گوپی چند نارنگ کی ’سچائی‘ اور تناظرسرقے کی زد میں...حصہ دوئم

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


عمران شاہدبھنڈر

(برطانیہ)

گوپی چند نارنگ کی ’سچائی‘ اور تناظرسرقے کی زد میں

حصہ دوئم

اگرلکھنے کے حوالے سے ’اچھائی‘اور ’برائی‘ کے ’پرانوں‘کے معیار کی جانچ پڑتال نئے لکھنے والوں نے نہ کی توان ’پرانے لکھنے والوں‘ کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ’اچھائی ‘ اور ’برائی ‘ کایہی عدم امتیاز نارنگ صاحب کو بھی سرقے سے تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ان ’پرانے لکھنے والوں‘ نے قاری کو احمق بنانے کی کوشش ’جلدی میں‘ نہیں بلکہ شعوری طور پر کی ہے۔اس اعتبار سے ’پرانوں‘ کی’ لکھنے‘ کی روایت میں سرقے کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں ہے۔بے شک یہ سرقہ مغربی علوم سے کیا گیا ہے یا پھر نام نہاد روحانیت کے یرغمال بننے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔

نارنگ صاحب کی کتاب کے سرورق پر لکھے الفاظ نارنگ صاحب کو حالی کے بعد اُردو دنیا کا سب سے بڑا نقاد اور نظریہ ساز ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔کیا اس سے یہ مطلب اخذ کیا جائے کہ اُردو ادب میں نقاد بننے کے لئے سارق ہونا لازمی ہے؟ایک سو سال پہلے جس حرکت کی بنا ء پر حالی بطورِ نقاد سامنے آئے اس سے کہیں زیادہ سرقے کی گھناؤنی حرکت نارنگ صاحب کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اس سے قبل کہ نارنگ صاحب کی جانب لوٹیں، پہلے ان کے مزید سرقے کی جانب رخ موڑتے ہیں۔ پروفیسررامن سیلڈن لکھتے ہیں،There is another stand in poststructuralist thought which believes that the world is more than a galaxy of text, and that some theories of textuality ignore the fact that the discourse is involved in power. They reduce political and economic forces, and ideological and social control, to aspects of signifying processes. When a Hitler or a Stalin seems to dictate to an entire nation by wielding the power of discourse, it is absurd to treat the effect as simply occurring within discourse. It is evident that real power is exercised through discourse, and that this power has real effects....... The father of this line of thought is the German philosopher Nietzsche, who said that people first decide what they want and then fit the facts to their aim: 'Ultimately man finds in things nothing but what he himself has imported into them.' All knowledge is an expression of the 'will to power'.This means that we can not speak of any absolute truths or of objective knowledge.... Foucault regards discourse as a central human activity, but not as a universal, 'general text', a vast sea of signification. He is interested in the historical dimention of discursive change. What it is possible to say will change from one era to another. In science a theory is not recognised in its own period if it deos not conform to the power consensus of the institutions and official organs of science. Mendel's genetic theories fell on deaf ears in the 1860s; they were promulgated in a 'void' and had to wait until the twentieth century for acceptance. It is not enough to speak the truth; one must be 'in the truth'.(Selden, Raman. Contemporary Literary Theory,3rd ed, Britain,1993,P158-159)گوپی چند نارنگ کے سرقے کی جانب توجہ مبذول کرتے ہیں، ’’پس ساختیات میں ایک فکری دھارا اور بھی ہے جو اصرار کرتا ہے کہ ’متنیت‘(TEXTUALITY) ہی سب کچھ نہیں، بلکہ دنیا میں طاقت کے کھیل میں بجائے متن کے ’ڈسکورس‘ (مدلل مبرہن بیان) شامل ہے۔ مثل فوکو(MICHEL FOUCAULT) کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ’متنیت‘ کے نظریے سیاسی اور سماجی طاقتوں اور آئیڈیالوجی کو ’معنی خیزی‘ کے وسائل قرار دے کر ان کی حیثیت کو گھٹا دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی ہٹلر، موسولینی،یا اسٹالن ایک پوری قوم کو اپنے حکم پر چلاتا ہے، تو ایسا ’ڈسکورس‘ کی طاقت کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس طاقت کے اثرات کو ’متن‘ تک محدود رکھنا مہمل بات ہے۔

