
ڈاکٹرگوپی چند نارنگ کا عذرِ لنگ
نند کشور وکرم:
کہاجاتاہے کہ ساختیاتی تنقید کو اردو ادب میں پیش کرنے والوں نے اُسے ترجمہ یا اخذ وتلخیص کی صورت میں پیش کیا ہے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں"گو پی چند نا رنگ:جب میں نے تھیوری پرکام کرنا شروع کیا چونکہ میری تربیت ساختیاتی لسانیات کی ہے، مجھے احسا س تھاکہ فلسفے میں بنیادی ضرورت سائنسی معروضیت کی ہوتی ہے، میرے سامنے ایسے نمونے تھے جہاں لوگ بات توفلسفے کی کرتے ہیں لیکن بہت جلد تخئیل کے پروں سے اڑنے لگتے ہیں اور ’ایجاد بندہ ‘کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے اصل متن سے زیادہ خودکونمایاں کرنے میں لگ جاتے ہیں یاپھر اپنے اسلوب کاشکار ہوکرکم وبیش انشائیہ لکھنے لگتے ہیں ۔ ایک تو اصطلاحیں نہیں تھیں دوسرے نئے فلسفیوں کااندازایساپیچیدہ،معنی سے لبریز اور گنجلک ہے کہ اسے سائنسی معروضی صحت کے ساتھ قاری تک منتقل کرنا زبردست مسئلہ تھا ۔ اصل متن کی Precisencessاور زوروصلابت Rigourکو بنائے رکھنے کے لئے بھی بے حدضروری تھاکہ افہام وتفہیم میں ہرممکن وسیلے سے مدد لی جائے اور فلسفے کے ڈسپلن کی رو سے تخئیل کی رنگ آمیز ی سے اورموضوعی خیال بافی سے ممکنہ حدتک بچاجائے ۔میری کتاب کے شروع کے دونوں حصے تشریحی نوعیت کی ہیں ۔ تیسرا حصہ یعنی مشرقی شعریات اور اختتام والے حصوں کی نوعیت بالکل دوسری ہے۔ نئے فلسفیوں اور اُن کے نظریوں اوران کی بصیرتوں کی افہام وتفہیم میں نے اخذ و قبول سے بے دھڑک مددلی ہے۔ جہاں ضروری تھا وہاں تلخیص اورترجمہ بھی کیاہے۔ بات کا زور بنائے رکھنے کے لئے اصل کے Quotationsبھی جگہ جگہ دیے ہیں تاکہ فلسفیانہ نکتہ یا مفکرین کی بصیر ت پوری قوت سے اردوقاری تک منتقل ہوسکے۔ ہر حصے کے ساتھ اس کے جملہ مآخذ اورکتب حوالہ کی فہرست دی ہے اور جن کتابوں سے نسبتاً زیادہ استفادہ کیاہے یاجن سے زیادہ مدد لی ہے ،مآخذ کی فہرست میں ان ناموں پراسٹار(*)کانشان بنا دیاہے ۔واضح رہے خیالات سوسئیر ،لیوی سٹراس ،رومن جیکب سن ، لاکاں ،دریدا ،بارتھ فوکو، کرسٹیوا ،شکلووسکی ،باختن وغیر ہ کے ہیں، میرے نہیں۔ اِ سی لئے کتاب کاانتساب اُن سب فلسفیوں اور مفکروں کے نام ہے جن کے خیالات پرکتاب مشتمل ہے ۔ اس امر کی وضاحت دیبا چے میں کردی گئی ہے کہ "خیالات اورنظریات فلسفیوں کے ہیں افہام وتفہیم اور زبان میری ہے ۔"(سہ ماہی "ادبِ عالیہ انٹرنیشنل "وہاڑی ۔ اپریل ،مئی ،جون 2008ء )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’کچھ لوگ علم کی طاقت کو اپنے کردار کے بعض ناجائز اور بد نما پہلوؤں کو چھپانے اور جائز ثابت کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘
(منو بھائی کے کالم گریبان (تعلیم یا تبلیغ) مطبوعہ روزنامہ جنگ۔۲۱اپریل ۲۰۰۸ء سے اقتباس)
اگر نارنگ جی کی بات مان لی جائے تو کوئی بھی شخص کسی دوسری زبان کی کتاب کو اردو میں اپنے نام کے ساتھ منتقل کرسکتا ہے۔اس کو صرف دیباچے میںاتنا لکھنا ہوگا کہ خیالات میرے نہیں ہیں۔ اصلوب میرا ہے۔
ReplyDeleteواہ کیا زبردوت طریقہ نکالا ہے۔
نارنگ صاحب کو علم ھی نہیں تھا کہ وہ جن مفکریں کے پیچھے لگے ھوئے ھیں انھوں نے فلسفے کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا ھے۔ نہ ھی نارنگ صاحب نے ان مفکریں کو پڑھتے ھوئے تنقیدی رویہ اپنایا تھا۔
ReplyDeleteدوسری بات نارنگ صاحب نے مغربی مفکرین کے نام پر ان تھیوریوں کے نام پر دولت، عزت شہرت سب کچھ کما لیا، لیکن جب اعتراضات کا سامنا ھوا تو "دروغ برگردنِ راوی"