سرقے کا کوہ ہمالیہ.....آخری حصہ

Posted on Friday, October 9, 2009
Filed under | Leave a Comment


عمران شاہد بھنڈر.....برمنگھم

سرقے کا کوہ ہمالیہ .... آخری حصہ

’’ساختیات سے بحث کرتے ہوئے دریدا کہتا ہے کہ ساختیاتی فکر میں
ساخت (سٹرکچر) کا تصور اس مفروضے پر قائم ہے کہ معنی کاکسی نہ کسی طرح کا مرکز ہوتا ہے
یہ مرکز ساخت کو اپنے تابع رکھتا ہے، لیکن خود اس مرکز کو تجزیے کے تابع نہیں لایا جاسکتا ( ساخت کے مرکز کی نشاندہی کا مطلب ہوگا دوسرا مرکز تلاش کرنا) انسان ہمیشہ مرکز کی خواہش کرتا ہے اس لیے کہ مرکز ’موجودگی‘ کی ضمانت ہے: 'CENTRE GUARANTEES BEING AS PRESENCE'مثال کے طور پر ہم اپنی ذہنی اور جسمانی زندگی کو مرکزیت عطا کرتے ہیں ضمیر ’میں‘ کے استعمال سے ضمیر’میں‘ یا ’ہم‘ کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ فرض کیجیے زبان میں ضمیر ’میں‘ یا ’ہم‘ نہ ہوں تو ہم اپنی ’ موجودگی‘ کا اثبات کیسے کریں گے۔ الغرض ’موجودگی‘ اس وحدت کا اصول ہے جو دنیا کی تمام سرگرمیوں کی ساخت کی تہہ میں کارفرما ہے۔ دریدا کا کہنا ہے کہ فرائڈ نے شعور اور لاشعور کی تقسیم کو بے نقاب کرکے وجود کی وحدت کے مابعد الطبیعاتی اعتقاد کی جڑ کھوکھلی کردی۔ غور سے دیکھا جائے تو فلسفے کی بنیاد ہی ایسے تصورات پر ہے جو معنی کو ’مرکز‘ عطا کرنے کے اصول پر قائم ہے، مثلاََ خدا، انسان، وجود، وحدت، ’شعور‘، حق، خیر، شر، جوہر، اصل۔ دریدا یہ دعوٰی نہیں کرتا

کہ ان اصطلاحات سے باہر ہوکر سوچنا ممکن ہے۔ بلکہ یہ اصطلاحات معنی کے جس ’مرکز‘ پر قائم ہیں، وہ ان میں نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر یہ بھی کہیں کہ یہ تصورات قائم بالذات نہیں ہیں، بلکہ قائم بالغیر ہیں تو معنی کا مرکز ’غیر‘ میں بھی نہیں ہے۔ ’غیر‘ کو مرکز تسلیم کرنے کا مطلب ہوگا پھر سے اصطلاحوں میں گرفتار ہونا یا نیا مرکز تسلیم کرنا کیونکہ ’غیر‘ بھی تو قائم بالذات نہیں ہے۔ مثلاََ اگر ’شعور‘ کے مرکز کو یہ کہہ کر ختم کیا جائے کہ لاشعور کی تخریبی قوت انسانی شخصیت میں ایک رد کرنے والے معمل کے طور پر کارفرما رہتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ایک نئے مرکز کو تسلیم کررہے ہیں،کیونکہ تصور کے جس نظام(شعور/لاشعور) کو ہم بے دخل UNDO کررہے ہیں۔ اس سے ہم انتخاب نہیں کرسکتے، بلکہ اس میں ہمیں خود داخل ہونا پڑے گا۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ طرفین ( شعور/لاشعور،جسم/روح، حق/باطل) میں سے کسی ایک کو مرکز بننے یا ’موجودگی‘ (PRESENCE) کا ضامن بننے کی اجازت نہ دیں۔۔۔۔۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ دریدا کے کلاسیکی کارنامے OF GRAMMATOLOGY میں لفظوں پر تصورات کے قائم ہونے کو) (LOGOCENTRISM ، لفظ مرکزیت کہا گیا ہے۔LOGOS یونانی لفظ ہے نیا عہد نامہ میں LOGOS ایسی اصطلاح ہے جو ’موجودگی‘ کے تصور سے لبا لب بھری ہوئی ہے۔۔۔۔ 'IN THE BEGINING WAS THE WORD' (نارنگ، ص، ۲۰۸۔۲۰۷)۔’’صوت مرکزیت PHONOCENTRISM) ) کی رو سے تحریر دراصل تقریر (تکلم) کی وہ شکل ہے جو تقریر کی ملاوٹ لیے ہوئے ہے۔ تقریر ہمیشہ اصل خیال سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ جب ہم تقریر (تکلم) سنتے ہیں تو ہم اسے ’موجودگی‘ PRESENCE) ) سے منسوب کرتے ہیں جس کی تحریر میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ کسی بھی بڑے خطیب، اداکار یا سیاست داں کی تقریر کے بارے میں برابر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ’موجودگی‘ رکھتی ہے، یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ تقریر بولنے والے کی روح کی تجسیم ہے۔

تقریر کے مقابلے میں تحریر غیر خالص ہے اور اپنے نظام کو تحریری نشانات سے آلودہ کرتی ہے جو بے شک نسبتاََ مستقل ہیں۔ تحریر کو دہرا سکتے ہیں، محفوظ کرسکتے ہیں، بار بار چھاپ سکتے ہیں۔ اور یہ تکرار تفہیم اور باز تفہیم کے لامتناہی سلسلے کو راہ دیتی ہے۔ تقریر کی بھی جب تفہیم کی جاتی ہے تو نالعموم ایسا اس کو ضبطِ تحریر میں لاکر ہی ممکن ہے۔ تحریر کے لیے مصنف کی ’موجودگی‘ ضروری نہیں۔ اس کے برعکس تقریر سے مراد متکلم کی فوری ’موجودگی‘ ہے۔ مقرر کی آواز فوری ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے اور اس کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے تقریر کے خیال میں ملاوٹ کا شائبہ نہیں، جو تحریر میں ممکن ہے۔ قدیم فلسفہ دانوں نے اسی لیے تحریر کی مخالفت کی ہے، کیونکہ وہ خائف تھے کہ تحریر سے فلسفیانہ صداقت کا تحکم ختم ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ صداقت خالص فکر پر مبنی ہے (منطق،خیالات،قضایا) ان کو تحریر سے آلودگی کا خدشہ تھا۔ فرانسس بیکن ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ‘‘ جاری ہے (نارنگ،ص،۲۱۰) یہاں پر بھی یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ نارنگ نے لفظ بہ لفظ ترجمہ کرکے صفحہ نمبر کا حوالہ نہ ہی متن اور نہ ہی مصادر میں پیش کیا ہے، لیکن اس بات سے انکار کرنا محال ہے کہ یہ ترجمہ نہیں ہے۔جب رامن سیلڈن کے ژاک دریدا پر لکھے ہوئے باب یا پھر ان کی تمام کتاب کا مطالعہ کریں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ سیلڈن کی اس کتاب کے دریدا سمیت تمام مضامین تنقیدی نوعیت کے قطعی طور پر نہیں ہیں،بلکہ یہ کتاب برطانیہ میں کالجوں کے بچوں کو سامنے رکھ کر اس انداز میں لکھی گئی ہے کہ بچوں کو تفہیم میں آسانی رہے۔ نارنگ نے اردو کے’ اعلیٰ ادیبوں‘ (ان کے ارد گرد پھیلے ہوئے) کو سامنے رکھ کر اس کا ترجمہ کیا ہے۔ مطلب یہ کہ نارنگ کی نظر میں برطانیہ کے چھوٹی جماعتوں میں زیرِ تعلیم بچوں اور اردو کے علم و فکر سے دور’اعلیٰ ادیبوں‘ میں قطعی کوئی فرق نہیں ہے۔ سیلڈن کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ ان کا مقصد بالکل واضح ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ پیچیدہ خیالات کی ان کی ’تشریح‘ کا مقصد کیا ہے؟

جن لوگوں نے براہِ راست ژاک دریدا کا مطالعہ کیا ہے ان کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں ہوگا کہ سیلڈن نے دریدا پر جو کچھ لکھا ہے وہ ’تحریریات‘ کے پہلے باب، ’فلسفے کی حدود‘ میں سے The Closure of the Concepts کے علاوہ اسی کتاب میں سے دریدا کے ایک اور مضمون ’دستخط، واقعہ اور تناظر کا‘ خلاصہ ہے۔ خیالات بلاشبہ دریدا ہی کے ہیں یادیگر ابواب میں دوسرے تمام فلسفیوں ہی کے ہیں ’’البتہ افہام و ترسیل‘‘ سیلڈن کی ہے۔ نارنگ کی فہم سرقے کی حدود عبور نہیں کرپائی۔ دریدا نے ’فلسفے کی حدود‘ لکھی جبکہ نارنگ نے ’سرقے کی حدود‘ کو اپنے عمل سے تہس نہس کردیا۔راقم نے اپنے ایک مضمون ’’نارنگ کی باطل اور محکومانہ مابعد جدید تعبیریں‘‘ میں یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ نارنگ نے چونکہ ترجمے کیے ہیں اس لیے نارنگ کی عقل میں فلسفے کے پیچیدہ قضایا داخل نہیں ہوسکے۔ سیلڈن کے مذکورہ بالا اقتباس میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح سیلڈن نے معنویت اور مرکزیت کو ’لاتشکیل‘ کے فلسفوں سے جوڑا ہے، اس کی وجہ صاف ظاہر ہے جو دریدا کے براہِ راست مطالعے سے ان لوگوں کی سمجھ میں آنے لگتی ہے جو علمی نقطہ نظر سے فلسفیانہ پسِ منظر رکھتے ہوں۔ نارنگ نے مذکورہ بالا اقتباس ترجمہ تو کردیا مگر اس کی تفہیم میں ناکام رہے۔ اس لیے جب کبھی ترجمے کی کتابوں کو بند کرکے کچھ کہنا چاہتے ہیں،کسی نامعلوم قسم کی ’لاتشکیل‘ میں الجھ جاتے ہیں۔سرقہ حواریوں کو تو مجتمع کرسکتا ہے ، عمیق تنقیدی بصیرت عطا نہیں کرسکتا۔ نارنگ کے حواریوں کی تحریروں کا مقصد نارنگ کے سرقوں سے چشم پوشی اور ان کو قبل از تجربہ تصور کرکے ان کی شخصیت کا دفاع کرنا ہے۔ نظریہ علم ہویا فلسفہ جمال یا پھر شخصیت پرستی کا ہی کوئی پہلو کیوں نہ ہو،اعلیٰ و ادنیٰ کا تعین محض بدیہی a priori)) بنیادوں پر نہیں کیا جاسکتا۔شخصیات کی عظمت کا تعین بھی فوق تجربی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ بعد از تجربی بنیادوں پر ہی کیا جاسکتا ہے۔ہمیں فلسفی برکلے کے فلسفہ فوق الطبیعی جوہریت سے کوئی دلچسپی نہیں رہی،اس کا استرداد انیسویں صدی کے آغاز ہی میں عمل میں آچکا تھا۔ اس کے مطابق تو بدیہیت کی بنیاد پران اوصاف کو بھی بیان کردیا جاتا ہے جو کبھی ’موجود‘ ہی نہیں ہوتے۔’’کوہ ہمالیہ‘‘ کی اونچائی دیکھ کر ہی اسے ’’کوہ ہمالیہ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔

’’کوہ ہمالیہ‘‘ کو فوق تجربی بنیادوں پر محض تصور کرلینا درست نہیں ہے۔ ہم شخصیات کے حوالے سے بھی جو معروضی مقولات تشکیل دیتے ہیں ان میں تصوریت کی غلاظت کے برعکس عمل کا استناد درکار ہوتا ہے۔اوصاف کو منسوب کرنا نہیں بلکہ عمل کی معروضی ماہیت سے اخذ کرنا ہمارے فلسفے کا جزوِ لازم ہے۔ عمل کا مقرونی تسلسل وحدتِ خیال کی تحلیل اور اسے متصوری کے برعکس حقیقی بنیادوں پر پارہ پارہ کردیتا ہے۔اس موقع پر یہ ذکر بھی بے جا نہ ہوگا کہ گزشتہ چھ برس سے ہر برس ہم عہد حاضر کے بے شمار اردو شعراء اور افسانہ نگاروں اور نقادوں کی کتابوں کو کوڑے میں پھینکتے ہیں۔ پچھلے بدھ کو ہم نے اردو کی پینتس کتابیں کالے بیگ میں ڈال کر کوڑے میں محض اس لیے پھینک دیں کہ، ان پینتس کتابوں میں ایک بھی قابل ذکر شعر اور ایک بھی ایسا افسانہ نہیں تھا جسے ادب کے زمرے میں رکھا جاسکے، یہ واضح ہی نہیں ہوپاتا کہ یہ لوگ کیوں اور کیا لکھ رہے ہیں؟ حوصلہ ہے ان پبلشروں کا جو محض پیسے کی خاطر اردو ادب کو اس طرح کے کوڑے کرکٹ سے بھر رہے ہیں۔ ’مصنفین‘ کو تو شہرت درکار ہوتی ہے، اس کے لیے ہر جائز و ناجائز وسیلہ استعمال کیا جاتا ہے،لیکن ادب میں جو غلاظت مجتمع ہورہی ہے ، اس کے بارے میں کوئی بھی سنجیدگی سے سوچنے کو تیار نہیں ہے۔ہمارے ایک قریبی غیر ادبی دانشوردوست نے کہا کہ ان کتابوں کو لائبریری میں جمع کرادیں، ہم نے جواب دیا کہ اس گندگی کو محفوظ کرنے کے جرم کا ہم ہرگز مرتکب نہیں ہونا چاہتے۔ ہمارا ایمان ہے کہ جہاں اچھی کتاب بہترین دوست ہے تو وہاں بری کتاب بدترین دشمن بھی ہے۔برٹرینڈ رسل اپنی کتاب’’ لوگوں کو سوچنے دو‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’ اس طرح کی کتابیں پڑھ کر ہر برس ہزاروں کی تعداد میں جامعات سے شاہدولے شاہ کے چوہے نکلتے ہیں۔‘‘نارنگ کی سرقہ کی ہوئی کتابیں ابھی تک کوڑے کی نذراس لیے نہیں کیں کہ ممکن ہے مستقبل میں سرقے سے متعلق مزید حقائق درکار ہوں۔جو لوگ براہِ راست بارتھ، فوکو اور دریدا کا مطالعہ کرسکتے ہیں انھیں بد نیتی پر مبنی مواد کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر زبان کا مسئلہ ہے تو جو لوگ جامعات میں درس دیتے ہیں ، وہ انتظامیہ سے استدعا کرکے ان کتابوں کے تراجم بھی کراسکتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ایسی جگہوں پر معمور بااختیار لوگوں کو سب سے زیادہ دانشور بننے کا شوق ہے۔شوقیہ ادیب، شوقیہ افسانہ نویس ، شوقیہ شعراء اور اب شوقیہ نقاد و دانشو اور اب شوقیہ مدیران !کیا اس امر سے کوئی اختلاف کرسکتا ہے کہ اگر تراجم کا کام شروع ہوگیا تو ادبی خدمت گزار قسم کے افسانہ نویسوں اور نقادوں کی موت واقع ہوسکتی ہے؟ابنِ رشد اور ابنِ سینا وغیرہ نے ارسطو کی کتب کے تراجم کیے اور ان کی شرح کی۔ ارسطو اور رُشد کے افکار کے درمیان واضح حد امتیاز کھینچی جاسکتی ہے۔ہم نے ابنِ رشد، ابنِ خلدون اور ابِن سینا کی کتابیں حاصل کرنے کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ مغرب میں بھی بے شمار پبلشروں کو فون کیے۔ ابنِ رشد، ابنِ سینا یا ابن خلدون کا کوئی حواری موجودنہیں ہے، جو انھیں ’’کوہ ہمالیہ‘‘ کہہ سکے، اس کے باوجود ان دانشوروں کی علمی اہمیت کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا۔نارنگ کے حواری ان کے سرقے کی’ میراث ‘کو تضحیک کی نظر سے دیکھنے کی بجائے، گوپی چند نارنگ کو ’’ایک اعلی ادبی میراث کے حامل‘‘ ادیب و نقاد قرار دیتے ہیں۔‘‘ جیسا کہ حواری نارنگ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نارنگ ’’ ادب کے کوہ ہمالیہ‘‘ ہیں، جن پر لکھ کر شہرت حاصل ہوتی ہے۔یہ ایک ایسی غلیظ اور مکروہ سوچ ہے جس نے برسوں سے اردو ادب کا محاصرہ کررکھا ہے کہ کسی نام نہاد ’’بڑے نام‘‘ پر لکھنے سے ’شہرت‘ حاصل ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے ارسطو، افلاطون، مارکس ، کانٹ اور ہیگل پر بھی لکھا ہے، وہ بھی شہرت کے حصول کے لیے تھا؟نارنگ اور ان کے حواریوں کا جمِ غفیر ان فلسفیوں کے پیچیدہ افکار کی تفہیم تک کرنے سے قاصر ہے، نارنگ سے سوال کریں کہ اگر مسئلہ شہرت کا حصول نہیں تھا، تو سرقے کی ضرورت ہی کیا تھی؟شہرت کی خواہش اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ تحقیق کی اصل روح تک پہنچنے سے پہلے ہی محض اپنے گرد حواریوں کے ہجوم کے ہجم میں اضافہ کرنے کے لیے سرقوں کا ارتکاب کرلیا جائے۔

ہمارے ہاں ایک مکروہ روایت یہ بھی پروان چڑھ چکی ہے جو شاید فارسی سے اردو میں داخل ہوئی ہے کہ اگر کسی لکھنے والے کے سرقوں، مغالطوں اور غلط تعبیروں کو عیاں کیا جائے تو اس نقص کو’ منفی‘ تحریر تصور کرلیا جاتا ہے۔اگر یہ درست ہے تو قدیم یونان سے لے کر ’’مابعد جدید‘‘ عہد حاضر تک مغرب میں پیش کیا گیا ہر فلسفہ و فکر ’منفی‘ تحریروں پر ہی مشتمل سمجھا جانا چاہیے، اگر یہ سچ ہے تو پھر کیوں سر سید سے اقبال تک مغربی تحریروں سے متاثر ہونے کی روایت کو’منفی‘ تصور کیا جائے؟ اقبال نے تو خود نٹشے، افلاطون اورکانٹ سے استفادہ کیا اور پھر انکے خلاف بھی لکھا تو کیا اسے بھی ’منفی‘ تصور کرلیا جائے؟یا پھر اقبال پر کچھ نازل ہونا شروع ہوچکا تھا؟یہ ذہن نشین رہے کہ اقبال کی مخالفت کے باوجود نٹشے کو کوئی فرق نہیں پڑا۔نٹشے بیسویں صدی میں یورپ کی گلیوں میں زندہ ہوگیا، جبکہ اقبال کو حضرت کے مقام پر فائز کرکے الماری کی آخری شیلف پر رکھ دیا گیا۔نٹشے سے انگنت زاویے اخذ کیے گئے، اس کے لیے اس کے فلسفے میں مضمر فاشسٹ خیالات کی وجہ سے نٹشے کورسوا ہونا پڑا، اقبال کوتعریف و تحسین تک محدود کردیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نٹشے لامحدود ہوگیا اور اقبال محدود ہوکر رہ گیا۔اس نکتے پر بحث یہاں مقصود نہیں ہے، اس کا تفصیلی تجزیہ ہم نے اپنے غیر مطبوعہ مضمون ’’اقبال اور جرمن فلسفہ‘‘ میں کردیا ہے۔خود نارنگ کی توجہ جب سرقے سے ہٹتی ہے تو جدیدیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس نے ’’ابہام و اشکال کو فارمولہ بنا کر اجنبیت اور مریضانہ داخلیت کو ایمان کا درجہ دے کر ۔۔۔۔ادبی چھوت چھات کو فروغ دے کر ادب کو بے جان کر دیا‘‘ (جدیدیت کے بعد،۵۰)۔ قطع نظر اس امر کے کہ یہ اقتباس اردو کے مفہوم میں ’منفی ‘ہے، یہ مابعد جدیدیت کے بنیادی فلسفے کے بھی منافی ہے، کیونکہ نارنگ کے یہ فقرے ’’ویلیو ججمنٹ‘‘ کے حامل ہیں۔اس قسم کے فقرے مابعد جدیدیت کے علم برداروں سے سن کر حیرت ہوتی ہے، کسی بھی طرح کا تصدیقی عمل مابعد جدیدیت کی نفی کرتا ہے۔برطانیہ کے اسکولوں میں جی سی ایس ای (بارہ جماعتیں) کرنے والے بچوں کو کسی نئے زاویے سے شیکسپےئر پر سخت تنقید کرنے کے علاوہ مغرب کے اہم ترین فلسفیوں اور ادبی نقادوں کے افکار کو فکری و نظری سطح پر، لیکن دلائل کی بنیاد پر پرخچے اڑانے کا کہا جاتا ہے، ایسی ہزاروں تحریریں موجود ہیں جن میں فلسفیوں ، نقادوں اورناول نگاروں سے اختلاف کیا جاتا ہے،

لیکن جب کوئی حقیقی زاویہ سامنے آتا ہے تو اس سے علمی و نظری سفر آگے بڑھتا ہے، اور کسی کی’ شہرت‘ خراب نہیں ہوتی۔نارنگ اگر ادیب و نقاد ہیں تو ان کی ’شہرت‘ کوئی خراب نہیں کرسکتا، لیکن اگر وہ سارق ہیں، تو سرقے کے حوالے سے ان کی ’شہرت‘ کو ’شہرت‘ کے اعلیٰ معیار پر کوئی تیسرے درجے کا حواری کبھی نہیں لاسکتا۔راقم نے خود جب یونیورسٹی آف سنٹرل انگلینڈ میں جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ پر اپنے مضمون کا خاکہ تیار کرکے معروف فلسفی ڈاکٹر مارک ایڈیس کو دکھایا تو مارک ایڈس کے راقم کے ذہن پر نقش الفاظ ملاحظہ فرمائیں ’’تمہیں مضمون لکھنے کے لیے کہا تھا، تم نے رپورٹ تیار کردی، یہ بتاؤ کہ کانٹ کا فلسفہ عہد حاضر سے کیونکر ہم آہنگ نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’تمہیں کانٹ کو تباہ Destroy)) کرنا ہے۔‘‘ مارک ایڈیس کی بات سن کر ہمارے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ نارنگ سمیت پاکستان اور ہندوستان میں مابعد جدیدت کے مبلغ نہ ہی نقاد ہیں ، نہ ہی یہ مضمون نویس ہیں اور نہ ہی یہ اوریجنل لکھاری ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مغربی ادب کے رپورٹرز ہیں، جو صرف یہ بتاتے ہیں کہ رولاں بارتھ نے کیا کہا تھا؟ کرسٹیوا کے الفاظ یہ ہیں، وغیرہ وغیرہ۔تاہم یہ بھی سچ ہے کہ یہ لوگ اچھے رپورٹر زبھی نہیں ہیں، کیونکہ ان کی قوتِ مدرکہ اپنے حقیقی تفاعل ، یعنی ادراک کے عمل سے محروم ہے۔نارنگ کو نقاد بننے کے لیے کم از کم چار سال برطانیہ جیسے ملک سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نارنگ ایک اعلیٰ نقاد بن جائیں گے بلکہ نارنگ کے باطن میں حقیقی تنقیدی روح بیدار ہوجائے گی، اعلیٰ و ادنیٰ کا تعین اس کے بعد ہی ہوسکے گا۔فرانس کے معروف فلسفی اور ثقافتی حوالوں سے مابعد جدیدیت کے پہلے داعی لیوٹارڈ ہیں، جن کی کتاب The Postmodern Condition: A report on Knowledge سے حقیقت میں مابعد جدیدیت کی بحث کا آغاز ہوا، کیونکہ لیوٹارڈ ہی وہ شخص تھا جس نے’’ بڑے بیانیوں کی موت‘‘ کا علان کیا۔ اس کتاب کا بنظرِ غور مطالعہ فرما نے سے عیاں ہوگا کہ اس کتاب میں لیوٹارڈ کا طرز اظہار مغربی تناظر میں تجزیاتی نہیں ہے، وجہ صاف ظاہر ہے اور جو عنوان سے بھی عیاں ہے کہ یہ مغربی معاشروں کی حالت کو جوں کا توں بیان کرنے کی کوشش ہے، جسے رپورٹ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں وضاحتیں اور تشریحات درکار ہوتی ہیں، گو کہ مغرب میں لکھی گئی رپورٹیں بھی تجزیاتی نوعیت کی ہوتی ہیں، لیکن تجزیاتی رپورٹ میں مضامین جیسی گہرائی نہیں ہوتی۔نارنگ نے سرقے کا ارتکاب کیا ، وہاں پر نارنگ سارق ہیں، جہاں پر اپنے الفاظ میں کچھ لکھنے کی کوشش کی وہاں پر رپورٹر ہیں۔مختصر یوں کہ نارنگ ادب کے صحافی ہیں۔نارنگ اور حواریوں کے نزدیک نارنگ ’’ادب کا کوہ ہمالیہ‘‘ ہیں، جبکہ ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ نارنگ نے سرقے کا ’کوہ ہمالیہ‘ تیار کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نارنگ سے اختلاف کرتے وقت بھی محتاط رہنا پڑتا ہے کہ مستقبل میں کہیں اختلافی نکات کا سرقہ بھی سامنے نہ آجائے، جس سے یقیناََ ہماری کم علمی بھی سامنے آسکتی ہے کہ ہمیں یہ معلوم کیوں نہ ہوسکا کہ یہ حصہ بھی مسروقہ ہے۔اس سرقے کے باوجود نارنگ کی پزیرائی وہی لوگ کرسکتے ہیں، جن کا ادب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ نارنگ ہی کی طرح ادب میں گھس آئے ہیں، یہ ادب کی خدمت نہیں کررہے بلکہ یہ ادب کا سہارا لے کر ادب سے اپنی خدمت کرارہے ہیں۔ مجموعی طور پر فہم سے عاری حواریوں کے وسیلے سے نارنگ کے یہ تضحیکی اور دفاعی ہتھکنڈے کسی طرح بھی قاری کی نظر میں ان کی تکریم کا باعث نہیں بن سکتے۔ ہماری زیرِ طبع کتاب میں سرقے سے متعلق مزید انکشافات کیے گئے ہیں،

سرقے کے علاوہ مابعد جدیدیت پر کی گئی بحث نارنگ اور ان کے حواریوں کی فہم سے کلی طور پر بالا ہوگی ، جبکہ سرقے سے متعلق بھی حواریوں کے سارق ’کوہ ہمالیہ‘ کو کلی طور پر مسمار کردے گی۔ نئی نسل کویقین ہے کہ سرقے کی بنیادوں پر قائم کیے گئے ان ادبی کدوں کے منہدم ہونے سے اردو میں اوریجنل ادبی و تنقیدی اقدار کا، سماجی اقدار کی حرکت میں، ان کے تناظر میں، تعین ہوسکے گا ۔ہمارا اس بات پر بھی پختہ یقین ہے کہ ارسطو کا نظریہ نقل آج تک غیر متعلقہ نہیں ہوسکا، گو کہ اس کی ہےئت میں تبدیلی ضرور ہوئی ہے، ہمارے معاشروں میں جاگیر داری اور راہبانہ نظام آج بھی سماج میں بسنے والی اکثریت کے علاوہ ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے اذہان میں راسخ ہوچکا ہے، نارنگ کے گرد ذہنی معذورحواریوں کا جم غفیر اسی نظام کا شاخسانہ ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ شخصیت پرستی کے مارے ان ادبی جاگیرداروں اور بیساکھیوں کے متلاشی حواریوں کے پاس ادبی نظام کی اصلاح کا کوئی طریقہ ء کار موجود نہیں ہے، یہ لوگ زوال کے تسلسل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتے۔ ادبی جاگیردار کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ادبی جاگیر کوہر جائز و ناجائز طریقے سے وسعت دیتا رہے، یہی کچھ نارنگ نے کیا ہے۔بہرحال جاگیرداری نظام میں بھی آہستہ اصلاح پسندی کا رجحان موجود ہوتاہے۔ اگرہم یہ توقع کریں کہ نارنگ کو ادب سے سچا لگاؤ ہے اور علمی و ادبی قضایا بقول نارنگ ان کی ’’ داخلی ضرورت کا بھی حصہ ہیں‘‘ تونارنگ کو اپنے گزشتہ ادبی جرائم پر پشیمان ہوکر نئے سرے سے سچائی و سنجیدگی کے ساتھ ادب میں داخل ہونا پڑے گا۔

داخلیت کو خارجیت سے برسرِ پیکار کرنا پڑے گا۔نارنگ کے سرقے کا محرک شہرت و تحسین کی خواہش اور شہرت دینے والے حواریوں کی تحسین نارنگ کو مزید سرقوں کی جانب لے گئی۔اب ضروری یہ ہے کہ نارنگ اپنے سرقوں کو تسلیم کرکے دوبارہ الف سے آغاز کریں۔ نارنگ کے لئے اپنے ادبی جرائم کا کفارہ ادا کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ’’ادب کے کوہ ہمالیہ‘‘ جیسے عنوان کا تعین آخر میں ہونا چاہیے نہ کہ آغاز یا درمیان میں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرفِ آخر:مابعد جدیدیت نے مصنف اور متن دونوں کو بے توقیر کرکے تخلیقی لحاظ سے بانجھ نقادوں کو ادب پر مسلط کرناچاہا تھا۔مابعد جدیدیت ہی کے ایک طالب علم کے ذریعے گوپی چند نارنگ کے سرقوں کے انکشاف کے بعدمصنف اور متن کی توقیر میں اضافہ اور تخلیقی لحاظ سے بانجھ نقادوں کے تحکمانہ فیصلوں کا رد ہو گیا ہے۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں سے متعلق اس خاص نمبر کے ورق تمام ہوئے اورسرقے باقی ہیں۔۔ ۔ ۔ ارشد خالد

These icons link to social bookmarking sites where readers can share and discover new web pages.
  • Digg
  • Sphinn
  • del.icio.us
  • Facebook
  • Mixx
  • Google
  • Furl
  • Reddit
  • Spurl
  • StumbleUpon
  • Technorati