فوکو کہتا ہے کہ اصل طاقت کا استعمال ’ڈسکورس‘ کے ذریعے ہوتا ہے، اور اس طاقت کے ٹھوس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔نٹشے نے کہا تھا کہ’لوگ پہلے طے کرتے ہیں کہ انھیں کیا چاہیے،اور پھر حقائق کو اپنے مقصد کے مطابق ڈھال لیتے ہیں‘۔نتیجتاََ انسان کو اشیاء میں وہی کچھ نظر آتا ہے جو ان میں خود اس نے داخل کیا ہے۔ فوکو اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام علم طاقت کی خواہش ( WILL TO POWER) کا مظہر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم مطلق صداقت یا معروضی علم کی بات نہیں کرسکتے۔ لوگ کسی فلسفے یا سائنسی نظریے کو صرف اسی وقت تسلیم کرتے ہیں ،

جب وہ اپنے عہد کے سیاسی اور دانشورانہ متقدرات یا آئیڈیالوجی یا سچائی سے لگا کھائے یا وقت کے رائج پیمانوں پر پورا اُترے۔فوکو’ڈسکورس‘ کو ذہنِ انسانی کی مرکزی سرگرمی قرار دیتا ہے، ایک عام آفاقی ’متن‘ کے طور پر نہیں بلکہ ’معنی خیزی‘ کے ایک وسیع سمندر کے طور پر۔وہ تبدیلی کی تاریخی جہت میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو کچھ کہنا ممکن ہے وہ ایک عہد سے دوسرے عہد میں بدل جاتا ہے۔ سائنس میں بھی کوئی نظریہ اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاتا، جب تک کہ وہ سائنس کے مقتدر اداروں اور ان کے سرکاری ترجمانوں کے طاقتی توافق سے مطابقت پیدا نہ کر لے۔فو کو کہتا ہے کہ مینڈل (MENDEL) کے علم توالّد کے نظریے کی ۱۸۶۰ء کے زمانے میں کوئی پذیرائی نہ ہوئی تھی

گویا یہ خیالات خلاء میں پیش ہوئے تھے، اور ان کی اپنی قبولیت کے لئے بیسویں صدی کا انتظار کرنا پڑا۔ اس کا مشہور قول ہے کہ’صرف سچ بولنا کافی نہیں ہے سچائی کے’ اندر ‘ہونا بھی ضروری ہے‘(نارنگ،ص، ۱۹۴۔ ۱۹۶)۔اس اقتباس میں جگہ جگہ نارنگ صاحب کے واوین کے استعمال کو دیکھا جاسکتا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف یہی تاثر قائم کررہے ہیں کہ انہوں نے اپنے خود ساختہ تجزیے کے دوران دوسروں کی اصطلاحات کا بخوبی خیال رکھا ہے ،اصول یہ تھا کہ نہ صرف یہ اقتباس بلکہ پروفیسر سیلڈن کے فوکو پر لکھے گئے باب کو ، جس کو باتمام و کمال نارنگ صاحب

نے سرقہ کیا ہے،واوین میں لکھتے۔انہوں نے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ہمارا مطالعہ یہ حتمی طور پر ثابت کرتا ہے کہ نارنگ صاحب کی کتاب میں فوکو پر لکھا گیا ہر لفظ پروفیسر سیلڈن کی کتاب کا ترجمہ ہے۔اس اقباس کے بعد نارنگ صاحب مندرجہ بالا واوین میں لکھے گئے اقتباس کو انگریزی میں واوین میں ہی لکھتے ہیں،'IT IS NOT ENOUGH TO SPEAK THE TRUTH, ONE MUST BE IN THE TRUTH'(نارنگ،ص،۱۹۶)۔اس اقتباس کو انگریزی میں بیان کرنے سے نارنگ صاحب کی نیت عیاں ہورہی ہے کہ وہ صرف اسی اقتباس کو ہی مستعار سمجھتے ہیں، لیکن اس انگریزی اقتباس کے بعد صفحہ نمبر کا کوئی حوالہ نہیں ہے، جس سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ وہ اصل مآخذ کو چھپانا چاہتے تھے۔جہاں تک اقتباس کا تعلق ہے جس کو پروفیسر سیلڈن نے بھی فوکو سے جوڑا ہے، دراصل یہ مارکسی

جدلیات کا بنیادی پہلو ہے جسے فوکو مارکس ہی سے مستعار لیتا ہے۔اگر نارنگ صاحب اس کے بارے میں کچھ جانتے ہوتے تو اس ’سچائی‘کا انکشاف بھی کرسکتے تھے۔جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہے کہ نارنگ صاحب نے اس کتاب سے بیشتر باب سرقہ کئے ہیں، اس دعوے کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے پروفیسر سیلڈن کے جوناتھن کلر پر لکھے گئے باب سے اقتباس پیش کرتے ہیں۔سیلڈن لکھتے ہیں،

Jonathan Culler (see also chapter 5) has argued that a theory of reading has to uncover the interpretative operations used by readers. We all know that different readers produce different interpretations. While this has led some theorists to despair of developing a theory of reading at all, Culler argues in The Pursuit of Signs (1981) that it is this variety of interpretation which theory has to explain. While readers may differ about meaning, they may well follow the same set of interpretative conventions.... (Selden, P62).

نارنگ صاحب کا کارنامہ ملاحظہ فرمائیں،’’جونتھن کلر اس بات پر زور دیتا ہے کہ قراَت کے نظریے کے لئے ضروری ہے کہ وہ افہام و تفہیم اور تحسین قاری کو ضابطہ بند کر سکے جو بالعموم قارئین قراَت کے

دوران استعمال کرتے ہیں۔اس بات کو نظر میں رکھنا چاہیے کہ ایک ہی متن سے مختلف قاری مختلف مفاہیم برآمد کرتے ہیں۔ اگرچہ تعبیر و تفہیم کا یہی تنوع دراصل قاری اساس تنقید کے بہت سے نظریہ سازوں کے لئے دقّت کا باعث بنتا ہے، لیکن کلر بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نظریے کا چیلنج یہی ہے کہ مختلف قرأتوں کے امکانات اور مفاہیم کے تنوع کو ضابطہ بند کیا جائے ، اس لئے قارئین میں معنی کا اختلاف تو ہوسکتا ہے لیکن تفہیم و تعبیر کے لئے قارئین جو پیرائے اور طور طریقے استعمال کرتے ہیں، ان میں کچھ تو ملتے جلتے ہونگے، اُن کو دریافت کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے‘‘(نارنگ،ص،۳۱۸۔۳۱۹)۔سیلڈن کے جولیا کرسٹیوا پر لکھے گئے باب میں سے اس اقتباس کو ملاحظہ فرمائیں،

The word 'revolution' in Kristeva's title is not simply metaphoric. The possibility of radical social change is, in her view, bound up with the disruption of authoritarian discourses. Poetic language introduces the subversive openness of the semiotic 'across' society's 'closed' symbolic order: 'What the theory of the unconscious seeks, poetic language practices, within and against the social order.' Sometimes she considers that the modernist poetry actually prefigures a social revolution which in the distant future will come about when society has evolved a more conplex form. However, at other times she fears that bourgeois ideology will simply recuperate this poetic revolution by treating it as a safety valve for the repressed impulses it denies in society. Kristeva's view of the revolutionary potential of women writers in society is just as ambivalent.... (Selden, P142).

نارنگ صاحب کو دیکھیں،’’کرسٹیوا کا انقلاب کا تصور یہ ہے کہ سماجی ریڈیکل تبدیلی مقتدر ڈسکورس میں تخریب اور خلل اندازی کے عمل پر منحصر ہے۔ شعری زبان سماج کے ضابطہ بند اور مقید علامتی نظام میں نشانیاتی تخریب کاری کی آزادہ روی ( کھلی ڈھلی تنقید) کو راہ دیتی ہے۔لاشعور جو چاہتا ہے ، شعری زبان اس کو سماج کے اندر اور سماج کے خلاف برت سکنے پر قادر ہے۔کرسٹیوا کو یقین ہے کہ سماجی نظام جب زیادہ ضابطہ بند، زیادہ پیچیدہ ہوجائے گا تو نئی شعری زبان کے ذریعے انقلاب لایا جاسکے گا،لیکن اس کو یہ بھی خدشہ ہے کہ بورژوا آئیڈیالوجی ہر نئی چیز کو اپنا کر اس کا ڈنک نکال دیتی ہے ، چناچہ ممکن ہے کہ شعری انقلاب کو بھی بورژوا آئیڈیالوجی ایک سیفٹی والو کے طور پر استعمال کرے، ان دبے ہوئے ہیجانات کے اخراج کے لئے جن کی سماج میں بالعموم اجازت نہیں ہے‘‘(نارنگ،ص،۲۰۲)۔جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ نارنگ صاحب کی ساری کتاب ترجمہ ہے ،لیکن انہوں نے چونکہ خود کو مترجم نہیں کہا اس لئے ہمیں ان کو سارق کہنا پڑ رہا ہے۔ سیلڈن کی تمام کتاب چند ایک اقتباسات چھوڑ کر نارنگ صاحب نے اپنے نام سے شائع کرائی ہے۔ نارنگ صاحب کے لئے بیٹھ کر سرقہ لکھنا اس لئے آسان ہوگیا کہ ایوارڈ ان کا منتظر تھا۔ کسی بھی دوسرے شخص کے لئے یہ کام آسان نہیں ہے کہ وہ قاری کو یقین دہانی کرانے کے لئے اپنے وقت کا زیاں کرتا رہے۔اس لئے یہاں پر سیلڈن کی کتاب سے اقتباسات کے مزید حوالے دینے کی بجائے ہم صرف صفحات کی تفصیل دینے پر ہی اکتفا کریں گے ۔ سنجیدہ قاری اصل مآخذات تک ضرور رسائی حاصل کریں گے۔رامن سیلڈن کی کتاب کے صفحات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گوپی چند نارنگ کی

کتاب کے صفحات

27 - 42۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 79 -10649 - 70۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔288 - 329149 - 158 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔234 - 24086 - 103 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔243 - 267

ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ سیلڈن کی کتاب سے دئیے گئے تمام صفحات گوپی چند نارنگ نے اپنے نام سے شائع کرائے ہیں۔حیرت زدہ کرنے والا امر یہ ہے کہ نارنگ صاحب نے اس کتاب میں شاید ہی چند الفاظ خود تحریر کئے ہوں۔ راقم کی حیرت میں اس لئے بھی اضافہ ہوا کہ نارنگ صاحب کو کتاب پر بطورِ مصنف اپنا نام لکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا ان کو خود بھی یہ خبر نہ ہو سکی کہ آج نہیں تو کل یہ راز آشکار ہوجائے گا۔سیلڈن کی کتاب سے نارنگ صاحب کے سرقے کے حقائق بمعہ تمام تر تفصیل پیش کرنے کے اب ایک دوسری کتاب کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ اس کتاب سے نارنگ صاحب نے رولاں بارتھ پر لکھے گئے مضمون کا سرقہ فرمایا ہے۔ یاد رہے کہ اسی مضمون کے بعض حصے جوناتھن کلر کی Structuralist Poetics سے چرائے گئے ہیں۔لیکن یہاں پر جو اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں وہ John Sturrock کی کتاب سے لئے گئے ہیں ۔ سٹرک نے اس کتاب میں پانچ مابعد جدید مفکروں پر لکھے گئے مضامین کو مرتب کیا ہے ۔جس مضمون کا نارنگ صاحب نے سرقہ کیا ہے وہ سٹرک کا اپنا تحریر کردہ ہے۔سٹرک نے مصنفانہ سچائی کا لحاظ کیا اور تمام مضامین کو ان کے مصنفوں کے نام سے شائع کیا۔ نارنگ صاحب نے دوسری زبان کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے بارتھ پر لکھے ہوئے مضمون کو اپنے نام کرلیا۔آئیے دونوں کا موازنہ پیش کرتے ہیں۔ جان سٹرک لکھتے ہیں،

Existentialism, on the contrary, preaches the total freedom of the individual constantly to change..... Barthes, like Sartre, pits therefore the fluidity, the anarchy, even, of existence against the rigor mortis of essentialism; not least because, again following Sartre, he sees essentialism as the ideology which sustains that tradional bugbear of all French intellectuals, the bourgeoisie... he writes at the conclusion of his most feroriously anti-bourgeois book, the devastating Mythologies (1957......... In one way, Barthes goes beyond Sartre in his abhorrence of essentialism. Sartre, as so far as one can see, allows the human person a certain integrity or unity; but Barthes professes a philosophy of disintegration, whereby the presumed unity of any individual is dissolved into a plurality or discontinuous. This biography is especially offensive to him as a literary form because it represents a counterfeit integration of its individual. It is a false memorial to a living person....... (Sturrock, John. Structuralism and Since. London, Oxford University Press,1979, P 53)نارنگ صاحب کی طرف چلتے ہیں:’’ لازمیت

‘‘(ESSANTIALISM) کے مقابلے میں وجودیت نے انسان کی اس بنیادی آزادی پر زور دیا تھا جو ہر تبدیلی کی بنیاد ہے۔ بارتھ بھی سارتر کی طرح لازمیت اور جبریت کے خلاف ہر طرح کی بغاوت بلکہ نراجیت (انارکی) تک کا قائل تھا۔ سارتر کی طرح وہ بھی لازمیت کو بورژوازی کا نشان سمجھتا تھا، اور پوری قوت سے اس کو رد کرتا تھا جیسا کہ اس کی ایک ابتدائی بحث انگیز تصنیف MYTHOLOGIES (1957) سے ظاہر ہے۔لازمیت اور بورژوازی کی مخالفت میں بارتھ ایک اعتبار سے سارتر سے بھی آگے نکل گیا، کیونکہ سارتر وحدت اور سا لمیت (INTEGRITY)کا منکر نہیں تھا،لیکن بارتھ اپنی دھن میں بورژوازی سا لمیت کے خلاف شکست و ریخت کے فلسفے کی حمایت تک سے گریز نہیں کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا انسان کی وحدت ایک طرح کا واہمہ ہے، اگر غور سے دیکھا جائے تو ہم میں سے ہر ایک دراصل ’کئی‘ ہے۔ وہ وحدت کا سرے سے قائل ہی نہیں تھا، خدا کا بھی نہیں، ہر وہ چیز جو غیر مسلسل اور غیر واحد ہے، بارتھ اس کی حمایت کرتا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ سوانح اسی لئے ادب نہیں کہ وحدت پیدا کرنے کی کوشش میں جعل کا نمونہ پیش کرتی ہے اور غیر اصل ہے۔ ‘‘(نارنگ، ص،۱۶۲۔۱۶۱)۔ جان سٹرک کے اسی مضمون میں سے ایک اور اقتباس پر غور کرتے ہیں،

his arch enemy is the doxa, the prevailing view of things, which very often prevails to the extent that people are unaware it is only one of several possible alternative views. Barthes may not be able to destroy the doxa but he can lesson its authority by localizing it, by subjugating it to a paradox of his own...... Barthes is only fully to be appreciated, then, as some one who set out to disrupt as profoundly as he could the orthodox views of literature he found in France...........The grievances against contemporary criticism with which Barthes began were deeply influential on what he came to write later. There were four main ones. First, he objected that literary criticism was predominantly ahistorical, working as it did on the assumption that the moral and the formal values of the texts it studied were timeless.....Barthes was never a member of the Communist party - let us say neo-Marxist objection. He dismissed existing histories of French literature as meaningless choronicles of names and dates... (Sturrock, P, 54-55)

اسی صفحے پر نارنگ صاحب نے قاری کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لئے پیراگراف کی تفصیل کو بڑی مہارت سے تبدیل کیا ہے،اگر قاری بھی سمجھ بوجھ کا حامل ہو تو یہ سرقہ بھی اس کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔نارنگ صاحب کے اقتباس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔’’DOXA یعنی اشیاء و صورتحال کا تسلیم شدہ تصور جسے اکثریت قبول کرتی ہو، اُسے بارتھ اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا۔ وہ DOXA کو تباہ کر سکا یا نہیں، لیکن اس نے اسکا احساس دلا دیا کہ حقیقت کا وہ تصور جسے بالعموم لوگ صحیح سمجھتے ہیں، حقیقت کے ممکنہ تصورات میں سے محض ایک ہوتا ہے۔ ۔۔۔چنانچہ ادب کے مقلدانہ تصور پر بھی رولاں بارتھ نے کاری ضرب لگائی۔ مدرسانہ تنقید اور مکتبی تنقید پر اس نے بار بار حملے کیے۔اُسے ادبی نظریات پر چار خاص اعتراض تھے:اوّل یہ کہ ادبی تنقید میں غالب رجحان غیر تاریخیت کا ہے، کیونکہ عام خیال ہے کہ متن کی ہئیتی اور اخلاقی اقدار دائمی ہیں۔بارتھ کبھی کمیونسٹ نہیں رہا لیکن ادب کی تاریخیت کے بارے میں اس کا نظریہ مارکسی نہ سہی تو نو مارکسی ضرور ہے۔ اس نے اپنے عہد کی ادبی تاریخوں کو ناموں اور سنین کا بے جان پُشتارہ قرار دیا‘‘(نارنگ، ص، ۱۶۳۔۱۶۲)۔سٹرک نے بارتھ

کے حوالے سے دوسرا اعتراض ان الفاظ میں اٹھایا ہے:

Barthes's second complaints against academic criticism was that it was psychologically naive and deterministic....when critics chose to explain textual data by biographical ones, or the work by the life....The elements of a literary work - and this is an absolutely central point in literary structuralism - must be understood in the first instance in their relationship to other elements of that work..... (Sturrock, P,56)

نارنگ صاحب نے سٹرک کے بارتھ کے حوالے سے دوسرے اعتراض پر ان الفاظ میں قبضہ جمانے کی کوشش کی ہے:’’ مکتبی یک سطحی تنقید پر اس کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ مکتبی تنقید کا نفسیات کا شعور مجرمانہ حد تک معصومانہ ہے۔ سوانح معلومات کی مدد سے متن کو سمجھنا اس کے نزدیک ناقابلِ معافی جرم تھا۔۔۔اس کے نزدیک ادبی متن کے عناصر کو صرف ان داخلی رشتوں کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے جو وہ متن کے دوسرے عناصر سے رکھتے ہیں۔ یہ نکتہ ساختیاتی فکر کا بنیادی پتھر ہے‘‘ (نارنگ، ص، ۱۶۳)۔سٹرک کے بارتھ کے حوالے سے مکتبی تنقید پر تیسرا اعتراض سٹرک کے الفاظ میں کچھ یوں ہے:They could see only one meaning in the texts they concerned themselves with, and that one meaning was usually a very literal one. This they subsequently held the meaning of the text, and that to search further for supplementary or alternative meanings was futile. They were men of narrow and autocratic temper who fancied they were being scientific when they were merely being culpably dogmatic. Their minds were closed to the ambiguities of language, to the co-existence of various meaning within a single form of words,....... (Sturrock, P 57-58) نارنگ نے


سٹرک کے بیان کردہ بارتھ کے تیسرے اعتراض کو ان الفاظ میں اپنے سرقے کی بھینٹ چڑھایا ہے:’’مکتبی تنقید متن کے صرف متعینہ طے شدہ معنی کو صحیح سمجھتی ہے اور نہایت ڈھٹائی سے اس پر اصرار کرتی ہے۔ متعینہ معنی تو صرف لغوی معنی ہوسکتے ہیں ، اور ادب میں اکثر و بیشتر بے ہودگی کی حد تک غلط ہوتے ہیں۔ مکتبی نقادوں کے بارے میں بارتھ نے لکھا ہے کہ اُن کا ذہن چھوٹا اور نظر محدود ہوتی ہے،وہ ادعایت کا شکار ہیں اور ادب میں اکثریت کے علمبردار ہیں۔ ۔۔ادب فی نفسہ ابہام سے لبریز ہے اور ایک ہی فارم میں کئی معنی ساتھ ساتھ عمل آراء ہوسکتے ہیں‘‘ (نارنگ، ص، ۱۶۳)۔یہاں پر ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ چوتھے ’اعتراض‘ کی سچائی جاننے کے لئے قاری جان سٹرک کے صفحہ نمبر ۵۹۔۵۸ اور نارنگ صاحب کی کتاب کے صفحہ نمبر ۱۶۴ کا خود مطالعہ کرے گا۔ ہمارا یہاں نارنگ صاحب کے مسروقہ’ اعتراضات‘ پر یہ اعتراض ہے کہ وہ اس حد تک سرقے کے مرتکب ہوکر اُردو ادب میں پہلے سے قائم روایت کو کیوں طول دینا چاہتے تھے؟ قاری ان اقتباسات کے بعد یہ قطعاََ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ نارنگ صاحب کے بارتھ پر لکھے گئے مضمون کے حوالے سے سرقے کی حد صرف یہاں تک ہی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ نارنگ صاحب نے سٹرک کے مضمون میں بارتھ کی تمام کتابوں کے مختصر تجزیے کو بھی لفظ بہ لفظ سرقہ کیا ہے۔ جان سٹرک کا یہ مضمون ستائیس صفحات پر مشتمل ہے ۔ سٹرک کا پیش کردہ تجزیہ بھی بھر پور نوعیت کا ہے۔نارنگ صاحب نے چونکہ کسی بھی اصل مآخذ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اس لئے ان کی علمی قابلیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔بہرحال ان کے علاوہ کچھ مزید کتب پر غور کرتے ہیں۔کیتھرین بیلسی لکھتی ہے:

From this post-Saussurean perspective it is clear that the theory of literature as expressive realism is no longer tenable. The claim that a literary form reflects the world is simply tautological. If by 'the word' we understand the world we experience, the world differentiated by language, then the claim that realism reflects the world means that realism reflects the world constructed in language. This is a tautology................ (Belsey, Catherine. Critical Practice, London, Routledge, 2003, P,43)

نارنگ صاحب یوں سرقہ فرماتے ہیں:’’اس سوسےئری تناظر سے ظاہر ہے کہ ادب کا

وہ نظریہ جسے حقیقت نگاری کہتے ہیں ،قابلِ مدافعت نہیں ہے۔ یہ دعوی ٰکہ ادبی فارم حقیقت کا عکس پیش کرتی ہے ،صرف تکرار بالمعنی، (Tautological) ہے۔اگر حقیقت سے ہماری مراد وہ حقیقت ہے جس کا ہم تجربہ کرتے ہیں،یعنی جو تفریقی طور پر زبان کے ذریعے قائم ہوتی ہے تو یہ دعوی کہ ’حقیقت نگاری حقیقت کا عکس پیش کرتی ہے ، دراصل یہ ہوا کہ ،حقیقت نگاری اس دنیا کا عکس پیش کرتی ہے جو زبان کے ذریعے قائم ہوتی ہے‘(Constructed in Language) ظاہر ہے یہ’ تکرار بالمعنی‘ (Tautology) کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔(نارنگ ،ص،۷۸)گوپی چند نارنگ نے جو اقتباس سرقہ کیا ہے اس میں سے بیلسی کے لفظ’ پوسٹ ‘کو حذف کردیاہے جس سے بیلسی کا قائم کردہ معنی متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے صفحہ نمبر کا حوالہ بھی کہیں نہیں دیا گیا۔ دوسرا انھوں نے مندرجہ بالا اقتباس میں" تکرار بالمعنی" کو واوین میں لکھ کر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ خاص اصطلاح کسی دوسرے مفکرسے ماخوذہے اور یہ عظیم کام نارنگ صاحب خود سرانجام دے رہے ہیں، ہمارا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ نارنگ صاحب نے غلط تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ سارے کا سارا اقتباس ،جسے یہاں مختصراََ پیش کیا گیا ہے ،بیلسی کی کتاب سے ہو بہوماخوذہے ۔ مندرجہ بالا تجزیہ کیتھرین بیلسی کا ہے ،گوپی چند نارنگ کا نہیں ہے ۔مغرب میں بیلسی کی یہ کتاب ایک تعارفی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے ،جو برطانیہ میں بی اے کے طلبہ کے لیے تنقیدی نظریات کا مختصر تعارف پیش کرتی ہے ۔ یہاں قارئین کے لیے اس امر کا ادراک بھی ضروری ہے کہ گوپی چند نارنگ نے محض ایک ہی اقتباس کو نقل نہیں کیا بلکہ انھوں نے بیلسی کی اسی کتاب سے کئی اقتباسات لفظ بہ لفظ ترجمہ کر کے اپنے نام سے شائع کرائے ہیں ۔اب بیلسی کی طرف رجوع کرتے ہیں:

Saussure's argument depends on the different division of the chain of meaning in different languages. ' If words stood for pre-existing concepts' they would all have exact equivalents in meaning from one language to the next; but this is not true' (Saussure, 1974: 116). The truth is that different languages divide or articulate the world in different worlds. Saussure gives a number of examples. For instance, where French has the single mouton, English differentiates between mutton, which we eat, and sheep.............(Belsey, 36-37).نارنگ صاحب کے کارنامے کی طرف

دیکھیں:’’ سیو سئر کی دلیل لفظوں کی ا

ن کڑیوں پر مبنی ہے جو ایک تصور کے لیے مختلف زبانوں میں پائے جاتے ہیں ۔’اگرلفظ ما قبل موجود تصورات کے لیے قائم ‘ ہوتے تو ایک زبان سے دوسری زبان میں ان کے معنی متبادل پائے جاتے ،لیکن ایسا نہیں ہے ،(کورس ص،۱۱۶) حقیقت یہ ہے کہ مختلف زبانیں دنیا کی چیزوں کو مختلف طور پر دیکھتی اور ظاہر کرتی ہیں ۔سیوسئر نے کئی مثالیں دی ہیں ۔فرانسیسی میں ایک لفظ ہےMouton اس کے برعکس انگریزی اس کے متبادل Muttonاور Sheepمیں فرق کرتی ہے‘ (گوپی چند نارنگ ،ص،۶۸)۔ طوالت کے باعث اس اقتباس کو بھی مختصر رکھا گیا ہے ۔اس اقتباس میں انتہائی قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ بیلسی نے اپنے تجزیے میں سیوسئر کی کتاب سے لیے گئے حوالے کو بشمول صفحہ نمبر پیش کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیلسی سیوسےئر کا تجزیہ اپنے انداز میں پیش کررہی ہے۔ نارنگ صاحب یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیوسئر کا حوالہ انھوں نے بیلسی کی کتاب سے اخذ نہیں کیا بلکہ انھوں نے سیوسئر کا براہِ راست مطالعہ کیا ہے ۔یہ ادبی بددیانتی کی واضح مثال ہے۔نارنگ صاحب بہرحال اس حوالے سے کافی متحرک واقع ہوئے ہیں کہ انہوں نے کسی ایک کتاب پر ہاتھ صاف نہیں کیا بلکہ کئی کتابوں کو یرغمال بنایا ہے،ایک طرف تو ان کو کتاب کی ضخامت درکار تھی جبکہ دوسری طرف شاید انہیں اپنی ادبی قامت مطلوب تھی۔ان کو یہ بھی احساس تھا کہ اہلِ اردو کی اکثریت جو چند ایک انگریزی کے ناموں سے ہی متاثر ہوجاتی ہے،کئی طرح کی کتابوں کے نام لینے سے کئی دہائیاں ان کے اذہان پر نارنگ صاحب کے کارنامے کا اثر رہے گا۔بہرحال صرف ایک دہائی تک ہی ان کی اس خواہش کی تسکین ہوپائی ہے،اس کے بعدنارنگ صاحب کی ’سچائی‘ کے معیار کے برعکس سچائی کا انکشاف لازمی تھا۔نارنگ صاحب نے مندرجہ بالا تمام مصنفین کا تمسخر اڑانے کے بعد رابرٹ سکولز پر بھی اپنی ’سچائی‘ کو مسلط کیا ہے۔آئیے پہلے سکولز کی طرف

چلتے ہیں:

Attempting to distinguish between constant and variable elements in a collection of a hundered Russian fairytales, Propp arrives at the principle that though the personage of a tale are variable, their functions in the tales are constant and limited. Describing function as "an act of a character, defined from the point of view of its significance for the course of the action," Propp developed inductively four laws which put the study of folk literature and of fiction itself on a new footing. I their baldness and universality, laws 3 and 4 have the shocking effect of certain scientific discoveries: 1. Functions of characters serve as stable, constant elements in a tale, independent of how and by whom they are fulfilled. They constitute the fundamental components of a tale. 2. The number of function known to the fairy-tale is limited. 3. The sequence of functions is always identical. 4. All fairy tales are of one type in regard to their structure. (Morphology of the Folktale, pp. 21,22,23) In comparing the functions of tale after tale, Propp discovered that his total numbers of functions never surpassed thirty-one, and that however many of the thirty-one functions a tale had (none has every one) those that it had always appeared in the same order.... After the initial situation, in which the members of a family are enemerated or the future hero is introduced, a tale begins, consisting of some selection of the following functions in the following order: 1. One of the members of a family absents himself from home. 2. An interdiction is addressed to the hero. 3. The interdiction is voilated. 4. The villain makes an attempt at reconnaissance. 5. The villain recieves information about his victim. 6. The villain attempts to deceive his victim in order to take possession of him or of his belongings. 7. The victim submits to deception and thereby unwittingly helps his enemy

. یہ فہرست اکتیس پر جاکر ختم ہوتی ہے۔ مکمل فہرست دینے سے مضمون کی طوالت میں اضافہ ہوجائے گا، جو قطعی غیر ضروری ہوگا۔اگر مکمل فہرست دی جائے تو صفحات کی تعداد تقریباََ نو تک چلی جاتی ہے۔اس لئے قاری ان صفحات پر ازخود غور کرئے، جبکہ نارنگ کے سرقے کی تفصیل میں قلمبند کررہا ہوںScholes, Robert, Structuralism in Literature, New York, Vail-Ballou Press,1974 P, 62-70.

نارنگ صاحب کی حرکت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں

جاری ہے

:

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply