ردِ عمل

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under


ردِ عمل

جاوید حیدر جوئیہ

(بورے والا)

عمران شاہد بھنڈر شاہد صاحب کا مضمون بہ عُنوان ’’ گوپی چند نارنگ مترجم ہیں، مصنف نہیں ‘‘ مَیں نے پڑھا۔ یہ تحریر اِسی مضمون پر اپنے ذاتی تاثرات کے لیے ہے۔ بات شروع کرنے سے پہلے یہ وضاحت کرنا بھی مَیں ضروری سمجھتا ہوں کہ گوپی چند نارنگ صاحب یا بھنڈر صاحب کی حمایت، تائید، یا پھر ان کی مخالفت میرا مقصد نہیں ہے۔ جہاں نارنگ صاحب نے انگریزی کتابوں کے حوالے نہ دے کر زیادتی؍زیادتیاں کی ہیں، وہاں بھنڈر صاحب نے بھی کُچھ زیادتیاں کی ہیں___ کُچھ نارنگؔ صاحب کے ساتھ ، اور کُچھ خود اپنے ساتھ ۔گوپی چند نارنگ صاحب کے حوالے سے بھنڈر صاحب کی سوچ کے چند زاویے جو اُن کے زیرِ نظر مضمون ’’ گوپی چند نارنگ مترجم ہیں، مصنف نہیں ‘‘سے سامنے آئے ہیں، یہ ہیں

:۱:نارنگ مصنّف نہیں ہیں

۲:

نارنگ محض مترجم اورنقال ہیں

۔۳

: نارنگ نے پوسٹ ماڈر ن ازم جو مغربی سیاسی، سماجی ، معاشی اور ثقافتی سرگرمیوں کا نتیجہ تھا، کا تعارف اہلِ اُردو سے کرایا

۔۴:

سوسئیر کا لسانیاتی نظریہ سائینسی ہونے کا دعویدار تھا۔ اس لیے اس میں معنی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ترامیم کی گئیں۔۵: سائینسی نظریات دنیا کی کسی بھی لیبارٹری میں ایک جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں

۔۳:

اُردو میں ساختیات کو نئے زاویے سے داخل ہونا چاہیے تھا، اور یہ زاویہ ہندوستانی اور پاکستانی معاشرے کی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق دفاعی حربہ ہونا چاہیے تھا

۔۴:

ساختیات کے بارے دفاع تو ایک طرف گوپی چند نارنگ کی وضاحتیں بھی مشکوک نکلیں۔۵:اُردو بھی اپنی ایک ساخت رکھتی ہے، اس میں معنی کو پیدا کرنے والے اصول و قواعد کو سوسئیر کے لسانیاتی نظریے کی رُو سے اخذ کیا جا سکتا ہے ۔۶:یہاں یہ واضح رہے کہ گوپی چند نارنگ نے مصادر میں کُتب کی تفصیل دے رکھی ہے، اور جہاں انھوں نے ضروری سمجھا، صفحات کی تفصیل بھی رقم کی ۔جو تفصیل اُنھوں نے دے رکھی ہے، اس مضمون میں انھیں فکری دیانت کی بنا پر نظر انداز کیا گیا ہے۔۷: ۔لیکن اتنی اہم اغلاط کی پردہ پوشی کرنا اردو ادب میں قائم شدہ روایت کو مزید طول دینے کے مترادف ہے، جو یقیناََ قابلِ تحسین عمل نہیں ہے۔ ۸: کتاب کا وہ حصہ جو مشرقی شعریات پر مبنی ہے، وہ میری تحقیق کا قطعاََ موضوع نہیں تھا، اس لیے وہ حصہ اس مضمون کی بحث سے خارج ہے۔۹: گوپی چند نارنگ کو بھی مغرب میں Jazz کی دھن پر کشش محسوس ہوتی ہے، لیکن ہندوستان میں غیر انسانی جرائم کا ارتکاب متحرک نہیں کرتا۔۔۔

۔۔۱۰

:کتاب( ساختیات، پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات )میں کسی بھی جگہ اوریجنیلیٹی نہیں۔

۱۱:

کتاب میں بعض جگہوں پر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گوپی چند نارنگ ارادتاََ اپنے مسائل کی پردہ پوشی میں مصروف ہیں

۔۱۲: ۔

۔(گوپی چند نارنگ )دیباچہ میں لکھتے ہیں،’’ متن ہر گز خود مختار وخود کفیل نہیں ہے کیونکہ اخذِ معنی کا عمل غیر مختتم ہے‘‘(ص۱۱)۔ نارنگ صاحب سے یہاں یہ غلطی سر زد ہوئی ہے کہ وہ اخذِ معنی کو متن سے باہر دیکھ رہے ہیں

۔۱۳:

اسی کتاب کے چوتھے باب میں جو ردِ تشکیل کے نام سے لکھا گیا ہے، اس میں موصوف لکھتے ہیں: ’’ دریدا کا کہنا ہے معنی کوئی ماورائی موجودگی نہیں ہے جو متن سے ورے، قریب یا دور وجود رکھتی ہو، اور جس کو نقاد ڈھونڈ نکالے۔ معنی متن کے اندر ہے، اور جیسے ہی متن تحریر ہوتا ہے، وہ اپنی ردِ تشکیل کا بیج بو دیتا ہے ‘‘

( ص۲۳۲)

گوپی چند نارنگ کے مندجہ بالا دونوں بیانوں میں واضح تضاد ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انھیں ما بعد جدید تھیوری کی تفہیم کی مزید ضرورت ہے۔

۔۔۱۴ :

گوپی چند نارنگ چونکہ ( مغرب سے ہٹ کر) دوسرے تناظر میں ہیں، اس لیے بھی انھیں مابعد جدیدیت کی رو سے اپنا ڈسکورس تشکیل دینا پڑے گا۔( مضمون کے صفحات نمبرز راقم نے عمداََ نہیں دیے، تا کہ ’’ جدید ادب ‘‘ کے قارئین بھنڈر صاحب کے سارے مضمون کو پڑھ کر میری معروضات پر نظر ڈالیں )بھنڈر صاحب کے مضمون کا عنوان پڑھتے ہی مجھے پہلایہ خیال آیا کہ انھیں’ مترجم‘ کہنے سے آخر کیا ثابت کرنا مقصود ہے ؟ لیکن سارا مضمون دو تین بار پڑھ چُکا تو جو کُچھ مجھے محسوس ہُوا وہ نہایت دیانت داری سے قارئینِ ’’ جدید ادب ‘‘ کے مطالعہ کے لیے پیش کر رہا ہوں۔ذرا نیچے نظر گئی تو دِل ذرا مرعوب سا ہُوا کہ حیدرؔ قریشی صاحب نے یہ نوٹ بھی دے رکھا تھا کہ بھنڈر صاحب Postmodern literary theory کے موضوع پر برمنگھم یونیورسٹی سے پی ۔ایچ۔ ڈی بھی کر رہے ہیں۔ مَیں سوچنے لگا کیا پوسٹ ماڈرن ازم ’’ تھیوری ‘‘ ہے ؟اس کے بعد نظریں پڑھتے پڑھتے بھنڈر صاحب کے اس جملے پر آ کر ٹھہر گئیں: ’’۔۔۔ساختیات در اصل ایک لسانیاتی تحریک تھی، جسے سوئس ماہرِ لسانیات سوسئیر کے لسانیاتی ماڈل سے اخذ کیا گیا۔ یہ لسانیاتی نظریہ

چونکہ سائینسی ہونے کا دعویدار تھا، اس لیے اس ماڈل میں معنی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ترامیم کی گئیں۔ ‘‘’’ترامیم‘‘ ؟؟ مَیں سوچنے لگا کہ یہ Amendments کس نے کی ہوں گی؟ لاکاںؔ نے Psychoanalysis کی نئی تشریح کے لیے یا دریدا نےDifferance کے لیے؟ اور یہ’’ترامیم‘‘ تھیں یا سوسئیر کے لسانیاتی ماڈل کی جدا گانہ تشریحات اور توسیعات؟ خیر،مَیں نے اَپنے اِس خیال کو بھی جھٹک دِیا کہ جھٹکنے ہی میں عافیت تھی۔بھنڈر صاحب نے یہ بھی درست لکھا کہ دریدا کے بہ قول ’’ متن سے باہر کُچھ نہیں ہے ‘‘۔ لیکن اس’’ متن‘‘ کی تشریح یا وضاحت مجھے کہیں دکھائی نہیں دی۔ کیا بھنڈر صاحب کے نزدیک متن محض وہ ہے جو لفظوں پر مشتمل اور قلم سے لکھا جاتا اور چھاپہ خانے میں چھاپا جاتا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو بھنڈر صاحب کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ’’ ۔۔ جونہی متن وجود میں آتا ہے، اس کی

حیثیت خود مختار ہو جاتی ہے‘‘ ، لیکن نظری سطح پر ہی سہی، معانی کے ’’ نا مختتم طور پر ملتوی اور فرق پر ہوتے جانے‘‘ سے اُس کی ’’ خود مختاری‘‘ کس حد تک قائم رہ سکتی ہے؟ مجھے اس کا کوئی جواب بھنڈر صاحب کی تحریر سے نہیں مِلا۔Differance کا عمل معنی کو defer اور differ کرتا رہے، اور اس کا کوئی انت اور آخری تھاہ نہ ہو، تو ’’ متن‘‘ کا ’’اختیار‘‘، یا اتھارٹی کی کیا حیثیت ہو گی؟ معاملہ لا ینحل رہا۔ پھر جب پڑھا:’’۔۔۔اُردو میں ساختیاتی فکر کس طرح داخل ہوئی ہے؟ مجھے اُمید تھی کہ یہ ایک نیا زاویہ ہو گا۔ امید تھی کہ ہندوستانی اور پاکستانی معاشرے کی ضروریات اور ترجیحات کو سامنے رَکھ کر کسی حد تک دفاعی حربہ اِستعمال کیا ہو گا، کیونکہ علوم کے حوالے سے مغرب پر سبقت کا خیال محض اب داستانِ پارینہ بن کر رہ گیا ہے۔ دفاع تو دُور گوپی چند کی وضاحتیں بھی مشکوک نکلیں۔ جوں جوں اُن کی کتاب کا مطالعہ کرتا رہا مایوسی بڑھتی رہی۔ کیونکہ کتاب میں کسی بھی سطح پر اوریجنیلیٹی کا فقدان تھا۔۔۔‘‘مَیں سوچتا رہا کہ کیا ساختیات ہر مُلک میں الگ الگ ہے؟ الگ الگ ہے تو یہ ’سائینس‘ کیسے ہو گئی؟ اور سائینس ہے، اور بہ قول بھنڈر صاحب، ’’ سائینسی نظریات دنیا کی ہر لیبارٹری میں ایک ہی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں ‘‘، تو پھر سائینس کا ’دِفاع ‘کیوں کر ممکن ہے، اور وہ کون کون سی سائینسز ہیں جنھیں ملکی ’معاشروں کی ضروریات اور ترجیحات ‘کو مدِ نظر رکھ کر ’’ دفاعی حربہ اختیار ‘‘ کیا گیا ہے؟ جملۂ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ’ دفاع ‘تو نہیں البتّہ ڈاکٹر وزیر آغا نے ساختیات کے ’’ مرکزیت ‘‘ کے تصوّر کو وحدت الوجود کی فکر کے مماثل کہا ہے، اور بجا طور پر کہا۔ اس کا احساس مجھے پچھلے دنوں ایک انگریزی کتاب میں دریدا کے

اُس مقالے کا ایک حصہ پڑھتے ہوئے ہُوا جو اُس نے جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ساختیات کے موضوع پر ہونے والے مذاکرے میں پڑھا، اور جس سے پسِ ساختیات کا ایک نیا دَر وَا ہو کر ڈیکنسٹرکشن کے تصوّر پر منتج ہُوا۔(اس کی تفصیل کتابی سلسلہ ’’’ حریمِ اَدَب ‘‘ کتاب ۔۴ میں عنقریب شائع ہو گی)سچ جانیے کہ بھنڈر صاحب کا متذکرہ بالا جملہ پڑھ کر مجھے گوپی چند نارنگ پر اور بھی’ تپ چڑھی‘۔مَیں نے سوچا یہ شخص اَدَبی نقّاد ہی کیوں رہا،سیاسی لیڈر یا سوشل مفکر بن کر ’’مَیدانِ کار زار‘‘ میں کیوں نہیں آیا؟ اپنی کوئی غریبوں کی پارٹی کیوں تشکیل نہیں دی؟ جب کہ اسے علم ہونا چاہیے تھا کہ برطانیہ میں مقیم ،’پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری‘ کے پی۔ ایچ ڈی کے ایک محترم اُردو محقّق جناب عمران شاہد بھنڈر کی صائب خواہش ہے کہ ساختیات کو پاکستانی اور ہندوستانی معاشروں کی ترجیحات کے مطابق ’نافذ العمل‘ دِکھایا جائے۔’’ اوریجنیلیٹی‘‘ کا لفظ بھی بھنڈر صاحب کا ساختیات کے حق میں ایک بڑا’ دفاعی حربہ‘ ہے۔حالانکہ جولیا کرسٹیوا کی پیش کردہ Intertextuality کی تھیوری بتاتی ہے کہ کوئی متن ’’خودمختار‘‘نہیں، بلکہ یہ دوسرے متن یا متون کی تقلیب Transformation سے پیدا ہوتا ہے۔’اوریجنل‘ کا کوئی اور بھی مفہوم ہے؟۔ہاں اِستفادے کی بعض کُتب کے صفحات کے نمبرز اپنی کتاب میں درج نہ کرنا البتہ گوپی چند نارنگ صاحب کا’ گناہِ کبیرہ‘ محسوس ہُوا۔ جس سے اُنھیں توبہ کرنی چاہیے۔ اب ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ بھنڈر صاحب اپنی تحقیق کا دائرہ اُردو میں مارکسزم، جدیدیت، وجودیت وغیرہ کا تعارف کرانے والوں کی کتابوں تک بھی پھیلائیں گے ، اور مزید ’’ مترجمین ‘‘ کو آشکار کریں گے ، اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے

کہ انھیں صرف گوپی چند نارنگ کو ’’ ننگا‘‘ کرنا مقصود تھا۔ انھیں لازماََ چاہیے کہ وہ ’ اردو میں پہلے سے قائم ‘ اس روائتی حمام کے سب ننگوں کو ننگا دکھائیں۔زیرِ نظر مضمون سے یہ واضح نہیں ہے کہ بھنڈر صاحب کا Origin ہندوستانی ہے یا پاکستانی ۔ اگر وہ ان میں سے کسی بھی ملک کے باشندے رہے ہیں، یا اَب بھی ہیں، تواُن سے یہ بھی اُمید رکھی جا سکتی ہے کہ جب وہ اُردو اَدَب میںPlagiarism کی اپنی تحقیق اور انگریزی اَدَب کی اپنی پی۔ ایچ ۔ ڈی مکمل کر لیں گے تو وہ ’پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری ‘کو پاکستانی اور ہندوستانی معاشروں کی’ ضروریات اور ترجیحات کے مطابق‘ اور ان کا’ دِفاع‘ کرنے کے بعد، اپنے مقالے کو اردو یا ہندی میں ترجمہ کرنے کے بعد واپس اُسی خطۂ زمین کی طرف لَوٹیں گے ،جہاں اُن کے بہ قول:’’ برّصغیر کے ساٹھ کروڑ عوام خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں‘‘، اور’’ دُنیا کا پچاسی فی صد سرمایہ چار سو نوّے خاندانوں کے پاس مرتکز ہے ‘‘،’’یہ سب کچھ بر صغیر کے دانشور کو آج بھی نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔‘‘اور امید یہ بھی کی جانی چاہیے کہ وہ اُردو کی’’ ترقی پسندی ‘‘، ماڈرنزم پر نہیں بلکہ’ پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری‘ پر’ اپنا ڈسکورس‘ قائم کر کے ایسا کریں گے، کیونکہ اُن کے بقول : ’’۔۔ مغرب کی مرکزیت نہ صرف مابعد جدیدیت کے حوالے سے، بلکہ اُردو میں جدیدیت کی بنا پر بھی مسلّم ہے۔ اس طرح ترقی پسندی جس کا مارکسیت کی حقیقی رُوح سے دُور کا بھی واسطہ نہیں تھا، جو صرف کم علمی کا نتیجہ تھی، اِس نے بھی اپنی مرکزیت کو پاک و ہند سے باہر تلاش کیا۔ مابعد جدیدیت ہو، جدیدیت ،یا پھر ترقی پسندی، یہاں پر ان کی مخالفت مقصود نہیں ہے، بلکہ مخالفت کو تخلیقی اور اختراعی جہت پر اُستوار کرنا ہے‘‘کہیں مجھے یہ بھی نظر آیا:’’ پوسٹ ماڈرن ازم عہدِ حاضر کی غالب تحریک ہے، جسے بعض مغربی نظریہ ساز ہائی ماڈرن ازم کا بحران بھی قرار دیتے ہیں، یہی زاویہ فکر میرے مقالے کا موضوع ہے، جس کی تکمیل کے لیے مَیں یونیورسٹی آف سینٹرل انگلینڈ، برمنگھم سے منسلک ہوں۔پوسٹ ماڈرن ازم میں برپا ہونے والے ادبی و تنقیدی نظریات کی تحقیق کے سلسلے میں، مجھے اُردو میں متعارف کرائے گئے

نظریات تک رسائی کا موقع مِلا۔‘‘مَیں نے سوچا کیا بھنڈر صاحب کو اُردو کی طرف اس لیے آنا پڑا کہ پہلے ماڈرن ازم کی کسی انگریزی تحقیق میں اُردو کے Plagiarism کا کوئی حوالہ اُن کے پیشِ نظر تھا؟ یا وہ اُردو میں ہائی ماڈرن ازم کا کرائیسس کہیں دیکھ رہے تھے؟ ہو سکتا ہے ! لیکن پھر مَیں نے سوچا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ انھیں اپنے مقالے کی آسانی کے لیے اُردو بہ طَور ’’ذریعہ‘‘ زیادہ سہل ہونے کی اُمید ہو! لیکن اِس مضمون کا جواز تو پھر سمجھ میں آ نہیں رہا تھا۔مَیں نے سوچا کہ سوچ کو مثبت رکھنا چاہیے۔شاید بھنڈر صاحب کو عنوان دینا چاہیے تھا ’’گوپی چند نارنگؔ مترجم ہیں، محقّق نہیں‘‘ تب مَیں نے خود سے کہا اِتنا اِختیار تو ہر کسی کو ہے کہ وہ اپنے Message کو جس طرح چاہے،’ کوڈ ‘کرے، اس لیے تُم کَون ہوتے ہو ایسا مشورہ دینے کا سوچنے والے؟ یہی نہیں ہُوا بلکہ مجھے گوپی چند نارنگ صاحب پر بھی رہ رہ کرغصّہ آتا رہا کہ وہ جلدی میں کچھ ’’اصل ‘‘ ماخذات کا حوالہ کیوں نہیں دیتے رہے؟ جبکہ کچھ کا بہ قول بھنڈر صاحب مصادر کی شکل میں دیتے رہے۔ صرف اِتنا ساکام اَورکر لیتے تو بھنڈر صاحب کی ’’ فکری دیانت ‘‘کو کوئی شکایت شاید نہ ہوتی۔لیکن جب مَیں اس جملے پر پہنچا :’’ گوپی چند نارنگ ؔ کو بھی بہ حیثیت شارح بہت سی مشکلات پیش آئیں۔۔۔‘‘تو مَیں سمجھا۔ اوہو ! بھنڈر صاحب در اصل’’ مصنّف ‘‘اور’’ شارح ‘‘کا سیگنیفائڈ ایک ہی سمجھتے ہیں۔ تب تویہ سب ٹھیک ہے!ذرا آگے بڑھا ،تو پھر چونکا :’’۔۔

۔ اگر چند ایک اقتباسات لفظ بہ لفظ مصادر میں بغیر صفحہ نمبر کی تفصیل کے بیان کیے ہوتے تو تو شک کے فائدے کی بنا پر انھیں یقیناََ نظر انداز کر دیا جاتا، لیکن اتنی اہم اغلاط کی پردہ پوشی کرنا اُردو اَدَب میں قائم شدہ روایت کو مزید طُول دینے کے مترادف ہے، جو یقیناََ قابلِ تحسین عمل نہیں ہے ‘‘تو یقین جانیے ،میری تو سِٹّی ہی گُم ہو گئی۔ مُجھے پہلی بار معلوم ہُوا کہ اُردو اَدَب کی تنقیدی روایت میں صفحہ نمبر درج نہ کرنے کی روایت پہلے سے’ قائم‘ ہے۔ اِس لیے بھنڈ ر صاحب کا یہ مغربی جامعات کا اُصول اُردو ادَب پر بھی لاگو ہونا چاہیے، اور سارے اُردو اَدَب پر Plagiarism کے ’’قانون ‘‘ کے تحت’’ ڈسپلنری ایکشن‘‘ لیا جانا چاہیے، جس کے نتیجے میں بھنڈر صاحب کے الفاظ میں’ یونیورسٹی سے بے دخلی بھی ممکن ہو سکتی ہے‘اورمَیں سوچنے لگا کہ بھنڈر صاحب گوپی چند نارنگ صاحب سے ہی نہیں ، بلکہ اُردو اَدَب کی ساری تنقیدی روایت( کے مصنفین یا شارحین ) ہی سے ناراض ہیں۔مجھے یہ ناراضی بھی اچھّی لگی کہ دیکھیے کس خلوص کے ساتھ وہ انگریزی میں پی۔ایچ۔ ڈی کے لیے اُردو اَدَب کی کتابوں پر غور و فکر کر رہے ہیں۔ اور مَیں نے یہ بھی سوچا کہ اپنے نوٹ میں حید ر قریشی صاحب شاید یہ لکھنا بھول گئے ہیں کہ عمران شاہد بھنڈر صاحب کی تحقیق کا موضوع Plagiarism in Urdu literature ہے، اور سہواََ Postmodern literary theory لِکھ گئے ہیں۔تاہم اگر ایسا نہیں بھی ہے ،اَور میرے فہم و ادراک میں یہ خلل یونہی دَر آیا ہے ،تو دِل کہنے لگا کہ بھنڈر صاحب اگر اَپنے لیے اِس موضوع کا چناؤ کرلیں تو اُنھیں ساری تاریخ ادبِ اُردو کا (صفحہ نمبرز ایڈیشن اور پبلشرز کے حوالوں کے ساتھ ) اَنگریزی میں ترجمہ کرنے کا موقع بھی میسّر آجائے گا ،اَور پھر مقالے کے آخر میں وہی جملہ لکھ دینے سے برمنگھم یونیورسٹی سے ڈِگری بھی امتیاز کے ساتھ مِل جائے گی، جس میں اُنھوں نے اِس’’ نقل کے رُجحان‘‘ کو’ اُردو اَدَب میں پہلے سے قائم ایک روایت کا تسلسل‘بتا یا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گوپی چند نارنگ ۔۔۔ پہلی بار آئے تو جوگندر پال اور ان کی بیگم بھی پنڈی میں تھیں اور میرے یہاں مقیم تھیں۔ ہم اس فنکشن میں نہ جا سکے جس میں نارنگ نے کلیدی خطبہ پڑھنا تھا،لیکن اس فنکشن کی جو روداد لوگوں سے سنی وہ بڑی دلچسپ تھی۔نارنگ کو دو چار ناموں کے علاوہ کسی سے واقفیت نہ تھی،انہوں نے اسلام آباد کے افسانہ نگاروں کی جو فہرست پڑھی وہ بہت ہی دلچسپ تھی۔ایک نام دوسرے سے جوڑ دیا گیا تھا۔مثلاََ مظہر، اسلام احمد، داؤد جاوید، محمد منشا ،یاد مرزا،حامد بیگ وغیرہ۔ظاہر ہے کسی نے انہیں نام لکھ کر دئیے تھے۔

\نارنگ صاحب نے ان کے غلط ٹکڑے کر دئیے،آخر اسلوبیاتی نقاد جو ٹھہرے۔فنکشن کے بعد افسانہ نگاروں کا گروپ انہیں ملا،اپنی کتابیں پیش کیں۔نارانگ صاحب نے راتوں رات نام درست کیے،حوالے یاد کئے اور اگلی نشستوں میں یہ تاثر جما دیا کہ وہ فکشن کو باقاعدگی اور ترتیب سے پڑھتے ہیں۔نارنگ بہت اچھے مقرر ہیں۔بات کرنا اور محفل میں رنگ جمانا انہیں خوب آتا ہے۔اس کے بعد وہ دو یا شاید تین بار اور اسلام آباد آئے۔یہاں آتے تو ضیاع الحق سے بھی ضرور ملتے۔

(ڈاکٹر رشید امجد کی خود نوشت سوانح تمنا بے تاب سے اقتباس ص ۱۴۷،۱۴۸)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گوپی چند نارنگ نے شمس الرحمن فاروقی کے ورڈکٹ سے فرار حاصل کرنے کی کوشش میں ساختیات،پسِ ساختیات ،ردِ تش

کیل اور ما بعد جدیدیت کا کاروبار برپا کیایہ ایک طرح سے علم نما جہل کا مچھلی بازار تھا،جس میں علم کے بیش قیمت پرفیوم کو آسانی سے محسوس نہیں کیا جا سکتا تھا۔ظاہر ہے وقتی طور پر نارنگ کا محض وہ حسد تھا ،جو فاروقی کے تن تنہا جدید رجحان ساز ہونے کے ردِ عمل میں پیدا ہوا۔پھر جو اس کے بہت سارے انڈے بچے سیلابی بہاؤ کے ساتھ سطح پر آگئے۔وہ ’’نئے فقیر کو بھیک کی جلدی‘‘کے مثل مغرب سے امپورٹ کیے گئے انگریزی متن کے ناقص تراجم کو اوریجنل باور کراتے ہوئے نارنگ کے قبیلہ میں پائے گئے۔

(احمد ہمیش کے مضمون کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگن عشق سے اقتباسبحوالہ پندرہ روزہ سائبان دہلی

۔۱۵ تا ۳۱ جنوری ۲۰۰۴ءٌ)

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati

Comments

One Response to "ردِ عمل"

  1. اثبات on October 18, 2009 at 4:14 AM

    Arshad Sahab! Aap-ne achha kiya ki sarqon par mushtamil yeh blog qayam kar diya...Aap jaante hain ki Narang sahab ke sarqe par main ne bahut kuchh likha hai jo yahan India mein kai jagah chhap chuka hai. Bulki logon ka kahna yahan tak hai ki India mein Narang sahab ke sarqe aur unn ki ma'baad-jadidyat par sab se zyada main ne likha hai. Lekin mujhe lagta hai ki agar yeh blog aap ne qayam kiya hai toh issey sirf Narang sahab tak hi mahdood naa rakhiye. Aur doosri baat yeh ki Haider Qureshi, Imran Shahid Bhinder, Aap aur main iss silsile mein jitna kar sakte the, kar chuke hain. Hamara kaam khatam ho chuka hai. Lehaza kya yeh behtar naa hoga ki ab iss qisse ko yahin khatam kar diya jaaye...kaar-e-jahan daraaz hai....
    Ash'ar Najmi
    Editor, Esbaat
    Mumbai, India

Leave a Reply