مہمان اداریہ

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under

تحریر :- ڈاکٹر نذر خلیق
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اردو تحقیق و تنقید کا ایک معتبر نام سمجھا جاتا رہا ہے۔ان کے بعض علمی کام اہمیت کے حامل تھے، لیکن نہ جانے ان کے سر میں کیا دُھن سمائی کہ خود کو علمی لحاظ سے بہت ہی منفرد ظاہر کرنے کے لیے انہوں مابعد جدیدیت کی باگ ڈور سنبھالنے کا ذمہ لے لیا اور اسے نبھانے کے لیے کسی محنت و ریاضت کی بجائے
براہِ راست مغربی دنیا کی علمی کتابوں پر ہاتھ صاف کر دیا۔مغربی کتابوں کے سرقے کرتے ہوئے انہوں نے اتنی دریا دلی کا مظاہرہ کیا کہ نقل کرنے کے لیے جتنی کم از کم عقل سے کام لینا چاہئے،اتنی عقل سے بھی کام نہیں لیا۔ عمران شاہد بھنڈر کایادگار کام ہے کہ انہوں نے اپنے مسلسل مضامین کے ذریعہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں کو ادبی دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ان کا پہلا مضمون انگلینڈ کے اخبارپاکستان پوسٹ اور ادبی رسالہ نیرنگِ خیال راولپنڈی میں چھپنے کے باوجود قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کرا سکا تھاجبکہ جدید ادب جرمنی میں اس مضمون کی اشاعت سے پوری ادبی دنیا میں
ان سرقوں کا چرچا ہوگیا۔(خیال رہے کہ مزید اضافوں کے نتیجہ میں جدید ادب میں چھپنے والا پہلا مضمون نیرنگِ خیال والے مضمون سے دوگنا ہو گیا تھا)۔روزنامہ منصف حیدرآباد دکن،روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی، عکاس اسلام آباد،شب خون خبر نامہ الہٰ آباد،انٹرنیٹ میگزین دستک کینیڈا اور مزید نہ جانے کتنے اخبارات و رسائل نے اس مضمون کی مکرر اشاعت کی۔(ایک اور مضمون حال ہی میں مژ گاں کلکتہ نے بھی شائع کیا ہے)چونکہ یہ ساری اشاعتِ مکرر جدید ادب کی وجہ سے ہوئی تھی
اسی لیے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے اشارے پر اصل مضمون نگار کے مقابلہ میں جدید ادب کے مدیر حیدر قریشی کو زیادہ زد پر رکھا گیا۔انہیں متعدد نقصانات کا سامنا کرنا پڑا،حیدر قریشی نے بعض نقصانات کے بارے میں کھل کر بتا دیا ہے،بعض کو اس لائق ہی نہیں سمجھا کہ ان کا ذکر کرتے۔تاہم ایک اہم ترین نقصان کا انہوں نے ابھی تک اظہار نہیں کیا ۔اس کے لیے حیدر قریشی مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔حال ہی میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے لندن کے ایک نہایت ہی غلیظ شخص اور فارسی سے چوریاں کرکے ’’نقاد‘‘بننے والے شخص سے غلیظ گالیوں اور فرقہ پرستانہ رویوں پر مشتمل ایک مضمون لکھوایا اور شائع کروایا ہے۔وہ شخص تو اس لائق نہیں کہ اس کی کسی بد زبانی کا جواب دیا جائے لیکن اس کے نتیجہ میں عمران شاہد بھنڈر نے ’’سرقے کا کوہ ہمالیہ‘‘ لکھ کر نارنگ صاحب کے مزید سرقے بے نقاب کیے ہیں۔اور اسی کے نتیجہ میں عکاس کا یہ گوپی چند نارنگ نمبر اشاعت پذیر ہورہا ہے۔اس کا کریڈٹ ڈاکٹر نارنگ کی پی آر کے طریقۂ واردات کو دیا جانا چاہیے۔اس مضمون میں مضمون نگارعمران شاہد بھنڈر کا اندازان کے سابقہ مضامین سے بھی زیادہ زیادہ جارحانہ ہو گیا ہے لیکن جس مضمون کے نتیجہ میں یہ لکھا گیا ہے اس کے مقابلہ میں یہ ابھی بھی بہت شائستہ ہے۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بظاہر خود کو سیکولر ذہن کا آدمی کہتے ہیں لیکن یہ حقیقت کھل کر ظاہر ہو چکی ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر کسی طرح کی فرقہ پرستانہ حد تک جا سکتے ہیں
اور جا چکے ہیں۔اور اس میں کسی بھی حد تک گرجانے کو وہ گرنابھی نہیں سمجھتے۔اپنی ذات اور اپنے مفاد کے لیے یہ ان کی ’’اعلیٰ ظرفی‘‘ کا ثبوت ہے۔یہاں اس امر کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے کہ عمران شاہداپنے مضامین میں گوپی چند نارنگ کے سرقوں کی نشاندہی کے علاوہ جن دوسرے متعلقات میں جاتے ہیں وہاں پر ان کے سرقوں کی نشاندہی کی داد دینے کے باوجود ان سے اختلاف کرنا پڑتا ہے۔جدید ادب (شمارہ نمبر ۱۰ صفحہ نمبر ۲۰۶) میں حیدر قریشی نے بھی(نمبر ہذا ص ۴۱پر) اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔اور یہاں بھی ان تحفظات کا اظہار ضروری ہے ۔ مثلاََ فضیل جعفری صاحب نے دس سال پہلے سے یہ لکھ رکھا ہے کہ گوپی چند نارنگ جن کتابوں کے حوالے دے رہے ہیں لگتا ہے انہوں نے وہ اصل کتابیں پڑھی نہیں ہیں۔بعض دیگر ناقدین بھی یہ بات اپنے اپنے انداز میں کئی برس پہلے سے کہہ چکے ہیں۔جیسے سکندر احمد نے انہیں’’ادنیٰ ترین تراجم کی بد ترین مثال ‘‘ قرار دیا۔احمد ہمیش نے ’’انگریزی متن کے ناقص تراجمُ ‘‘ سے موسوم کیا۔اسی طرح ہمارے بہت سارے ناقدین نے مابعد جدیدیت کی محض رپورٹنگ نہیں کی۔اس قسم کے بیانات سے عمران شاہد بھنڈرکے اردو میں مطالعہ کی کمی
کا احساس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے وہ اپنی نصابی حدود میں جو کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں،اگر وہ ان کا پی ایچ ڈی کا موضوع نہ ہوتا تو وہ اپنے کسی اور سبجیکٹ تک ہی محدود ہوتے۔ ڈاکٹر وزیر آغانے مابعد جدید مغربی تصورات سے بحث کرتے ہوئے محض رپورٹنگ نہیں کی۔’مصنف کی موت‘ کے تصور کو مکمل طور پر رد کیا‘متن کی اہمیت کو شدت کے ساتھ اجاگر کیا۔فضیل جعفری اور وزیر آغا وغیرہ کی یہ صرف دو مثالیں ہیں۔اردو تنقید و ادب میں مزید کئی مثبت اور روشن مثالیں موجود ہیں۔سب کچھ منفی نہیں ہے۔اسی طرح عمران کے بعض دوسرے مباحث پر بھی ہمارے تحفظات ہیں۔خصوصاََ جہاں ایسی غیر متعلقہ باتوں کی بھرمار ہے جن کا سرقہ کی نشاندہی کے بنیادی مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں اور جو ان کے یونیورسٹی نوٹس اور نصابی نوعیت کے مواد پر مبنی دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران شاہد اردو تنقید میں اور کوئی کتنااہم کام کر لیں لیکن گوپی چند نارنگ کے سرقوں کو بے نقاب کرناان کاسب سے اہم کام اور یہی ان کی ادبی شناخت رہے گا۔ارشد خالد کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے اس نمبر کو ترتیب دینے میں کام کرنے کا موقعہ دیا۔
جدیدادب کے شریک مدیر کی حیثیت سے بھی اور اپنے پی ایچ ڈی کے موضوع کی وجہ سے بھی میں اس کارِ خیر میں پہلے بھی شامل تھا اور اب بھی شامل ہوں۔اس نمبر کی اشاعت کے بعد ہماری اردو
کی ادبی دنیا کی حق گوئی و بے باکی اور منافقت و ریاکاری کے دونوں پہلو زیادہ نمایاں ہوں گے۔

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply