جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ کے سنسر شدہ خطوط

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ کے سنسر شدہ خطوط


The article of Imran Shahid Bhender in Jadeedadab.com is indeed an eye opener. We are very well familiar with many other qualities of Narang sahib but this aspect is particulary interesting.Anyway, this is very unfortunate and plagiarism should be discouraged and condemned at every level. To achieve this goal I think wider publicity should be given to such cases.I am writing this letter to request you to allow us to reproduce the article in a new quarterly journal launched from Delhi. The journal 'Behs-o-Mubahisa' is started by a group of teachers and writers from Delhi. Asif Azmi is its editor and publisher. If you allow us, we would also like to have the matter as inpage file. I hope you would do this favour. However, if the permission is required from Imran shahid sahib, I would request you to send his email ID

.

علی جاوید

(دہلی)

گوپی چند نارنگ سے متعلق عمران شاہد کی مفصل اور مدلل تحریر ہر لحاظ سے لائق مطالعہ ہے۔بلا شبہ مصنف کا لہجہ کہیں کہیں پر کچھ زیادہ ہی درشت ہوگیا ہے ، تاہم تحریر کی افادیت (بلکہ حقانیت) سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اس کی بازگشت اردو دنیا میں دیر اور دور تک سنی جاسکے گی۔ حیرت ہے کہ گوپی چند نارنگ جیسا جہاں دیدہ اور زیرک نقاد اس دھوکے میں کیسے آگیا کہ سرقے کا یہ معاملہ ہمیشہ صیغۂ راز میں ہی رہے گا ! ایسا لگتا ہے کہ نارنگ صاحب نے اردو والوں کو کچھ زیادہ ہی

Underestimate

کرلیا اور دھوکا کھا گئے۔ ایک طرف عمران شاہد بھنڈر کی صریح

واضح اور مدلل تحریرہے

(جس کا تحقیقی اعتراف محترمہ شبانہ یوسف


(برمنگھم)

نے اپنے مراسلے میں کیا ہے)

تو دوسری جانب ڈاکٹر نار نگ کی ’شان استغناء‘ سے پُر خاموشی، ...... اب ایسے میں سرقے کی بات کو کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے! اس سلسلے میں کاوش عباسی کے مراسلے کے ساتھ آپ نے جو ادارتی نوٹ لگایا ہے اس کی برجستگی مجھے بہت پسند آئی۔ در اصل آپ نے ہم اردو والوں کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے گیان چند جین کی کتاب’ایک بھاشا ،دو لکھاوٹ،دو ادب‘ پر اردو عوام الناس نے صدائے احتجاج بلند کیا تو چند ایک کو چھوڑ کر ہمارے بیشتر ادیبوں نے اس معاملے میں( تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے) ایسی’’ پر اسرار خاموشی‘‘ اختیار کر لی کہ اس کی گونج آج تک سنی جاسکتی ہے ۔ اور اسکے بنیادی اسباب وہی تھے جن کا ذکر آپ نے اپنے ادارتی نوٹ میں کیا ہے۔

ارشد کمال

(دہلی)

ایک بارپھر عمران شاہد بھنڈر کا مضمون گوپی چند نارنگ کے سرقہ کے بارے میں پڑھنے کو ملا ۔انہوں نے اس مضمون میں اس کے سرقے کے بارے میں مزید شواہد پیش کئے ۔حا لانکہ بات تو پہلے ہی مضمون کے ساتھ واضح ہو گئی تھی۔اور شاید عمران صاحب کو اس بات کا علم ہو گا کہ پاکستان اور بھارت میں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ۔یہاں تو شروع سے یہ کام چلا آرہا ہے ۔آپ انیس جیلانی اور اس کے باپ کی مبارک اردو لائبریری کو تو جانتے ہیں ۔انیس جیلانی نے اپنے باپ کے نام نوازش نامے کے ساتھ جو خط چھاپے ہیں ۔اس میں نوح ناروی صاحب بھی اپنا ایک دیوان فروخت کرنے لئے پیشکش لئے بیٹھے ہیں ۔اس طرح کی ادبی جعل سازی کے خلاف تو آپ نے ایک لمبی قلمی جدوجہد بھی کی ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور زکریا یونیورسٹی ملتان کے کئی پر وفیسر و ں (لیکچرار نہیں) کے پی ۔ایچ ڈی کے تھیسیزچوری کے نکلے ہیں۔جو انہوں نے باہر کے ملکوں میں جا کر سرکاری خرچوں پر چوری کئے تھے۔ایسے پروفیسروں میں کئی برطرف ہو گئے ہیں اور کئی کے خلاف کاروائیاں چل رہی ہیں۔میں یہ بھی ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بہت سے پرفیسروں کی کتابیں جن پر ان کے نام چھپے ہیں ان کے ایم۔ اے ۔ایم۔فل اور پی ایچ ڈی سٹودنٹس کی تحقیقات کا نتیجہ ہیں۔بات کچھ لمبی ہو گئی ہے در اصل میں بھنڈر صاحب سے یہ کہنا چاہتاہوں کہ وہ اب نارنگ صاحب کی کسی اور کتاب کا جائزہ لیں مثال کے طور پر اردو زبان اور لسانیات وغیرہ کا اور اس میں دیکھیں کہ نارنگ صاحب نے کن کن پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ آخری باب خاص طور پر قابل ملاحظہ ہے۔ اسلم رسولپوری۔جام پوررسالہ مل گیا۔ ابھی اچھی طرح نہیں پڑھا ہے۔عمرا ن شاہدکا مضمون بہت معلومات افزا ہے۔ہائی ڈ یگا۔اورڈریدا اس عہد کے بہت بڑے بو رشوازی اور استعماری مقاصد کے آلہءِ کار ہیں اس سے بڑا یہ سچ ہے کہ

ہمارے عہد کے’’ بڑ ے نقاد‘‘عموماّّ خود ساختہ بڑے ہیں۔ اور مغربی افکارکے ، زہریلے مقاصد کو،اس میں پوشیدہ ایجنڈے کو صحیح طور پہ سمجھے بغیر پنڈت بن کر پڑھانے لگتے ہیں، اور اذیت کی بات یہ ہے کہ اگر آپ عام آدمی کی نہیں خواص کے بھی ذ ہنی ا فق کو وسعت دینا چاہیں اور انھیں باخبر کرنا چاہیں تو اس قسم کا سوال کیا جاتا ہے کہ ۔ مغربی تنقیدی کلیات سے ہمارا کیا کام؟ اگر اکثریت ایسے لوگوں کی ہو جو جہا لت اوڑھے رکھنے پہ بضد ہوں تو نارنگ صاحب جیسے پنڈت خدائے تنقید نہ بنیں تو کیا کریں۔میرے اپنے ایک مضمون ’’قاری کی ردِ عمل تنقید کیا ہے‘‘(مطبوعہ سہ ماہی تجدیدِ نو۔لاہور شمارہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۶ء) کا تعلق اس بات سے تھا کہ مغرب میں ادب سیاسی مقاصد کیلئے کیسے استعمال ہوتا ہے۔ اور قاری کے ردِ عمل کی تنقید اسی سلسلے کی کڑی کیسے ہےْ ؟اسی رویے کے خلاف ایڈورڈ سعید نے اشارہ کیا ہے کہ دانشوروں کو مکتبی، اور ادارتی منتظمین کا غلام نہیں ہونا چاہئے۔ مابعدجدیدیت ایک مجہول نقطۂ نظر تھا مگر ہمارے ہاں نقادوں نے بزعمِ خود خوب میدان مارے ، بغیر جانے کہ اس تحریک کا مقصد نئی استعماریت کا فروغ تھا ۔ عمران شاہد کے نارنگ صاحب پہ اعتراضات سے مجھے پورا اتفاق ہے اسلئے بھی کہ میں نے گزشتہ سا ل ڈریدا اور فیمنزم کے گٹھ جوڑ پہ ایک مضمون لکھا تھا اس سلسلے میں تنقیدی نظریات کی پو ری تا ریخ پڑھی تھی۔اور وہ دماغ میں تازہ ہے، ایک دلچسپ بات اور بھی ہے کہ مجھے ایک قریبی جاننے والے نے بتایا کہ نارنگ صاحب سربیٹن کی لائبریری میں بیٹھ کر ا ردو تنقید پہ کوئی کتاب لکھا کر تے تھے۔ مجھے بہت حیرت یوں ہوئی کہ اردو کی ایک کتاب بھی ہمارے علاقے کی لائبریری میں نہیں تھی میں نے مقامی ایم پی سے مل کر جنگ اخبار لگوا یا تھااور تب سے یہاں چند اردو کی کتابیں رکھی جانے لگیں ہیں۔ تو یقیناََ وہ اُن دنوں اردو کی نہیں انگریزی کی کتاب ترجمہ کرہے تھے اور یہاں اردو کتابیں آنے سے بہت پہلے نارنگ صاحب اپنی علمیت کے شہرہِ آفاق پہ پہنچ چکے تھے۔انگریزی کی کوئی کتاب بھی کچھ پیسے دیکر منگوائی جاسکتی ہے جو انڈیامیں نہیں ملے گی۔ اگرچہ کاپی رائٹ کا قانون یہاں موجود ہے تاہم انڈیا پاکستان میں آپ پوری کتاب اپنے نام سے چھپوالیں کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں لو گوں نے نارنگ صاحب سے اس سرقے کے بارہ میں پوچھا تھا

مگر انھوں کوئی جواب نہیں دیا۔ جس سے عمران صاحب کے الزامات کو تقویت ملتی ہے۔ویسے نارنگ صاھب کو یقین ہے کہ انڈیا میں کوئی انکا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ انکی علمیت کا بت تو پاکستان میں بہت اونچے مقام پہ ہے۔ جب لوگوں کو براہِ راست پڑھنے کے بجائے دوسروں کا ملغوبہ مل جائے اور شاعری میں تک بندی معراجِ ادب قرار دیجائے تو سب کچھ ممکن ہے۔ لوگ آئے دن ڈاکٹریٹ کرتے ہیں اور دوسروں کے خیالات کو دبارہ پیش کر دیتے ہیں۔ کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ حمیدہ معین رضوی(لندن)جدید ادب شمارہ نو(۹) شمارہ دس (۱۰) اور شمارہ گیارہ (۱۱) میں جناب گوپی چند نارنگ پر جناب عمران شاہد بھنڈر کے مضامین کا ہنگامہ۔ آپ کے ادارتی نوٹ اور جوئیہ صاحب کا ردعمل یہ سب خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ جناب عمران شاہد بھنڈر نے اپنے انکشافات کو بڑے مدلل طریقہ سے اقتباسات اور حوالوں کے ساتھ پیش کرتے ہوئے مغربی مفکرین کی نقالی اور سرقے کو ہی نارنگ کی ادبی شناخت ثابت کردیاہے۔ اس سلسلہ میں محترمہ شبانہ یوسف نے ان تمام کتب تک رسائی حاصل کی جنکا حوالہ بھنڈر صاحب نے اپنے مضمون میں دیا محترمہ کا تفصیلی خط شمارہ نمبر گیارہ بے حد اہم گواہی پیش کرتاہے۔ جس کے بعد شک و شبہے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اب اس بحث نے نیا دروازہ کھول دیاہے۔ فی الوقت نارنگ صاحب کی مجرمانہ خاموشی پر ہنسی آرہی ہے۔ رد عمل کے طورپر جاوید حیدر جوئیہ صاحب کا مضمون نفس مضمون سے ہٹ کر ذاتیات کو نشانہ بناتے ہوئے مخالفت برائے مخالفت کا ایک نمونہ پیش کرتاہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔

تنہا تما پوری

(تما پور)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندوستان کے بارے میں ابھی تک میرا تاثر اور تجربہ یہی تھا کہ وہاں آزادئ اظہار زیادہ ہے۔میں نے اپنے صحافتی کالموں میں ہندوستان کے انتہا پسند ہندوؤں اور ان کے رہنماؤں کے بارے میں خاصے سخت الفاظ لکھے ہیں لیکن میرا وہ لکھا ہوا انڈیا ہی میں چھپتا رہا ہے۔کالم کی صورت میں بھی اور کتابی صورت میں بھی۔لیکن کسی نے بھی اس آزادئ اظہار میں رخنہ پیدا نہیں کیا۔اسی وجہ سے میرے دل میں انڈیا کی حکومتوں اور اداروں کے لیے احترام کا جذبہ رہا ہے۔مجھے احساس ہے کہ انڈیا میں صحافتی آزادی کا مجموعی تاثر وہی ہے جو میرے دل میں موجود ہے لیکن ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب نے مغربی ادب سے اپنے کھلے سرقوں کے کھلے ثبوتوں کا جواب دینے کی بجائے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے وہ ہندوستان کی علمی،ادبی اور صحافتی ساکھ پر ایک بد نما داغ ہے۔میں حکومت ہند سے درخواست کرتا ہوں کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی جانب سے کی جانے والی اس بلیک میلنگ کا نوٹس لے،جس نے انڈیا میں مہذب طریقے سے کیے جانے والے

آزادئ اظہارکا گلا گھونٹنے والی حرکت کی ہے۔اسی طرح ان کی کتاب ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات کے سلسلہ میں ایک علمی کمیٹی بٹھائی جائے جو تحقیق کرے کہ نارنگ صاحب نے واقعی یہ سارے شرمناک سرقے کیے ہیں یا ان پر بے جا الزام ہیں۔اگر وہ پاک صاف ثابت ہوں تو ان کی مذکورہ کتاب کا انگریزی ترجمہ سرکاری طور پر شائع کرایا جائے۔اور میں جدید ادب میں اس کتاب کے سرقوں کے حوالے سے چھپنے والے سارے میٹر کے لیے انڈیا کے قانون کے مطابق بخوشی ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار رہوں گا۔مغربی دنیا میں اردو کے جتنے رسائل چھپتے ہیں ،سب کے سب پاکستان اور ہندوستان سے چھپ کر وہاں سے ریلیزکیے جاتے ہیں۔ان میں زیادہ تر کتابی سلسلے ہی ہیں۔میرے پاس ایسے تمام رسائل کی پوری لسٹ موجود ہے جو انڈیا سے چھپ کر یورپ سے ریلیز کیے جاتے ہیں۔اور تو اور ایک پاکستانی رسالہ بھی انڈیا سے چھپ کر دنیا بھر میں ریلیز کرنے کی خبر آچکی ہے۔ادبی رسائل میں چھپنے والے مواد کا تعلق علم و ادب سے ہوتا ہے۔نارنگ صاحب کے بارے میں بھی جو کچھ شائع کیا گیا وہ سراسر علمی و ادبی معاملہ ہے ۔اردو دنیا جس نقاد پر ناز کرتی رہی اس کا جو اصلی علمی حدود اربعہ سامنے آچکا ہے وہ خود اردو والوں کے لیے انتہائی افسوسناک ہے۔اپنے سرقوں کا سامنا کرنے کی بجائے آئینہ دکھانے والوں کے آئینہ کو توڑنے کی کاوش کرنا ہر گز مستحسن نہیں ہے۔آپ کتنے آئینے توڑیں گے؟اپنے آپ کو دیکھئے اور پہچانئے نارنگ صاحب!

(تحریرکردہ :۴؍دسمبر ۲۰۰۸ء۔جرمنی سے)

(مطبوعہ سہ ماہی اثبات ممبئی۔شمارہ نمبر ۳۔دسمبر ۲۰۰۸ء تاجنوری،فروری۲۰۰۹ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ابھی تک ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے جو علمی سرقے نشان زد کئے گئے تھے،علمی سطح پر ان پر مسلسل سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔ڈاکٹر غفور شاہ قاسم کا ایک تازہ انٹرویونوائے وقت میں شائع ہوا ہے،اس میں انہوں نے بھی سنجیدگی سے ان سرقوں کا سوال اُٹھایا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ڈاکٹر نارنگ کو ہی ان کا جواب دینا چاہئے۔۔۔۔۔ڈاکٹر نارنگ جتنے چاہیں خوشامد ی اپنے ارد گرد جمع رکھیں اور چاہے جتنی عالمی کانفرنسیز کرتے پھریں،ان کی کتاب ’’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘کے سرقے پوری طرح بے نقاب ہو چکے ہیں۔کانفرینسزاورسیمینارس میں شرکت کے باوجودان پر ان سرقوں کی وضاحت کرنا لازم ہے وگرنہ وہ ادب میں جس کتاب کو اپنی شاہ کار کتاب قرار دے رہے تھے وہی انھیں مہا چور قراردے رہی ہے۔‘‘

(ارشد خالد۔اسلام آباد)


ان تاثرات کوانٹر نیٹ فورم


سے ۱۹جولائی ۲۰۰۸ء کو ریلیز کیا گیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غفورشاہ قاسم:۔۔۔۔۔

مجھے ایک بات کی ضرورنشان دہی کرنا ہے کہ ’’جدید ادب‘‘ جرمنی میں اشاعت پذیر ہونے والے عمران شاہد بھنڈر کے مضمون میں گوپی چند نارنگ پر مترجم ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس مضمون کا ابھی تک تسلی بخش جواب سامنے نہیں آیا۔ کاظم جعفری:مختصراً ہمارے قارئین کے لئے بتائیے کہ عمران شاہد بھنڈر نے اس مضمون میں کیا لکھا ہے؟ غفور شاہ قاسم:عمران شاہد بھنڈر نے لکھا ہے کہ گوپی چند نارنگ کی کتاب ’’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘تحقیق و تنقید کی کتاب نہیں، یہ مغربی ناقدین کی تحریروں کا ترجمہ ہے۔جاوید حیدر جوئیہ نے اس مضمون کا جواب لکھا ہے جو قطعاً تشفی بخش دلائل پر مبنی نہیں ہے۔لیکن سب سے بہتر ہوگا کہ گوپی چند نارنگ خود اس کی وضاحت فرمائیں۔

(انٹرویو مطبوعہ’’نوائے وقت‘‘ لاہور، ادبی ایڈیشن، مورخہ۱۸ جولائی ۲۰۰۸)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply