امریکی شوگر ڈیڈی اور مابعد جدیدیت

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


فضیل جعفری

(ممبئی)

امریکی شوگر ڈیڈی اور مابعد جدیدیت

ہمارے لیے وثوق کے ساتھ یہ کہنا ممکن نہیں کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اس تھیوری کو کسی باقاعدہ لائسنس کے تحت امپورٹ کیا ہے یا پھر یہ محض اسمگل شدہ مال ہے۔ حقیقت حال خواہ کچھ بھی ہو، صورت حال بہرکیف سنگین اور خطرناک ہے۔ ہم نے اس مضمون کی پہلی قسط میں عرض کیا تھا کہ تھیوری، ساختیات، پس ساختیات ، ردتشکیل اور مابعد جدیدیت جیسے نظریات کی ’ماں‘ ہے ۔ جے۔ہلس ملر (J. Hillis Miller) کے منقولہ بالا بیان کے مد نظر ہم اب یہ سمجھنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ تھیوری ’ماں‘ نہیں، دراصل ام الخبائث ہے۔ واضح رہے کہ مسٹر ملر کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ امریکہ کے تین مشہور ترین ردتشکیلی نقادوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے اس اعتراف کو کہ امریکہ تھیوری کو ایٹم بم کی طرح ایکسپورٹ کررہا ہے نہ تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی رواروی میں ٹالا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔نارنگ صاحب کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ تھیوری کی یورش کافی دنوں سے جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ اس یلغار کا حقیقی مقصد ادب اور دیگر انسانی علوم کی سالمیت، حرمت اور خودمختاری کو ختم کرنا ہے۔ خود نارنگ صاحب کے نزدیک ادب حاکم نہیں ، محکوم ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حاکم کون ہے۔ ہماری ناچیز رائے میں اصل حاکم امریکی سرمایہ دارانہ نظام ہے جسے تھیوری کا جنم داتا ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ تھیوری اور مارکسزم (یا بقول نارنگ بائیں بازو کی ترجیحات) کے آپسی تعلق کے بارے میں ہم نسبتاً تفصیل کے ساتھ آگے لکھیں گے۔فی الحال صرف اتنا عرض کرنا کافی ہوگا کہ اس ادب دشمن تھیوری اور اس کے بغل بچوں مثلاً پس ساختیات اور مابعد جدیدیت وغیرہ کا بنیادی مقصد ہی مارکسزم ،پارلیمانی جمہوریت، طبقاتی جدوجہد اور سیاسی احتجاج پر کاری ضرب لگانا اور ان اقدار کو حتی الامکان ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادینا ہے۔ نارنگ صاحب نے تھیوری کی تعریف میں تجریدی بیانات کے انبار تو لگا دیے ہیں لیکن کہیں یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ جس تھیوری کی یورش، مسلسل کئی دہائیوں سے جاری ہے،

اس کی پیدائش کیسے ہوئی، کب ہوئی اور کہاں ہوئی؟ اس سلسلے میں عرض خدمت یہ ہے کہ تھیوری کا جنم ۱۹۶۶ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ہوا۔ یوں تو اس کے بیج دریدا، بارتھ اور لاکاں جیسے

دائیں بازو کی سیاست سے تعلق رکھنے والے فرانسیسی دانشوروں نے ڈالے، دایہ گیری کے فرائض جے۔ہلس ملر ، پال دی مان اور کلر نے انجام دیے لیکن اس کے اصلی پدربزرگوار ہیں، امریکہ کے نامی گرامی سرمایہ دار اور صنعت کار ہنری فورڈ دوئم۔آخر یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ ۱۹۵۴ میں شروع ہونے والی ویت نام جنگ ۶۵۔۱۹۶۴ تک ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکی تھی۔ امریکی پروفیسر اور طلبہ یونیورسٹیوں سے باہر نکل کر سڑکوں پر آ گئے تھے۔ حکومت کے انسان کش رویے کے خلاف دھواں دھار تقریریں کی جارہی تھیں اور نعرے لگائے جار ہے تھے۔ چونکہ امریکہ میں سو فی صد خواندگی کے علاوہ عوامی ترسیل و ابلاغ کے ذرائع بھی بہت عام ہیں ، اس لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے اٹھنے والی صدائے احتجاج ملک کے کونے کونے میں پہنچنے لگی تھی۔ان حالات میں امریکی حکومت کا فکر و تشویش میں مبتلا ہوجانا ایک فطری امر تھا۔ اسی نازک موڑ پر انتظامیہ نے ہنری فورڈ دوئم سے مدد طلب کی۔ فلنڈرس یونیورسٹی (آسٹریلیا) کے پروفیسر جان ہارورڈ (John Harwood) نے اپنی کتاب Eliot to Derrida: The poverty of Interpretation (1989) میں تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی حکومت کی ایما پر ہنری فورڈ دوئم نے ۱۹۶۵ کے آخر میں اپنے سازشی رفقا ئے کار (Co-conspirators) کی ایک میٹنگ طلب کی۔ واضح رہے کہ اس وقت تک رولاں بارتھ اور ژاک دریدا وغیرہ کی سارتر دشمنی اور سارتر کے حوالے سے کمیونسٹ دشمنی کے چرچے عام ہوچلے تھے۔ دریدا، سارتر کے بارے میں اپنا یہ مشہور جملہ لکھ چکا تھا:میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنے ڈھیر سارے مسائل پر بالکل غلط رائے رکھنے کے باوجود سارتر کو اتنی شہرت کیسے مل گئی اور اسے اپنے عہد کا دانشورانہ ضمیر کیسے کہہ دیا گیا... (فلپ نورس کی کتاب: دریدا، ۱۹۸۷، ص۲۱)چنانچہ ۱۹۶۵ والی اس میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ فرانسیسی دانشوروں کے اس گروہ کو امریکہ مدعو کیا جائے تاکہ یہ لوگ ایسے مباحث اٹھائیں کہ ریڈیکل امریکی پروفیسر اور طلبہ ان میں الجھ کر رہ جائیں اور پھر دسیوں برس تک سڑکوں پر نہ آ سکیں۔ نتیجے کے طور پر جے۔ہلس ملر اور پال دی مان نے بحکم حاکم (فورڈ دوئم) اکتوبر ۱۹۶۶ میں The Language of Criticism and the Science of Man کے موضوع پر وہ سمینار منعقد کیا جس میں رولاں بارتھ اور لاکاں کے علاوہ ژاک دریدا بھی موجود تھا۔ اس سمینار کے سارے مصارف ہنری فورڈ دوئم نے ہی برداشت کیے اور یہیں سے امریکہ کے توسط سے دریدا کی عالمی شہرت کا آغاز ہوا۔ بقول پروفیسر سدرلینڈ، ردتشکیلی نقاد اور تھیوری کے علم بردار اسٹبلشمنٹ کے خلاف چیختے چنگھاڑتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکی سرمایہ داری ہی ردتشکیل اور تھیوری کی ’’شوگر ڈیڈی‘‘ ہے۔ (شوگر ڈیڈی سے مراد وہ بوڑھا شخص ہے جو کسی نوجوان عورت پر بے دریغ دولت خرچ کرتا ہے تاکہ آگے چل کر اس کا جنسی اور جسمانی استحصال کرسکے :ف۔ج)قیاس غالب ہے کہ محب مکرم ڈاکٹر نارنگ نے مابعدجدیدت پر دہلی میں جو سمینار منعقد کیا تھا، اس کا ماڈل (غالباً) جان ہاپکنز یونیورسٹی والے سمینار سے ہی اخذ کیا گیا تھا۔

(فضیل جعفری کے طویل مضمون سے اقتباس)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نارنگ صاحب نے ’’ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘میں حوالے تو سینکڑوں کتابوں کے دیے ہیں لیکن ان کی تحریر سے ہر گز نہیں لگتا کہ انہوں نے ان کتابوں کو پڑھا بھی ہے۔

(فضیل جعفری کی ۱۹۹۷ء تحریرمضمون ساختی کباب میں ردِ تشکیل کی ہڈی۔مطبوعہ ذہنِ جدید دہلی،شمارہ ۲۲۔۲۳۔ ۱۹۹۷ء)

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

Leave a Reply