جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ کی کہانی

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


حیدر قریشی

(جرمنی)

جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ کی کہانی

ڈاکٹرگوپی چند نارنگ صاحب کی مہربانی در مہربانی

جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ بابت جنوری تا دسمبر۲۰۰۹ء کی اشاعت اکتوبر ۲۰۰۸ء میں ہو رہی تھی۔جدید ادب کو عام طور پر معلنہ تاریخ سے دو ماہ پہلے چھپوانے کی کوشش کرتاہوں تاکہ بحری ڈاک سے بیرون برِ صغیر کے پیکٹ بروقت پہنچ جائیں۔جدید ادب کبھی انڈیا سے چھپوا لیتا ہوں،کبھی پاکستان سے۔

گزشتہ چارشمارے (نمبر ۸،۹،۱۰،۱۱ )جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کے مصطفی کمال پاشا صاحب نے شائع کیے ،وہ اشاعت کے لحاظ سے بتدریج بہترین ہو رہے تھے۔اس لیے مجھے ان کے ذریعہ ہی یہ کام کرانا اچھا لگ رہا تھا۔ ان کا کام کرنے کا انداز پروفیشنل ہے ،بحیثیت پبلشر مجھے پاشاصاحب بہت اچھے لگے ہیں۔ شمارہ نمبر ۱۲ کی سیٹنگ کرکے میں نے فائنل فائلز انہیں بھیج دیں۔اکتوبر میں ہی ۲۸۸ صفحات کا رسالہ چھپ گیا،لیکن بائنڈنگ ہونے سے پہلے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب نے پبلشرپرقانونی چارہ جوئی کا دباؤ ڈال دیا۔پاشاصاحب کی مجبوری بجا تھی کہ وہ اشاعتی امور میں تواچھاپروفیشنل کام کر سکتے تھے لیکن کسی قانونی جھگڑے میں الجھنا ان کے لیے ٹھیک نہ تھا۔سو اس کے نتیجہ میں چھپا ہوا جدید ادب بائنڈنگ سے روک لیا گیا۔نارنگ صاحب کا تقاضہ تھا کہ ان کے خلاف جدید ادب میں کچھ بھی نہیں شائع ہو۔لیکن جدید ادب شمارہ نمبر ۱۲ کی اشاعت میں ڈاکٹر نارنگ صاحب کی طرف سے ناجائز دباؤ کی روداد بعد میں،پہلے

ان کی ناراضی کی وجہ جان لیں۔جدید ادب کے شمارہ ۹،۱۰ اور ۱۱ میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی شہرہ آفاق تصنیف’’ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘کے بارے میں عمران شاہد بھنڈر کے تین مضامین شائع ہو چکے ہیں ۔میں نے جدید ادب کے صفحات پرعمر ان شاہد بھنڈر کے مندرجات اور سرقہ کے سنگین الزام سے بریت کے لیے نارنگ صاحب کو کھلی پیش کش کی کہ وہ جو بھی جواب لکھیں گے،اسے من و عن شائع کیا جائے گا۔لیکن انہوں نے جہاں خود کو’’چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد‘‘کی جیتی جاگتی مثال بنایا وہاں اب انہوں نے ’’چوری اور سینہ زوری‘‘کا بھی کھلا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔علمی اختلاف رائے کسی سے بھی کیا جا سکتا ہے اور

اس کے لیے دلیل سے کام لینا پڑتا ہے۔لیکن جب جواب بن نہ پڑے تو پھر انسان اپنی سماجی و سیاسی حیثیت سے فائدہ اُٹھا کر دلیل کا جواب پتھر سے دیتا ہے۔ نارنگ صاحب نے اب یہی کیا ہے۔جہاں دلیل کو پتھر سے توڑنا ٹھہرا وہ شہرِ سنگ دلاں سخت امتحان میں ہےاپنے کھلے سرقوں کا نارنگ صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔کیتھرین بیلسی،جولیا کرسٹوفر،

کرسٹوفر نورس،ٹیری ایگلٹن،رامن سیلڈن،جان سٹرک،جیسے مغربی مصنفین کی کتابوں سے پیراگرافس کے پیراگرافس چوری کرلینے کا جواب نارنگ صاحب کے ذمہ ہے۔ٹیرنس ہاکس کی کتابStructuralism and Semiotics پیراگرافس کے معمولی سے ادل بدل کے ساتھ پوری کی پوری اپنی شاہکار’’تصنیف‘‘ ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعر یا ت میں شامل کر لی۔Selden, Raman کی کتاب Contemporary Literary Theory سے اتنے صفحات چوری کیے کہ ہر اقتباس کے ساتھ سرقہ شدہ اقتباس دینا محال ہو گیا۔سرقہ کی نشاندہی کے لیے جدید ادب شمارہ ۱۱ کے صفحہ نمبر ۸۰ پراصل کتاب اور نارنگ صاحب کی شاہکار کتاب کے صفحات نمبرز کی نشاندہی پر اکتفا کرنا پڑا۔مذکورہ سرقہ شدہ صفحات کا یہاں بھی حوالہ دے دیتا ہوں۔ رامن سیلڈن کی کتاب کے صفحات گوپی چند نارنگ کی کتاب کے سرقہ شدہ صفحات۲۷ تا ۴۲ ۷۹ تا ۱۰۶ ۴۹ تا ۷۰ ۲۸۸ تا ۳۲۹ ۱۴۹ تا ۱۵۸ ۲۳۴ تا ۲۴۰۸۶ تا ۰۳ ۱ ۲۴۳ تا ۲۶۷ جس کتاب کی پیشانی پر اس قسم کے الفاظ جگمگا رہے ہوں:’’پروفیسر نارنگ کی اب تک کی علمی و ادبی کتابوں میں سب سے

وقیع اور فکر انگیز کام‘‘ ’’نئی ادبی تھیوری ساختیات،پسِ ساختیات اور ردِ تشکیل کا مکمل اور مستند تعارف اور تجزیہ‘‘اور جس کا علمی پوسٹ مارٹم شرمناک سرقوں کو کھول کر سامنے لے آئے،اس کے بعد نارنگ صاحب نے اپنا دفاع تو کیا کرنا تھا،جدید ادب کی اشاعت میں رخنہ ڈالنے کی سازش شروع کر دی۔یہاں یہ مان لینا چاہیے کہ ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات نارنگ صاحب کی اب تک کی علمی و ادبی کتابوں میں سب سے اہم کتاب ہے۔اگر اس کتاب کو عمران شاہد بھنڈر نے مغربی کتابوں کا سرقہ ثابت کر دیا ہے تو نارنگ صاحب کی باقی کتابوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟اور ان کی یہ شاہکار ’’تصنیف‘‘ تو ’’نئی ادبی تھیوری ساختیات،پسِ ساختیات اور ردِ تشکیل کا مکمل سرقہ‘‘ثابت ہو چکی ہے۔

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب سارق تو اتنے دلیر ہیں ہی کہ چراغ ہتھیلی پر لے کر سرقہ کرچکے ہیں اور یہ بھول گئے کہ اس سائبر ایج میں کہیں بھی کچھ چھُپا ہوا نہیں رہ گیا۔لیکن وہ چور ی کے ساتھ سینہ زوری بھی کر رہے ہیں اور اس میں بھی انہیں امتیاز حاصل ہو گیا ہے۔جدید ادب کے شمارہ نمبر ۸ سے لے کرشمارہ نمبر ۱۱ تک سب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی والوں نے شائع کیے اور بڑے اچھے طریقے سے شائع کیے۔شمارہ نمبر۱۲، بھی اشاعت کے لیے انہیں بھیجا گیا۔رسالہ شائع ہو گیا لیکن اس کو ریلیز کرنے میں نارنگ صاحب رکاوٹ بن گئے۔پہلے کہا گیا کہ اس شمارہ میں سے نارنگ صاحب کے خلاف میٹرکو حذف کیا جائے ۔ میں نے بتایا کہ اس شمارہ میں نارنگ صاحب کے سرقوں کی نشاندہی کرنے والا کوئی مضمون شامل نہیں ہے البتہ بعض قارئین نے اپنا ملا جلا ردِ عمل دیا ہے۔ نارنگ صاحب سے کہیں کہ اس بار اسے برداشت کر لیں ۔آئندہ یا آپ کی مجبوری کا خیال رکھوں گا یا پھر کوئی اور پبلشر ڈھونڈ لوں گا۔

لیکن پاشا صاحب کی طرف سے اصرار رہا کہ ایسا میٹر بھی حذف کیا جائے۔چنانچہ مجھے خطوط کے صفحات پر شامل تمام خطوط میں سے وہ حصے حذف کرنا پڑے جن میں قارئین ادب نے نارنگ صاحب کے سرقوں کی داد دی تھی۔اس کے نتیجہ میں ڈیڑھ صفحات سے کچھ کم خالی جگہ بچ گئی۔صفحہ کی بچی ہوئی جگہ پر میں نے یہ نوٹ دے دیا ضروری نوٹ: آخری مرحلہ میں خطوط کے صفحات میں سے محترمہ حمیدہ معین رضوی صاحبہ کا خط اشاعت سے روکنا پڑا۔دیگر خطوط میں بھی بہت سے حصے حذف کرنا پڑے۔وجہ۔۔۔ابھی ناگفتنی ہے۔قارئین کرام دعا کریں کہ اب رسالہ جرمنی سے ہی شائع کرنے کے قابل ہو جاؤں۔

۔۔پھر آزادئ اظہار کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوگا۔انشا ء اللہ!۔۔۔۔آخری مرحلہ کی سنسر شپ کے باعث اس شمارہ کاایک صفحہ خالی بچ گیا تو اس پر اپنی دوتازہ غزلیں شامل کر رہا ہوں۔ حیدر قریشی اور ایک صفحہ پر اپنی دو تازہ غزلیں شامل کر دیں۔ان غزلوں میں پہلی غزل کا مطلع یہ تھا:جتنے سیاہ کار تھے نردوش ہو گئےہم سر جھکا کے شرم سے خاموش ہو گئےآخری سولہ صفحات کی ان پیج فائل فائنل کر کے پاشا صاحب کو بھیج دی تو بعد میں اس مطلع کی وجہ سے خیال آیا کہ نارنگ صاحب غزل کے اس مطلع کو بھی خود پر نہ محمول کر لیں۔چنانچہ میں نے پھر از خود اس غزل کو حذف کرکے ایک اور غزل شامل کر دی۔اور پاشا صاحب کو بھی لکھ دیا کہ اس وجہ سے یہ غزل بھی حذف کر رہا ہوں۔اتنی احتیاط کے باوجود میں نے پاشا صاحب سے کہا کہ اب اگر شمارہ ۱۲ میں کہیں نارنگ صاحب کے بارے میں کچھ ہلکا پھلکا سا لکھا ہوا رہ گیا ہو تو انہیں کہئے کہ اسے برداشت کر لیں۔چنانچہ خطوط کے صفحات کی فائل کے سولہ صفحات کی کاپی دوبارہ اشاعت پذیر ہوئی۔رسالہ کی جلد بندی ہو گئی اور ایک بار پھر ’’آزادئ اظہار‘‘ کے علمبردار ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اپنی سنسر شپ کا فیصلہ صادر کر دیاکہ اس میں دہلی یونیورسٹی کے علی جاوید صاحب کاجو خط شامل ہے،اسے بھی حذف کرایا جائے ۔ یہ انتہائی تکلیف دہ سنسر شپ تھی لیکن میں نہ صرف اس کے لیے بھی راضی ہو گیا بلکہ ایک روز پہلے ۲۷اکتوبر کو موصول ہونے والے سلیم آغا قزلباش کے ایک خط کا اقتباس متبادل کے طور پر بھیج دیا۔سلیم آغا کا اضافہ کردہ خط جو علی جاوید کے خط کو حذف کرکے شامل کرنا پڑا وہ یہاں پیش ہے:جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۱ نظر نواز ہوا۔تازہ شمارے کے مشمولات سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اردو ادب کی متعدد اصناف نظم و نثر کو مذکورہ شمارے میں جگہ دی گئی ہے تاہم انشائیہ کی عدم موجودگی نے تشنگی کا احساس دلایا۔آپ خود بھی معیاری انشائیے باقاعدگی سے لکھتے رہے ہیں،اس حوالے سے انشائیے کو ’’جدید ادب‘‘کے ہر تازہ شمارے میں جگہ ملنی چاہئے۔آپ کے ’’سدھارتھ‘‘پر تحریر کردہ تجزیاتی مطالعے نے بعض ایسے گوشوں کو اجاگر کیا ہے جو کم از کم میرے لیے بالکل نئے ہیں۔اس قدر عمدہ تجزیاتی مطالعہ پیش کرنے پر میری جانب سے مبارکباد قبول فرمائیے۔ سلیم آغا قِزلباش(وزیر کوٹ۔سرگودھا)چنانچہ خطوط کے صفحات کی سولہ صفحات کی فائل تیسری بار اس ترمیم کے ساتھ شائع کی گئی کہ علی جاوید کا خط حذف کرکے،اس کی جگہ سلیم آغا قزلباش کا خط شامل کیا گیا۔قطع نظر اس سے کہ نارنگ صاحب دہلی میں بیٹھے ہوئے علی جاوید کو تو روکنے کی ہمت نہیں رکھتے لیکن جدید ادب میں چھپا ہوا ان کا خط حذف کرانے کے لیے پاشا صاحب پر ہر طرح کا دباؤ ڈالتے ہیں۔ میری طرف سے اتنی لچک دکھائے جانے کے باوجود ڈاکٹر گوپی چند کی تشفی نہیں ہوئی۔چنانچہ اس کے باوجود رسالہ کو ریلیز نہیں کیا گیا۔ میں نے مجبوری کی صورت میں جتنی لچک دکھانا تھی، دکھا دی۔اس کے بعد میرے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ پاشا صاحب کی مجبوریوں کا خیال کرتے ہوئے کسی اور پبلشر سے رابطہ کروں۔لیکن کچھ پاشاصاحب کی ہمت سے اور کچھ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی مہربانی سے پھر رسالہ ریلیز کرنے کی اجازت دے دی گئی اور اب جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۲ جنوری ۲۰۰۹ء سے پہلے نومبر کی آخری تاریخوں ہی میں پاکستان اور جرمنی میں پہنچ چکا ہے۔مجھے نارنگ صاحب کی ذہنی حالت پر بھی کچھ شک ہونے لگا ہے۔وہ شمارہ ۹،۱۰ اور ۱۱ کے تفصیلی مضامین کو تو جیسے تیسے برداشت کر گئے لیکن چند ہلکے پھلکے سے تنقیدی ردِ عمل پر اتنے گھبرا گئے کہ بار بار سنسر کرتے چلے گئے۔یہ خطوط کچھ ایسے خطرناک نہ تھے۔ریکارڈ کے طور پر وہ سارے خطوط یہاں درج کر رہا ہوں جنہیں سنسر کرنے کا اعزاز بخشا گیا۔بعض خطوط میں سے صرف نارنگ صاحب کا نام حذف کر دیا گیا اور باقی جملہ ویسے رہنے دیا گیا تو وہ اسی پر خوش ہو گئے۔سو جن خطوط میں سے صرف نارنگ صاحب کا نام حذف کیا گیا اور باقی جملے چھاپ دئیے گئے،انہیں بھی شامل کررہا ہوں البتہ ان کے سنسر شدہ حصوں کو گہرا کر کے نمایاں کر دیا ہے

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply