ہیں اور نارنگ بھی اپنے سرقے کا کام جاری

رکھتے ہیں، آئیں نارنگ کے مجرمانہ فعل کو دیکھتے ہیں،’’روبرٹ یاؤس نے نظریہ قبولیت کے ذریعے ’قاری اساس تنقید‘ کو تاریخی جہت عطا کی ہے۔ یاؤس نے روسی ہےئت پسندی (جس نے بڑی حد تک تاریخ کو نظر انداز کیا تھا) اور سماجی نظریوں میں (جو متن کو نظر انداز کرتے ہیں)ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۱۹۶۰ میں جب جرمنی میں اضطراب کا دور تھا۔ یاؤس اور اس کے ساتھیوں نے جرمن ادب کو پھر سے کھنگالا، اور جرمن ادبی روایت پر نئی نظر ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یاؤس کی اصطلاح ’ زمرہ‘ (PARADIGM) دراصل سائنس کے فلسفی ٹی ایس کوہن سے مستعار ہے اس سے یاؤس تصورات اور معروضات کا وہ مجموعہ مراد لیتا ہے جو کسی بھی عہد میں کارفرما ہوتا ہے۔ سائنس میں ہمیشہ تجرباتی کام کسی ایک خاص ’زمرے‘ کی ذہنی دنیا میں انجام پاتا رہتا ہے حتٰی کہ تصورات کا کوئی دوسرا ’زمرہ‘ پہلے ’زمرے‘ کو بے دخل کردیتا ہے، اور اس طرح نئے تصورات اور نئے مفروضات قائم ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی عہد کے قارئین متن کی پرکھ کے لیے جن قوانین کا استعمال کرتے ہیں، یاؤس ان کے لیے ’افق اور توقعات‘ (HORIZON AND EXPECTATIONS) کی اصطلاحیں استعمال کرتا ہے جو’ زمرے‘ کے سائنسی تصور پر مبنی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ مثال کے طور پر اگر ہم انگریزی شاعری کے آگسٹن دور پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ پوپ کی شاعری اس وقت کے ادبی افق اور توقعات کے عین مطابق تھی۔ چنانچہ اس وقت اس کی سلاست و قدرت، شائستگی اور شکوہ، اور اس کے خیالات کے فطرت کے مطابق ہونے کی داد دی گئی۔تاہم اس زمانے کے ادبی افق اور توقعات کی رو سے پوپ کی شاعری کی قدر و قیمت ہمیشہ کے لیے طے نہیں ہوگئی۔ چنانچہ اٹھارویں صدی کے نصف دوئم کی انگریزی تنقید میں اکثر یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ کیا پوپ واقعی شاعر تھا، یا وہ محض ایک قادر الکلام ناظم تھا جس نے نظم میں قافیے ڈال کر اسے منظوم کردیا۔سچی شاعری کے لیے جو تخیل شرط ہے، کیا وہ پوپ کے یہاں ہے یا نہیں۔ بیسویں صدی میں اس بارے میں پھر تبدیلی ہوئی۔ ادھر دیکھیں تو پوپ کی جدید قرأتیں ایک بدلے ہوئے ذہنی افق اور دوسری طرح کی توقعات کے ساتھ ملتی ہیں۔ آج کل پوپ کی شاعری کو ایک ہی رنگ میں دیکھا جارہا ہے۔ یعنی صناعی کے علاوہ اس میں مزاح، اخلاقی بصیرت اور روایت کی علم برداریت، یہ سب خوبیاں تلاش کرلی گئی ہیں، اور قدر کی نگاہوں سے دیکھی جانے لگی ہیں‘‘( نارنگ، ص، ۳۰۴۔۳۰۳)۔ نارنگ کا سرقہ ابھی جاری ہے، صرف صفحہ تبدیل کرنے سے عیاں ہوجاتا ہے۔ توجہ فرمائیں، اور اس کے بعد نارنگ کی تعریفوں کے پل باندھنے کی بجائے اس حرکت کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کی اخلاقی و ادبی جرأت پیدا کریں۔ سیلڈن کا پیراگراف وہی ہے جو اوپر پیش کیا گیا ہے۔نارنگ کا سرقہ اسی کا تسلسل ہے

۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

سرقے کا کوہ ہمالیہ....دوسرا حصہ


Filed under | Leave a Comment


عمران شاہد بھنڈر....برمنگھم

سرقے کا کوہ ہمالیہ........ دوسرا حصہ

نارنگ نے اسی انٹرویو میں ایک اور دلچسپ نکتہ اٹھایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’بات کا زور بنائے رکھنے کے لئے اصل کے Quotationsبھی جگہ جگہ دیے ہیں تاکہ فلسفیانہ نکتہ یا مفکرین کی بصیر پوری قوت سے اردوقاری تک منتقل ہوسکے‘‘(ص،۱۱)۔ اس اعتراف سے ان کی بدنیتی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ اس کتاب میں انگریزی کے Quotations موجود ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انگریزی کے یہ حوالہ جات نارنگ کے مابعد جدید مفکروں کے براہِ راست مطالعے کا نتیجہ نہیں ہیں۔ قارئین آگے چل کر دیکھیں گے کہ سیلڈن کی جس کتاب سے نارنگ نے جن ابواب کا سرقہ کیا ہے، ان ابواب میں جو Quotations سیلڈن نے قاری کی افہام و ترسیل کے لیے مابعد جدید مفکروں کی کتابوں سے استعمال کیے ہیں، نارنگ نے بھی ان کو بالکل اسی طرح لکھ دیا ہے۔ یہ حوالہ جات سیلڈن یا دوسرے شارحین نے پیش کیے ہیں۔ نارنگ انٹرویو میں دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں۔

راقم نے اپنے پہلے مضمون میں یہ واضح کردیا تھا کہ Quotations کا اس طرح استعمال قاری کو احمق بنانے کی غرض سے کیا گیا ہے۔ پوری کتاب میں کوئی ایک بھی اقتباس ایسا نہیں ہے جسے براہ راست اصل ذرائع یعنی نظریہ سازوں کی کتاب سے پیش کیا گیا ہو۔ تماشہ یہ ہے کہ فوکو، دریدا بارتھ اور دوسرے کئی مفکروں کی کتابوں کی تفصیل بھی دے رکھی ہے مگر ان کتابوں سے کوئی ایک اقتباس تک پیش نہیں کیا گیا۔اگر کوئی بھی اقتباس پیش ہی نہیں کیا گیا تو مصادر میں ان کتابوں کی تفصیل پیش کرنے کی وجہ کیا ہے؟ہماری سمجھ میں صرف یہ وجہ آتی ہے کہ نارنگ نے پوری تیاری کے ساتھ قاری کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے نارنگ کی کتاب کے ہر ایک صفحے کو انتہائی توجہ سے پڑھا ہے، اور مغربی نظریہ سازوں (دریدا، فوکو، لاکاں، بارتھ وغیرہ) اور ان کے شارحین ( نورس، سیلڈن، ہاکس، بیلسی وغیرہ) کی کتب کا بھی توجہ سے مطالعہ کیا ہے۔ نارنگ کی کتاب میں’’ ساختیات ، پس ساختیات اور رد تشکیل‘‘ سے متعلق ’بحث‘ صفحات ۳۳۴۔۳۳ تک جاری ہے۔ ہمارا یہ چیلنج ہے کہ صفحہ ۳۳ سے لے کر صفحہ ۳۳۴ تک (ساختیات اور مابعد ساختیات کی بحث سے متعلق)صرف بیس صفحات ایسے نکال کر دکھا دیے جائیں جو مغربی مفکروں کی کتابوں کا لفظ بہ لفظ ترجمہ نہ ہوں۔ نارنگ یا ان کا کوئی بھی حواری اگر بیس سے زائد صفحات پیش کرتا ہے تو ہم محض ایک ہفتے کے اندر وہ تمام حوالے پیش کردیں گے جو نارنگ

کے لفظ بہ لفظ ترجمے کو ایک بار پھرثابت کریں گے۔ نارنگ نے البتہ انتہائی چالاکی سے ایک چال یہ کھیلی ہے کہ کہیں کہیں یا دو فقروں میں غالب وغیرہ کا نام بھی لیا ہے۔ اس کا محرک یہ ہے کہ جہاں کہیں سیلڈن یا کسی دوسرے شارح نے جان ملٹن یا ورڈزورتھ کی مثال پیش کی، نارنگ نے وہاں پر غالب کو داخل کرلیا، لیکن ان فقروں کی تعداد اس قدر محدود ہے کہ ان کو ملا کر بھی بیس صفحات مکمل نہیں ہوسکتے۔ نارنگ کے سرقے کے بارے میں ہمارے انکشاف کو گروہ بندی کی آڑ میں چھپانے کا رجحان بھی نظر آرہا ہے۔ اس سلسلے میں حیدر قریشی نے درست لکھا ہے کہ یہ خالصتاََ علمی و ادبی معاملہ ہے، اسے پروپیگنڈے سے نہیں بلکہ دلائل سے حل کیا جاسکتا ہے۔ راقم اس سلسلے میں دوٹوک الفاظ میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس سرقے کا کسی بھی گروہ بندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تمام کتاب کا سرقہ تقریباََ بارہ برس تک جس طرح گروہ بندیوں کے شکار ادیبوں اور نقادوں کی نظروں سے اوجھل رہا،اس سے ان کی علمیت کا اصل چہرہ بھی سامنے آجاتا ہے۔

اس سلسلے میں دو سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں: اول یہ کہ یا تو یہ خود ساختہ ادیب و نقاد جانتے تھے کہ نارنگ نے یہ سرقہ کیا ہے، مگر خود بھی اسی کشتی کا سوار ہونے کی وجہ سے خاموش رہے۔ دوئم یہ کہ ان نقادوں کا اتنا مطالعہ ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ سرقے کی حقیقت تک پہنچ سکتے۔ اگر مطالعہ نہیں تھا تو سماجی اور تنقیدی نظریات کے بارے میں کم علمی کی وجہ سے ان کے ’بڑے نقاد‘ ہونے پر بھی سوالات قائم کیے جاسکتے ہیں۔ اگر ان کا مطالعہ وسیع ہے اور گروہ بندیوں میں مقید یہ نقاد خود ساختہ نقاد نہیں ہیں، تو پھر بحیثیت ادیب و نقاد ان کے ادبی و تنقیدی کردار کو شک سے بالا قرار دینا کم از کم ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہمارا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ نارنگ کو بدنام کیا جائے، بدنام کرنے یا ہونے کا پہلو کسی کی ذات سے جڑا ہوتا ہے۔ اس وقت نارنگ کو اپنی ادبی ساخت کے حوالے سے اگرکسی سے کوئی خطرہ درپیش ہے تو وہ صرف سارق نارنگ ہی سے ہے۔ جس دن گوپی چند نارنگ نے ادبی دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارق نارنگ کا سامنا کرلیا، تو نقاد نارنگ ہی سارق نارنگ کو دفن کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ نارنگ نے بہرحال کچھ اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کردیے ہیں، جن کا ادب و علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نارنگ اور ان کے حواریوں کی جانب سے شائع ہونے والی تحریر میں شخصیت پرستی کچھ اس انتہا کو پہنچتی دکھائی دی ہے کہ ادبی اقدار پارہ پارہ ہوتی نظر آرہی ہیں۔ان ’تحریروں‘ میں ہمارے مضامین کے مطالعے کے بغیر محض نارنگ کے مشورے ہی سے اصل نکات سے توجہ ہٹانے کے لیے، حقائق کو مسخ کرتے ہوئے ،مصنف کی ذات کو موضوع بنایا جارہاہے، اس لیے ضروری یہ ہے کہ نارنگ اور ہمنوا اور سنجیدہ قارئین کی توجہ ایک بار پھر نارنگ کے سرقے اور نارنگ کی غلط ما بعد جدید تعبیروں پر مرکوز رکھیں، تاکہ علمی و فکری بددیانتی کا یہ پہلو، جسے نارنگ اور حواریوں نے تکریم بخشنے کی کوشش کی ہے ،کہیں ذاتیات اور فرقہ پرستی کی نظر نہ ہوجائے۔نارنگ کے حواریوں کی تحریریں راقم کے مضامین کے مطالعے کا ماحصل نہیں ہیں۔ محض ادبی سازش کا حصہ ہیں۔ علمی و فکری اعتبار سے ان ’تحریروں‘ کا جواب دینا قطعاََ غیر ضروری ہے۔ ان تحریروں میں نارنگ یا سرقے کی مدح سرائی کے علاوہ ذاتی حوالوں سے لکھے گئے مواد میں حتی المقدور حقائق کو مسخ کیا جارہا ہے، اس لئے بعض موقعوں پر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ حقائق کو درستگی کے ساتھ پیش کیا جائے۔ نارنگ کے ایک حواری حیدر طبا طبائی نے انتہائی دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارا تعلق ’’جماعت احمدیہ‘‘ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا نارنگ کے سرقے کے متعلق کیے گئے انکشافات سے کیا تعلق ؟ادبی و علمی معاملات کو فرقہ پرستی کی نذر کرنا واقعی نارنگ اور حواریوں سے بہتر اور کوئی نہیں جانتا۔ اس طرح کے انتہائی مضحکہ خیز ہتھکنڈے یقیناََ وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جو خود پر ادب کا لبادہ تو اوڑھ لیتے ہیں، لیکن اپنی سرشت میں پیوست غیر ادبیت کے پہلوؤں سے نجات نہیں پاسکتے۔اس موقع پر یہ جاننا ضرروی نہیں کہ کس کا کس فرقے یا مذہب سے کیا تعلق ہے، کیونکہ یہ بحث تو ادب و تنقید کے بارے میں ہورہی ہے، اور ادب ان لوگوں کے لیے ’اعلیٰ آدرشوں‘ اور ’’آفاقی اقدار کا ترجمان‘‘ ہوتا ہے۔

ادب کی بحث میں’ جماعت احمدیہ‘ ہو یا ’جماعت جعفریہ‘، جماعیت برہمنیہ ہو یا ’جماعت شودریہ ‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اقبال ہی کو دیکھیں کہ فرقہ پرستوں نے اس شریف انسان کو جماعت کافریہ سے جوڑنا شرع کردیا۔ خود نارنگ کو دیکھیں کہ کس طرح بھگوان کی منشا کے خلاف جاکر مغربی ملحد مفکروں کی تھیوریوں کو ’پرشاد‘ سمجھ کر قبول کر رہے ہیں۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ادب کی بحث میں اگر کسی فرقے کو تضحیک کی نظر سے دیکھنا ہے تو وہ صرف فرقہ سارقیہ ہے ، دورِ جدید میں جس کے سب سے اہم نمائندے اردو کے ماہرِ لسانیات، ہندوستان کے معتبرترین اعزازات سے نوازعے ہوئے شری گوپی چند نارنگ ہیں۔ فرقہ سارقیہ سے نفرت کرنا سچے اہل قلم لوگوں کی مجبوری ہے۔ یہ نفرت دائمی نہیں ہے، یہ سارقوں کی اپنے سرقے کو قبول کرنے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساسِ ندامت کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی۔ اس مضمون میں ہماری یہ کوشش ہے کہ سرقے اور ترجمے سے متعلق کچھ مزید حقائق سامنے لائے جائیں۔ اس سے قبل بھی یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ نارنگ نے رامن سیلڈن کی کتاب Contemporary Literary Theory میں سے بہت زیادہ سرقہ یا ترجمہ(تسلیم کرنے کی صورت میں) کیا ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق نارنگ نے سیلڈن کی کتاب کا پہلا اور آخری باب چھوڑ کر تقریباََ تمام کتاب کا ترجمہ کردیا ہے۔ایگلٹن، جیمسن، یاؤس اور رفارٹےئر وغیرہ پر لکھا گیا ایک ایک لفظ سیلڈن کی کتاب میں سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ ان ابواب پر نظر ڈالتے ہیں جو اس سے قبل کہیں بھی پیش نہیں کیے گئے۔ اور پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ شخص سارق ہے یا مترجم؟ سیلڈن لکھتے ہیں۔

Eagleton, like Althusser, argues that criticism must break with its 'ideological prehistory' and become a 'science'. The central problem is to define the relationship between literature and ideology, because in his view texts do not reflect historical reality but rather work upon ideology to produce an effect of the 'real'. The text may appear to be free in its relation to reality (it can invent characters and situations at will), but it is not free in its use of ideology. 'Ideology' here refers not to formulated doctrines but to all those systems of representations (aesthetic, religious, judicial and others) which shapes the individuals mental pictures of lived experience. The meanings and perceptions produced in the text are a reworking of ideologie's on working of reality. This means that the text works on reality at two removes. Eagleton goes on to deepen the theory by examining the complex layering of ideology from its most general pre-textual forms to the ideology of the text itself. He rejects Althusser's view that literature can distance itself from ideology; it is a complex reworking of already existing ideological discourses. However, the literary result is not merely a reflection of other ideological discourses but a special production of ideology. For this reason criticism is concerned not with just the laws of literary form or the theory of ideology but rather with 'the laws of the production of ideological discourses as literature'. Eagleton surveys a sequence of novels from George Eliot to D.H Lawrence in order to demonstrate the interrelations between ideology and literary form.... Eagleton examines each writer's ideological situations and analyses the contradictions which develope in their thinking and the attempted resolutions of the contradictions in their writing. After the destruction of liberal humanism in the first world war Lawrence developed a dualistic pattern of 'female' and 'male' principles. This antithesis is developed and reshuffled in the various stages of his work, and finally resolves in the characterisation of mellors (Lady Chatterley's Lover) who combines impersonal 'male' power and 'female' tenderness. This contradictory combination, which takes various forms in the novels, can be related to a 'deep-seated ideological crises' within contemporary society. The impact of poststructuralist thought produced a radical change in Eagleton's work in the late 1970s. His attention shifted from the 'scientific' attitude of Althusser towards the revolutionary thought of Brecht and Benjamine. This shift had the effect of throwing Eagleton back towards the classic Marxist revolutionary theory of the Thesis on Feuerbach (1845): 'The question whether objective truth can be attributed to human thinking is not a question of theory but is a practical question...The philosophers have only interpreted the world in various ways; the point is to change it'. Eagleton believes that 'deconstructive' theories, as developed by Derrida, Paul de Man and others can be used to undermine all certainties, all fixed and absolute forms of knowledge..............Raman Seldon, Contemporary Literary Theory, 3rd ed, Britain, 1993,P, 92-93.

واضح رہے کہ سیلڈن کا ایگلٹن پر یہ

مضمون ختم نہیں ہوا(ہم دیکھیں گے کہ نارنگ کا سرقہ بھی ختم نہیں ہوتا)، بلکہ سیلڈن کی کتاب میں صفحہ نمبر ۹۵ تک جاتا ہے۔ اس کے بعد سیلڈن نے جیمسن پر بحث کا آغاز کردیا ہے۔یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشیں رہے کہ ایگلٹن کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے یہ سیلڈن کا لکھا ہوا ہے۔ سیلڈن نے ایگلٹن کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور قاری کے لیے چند صفحات پر ہی ’’افہام و ترسیل‘‘ کو کو ممکن بنادیا۔ایسا لگتا ہے کہ نارنگ افہام و ترسیل کا مطلب بھی نہیں جانتے۔ نارنگ کے انتہائی علمی و فکری سطح پر معذور حواری بھی نارنگ کا یہی اقتباس پیش کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ علمی بددیانتی کے تسلسل نے علمی و ادبی روح تک ان کے باطن میں پیدا نہیں ہونے دی۔ ایگلٹن کے حوالے سے نارنگ کے برعکس ، یہ تجزیہ اور’’افہام و ترسیل‘‘ پروفیسر سیلڈن کی ہے۔ نارنگ کے لفظ بہ لفظ ترجمے کو قاری کے سامنے لانا ضروری ہے۔نارنگ کا ’’بے دھڑک‘‘ ہونا ملاحظہ کریں’’التھیوسے سے اتفاق کرتے ہوئے ایگلٹن کہتا ہے کہ’تنقید کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئیڈیولاجیکل ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کرے اور سائنس بن جائے۔‘ اصل مسئلہ ادب اور آئیڈیالوجی کے رشتے کا تعین ہے، کیونکہ ادب تاریخی حقیقت کا عکس پیش نہیں کرتا، بلکہ آئیڈیالوجی کے ساتھ عمل آرا ہوکر حقیقت کا اثر پیدا کرتا ہے۔ متن حقیقت سے اپنے رشتے میں آزاد ہے، وہ کرداروں اور صورتحال کو آزادانہ خلق کرسکتا ہے، لیکن آئیڈیالوجی سے اپنے رشتے میں آزاد نہیں۔ آئیڈیالوجی سے صرف وہ سیاسی تصورات اور اصول و ضوابط مراد نہیں جن کا ہم شعور رکھتے ہیں ، بلکہ بشمول جمالیات، الہیات، عدلیات، وہ تمام نظامات جن کی روح سے فرد ’جھیلے ہوئے تجربے‘ کا ذہنی تصور قائم کرتا ہے۔ متن کے ذریعے رونما ہونے والے معنی اور تصورات دراصل اس تصورِ حقیقت کا بازِ تصور ہوتے ہیں جنھیں آئیڈیالوجی نے قائم کیا ہے۔ اس طرح گویا متن میں حقیقت کا تصور دو طرح سے در آتا ہے۔ ایگلٹن متن سے پہلے کی اور بعدکی آئیڈیالوجی کی شکلوں اور ان کے پیچیدہ رشتوں کا تجزیہ کرکے اپنے نظریے میں مزید وسعت پیدا کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے التھیوسے کا یہ کہنا مناسب نہیں کہ ادب آئیڈیالوجی سے فاصلہ پر ہوتا ہے

۔بقول ایگلٹن ادب تو آئیڈیالوجی کے مباحث کی بازیافت ہوتا ہے۔بہرحال نتیجتاََ ادب آئیڈیالوجی کے مباح کے عکس کے طور پر نہیں، بلکہ آئیڈیالوجی کی ایک خاص ’پیداوار‘ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔بس تنقید کا کام صرف ہےئت کے اصول و ضوابط کا یا آئیڈیالوجی کا نظریاتی تعین نہیں، بلکہ ان قوانین کا طے کرنا بھی ہے، جن کی رو سے آئیڈیولاجیکل مباحث ادب کی ’پیداوار‘ میں ڈھلتے ہیں۔ایگلٹن جارج ایلیٹ سے ڈی ایچ لارنس تک متعدد ناولوں کا مطالعہ کرتا ہے اور دکھاتا ہے کہ آئیڈیالوجی ادبی ہےئت میں کیا رشتہ ہے۔ ایگلٹن ہر مصنف کے آئیڈیولاجیکل موقف کا جائزہ لیتا ہے اور تجزیہ کرکے ان کے افکار کے تضادات کو ظاہر کرتا ہے، اور یہ کہ بلآخر ان تضادات کو حل کرنے کی کیا کوشش کی گئی۔پہلی جنگ عظیم کے بعد لارنس کے یہاں ’مردانہ‘ اصول اور ’نسوانی‘ اصول کی ثنویت ملتی ہے، بہرحال اس کا ’ردمقدمہ بھی رونما ہوتا ہے‘ اور کئی منزلوں سے گزرتے ہوئے بلآخر ’لیڈی چیٹر لیز لور‘ میں میلرز کے کردار میں حل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یعنی میلرز کا کردار غیر شخصی سطح پر ’مردانہ‘ قوت اور ’نسوانی‘ نرمی دونوں کا بیک وقت حامل ہے۔بقول ایگلٹن اس طرح کے متضاد ارتباط اس اندرونی آئیڈیولاجیکل کرائسس کو ظاہر کرتے ہیں جس کا سماج شکار ہے۔۱۹۷۰ کے بعد پسِ ساختیاتی فکر کے باعث ایگلٹن کے کام میں بنیادی تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ اب اس کی توجہ التھیوسے کے سائنسی رویے سے ہٹ کر بریخت اور بینجمن کی انقلابی فکر پر مرکوز ہوگئی۔ نتیجتاََ ایگلٹن


مارکس کے کلاسیکی انقلابی نظریےThesis on Feuerbach (1845)

.''THE QUESTION WHETHER OBJECTIVE TRUTH CAN BE ATTRIBUTED TO HUMAN THINKING IS NOT A QUESTION OF THEORY BUT AIS A PRACTICAL QUESTION.... THE PHILOSOPHERS HAVE ONLY INTERPRETED THE WORLD IN VARIOUS WAYS; THE POINT IS TO CHANGE IT'

'. ایگلٹن کو اس سے اتفاق ہے کہ نظریہ رد تشکیل جس کو دریدا ، پال دی مان اور دوسروں

نے قائم کیا ہے، اس کو پہلے سے طے شدہ معنی کو بے دخل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے‘‘ (نارنگ، ۲۶۵۔۲۶۴)۔واضح رہے کہ نارنگ کا سرقہ جاری ہے جو صرف ایگلٹن کی بحث میں ہی صفحہ نمبر ۲۶۷ تک چلا جاتا ہے۔ ’’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات ‘‘ کی کتاب دو کے پانچویں باب میں ’’مارکسیت، ساختیات اور پس ساختیات ‘‘ کے عنوان سے ایگلٹن وغیرہ پر لکھا گیا تمام مواد لفظ بہ لفظ اٹھالیا گیا ہے، وہاں پر صفحات کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ مصادر میں کتاب دو کے پانچویں باب کی تفصیل صفحہ ۳۳۲ پر دی گئی ہیں، وہاں پر بھی صفحات کی تفصیل موجود نہیں ہے۔گوپی چند نارنگ نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’جہاں ضروری تھا وہاں تلخیص اورترجمہ بھی کیاہے۔ بات کا زور بنائے رکھنے کے لئے اصل کے Quotationsبھی جگہ جگہ دیے ہیں۔‘‘ مذکورہ بالا اقتباس پر توجہ مرکوز کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ نارنگ نے تمام و کمال اس کو سیلڈن کی کتاب سے ترجمہ کردیا ہے، مگر اس اقتباس میں ایک Quotation انگریزی میں دی گئی ہے، جس سے یہ تائثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ صرف یہی ایک اقتباس کسی دوسرے مصنف سے ماخوز ہے، نارنگ نے انٹرویو میں کہا ہے کہ جہاں ضرورت محسوس کی گئی وہاں ’’بات کا زور بنائے‘‘ رکھنے کے لیے Quotation پیش کیے گئے ہیں، جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس انداز میںQuotation کا استعمال بات کا ’زور بنائے رکھنے‘ کے لیے نہیں، بلکہ ذہنی طور پر اپاہج حواریوں میں ’اپنا زور بنائے‘ رکھنے کی کوشش ہے، جس میں ان کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔مذکورہ بالا اقتباس سے ایسا لگتا ہے کہ اردو میں لکھا گیا ہر لفظ نارنگ کا تجزیہ ہے، یہ کہنا ادبی مفہوم میں کسی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرنے کے مترادف ہوگا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

سرقے کا کوہ ہمالیہ....پہلا حصہ


Filed under | Leave a Comment


عمران شاہد بھنڈر.....برمنگھم

سرقے کا کوہ ہمالیہ ....پہلا حصہ

جب سے ہم نے گوپی چند نارنگ کے سرقے کا انکشاف کیا ہے اس کے بعد سے اب تک نارنگ کے حواریوں کی طرف سے جو جوابات سامنے آئے ہیں، ان میں نارنگ اور ہمنوا یہ ثابت نہیں کرپائے کہ نارنگ نے سرقے کا ارتکاب نہیں کیا، ہم اس سے قبل بھی اس ضمن میں لکھ چکے ہیں کہ اصل مسئلہ نارنگ کے سرقے کا انکشاف اور اس کے بعد حقیقی ادیبوں سے یہ توقع کرنا ہے کہ اس رجحان کو ادبی جرم گردانتے ہوئے اس انداز میں حوصلہ شکنی کی جائے کہ مستقبل میں آزادانہ تحقیق و تنقیدکا رویہ جنم لے سکے۔ اس سے یہ ہوگا کہ سارقوں کے برعکس محنتی لوگ ادبی میدان میں داخل ہونگے اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔بریخت نے انیسویں صدی کے ناول سے اخذ کیے ہوئے’ اعلیٰ‘ اصولوں کو بیسویں صدی کے آغاز میں جنم لینے والے سماجی و سیاسی تناقضات کے لیے مکمل طور پر غیر ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں ’’پرانی اعلیٰ چیزوں سے آغاز نہیں کرنا بلکہ بدترین نئی چیزوں کو بنیاد بنانا ہے۔‘‘ سرقہ اعلی خیالات کا احاطہ کررہا ہو یا غلیظ خیالات کو پروان چڑھا رہا ہو، سرقہ تو سرقہ ہی رہتا ہے، جو’ خدمت‘ اور تکریم کے برعکس تذلیل و رسوائی کا باعث بنتا ہے۔ مذکورہ بالا نکتے کی کئی بار وضاحت کے باوجود نارنگ اور ان کے حواریوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ سرقے کے مسئلے کو مخفی رکھا جائے اور سرقے کی جگہ شخصیت پرستی اور تضحیکِ شخصیت میں سے کوئی ایک زاویہ اختیار کرکے اردو میں ایک مخصوص گروہ کی قائم کی ہوئی برسوں سے چلی آرہی روایت پر کاربند رہتے ہوئے،

خود کو اس روایت کا پاسبان سمجھتے ہوئے ،اس غلیظ روایت پر فخر کیا جائے ۔یہ بھی درست ہے کہ کم تعداد ہونے کے باوجود اردو دنیا میں ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس مکروہ روایت کو تضحیک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔جدید ادب کے مدیرحیدر قریشی پر بھی کیچڑ اچھالنے کا آغاز کردیا گیا ہے، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ ادب کے ایک سنجیدہ قاری ہیں اور ان لوگوں سے زیادہ ادبی اقدار کا عملی ثبوت دیتے ہیں جو عمل کے برعکس ’اعلیٰ‘ نظری مباحث میں بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ حیدر قریشی کی بھی یہ خواہش ہے کہ ان نام نہاد ادیبوں کو بے نقاب کیا جائے جو سرقے کی بنیاد پر بڑے نقاد و شعراء بن چکے ہیں، سرقے کو ناپسندیدہ رجحان کے طور پر دیکھنے میں حرج ہی کیا ہے؟ ہماری جب حیدر قریشی سے شناسائی ہوئی اس سے قبل ہمارے مضامین ’’دی پاکستان پوسٹ لندن، ۲۰۰۵‘‘ اور ’’سالنامہ نیرنگِ خیال ۲۰۰۶‘‘ میں شائع ہوچکے تھے۔ہمارے آشکار کیے ہوئے نارنگ کے سرقوں کو اردو ادب میں ایک غلاظت تصور کرتے ہوئے جس طرح حیدر قریشی نے اس حقیقی معنوں میں منفی اور مجرمانہ رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ہمارے مضامین کو دوبارہ شائع کیا ہے، مستقبل میں ان کے اس مثبت اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

تاہم وہ لوگ اس اقدام کی تحسین کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے جو ادب میں اس رہزانہ رجحان کو پروان چڑھانے میں ملوث ہیں، جن حواریوں کے لیے نارنگ کا سرقہ ابھی تک عقدۂ لاینحل ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ابھی تک سرقے اور حقیقی تنقید و تخلیق کے مابین جزوی طور پر بھی امتیاز کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے باطن میں ابھی تک اصل اور نقل کی اضدادی کشمکش بھی شروع نہیں ہو پائی ۔ ان کا سفر یک رخا ہے، ان کے باطن میں اثبات کی امکانی ترکیب کچھ اس انداز میں سلب ہوچکی ہے کہ اس کے بحال ہونے کے امکانات تک مخدوش ہیں۔نارنگ کے حواریوں کی تین مختلف تحریریں ہماری نظر سے گزر چکی ہیں۔ تینوں تحریروں میں سرقے کو نظر انداز کرکے ذاتیات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے، جو قطعی طور پر غیر ادبی رجحان کو برقرار رکھنے کی ایک کوشش ہے۔نارنگ یا ان کے کسی حواری سے ادب میں مثبت اقدار کا رجحان پیدا کرنے کی امید بھی کیسے رکھی جاسکتی ہے؟ ان کے نزدیک خداکو سرقے کا انکشاف کرنے والوں کو’ توفیق‘ دینی چاہیے کہ نارنگ سے بڑا کام کر کے دکھائیں ، ہمیں یہ خبر نہیں کہ نارنگ کو یہ’ توفیق‘

کس نے عطا فرمائی ہے کہ اس قدر دلیری سے انھوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ بہرحال ہم اس قسم کی ’توفیق‘ کو انتہائی معذرت کے ساتھ قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ نارنگ اور ان کے وہ حواری جن کی تحریریں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کو فلسفیانہ اصطلاحات کی تفہیم کے لیے کم از کم دس برس درکار ہیں، نارنگ کو سہارا دینے کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں۔ علمی سطح پر دیکھیں تو یہ لوگ نارنگ کو کیا سہارا دے سکتے ہیں جن کو خود نارنگ کی بیساکھیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اہم نکتہ یہ ہے کہ اب تک اردو دنیا سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص نہ ایسے حوالے پیش کرسکا ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ ہم نے نارنگ کے سرقے سے متعلق جن ابواب کے حوالے رقم کیے تھے وہ صحیح نہیں تھے، اورنہ ہی اس سچ کو اردو دنیا سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص چیلنج کر سکاہے کہ نارنگ کی کتاب میں ساختیات اور پس ساختیات والا حصہ لفظ بہ لفظ ترجمہ نہیں ہے۔ہمارا یہ بھی کہنا ہے کہ مترجم اور سارق بننے میں زیادہ فرق نہیں ہوتا ،

اس فرق کو قائم رکھنے کے لیے متعلقہ ادیب میں سچی ادبی روح کا ہونا ضروری ہوتا ہے، نارنگ کے حوالے سے اس کا مسلسل فقدان نظر آرہا ہے۔اگر نارنگ خود کو سارق تسلیم نہیں کرتے تو کتاب پر بحیثیت مترجم نارنگ کا نام لکھنے پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، جب چند فقرے تک خود تحریر نہیں کیے، ’افہام و ترسیل‘ کے لیے شارحین کی کتابوں کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا گیا ہے تو مصنف ہونے کی دہائی کس لیے دی جارہی ہے؟ سارق کو ’ادب کا کوہ ہمالیہ‘کون کہہ سکتا ہے؟ کوہِ ہمالیہ کا تعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،بشرطیکہ نارنگ کی ’’ادبی میراث‘‘ میں سے سرقے کے پہلو کو حذف کرکے نہ دیکھا جائے۔یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ نارنگ نے بلاشبہ سرقے کا ’کوہِ ہمالیہ‘ تیار کیا ہے۔ ادبی سچائی اور ادبی اقدار کی بات وہ لوگ کیسے کرسکتے ہیں جو علمی و انسانی سچائی سے کوئی واسطہ تک نہیں رکھتے۔جو اپنی تحریروں میں سماجی و اخلاقی اقدار کے برعکس خود ساختہ ادبی اقدار کی بنیاد پر ادب کا دربار عالیہ تعمیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ گروہ بندیوں میں حواریوں کی حیثیت کسی ضمیر فروش شخص سے زیادہ ہرگز نہیں ہوتی، جبکہ سچے لوگوں کے لیے ’ادبی‘ شخصیات کی صرف اتنی اہمیت ہوتی ہے، جس حد تک شخصیات ادبی اقدار کے معیار پر پورا اترتی ہیں۔حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ادب برائے ادب کا واویلا کرنے والے ’ادب ‘ کو اہمیت دیتے ہیں، لیکن ادیبوں کی ادبی ’میراث‘ کا تعین ذاتی تعلقات کی بنا پر کرتے ہیں۔ نارنگ کے حوالے سے دیکھیں تواس قسم کے رویوں کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری خود نارنگ پر عائد ہوتی ہے کہ کیوں انھوں نے سرقے سے متعلقہ صورتحال کو پیچیدہ بنا رکھا ہے؟ گزشتہ برس سرقے سے متعلق نکات کے حوالے سے نارنگ سے ایک سوال کیا گیا جس کا نارنگ نے مشکوک سا جواب دیا۔پہلے سوال کی جانب چلتے ہیں:’’کہاجاتاہے کہ ساختیاتی تنقید کو اردو ادب میں پیش کرنے والوں نے اُسے ترجمہ یا اخذ وتلخیص کی صورت میں پیش کیا ہے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں‘‘نارنگ نے سوال کا دو ٹوک اور متعلقہ جواب دینے کی بجائے اردو کے مضمون نویسوں کے لیے اپنے مذکورہ انٹرویو میں ’’شہرہ آفاق تصنیف‘‘ کے بارے میں صفائی پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں

کہ ’’میرے سامنے ایسے نمونے تھے جہاں لوگ بات توفلسفے کی کرتے ہیں لیکن بہت جلد تخئیل کے پروں سے اڑنے لگتے ہیں اور ’ایجاد بندہ ‘کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے اصل متن سے زیادہ خودکونمایاں کرنے میں لگ جاتے ہیں یاپھر اپنے اسلوب کاشکار ہوکرکم وبیش انشائیہ لکھنے لگتے ہیں ‘‘ (ص،۱۱)۔نارنگ صاحب اگر وہ انشائیہ لکھنے لگتے ہیں تو لکھنے دیں، آپ اپنے سرقے کی وضاحت کریں۔سوال تو آپ سے کیا گیا ہے اور آپ نے تسلیم کیا ہے کہ آپ نے ’’ترجمہ و تلخیص‘ ‘بھی کی ہے۔ یہ کیا مہمل جواب ہے کہ’’ ترجمہ و تلخیص میں نے کی ہے ‘‘ محض اس لیے کہ اہلِ اردو انشائیہ لکھنے لگتے ہیں؟ کیا انٹرویو کو مزاح کے کسی پروگرام کے طور پر پیش کرنا تھا؟مزید فرماتے ہیں ’’ ایک تو اصطلاحیں نہیں تھیں دوسرے نئے فلسفیوں کااندازایساپیچیدہ،معنی سے لبریز اور گنجلک ہے کہ اسے سائنسی معروضی صحت کے ساتھ قاری تک منتقل کرنا زبردست مسئلہ تھا ‘‘(ص،۱۱)۔ اس سے زیادہ کم فہمی پر مبنی اقتباس راقم نے اپنی تمام زندگی میں نہیں پڑھا۔ جو شخص مغربی تھیوری کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کرتا ہے وہ سائنسی معروضیت کی بات ہی کیسے کرسکتا ہے؟ ہندوستان میں پروگریس پریس یا Penguin کی شائع شدہ کوئی ڈکشنری دستیاب ہوگی، اس طرح کی اصطلاحات کے استعمال سے قبل اس قسم کی ڈکشنریوں کا مطالعہ ہی فرما لیا ہوتا۔ شری نارنگ صاحب اگر آپ کے پاس ’اصطلاحیں نہیں تھیں تو اس میں دوسروں کا کیا قصور ہے؟ دوسروں کا حوالہ دیکر، ان کے نقائص نکال کر اپنی غلطی پر پردہ کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟ اس سے مضحکہ خیز بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص زید یہ کہے کہ اس نے سرقہ اس لیے کیا تھا کہ دوسرے شخص بکر کو لکھنا نہیں آتا۔ اسے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر وہ سرقہ نہ کرتا تو وہ خود ’تخئیل کے پروں سے اڑنے لگتا۔‘‘ ان اقتباسات کودیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے

کہ اس وجہ سے نارنگ نے سرقے کا ارتکاب کیا تاکہ وہ خود کو خود ساختہ مضمون نویسوں اور نام نہاد نقادوں سے ممیز کرسکیں، ممیز ہونے کے پہلو کو قبول کیا جاسکتا ہے، مگر اس امتیاز کی گہرائیوں میں سرقہ پیوست ہے۔ اگر وہ سرقے کا ارتکاب نہ کرتے تو پھر دوسروں سے خود کو الگ کیسے کرسکتے تھے؟اس کا جواب دینا باقی ہے۔ حقیقت میں اس اقتباس میں اردو سے تعلق رکھنے والے نقادوں کا احاطہ کیا گیا ہے، مگر خود کو سرقے ہی سے ان سے الگ رکھا گیا ہے۔ یہ اقتباس جہاں دیگر نقادوں کی علمی بصیرت کو عیاں کرتا ہے وہاں نارنگ کی اہلیت کو بھی کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ اسی لیے اوپر کہا گیا ہے کہ نارنگ اور حواریوں کو زیرِ سرقہ نہیں بلکہ زیرِ تعلیم رہنے کی اشد ضرورت ہے۔تاہم نارنگ نے غلط موقع پر یہ کہہ کر کہ’’ فلسفے میں سائنسی معروضیت درکار ہوتی ہے‘‘ (ص،۱۱)، اپنی کم علمی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ سائنسی معروضیت کی اس حد تک مہمل تعبیر کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ نارنگ سرقے کے ارتکاب کے بعد صورتحال کو پیچیدہ یا ابہام میں رکھنے کے لیے جو کچھ بھی کہیں گے، اس سے ان کے فکری تضادات مزید نمایاں ہوتے چلے جائیں گے۔ نارنگ نے جو دلیل استعمال کی ہے اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ فلسفہ علمیات میں ’سائنسی معروضیت‘ کا ذکر کر رہے ہیں یا پھر فلسفہ جمالیات میں انھیں ’سائنسی معروضیت‘ درکارہے؟ مابعد جدیدیت میں زبان سے الگ کسی بھی معروضی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاتا، جبکہ جدلیاتی فلسفوں میں معروضی حقیقت انسانی سبجیکٹ سے الگ، اپنی حرکت میں موجود رہتی ہے۔ نارنگ کے کچھ ایسے بھی اقتباسات موجود ہیں جن میں وہ ’’پورے وثوق ‘‘سے عرض کرنا چاہتے ہیں ،کہ تھیوری یعنی ادبی نظریہ سازی یا فلسفہ ادب ایک مکمل مثالی (آدرشی )صورتحال ہے‘‘ ۔(مابعد جدیدت پرمکالمہ،ص،۵۰)۔ اس دعوے سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ معروضیت نارنگ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ان کے اس فقرے میں رومانوی جمالیات کی وہ گونج سنائی دے رہی ہے جو کانٹین فلسفے سے شروع ہوئی اور مابعد جدیدیت تک پہنچی۔ نارنگ نے تھیوری کو معروضی عمل سے کیسے الگ کرلیا

اور اس کے بعد محض اپنے سرقے کے دفاع کے لیے ’سائنسی معروضیت‘ کی اصطلاح کو کیوں تراش لیا؟ اس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔اگر ہم یہ سمجھیں کہ نارنگ کے ذہن میں کوئی بھی اصطلاح واضح انداز پر موجود نہیں ہے، وہ شعرا ہی کی طرح تھیوری یا پھر فلسفہ جمال کو بھی کسی ’کیفیت‘ کے اثر کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، یا پھر یہ سمجھیں کہ وہ فلسفے کی بنیاد پر سائنسی معروضیت پر یقین رکھتے ہیں؟ تاہم یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ دونوں رویے و ترجیحات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ اگر وہ فلسفہ جمالیات میں سائنسی معروضیت کے دعوے سے انحراف کریں، ایک طرف ان کا جواب اثبات میں ہے دوسری طرف نفی میں، تو پھر انھیں یا ان کی پوری ٹیم کو لوکاچ کے فلسفے سے تجزیاتی بحث کرنا پڑے گی، قطع نظر اس سے کہ ان کی تحریروں میں تجزیاتی مباحث کا کلی طور پر فقدان ہے۔لوکاچ کے معروضی جمالیاتی نظریے کے بارے میں یہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ علمیات کا مسئلہ ہو یا جمالیات کا، لوکاچ دونوں صورتوں میں معروضی تضادات میں مماثلت کو دیکھتا ہے، تعقلات ہو یا تخیل دونوں صورتوں میں ان کی نوعیت یکساں رہتی ہے، مگر ان تضادات کی تحلیل کا عمل علمیاتی اور جمالیاتی حوالوں سے مختلف طریقوں سے طے پاتاہے۔اگر نارنگ خود سے متصادم ہوکر فلسفہ جمالیات میں معروضیت کا انکار کردیں، جیسا کہ انھوں نے اوپر کیا ہے، تو پھر انھیں ’’ترجمے یا تلخیص‘‘ کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب کے لیے کوئی اور دلیل تلاش کرنا ہوگی۔اگر نارنگ معروضیت کے دعوے پر قائم رہیں تو’ خیالی‘ یا ’آدرشی‘ کو داؤ پر لگانا کم از کم اس صورت میں ضروری ہوجاتا ہے، جس صورت میں نارنگ اس کو پیش کرتے ہیں۔نارنگ کے دعوے اور جواز سے اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں ہے کہ نارنگ بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ انھوں نے’’فلسفے میں سائنسی معروضیت‘‘ کا استعمال محض سرقے کے دفاع کے لیے کیا ہے، ورنہ نارنگ سے یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ وہ ایک طرف مابعد جدیدیت کو بغیر کسی بھی طرح کی تنقید کے قبول کرلیں اور اس کے بعد ’سائنسی معروضیت‘ کا سہارا لینا شروع کردیں؟

مابعد جدیدیت کو جس انداز میں مغرب سے ہتھیایا گیا ہے، اس سے زیادہ ’سائنسی معروضیت‘ کی تضحیک اور کیسے ہوسکتی ہے؟’سائنسی معروضیت ‘ میں جو مقولات تشکیل دیے جاتے ہیں ان میں شعور کی درستگی سے زیادہ معروضی انداز میں متشکل ہوئے مقولات کی درستگی درکار ہوتی ہے۔جب سوچ کو تجریدات کے سپرد کردیا جاتا ہے تو سوچ کی دررستگی سے غرض ہوتی ہے۔ لیکن سوچ کی درستگی معروض کے تمام پہلوؤں کی درستگی کیسے ہوسکتی ہے؟نارنگ نے سرقے کے علاوہ مابعد جدیدیت کو سمگل کرنے کی جو حرکت کی ہے اگر ان ’لاتشکیلی‘ مقولات کو اپنے تناظر سے ماخوز مقولات کے مدِ مقابل رکھ کر جانچتے تو اس کے باوجود کہ مقولاتی تجریدات کی نوعیت معروضیت سے عاری ہوتی، پھر بھی ان کی اس ’کاوش‘ کو کسی حد تک پزیرائی مل سکتی تھی۔ مابعد جدید علمیات سے آگاہی رکھنے والے قارئین جانتے ہونگے کہ یہ فلسفے کی حدود متعین کرنے کی ایک کوشش ہے۔ فلسفے میں سائنسی معروضیت کا سوال فلسفے کو درپیش چیلنج کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔فلسفے میں سائنسی معروضیت کے دعوے کی سب سے جامع مثال ہیگل کا جدلیاتی فلسفہ ہے۔تاہم ہیگل کے فلسفے میں معروضیت کا سوال انسانی شعور سے الگ نہیں ہے۔لیکن ہیگل کے فلسفے میں مقولات کا کردار کانٹین فلسفے کے برعکس مقرونی نوعیت کا ہے، گو کہ ہیگل کی معروضیت کی تشریح میں شعور کے اولین کردار میں نفی کی نوعیت تجریدی ہوجاتی ہے، جو معروضیت کے سوال کو کسی حد تک نظر انداز کرتی ہے، اس کے باوجود ہیگل کے فلسفے میں معروض کے تجزیے کے دوران سائنسی معروضیت کا پہلو اس لیے بھی غالب رہتا ہے کہ اس میں مقولات فلسفے کی تمام تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں، جبکہ ہیگل کے اپنے عہد میں پائے جانے والے رجحانات سے، جو حسی ادراکات سے حاصل ہوتے ہیں، ان مقولات کا موازنہ کیا جاتا ہے، یہ بالکل ایسا ہے جیسا کہ آئن سٹائن اپنے پیش رو ہیگل کے طریقے پر عمل کرتا ہوا نیوٹن کے مطالعے کے دوران نیوٹن کی تھیوری کو اپنے عہد میں ابھرنے والے نئے حقائق سے منسلک کرکے دیکھتا ہے، اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچتا ہے

کہ وہ اس کے عہد کے حقائق کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں۔معروضیت کا دوسرا پہلو فلسفہ مادیت کے زمرے میں آتا ہے، اگر نارنگ اس کو تسلیم کرتے ہیں، تو انھیں ان امتیازات کی نشاندہی کرنا ہوگی جو معروضیت کا مادی پہلو (جس میں شعور کا سوال ثانوی حیثیت اختیار کرجاتا ہے) اور معروضیت کا وہ پہلو جس میں شعور کی اولیت برقرار رہتی ہے۔لیکن افسوس کے نارنگ کا علم انتہائی سطحی ہے، نارنگ نے نہ ہی کبھی سائنس کی کسی کتاب کو چھوا ہے اور نہ ہی کبھی فلسفے کو درخور اعتنا سمجھا ہے۔مابعد جدید مفکر ژاک دریدا نے اپنی مختصر کتاب ’پوزیشنز‘ میں ’لاتشکیل‘ اور سائنس کے مسئلے پر سوال اٹھایا ہے۔اگر ہمارے اذہان میں ’فلسفہ لاتشکیل‘ واضح اور صریح انداز میں موجود ہے، تو ہمیں یہ علم ہونا چاہیے کہ اس میں تعقلات (Concepts )سے جڑے ہوئے ہر اس فلسفے اور سائنسی عمل کی تنقید شامل ہوتی ہے، جو ’وجودی و الہیاتی‘ یا پھر لوگوس وغیرہ کی بنیاد پر وجود پزیر ہوا ہو۔ دریدا کو چونکہ یقین ہے کہ جس سائنس کا آغاز یونان سے ہوا ، اس میں مابعد الطبیعات کی تنقید کے باوجود مابعد’الطبیعاتی ثبوتیت‘(Metaphysical Positivism) قائم رہتی ہے، لہذا لاتشکیل کو لوگوس سے اس انداز میں نبرد آزما ہونا ہے کہ سائنس کو مابعد الطبیعات کے اس پہلو سے نجات مل جائے، جو تعقلات کی بنیاد پر معنویت کو جنم دیتا ہے۔دریدا کے الفاظ میں’’تحریریات کو لوگوس کی بنیاد پر قائم ہوئی سائنسی معنویت سے تجاوز کرنے والے سائنسی عمل کو مضبوط بنانا ہے‘‘ (ص،۳۶۔۳۵)۔جہاں تک سماجی سائنسوں کا تعلق ہے جن سے فلسفہ نبرد آزما ہوتا آیا ہے، ان میں تعقلات کی بحث سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی، جبکہ ’لاتشکیل‘ انہی تعقلات کی تنقید کا نام ہے۔ دریدا کے الفاظ میں یہ ’’سائنس کی حدود متعین کرتی ہے۔‘‘ لاتشکیل جس ’تحریریات‘ کو تعقلاتی فلسفے‘ کی تنقید کے لیے استعمال کرتی ہے، جو سائنسی معروضیت کی دعویدار ہے، اسے نئی سائنس کہنا بھی مناسب نہیں ہے،

جو ’’نئے مافیہ اور نئے علاقے سے سروکار رکھتی ہو‘‘ (ایضاََ،ص،۳۶)۔ ’لاتشکیل‘کا مفہوم سمجھنے والے اور اس پر یقین رکھنے والے شخص کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی حرکت کا دفاع کرنے کے لیے جب چاہے جس مرضی دلیل کو غلط پیرائے میں پیش کردے؟ اس پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے فلسفے سے نابلد قاری کو یہ مشورہ دینا ضروری ہے کہ وہ جمالیاتی تھیوری سے متعلق نارنگ کی کتابوں کا مطالعہ ہرگز نہ کرے، کیونکہ دلائل اور ان کے تسلسل میں فقدان سے گمراہی کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ نارنگ مزید فرماتے ہیں کہ’’میری کتاب کے شروع کے دونوں حصے تشریحی نوعیت کے ہیں ۔ ۔۔۔جہاں ضروری تھا وہاں تلخیص اورترجمہ بھی کیاہے۔ ۔۔نئے فلسفیوں اور اُن کے نظریوں اوران کی بصیرتوں کی افہام وتفہیم میں نے اخذ و قبول سے بے دھڑک مددلی ہے۔۔ ۔۔واضح رہے خیالات سوسئیر ،لیوی سٹراس ،رومن جیکب سن ، لاکاں ،دریدا ،بارتھ فوکو، کرسٹیوا ،شکلووسکی ،باختن وغیر ہ کے ہیں، میرے نہیں۔ اِ سی لئے کتاب کاانتساب اُن سب فلسفیوں اور مفکروں کے نام ہے جن کے خیالات پرکتاب مشتمل ہے ۔ اس امر کی وضاحت دیباچے میں کردی گئی ہے کہ "خیالات اورنظریات فلسفیوں کے ہیں افہام وتفہیم اور زبان میری ہے ۔"‘‘ (سہ ماہی "ادبِ عالیہ انٹرنیشنل "وہاڑی کے شمارہ نمبر2،جلد نمبر8کے اپریل ،مئی ،جون 2008ء صفحہ نمبر11)۔نارنگ نے جو نام گنوائے ہیں (سوسئیر ،لیوی سٹراس ،رومن جیکب سن ، لاکاں ،دریدا ،بارتھ فوکو، کرسٹیوا ،شکلووسکی ،باختن) نارنگ کی’’شہرہ آفاق تصنیف ‘‘ کو پڑھ کر کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ نارنگ نے براہِ راست ان میں سے کسی بھی کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ دریدا ،بارتھ فوکو، کرسٹیوا، شکلووسکی ،باختن وغیرہ پر لکھا گیا ہر لفظ رامن سیلڈن کی کتاب کا حرف بہ حرف ترجمہ ہے (دریدا اور ردِ تشکیل پر کافی مواد نورس کی کتاب سے لیا گیا ہے، گزشتہ مضامین میں اس پہلو کو حوالوں سے ثابت کیا جاچکا ہے)۔ اس انٹرویو کے پہلے فقرے کے مطابق نارنگ سمجھتے ہیں کہ ان کی کتاب کے دو حصے ’’تشریحی نوعیت کے ہیں‘‘( واضح رہے کہ انہی دو حصوں میں ساختیات اور مابعد ساختیات کی’ بحث‘ ہے)۔حقیقت یہ ہے کہ یہ دو حصے واقعی تشریحی نوعیت کے ہیں

مگر یہ تشریح نارنگ نے ہرگز نہیں کی، نارنگ نے تو مغربی شارحین کی تشریحات کو جوں کا توں اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اگر نارنگ کی دیگر کتابوں کا ذکر کریں جس میں آپ نے تھیوری یا تنقید پر ’بحث ‘کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی دیگر’تصانیف‘ بھی تمام و کمال تشریحی نوعیت کی ہیں۔ اس لیے اس کتاب (ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات) اور ان کتابوں (جدیدیت کے بعد، مابعد جدیدیت پر مکالمہ) کے درمیان اس فرق کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ انٹرویو لینے والا اگر تشریح اور تنقید و تجزیے کے مابین فرق کو سمجھ رہا ہوتا اور اس نے نارنگ کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوتا، تو یہ سوال ضرور اٹھاتا۔اگر کتابوں کا مطالعہ ہی نہیں کیا تو انٹرویو لینے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ؟ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے حلقے میں مطالعے کے بغیر محض صلاح مشورے ہی سے ادبی و علمی قضایا کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نارنگ کے انٹرویو،جس کا اقتباس اوپر پیش کیا گیا ہے،کو توجہ سے پڑھیں تو واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے کسی حد تک یہ تسلیم کرلیا ہے کہ ان کی کتاب کے بعض حصے’ ترجمہ و تلخیص‘ ہیں

،حقیقت یہ ہے کہ نارنگ نے ’ترجمہ و تلخیص بھی ‘ نہیں بلکہ ’ترجمہ و تلخیص‘ ہی کی ہے۔ اگر ان کے جواب کو مزید کریدنے کی کوشش کی جاتی تو کچھ اور حقائق سامنے لائے جاسکتے تھے، یا پھر راقم کے لکھے ہوئے مضامین میں سے ترجمہ کیے ہوئے ابواب انگریزی حوالوں کے ساتھ پیش کیے جاتے اور ان سے یہ سوال کیا جاتا کہ ان کے حوالے کہیں بھی موجود نہیں ہیں، اور ان مضامین میں پیش کیے گئے اقتباسات چند فقروں پر مشتمل نہیں بلکہ سرقہ کیے ہوئے ابواب کا ایک طویل سلسلہ ہے جو نارنگ کی کتاب تقریباََ ۲۰۰ صفحات پر محیط ہے (پہلے تین مضامین کی حد تک)۔اور اگر نارنگ صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کے حوالے ان ابواب کے اندر موجود ہیں تو ان سے ان حوالوں کی نشاندہی کی درخواست کی جاتی۔ اس کے بعد نارنگ کا جواب خالی ازدلچسپی ہر گز نہ ہوتا۔ نارنگ نے اپنے جواب میں ابہام کو قائم رکھنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے، جھجک نمایاں ہے، کہیں کہیں شرمندگی کا پہلو بھی ابھرتا ہے۔ اگر نارنگ صرف یہی کہتے کہ مذکورہ کتاب ’’تلخیص و ترجمہ‘‘ ہی ہے تو ابہام دور ہوجاتا، لیکن ایک اہم ترین سوال پھر بھی باقی رہتا کہ پھر نارنگ خود کو مصنف کیوں کہہ رہے ہیں؟ نارنگ کا جواب ایک بار پھر قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتا، جو اردو سے تعلق رکھنے والے بیشتر خود ساختہ ادیب و نقاد اور فکری و علمی سطح پر معذور نارنگ کے ان حواریوں کو مزید تسلی دینے کے لیے کافی ہوسکتا تھا جو نارنگ کے دفاعی کمان میں بددیانتی کے تمام اوزاروں سے لیس کھڑے ہیں، مگر سچے ادیب کے لیے نارنگ کی اس کتاب کی حقیقت کو سمجھنا مزید آسان ہوجاتا۔ اوریجنل لکھنے والوں کے لیے نارنگ سے لیے گئے انٹرویوکے مذکورہ بالااقتباس میں پیش کیے گئے اعترافات ناکافی ہیں۔ مثلاََ ان کا یہ تسلیم کرلینا کہ انھوں نے ’’ترجمہ و تلخیص‘‘ بھی کی ہے، کسی حد تک تسلی بخش ضرور ہوسکتا ہے، مگر یہ کتاب سے متعلق کل سچائی کا انکشاف نہیں ہے۔ جس حد تک ادبی دیانت کی ضرورت تھی یا ہے، وہ نہ ہی نارنگ میں کہیں دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی ان کے کسی ذہنی معذور حواری میں نظر آتی ہے۔یہاں تک کہ انٹرویو لینے والوں میں بھی مفقود ہے، جو مکمل تیاری کے ساتھ انٹرویو لینے کے لیے نہیں بیٹھتے۔ انٹرویو کی نوعیت دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ نارنگ سے لیے گئے انٹرویو میں سوالات کا انتخاب یقیناََ نارنگ کے انٹرویو لینے والے کے ساتھ تعلق کی نوعیت کو سامنے رکھ کر کیا گیاہے۔

انٹرویو میں سوالات کے نتیجے میں سامنے آنے والے جوابات میں سے پھر سوالات نکالے جاتے ہیں۔یہاں پر ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ انٹرویو بھی غیر جانب دار نہیں ہے۔مستقبل میں اگر کوئی غیر جانب دار شخص نارنگ کا انٹرویو کرے تو صرف یہ سوال پوچھا جائے کہ نارنگ صاحب آپ اپنی ’’شہرہ آفاق‘‘ تصنیف کے حوالے سے خود کو مترجم تسلیم کرتے ہیں یا پھر خود کوسارق کہلوانا پسند کریں گے ؟ اگر انھیں مترجم پر اعتراض ہو تو ان کے وہ تمام صفحات انھیں پیش کیے جائیں جو لفظ بہ لفظ ترجمہ ہیں، گو کہ ان صفحات کی تفصیل متن کے اندر نہیں دی گئی، اس کے باوجود اگر نارنگ یہ کہیں کہ انھوں نے کہیں خلا میں ہی صفحات کی تفصیل دے رکھی ہے، تو پھر نکتہ یہ ہے کہ انھیں مصنف کیسے تصور کرلیا جائے؟نارنگ نے اپنے انٹرویو میں ’بے دھڑک‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ کم از کم میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ علمی و فکری قضایا کی بحث میں ’بے دھڑک‘سے کیا معنی اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ خواہ کتنے ہی ’بے دھڑک‘کیوں نہ ہوجائیں، لیکن صرف یہ خیال رہے کہ کسی کی کتاب یا مضمون پر پر اپنا نام نہ لکھ دیں۔ اگر آپ یہ فرماتے ہیں کہ ’’بے دھڑک‘‘ سے ہم اپنی مرضی کا مطلب نکال لیں تو اس سے ہم یہی کہیں گے کہ نارنگ نے لفظ بہ لفظ جو ترجمہ پیش کیا ہے، اس کے حوالے تک نہیں دیے۔اگر یہ سچ ہے تواس کو قبول کرلینے میں کیا حرج ہے؟ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ نارنگ نے ایک اور کتاب ’’مابعد جدیدیت پر مکالمہ‘‘ میں اپنا نام بطورِ مرتب لکھا ہے۔ ’’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ میں جب تمام ابواب لفظ بہ لفظ ترجمہ ہیں تو خود کو مصنف کے طور پر پیش کرنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔سرقے سے متعلق مسئلے کو مغر بی فلسفیوں کے خیالات سے متعلق بحث میں گم نہیں کیا جاسکتا ۔یہ بالکل درست ہے کہ خیالات مغربی فلسفیوں کے ہی ہیں، لیکن اس نکتے کا اطلاق نارنگ کی مذکورہ کتاب پر نہیں ہوتاکیونکہ اس میں الفاظ تک مغربی شارحین سے جوں کے توں اٹھائے گئے ہیں، اس کا اطلاق البتہ ان کی دیگر کتابوں پر کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ان میں الفاظ تو نارنگ کے ہیں مگر خیالات ان میں مغربی مفکرین ہی کے ہیں۔ ان میں پیش کیے گئے خیالات کا تعلق نارنگ کی ان قضایا کی تفہیم سے ہے، بے شک ان کی تفہیم بھی ادھوری ہے۔ جیسا کہ ان کی کتاب ’’جدیدیت کے بعد‘‘ اور مرتب کردہ ’’مابعد جدیدیت پر مکالمہ‘‘ اسی کتاب کا چربہ ہیں،کوئی ایک بھی خیال ایسا نہیں جس کو نارنگ نے مغرب سے اٹھا نہ لیا ہو۔ راقم نے اپنے کسی اور مضمون میں اس کا احاطہ کردیا ہے۔ ہمارے لیے ان کتابوں میں بھی دلچسپی محض نارنگ کی صحیح یا غلط تفہیم کی حد تک ہے، نہ کہ یہ کہ ان میں نارنگ کو نظریہ ساز تسلیم کر لیا جائے۔ یہ واضح رہے کہ ’’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ پر ہمارے اعتراضات کا تعلق صرف ان پہلوؤں سے ہے، جو نارنگ کے اعتراف کی صورت میں یا تو’ ترجمہ ہیں‘، بصورتِ دیگر سرقے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں ۔ نارنگ یا تو یہ تسلیم کریں کہ کتاب لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے اور کتاب پر اپنا نام بطورِ مترجم تحریر کریں، اگر نارنگ یہ تسلیم نہیں کرتے تو وجہ بیان کریں

کہ انھیں سارق کیوں نہ کہا جائے؟ راقم نے اپنے پہلے مضمون کا عنوان ہی یہ دیا تھا ’’گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں۔‘‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ اردو کا ایوارڈ یافتہ نقاد اتنے سنگین جرم کا ارتکاب کیسے کرسکتا ہے؟ اس لیے ہماری نشاندی کے بعد ممکن ہوسکتا تھاکہ نارنگ اس جانب توجہ مرکوز کرتے اور اگر یہ واقعی غلطی ہے تو اسے تسلیم کرکے اس کا ازالہ کرلیا جاتا۔ نارنگ نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور لمبی خاموشی تان لی تو ہمیں انھیں سارق کہنا پڑا، جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی انھیں سارق تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے وہ بھی نارنگ ہی کی طرح ادبی میدان کا رہزن ہے۔

جاری ہے۔

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

ڈاکٹرگوپی چند نارنگ کا عذرِ لنگ


Filed under | 2 Comments


ڈاکٹرگوپی چند نارنگ کا عذرِ لنگ

نند کشور وکرم:

کہاجاتاہے کہ ساختیاتی تنقید کو اردو ادب میں پیش کرنے والوں نے اُسے ترجمہ یا اخذ وتلخیص کی صورت میں پیش کیا ہے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں"گو پی چند نا رنگ:جب میں نے تھیوری پرکام کرنا شروع کیا چونکہ میری تربیت ساختیاتی لسانیات کی ہے، مجھے احسا س تھاکہ فلسفے میں بنیادی ضرورت سائنسی معروضیت کی ہوتی ہے، میرے سامنے ایسے نمونے تھے جہاں لوگ بات توفلسفے کی کرتے ہیں لیکن بہت جلد تخئیل کے پروں سے اڑنے لگتے ہیں اور ’ایجاد بندہ ‘کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے اصل متن سے زیادہ خودکونمایاں کرنے میں لگ جاتے ہیں یاپھر اپنے اسلوب کاشکار ہوکرکم وبیش انشائیہ لکھنے لگتے ہیں ۔ ایک تو اصطلاحیں نہیں تھیں دوسرے نئے فلسفیوں کااندازایساپیچیدہ،معنی سے لبریز اور گنجلک ہے کہ اسے سائنسی معروضی صحت کے ساتھ قاری تک منتقل کرنا زبردست مسئلہ تھا ۔ اصل متن کی Precisencessاور زوروصلابت Rigourکو بنائے رکھنے کے لئے بھی بے حدضروری تھاکہ افہام وتفہیم میں ہرممکن وسیلے سے مدد لی جائے اور فلسفے کے ڈسپلن کی رو سے تخئیل کی رنگ آمیز ی سے اورموضوعی خیال بافی سے ممکنہ حدتک بچاجائے ۔میری کتاب کے شروع کے دونوں حصے تشریحی نوعیت کی ہیں ۔ تیسرا حصہ یعنی مشرقی شعریات اور اختتام والے حصوں کی نوعیت بالکل دوسری ہے۔ نئے فلسفیوں اور اُن کے نظریوں اوران کی بصیرتوں کی افہام وتفہیم میں نے اخذ و قبول سے بے دھڑک مددلی ہے۔ جہاں ضروری تھا وہاں تلخیص اورترجمہ بھی کیاہے۔ بات کا زور بنائے رکھنے کے لئے اصل کے Quotationsبھی جگہ جگہ دیے ہیں تاکہ فلسفیانہ نکتہ یا مفکرین کی بصیر ت پوری قوت سے اردوقاری تک منتقل ہوسکے۔ ہر حصے کے ساتھ اس کے جملہ مآخذ اورکتب حوالہ کی فہرست دی ہے اور جن کتابوں سے نسبتاً زیادہ استفادہ کیاہے یاجن سے زیادہ مدد لی ہے ،مآخذ کی فہرست میں ان ناموں پراسٹار(*)کانشان بنا دیاہے ۔واضح رہے خیالات سوسئیر ،لیوی سٹراس ،رومن جیکب سن ، لاکاں ،دریدا ،بارتھ فوکو، کرسٹیوا ،شکلووسکی ،باختن وغیر ہ کے ہیں، میرے نہیں۔ اِ سی لئے کتاب کاانتساب اُن سب فلسفیوں اور مفکروں کے نام ہے جن کے خیالات پرکتاب مشتمل ہے ۔ اس امر کی وضاحت دیبا چے میں کردی گئی ہے کہ "خیالات اورنظریات فلسفیوں کے ہیں افہام وتفہیم اور زبان میری ہے ۔"(سہ ماہی "ادبِ عالیہ انٹرنیشنل "وہاڑی ۔ اپریل ،مئی ،جون 2008ء )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’کچھ لوگ علم کی طاقت کو اپنے کردار کے بعض ناجائز اور بد نما پہلوؤں کو چھپانے اور جائز ثابت کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘

(منو بھائی کے کالم گریبان (تعلیم یا تبلیغ) مطبوعہ روزنامہ جنگ۔۲۱اپریل ۲۰۰۸ء سے اقتباس)

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

تعزیت نامہ برائے مابعد جدیدیت


Filed under | Leave a Comment


اشعر نجمی

(مدیر سہ ماہی اثبات ۔ممبئی)

تعزیت نامہ برائے مابعد جدیدیت

اس بار اس باب میں ایک ایسے ادبی مسئلہ کو شامل کیا جارہا ہے جس کا قصہ تقریباً تمام ہوچکا ہے۔ میری مراد مابعدجدیدیت سے ہے۔ جو لوگ عالمی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں، وہ یقیناًمیری تائید کریں گے کہ تھیوری ہر محاذ پر ناکام ہوچکی ہے اوراپنا بوریا بستر باندھ کر رخصت بھی ہوچکی۔ مغربی ممالک بطور خاص امریکہ اور برطانیہ میں اب اس کا کوئی نام لیوا بھی باقی نہیں رہا۔لیکن ہندوستان میں کچھ ’’باقیات الصالحات ‘‘ہیں جنھیں اب بھی امید ہے کہ مابعدجدیدیت کو کم سے کم ’’بزور بازو‘‘تو منوایا ہی جاسکتا ہے۔ اردو میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ مابعد جدیدیت کے علم بردار ہیں اور ان کا کہنا ہے : ’’یہ سیاسی مسائل نہیں، یہ فلسفۂ ادب کے مسائل ہیں اور فلسفۂ ادب یعنی تھیوری کی سطح پر طے پا رہے ہیں۔ اردو میں ان مسائل کی تفہیم میں کچھ وقت لگے گا۔ اس لیے کہ جب تک ہم سابقہ مفروضات سے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے اور مانوس Categories سے ہٹ کر سوچنے کے لیے (جنھیں ہم نے ایمان کا درجہ دے رکھا ہے) خود کو تیار نہیں کریں گے، ہم برابر مغالطوں اور خوش فہمیوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ ‘‘ نارنگ کا یہ بیان ان کی کتاب ’’ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعدجدیدیت‘‘ میں شامل ہے ۔ یہ اقتباس اس خطبے سے ماخوذ ہے جو موصوف نے دسمبر ۱۹۹۵ میں غالب اکادمی، نئی دہلی کی سلور جوبلی کے موقع پر دیا تھا۔ ۱۳ سال پہلے نارنگ صاحب نے یہ امید جتائی تھی کہ ’’اردو میں ان مسائل کی تفہیم میں کچھ وقت لگے گا‘‘ لیکن صد حیف کہ اب تک یہ ’’مسائل‘‘ توضیح طلب ہیں۔ نارنگ مابعد جدیدیت کی تعبیر و تفہیم اور اردو ادب میں اس کے اطلاق کی وضاحت کرنے سے قاصر رہے ہیں لیکن کم سے کم انھیں ان سوالوں کے جواب ضرور دینے چاہئیں تھے جو گذشتہ دو برسوں سے عمران شاہد بھنڈر ان سے کررہے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی خاموشی شان استغنا کا استعارہ نہیں بلکہ اعتراف جرم کا وسیلہ ضرور نظر آتی ہے۔ آج پوری اردو دنیا کی نظر نارنگ پر ہے اور وہ ان سنگین الزامات پر ان کے جواب کی منتظر ہے جو عمران شاہد نے دلائل اور حوالوں کی مدد سے ان پر لگائے ہیں۔اصل موضوع پر آنے سے قبل مناسب معلوم ہوتاہے کہ قارئین کو سب سے پہلے عمران شاہد بھنڈر کے ان الزامات سے مختصر اً آگاہ کر دیا جائے جو انھوں نے نارنگ پر لگائے ہیں۔ عمران شاہد بھنڈر کا تعارف گذشتہ شمارے میں کرایا جا چکا ہے لیکن ایک بار پھر ہم بتادیں کہ وہ برمنگھم یونیورسٹی (برطانیہ)میں مابعد جدیدیت پر پی۔ایچ۔ڈی کررہے ہیں۔ انھوں نے نارنگ کی معروف کتاب ’’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ پر سرقے کا الزام عائد کیا ہے

اور اس ضمن میں انھوں نے صرف ’ہوائی فائرنگ‘‘ کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسلسل دو طویل مضامین میں کئی مغربی مفکرین مثلاً کیتھرین بیلسی، رابرٹ سکولز، کرسٹوفر نورس، رامن سیلڈن ،جان سٹرک وغیرہ کی کتابوں کے اقتباسات در اقتباسات کا نارنگ کی کتاب میں شامل ڈھیروں اقتباسات سے براہ راست موازنہ کرکے سبھی کو انگشت بدنداں کردیا ۔ ان کے یہ دونوں مضامین ۱؂ جرمنی سے شائع ہونے والے معروف ادبی جریدہ’’جدید ادب‘‘میں متواتر شائع ہوئے جس کے مدیر حیدر قریشی ہیں۔ ان مضامین کے کچھ اقتباسات ’’شب خون خبر نامہ‘‘ (الہٰ آباد) میں بھی شائع ہو چکے ہیں اور میری اطلاعات کے مطابق سہ ماہی ’’مژگاں‘‘ (کولکاتہ) کے تازہ شمارے میں بھی بطور ’قند مکرر‘ شائع ہوئے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عمران شاہد بھنڈر کا یہ طویل اور چشم کشا مقالہ اب کتابی شکل میں ’’اثبات پبلی کیشنز ‘‘ میں طباعت کے مرحلوں سے گزررہا ہے جو بہت جلد قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا۔ عمران شاہد کا لگایا ہوا الزام ذاتی نہیں ،ادبی ہے جسے صرف یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے پیچھے گروہی تعصب کارفرما ہے۔

وہ قارئین جنھوں نے اب تک عمران شاہد کے دونوں مضامین نہیں پڑھے ہیں، ہمارا مشورہ ہے کہ اس باب کو پڑھنے سے قبل انھیں ضرور پڑھ لیں ورنہ وہ اپنی رائے قائم کرنے میں حق بجانب نہ ہوں گے۔ اس معاملے کو ’’فاروقی بنام نارنگ‘‘ کا نام بھی نہیں دیا جاسکتا ، کیوں کہ اول تو عمران شاہد ، فاروقی سے ہزاروں کیلومیٹر دور برطانیہ میں بیٹھے ہیں ، دوم یہ کہ فاروقی اور عمران صرف ایک دوسرے کے ’’نام اور کام‘‘ سے واقف ہیں اور سوم یہ کہ عمران کے وہ تمام الزامات دلائل اور حوالوں کے ساتھ ہیں جنھیں کوئی آنکھ کا اندھا ہی ردّ کرسکتا ہے۔ جدید ادب کے مدیر حیدرقریشی نے صحافتی دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئے نارنگ کو کئی بار دعوت دی کہ اگر وہ چاہیں تو ان الزامات کا جواب ’’جدید ادب‘‘ کے صفحات میں دے سکتے ہیں(’’اثبات‘‘ کے صفحات بھی نارنگ کے جواب کے لیے حاضر ہیں) لیکن نارنگ نے جواب دینا تو کجا، ایسی خاموشی اختیار کرلی جس سے اس شک کو تقویت ملنے لگی کہ ان کے پاس عمران شاہد کے لگائے گئے الزامات کے جواب ہی نہیں ہیں۔یہی نہیں بلکہ انھوں نے حیدر قریشی اور ان کے جریدے پر اپنے ’’ذرائع‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے دباؤ بھی ڈالا کہ وہ اس سلسلے کو بند کریں

ورنہ انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ہم اس باب میں حیدر قریشی کا وہ مضمون بھی شائع کررہے ہیں جس میں اس قضیے کی پوری روداد شامل ہے ۔ حیدرقریشی کے ساتھ نارنگ نے جو نازیبا حرکت کی ہے، وہی عمران شاہد بھنڈر کے الزامات کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ زبان و ادب کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھا شخص جس کے علم و بصیرت کی لوگ قسمیں کھاتے ہوں ، وہ اس طرح کی حرکت کرے ۔ لیکن نارنگ کی مجبوری یہ ہے کہ وہ جب اپنے ’بے پایاں علم‘ کے ذریعہ عمران شاہد کے دعووں کو مسترد نہ کرسکے تو ’بزور بازو‘جواب دینے پر آمادہ ہوگئے۔ پتہ نہیں، ’ارادت مندان نارنگ‘ کا حیدرقریشی کا خط پڑھ کر کیا ردعمل ہوگا؟

ممکن ہے کہ ساجد رشید جیسے نارنگ کے حمایتی ایک بار پھر یہ الزام جڑ دیں کہ نارنگ ’’ہندو‘‘ ہیں، اس لیے انھیں سارق ثابت کیا جارہا ہے اوراس طرح ایک بار پھر اس ایشو کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جائے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم گذشتہ دو شماروں میں عمران شاہد بھنڈر کے دو مضامین شائع کرچکے ہیں جن کا اس قضیے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میں نے گذشتہ شمارے میں قارئین کے استفسار پر عمران شاہد کا ایک مختصر تعارف بھی پیش کیا تھا جس پر صحافی اور ادیب شمیم طارق کا ایک طویل خط ہمیں موصول ہواہے، جو من وعن شائع کیا جارہا ہے۔ دراصل یہی خط اس سنگین ادبی مسئلے کو اس باب میں شامل کرنے کا بنیادی محرک بھی ہے۔

شمیم طارق نے گوپی چند نارنگ کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’الزام تراشی کسی قلم کار کا ادبی تعارف نہیں بن سکتی‘۔حیرت ہے کہ شمیم طارق جیسا پڑھا لکھا اور غیر جانب دار شخص عمران شاہد بھنڈر کے ان مضامین کو اب تک صرف ’’الزام تراشی‘‘ کے خانے میں رکھنا چاہتا ہے، جب کہ مذکورہ مضامین میں نارنگ کے ذریعہ کیے گئے سرقے کو حوالوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ شمیم طارق ،نارنگ کی مذکورہ کتاب میں شامل دیباچہ پیش کرتے ہیں، جو کچھ یوں ہے کہ ’’افکار وخیالات تو فلسفیوں اور نظریہ سازوں کے ہیں، تفہیم و ترسیل البتہ میری ہے‘‘۔اب اگر نارنگ کی اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے ان فلسفیوں اور نظریہ سازوں کے افکار و نظریات کوان کی متنازعہ کتاب میں سے خارج کردیا جائے تو ہاتھ میں شاید صرف گردپوش ہی باقی رہ جائے گا۔کسی کی فکری کاوشوں سے اثر قبول کرنا یا انھیں بطور استدلال اپنے کام میں لانا برا نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کسی مضمون یا کتاب سے بعض حصوں کو مستعار لینا بھی جرم نہیں ہے۔ بس شرط اتنی ہے کہ اصل مضمون یا کتاب کا حوالہ متن کے ساتھ دے دیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو عبارتوں کے ساتھ واوین کا التزام رکھا جائے اور حاشیے پر یا مضمون کے آخر میں وضاحتی نوٹ دے کا اصل ماخذ کا اعلان کردیا جائے۔ یہ طریقہ ان لوگوں کا ہے جو لکھنے اور پڑھنے کی Ethics کا لحاظ رکھتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں۔ لیکن صد حیف کہ ’اردو زبان و ادب اور تنقید و تحقیق کی بااعتبار اور باوقار شخصیت‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جنھوں نے مغربی مفکرین کی تحریروں سے صفحے کے صفحے اور پیراگرا ف بغیر حوالوں اور وضاحتی نوٹ کے اغوا کرلیے اور انھیں اپنی ملکیت بنا کر قا رئین کے سامنے پیش کردیا، ان کے دفاع کے لیے شمیم طارق جوازجوئی کررہے ہیں۔ میری سمجھ میں ایک بات اور نہیں آئی کہ شمیم طارق نے نارنگ کی فضیلت اور عمران شاہد کے الزام کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے شمس الرحمن فاروقی کو تیسرے فریق کی حیثیت سے کیوں پیش کیا؟ اگر فاروقی نے نارنگ کی اس کتاب کو ’بین العلومی کارنامہ‘ کبھی کہا بھی تھا تو اس سے عمران شاہد کے دعوے کی تکذیب کیسے ہوجاتی ہے؟ ممکن ہے کہ فاروقی نے اس وقت ان مفکرین کو نہ پڑھا ہو جن کی کتابوں سے نارنگ نے سرقہ کیا ہے، ورنہ ’’شب خون خبرنامہ‘‘ میں عمران شاہد کے مذکورہ مضامین کے اقتباسات شائع کرکے وہ اپنے ہی قول کو کیوں ردّ کرتے؟

اس ضمن میں تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ اگر شمیم طارق ، نارنگ کے دفاع کے لیے فاروقی کا یہ بیان معتبر سمجھتے ہیں تو پھر فاروقی کے ان بیانات کے بارے میں موصوف کا ردعمل میں ضرور جاننا چاہوں گا جن میں نارنگ کی مختلف ادبی اور غیر ادبی دھاندلیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیا شمیم طارق ان بیانات کو بھی سند تسلیم کرتے ہیں جس طرح فاروقی کے اس بیان کو انھوں نے بطور سند پیش کیا ہے؟اب رہی شمیم طارق کی یہ بات کہ ’الزام تراشی کسی قلم کار کا ادبی تعارف نہیں بن سکتی‘، تو انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عمران شاہد بھنڈر نے کسی غزل یا نظم یا افسانے کے سرقے کا انکشاف نہیں کیا ہے بلکہ گذشتہ صدی کے سب سے بڑے ادبی اور علمی سرقے کو اس صدی میں Expose کیا ہے اور اس کے لیے انھوں نے مابعدجدیدیت ہی نہیں دیگر علوم کے مفکرین کی کتابوں کو کھنگالا ، جو آسان کام نہیں ہے۔ شمیم طارق نے اپنے خط میں ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ ’’ جن سیکڑوں کتابوں کا حوالہ باربار آیا ہے، ان پر ستارے کا نشان ہے‘‘۔عمران شاہد کا مقالہ شاید ان کی نظروں سے گذرا نہیں ہے یا پھر ان کے لگائے گئے الزامات کی تصدیق شمیم طارق نے نارنگ کی متنازعہ کتاب سے نہیں کی ورنہ انھیں معلوم ہوتا کہ عمران شاہد جن صفحات اور پیراگراف کو سرقہ کہہ رہے ہیں، وہاں نہ تو ستارے کا نشان ہے ، نہ ہی چاند اور سورج کا۔ نارنگ کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے شمیم طارق اتنے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ وہ یہ بھی کہنے سے نہیں چوکتے کہ ’’ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ مسائل کو پانی کردیتے ہیں اور ان کی بات دل میں اترجاتی ہے‘‘۔ اس کے بعدوہ شاہد بھنڈر کے حق میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’بھنڈر صاحب کو اللہ توفیق دے تو بجائے منفی چیزوں کے وہ نارنگ صاحب سے بڑا کام کرکے دکھائیں۔ اردو میں کام کرنے والوں کی بڑی ضرورت ہے‘‘۔ نارنگ کی خوبیوں پر پانی پھیرنے والے عمران شاہد کے کارنامے کو منفی کہہ کر شمیم طارق نے ایک طرح سے ’’سرقہ‘‘ جیسی لعنت کا دفاع کیا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ نارنگ کی اس مذموم حرکت کی مذمت کرتے اور عمران شاہد کے شکرگذار ہوتے، انھوں نے’’ مثبت ‘‘اور ’’منفی‘‘ کی تعریف ہی بدل ڈالی۔ کیا شمیم طارق یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس طرح کے اخلاقی جرم سے چشم پوشی کرنی چاہیے؟ کیا انھیں یہ نہیں پتہ کہ نارنگ کی اس حرکت سے عالمی ادب میں ہندوستان اور اردو زبان پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا انھیں یہ نہیں معلوم کہ پاکستان کے جامعات میں اب نارنگ کی دوسری کتابوں کو بھی چھانا پھٹکا جانے لگا ہے؟ کیا شمیم طارق یہ چاہتے ہیں کہ اس روش کی حمایت کرکے اردو میں اس چلن کو عام کردیا جائے اور ان کا پردہ فاش کرنے والوں کو ہی مطعون کیا جائے؟ شمیم طارق میرے اور ’’اثبات‘‘ کے سچے خیرخواہوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس کے عوض حق بینی اور حق شناسی کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ انھیں یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ عمران شاہد بھنڈر سے بہت پہلے فضیل جعفری نے اپنے ایک طویل مضمون میں اشارہ کردیا تھا کہ مذکورہ کتاب نارنگ کی تصنیف نہیں تالیف ہے۔ سکندر احمد نے تو نارنگ کی تمام کتابوں کا محاسبہ کر ڈالا اور اعداد و شمار سے بتادیا تھا کہ نارنگ کی کتنی کتابیں تصنیف ہیں، کتنی تالیف ہیں، کتنے تراجم ہیں

اور کتنی مرتبہ ہیں۔ شمیم طارق نے اپنے خط میں ایک سوال بھی اٹھایا ہے کہ ’’ ایک زبان سے دوسری زبان میں سرقہ کرنے والے میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ایک زبان سے تھیوری کا سرقہ کرکے کسی دوسری زبان کے فن پارے کا تجزیہ کرسکے ...‘‘۔ ان کی اس بات نے مجھے چونکا دیا ،کیوں کہ انھوں نے بہت ہی معقول سوال اٹھایا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر نارنگ کی متنازعہ کتاب سرقے کا نتیجہ ہے تو پھر یقیناًان کی بقیہ کتابیں بھی تضادات کا شکار ہوں گی جن میں انھوں نے مابعدجدیدیت کا تجزیہ پیش کیا ہے اور جو اب تک سرقے کے الزام سے مبرّا ہیں۔ میں نے فون پر عمران شاہد سے بات کی تو انھوں نے اپنی زیر تکمیل کتاب میں سے وہ باب مجھے فوراً ارسال کردیا جس میں انھوں نے نارنگ کی دوسری کتابوں پر گرفت کی ہے ۔ اس مضمون کو پڑھ کر اس بات کی ایک بار پھر تصدیق ہوجاتی ہے کہ نارنگ نے مابعدجدیدیت کو سمجھا ہی نہیں ہے ، لہٰذا ان کی بقیہ کتابوں میں تضادات کا ایک سلسلہ ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ مابعدجدیدیت تو دور، فلسفے کے ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں ۔زیر نظر شمارے میں عمران شاہد کا یہ مضمون ۲؂اس لیے زیادہ توجہ طلب ہو جاتا ہے کہ اس بار نارنگ کی دوسری کتابیں زد میں ہیں جن کی مدد سے صاحب مضمون نے ایک طرف تو نارنگ کی ’’مابعد جدیدعلم برداری‘‘پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، دوسری طرف انھوں نے یہ بھی دکھا دیا کہ نارنگ چونکہ سارق ہیں، اس لیے وہ مابعدجدیدیت کو Assimilate نہیں کرپائے جس کے نتیجے میں یہ تضادات نظر آ رہے ہیں۔ فضیل جعفری کا زیر نظر مضمون اگرچہ ’’ذہن جدید ‘‘ میں دوقسطوں میں شائع ہوچکا ہے لیکن اس خیال سے اس کی دوسری قسط کو شامل اشاعت کرلیا گیاہے کہ اس مضمون سے بھی ہمیں نارنگ کے فکری تضادات کو قریب سے دیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ عمران شاہد کی زبان فلسفیانہ ہے (کیوں کہ وہ بنیادی طور پر فلسفے کے ہی آدمی ہیں) جب کہ فضیل جعفری کا مضمون اردو قارئین کو پیش نظر رکھ کررقم کیا گیا ہے۔ حیدر قریشی کی صحافتی دیانت داری پر، میں انھیں سلام کرتا ہوں۔ اس کے عوض انھیں جو قیمت چکانی پڑی، میں اس کی مذمت کرتا ہوں اور انھیں یقین دلاتا ہوں کہ ’’اثبات‘‘ اور اردو دنیا کے تمام دیانت دار، مخلص اورانصاف پسند قارئین اس آزمائشی گھڑی میں ان کے ساتھ ہیں۔ قارئین !آپ کا کیا خیال ہے؟ (مطبوعہ سہ ماہی اثبات ممبئی۔شمارہ نمبر ۳۔دسمبر ۲۰۰۸ء تا فروری۲۰۰۹ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱

جدید ادب میں نارنگ صاحب کے سرقہ کے حوالے سے دو نہیں بلکہ شمارہ نمبر۹،۱۰ اور ۱۱ میں تین مضامین شائع کیے جا چکے ہیں۔ان میں سے پہلا مضمون اضافوں کے ساتھ عکاس کے شمارہ ۵ میں بھی شائع کیا گیا تھا۔اس مضمون کو متعدد اخبارات و رسائل نے جدید ادب کا حوالہ دے کر شائع کیا تھا۔ ۲؂یہ مضمون اثبات میں شائع ہوا ہے،یہاں اسے شامل نہیں کیا گیا۔کیونکہ یہاں صرف سرقہ کے حوالہ جات والے عمران شاہد کے مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔

(ادارہ عکاس انٹرنیشنل)

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati